’’جس بات کا میں تم کو حکم دیتا ہوں اُس میں نہ تو کچھ بڑھانا اورنہ کچھ گھٹانا‘‘
(توریت شریف کتاب استشنا ۲:۴)
’’لیکن اگر ہم یا آسمان کا کوئی فرِشتہ بھی اُس خُوشخبری کے سِوا جو ہم نے تُمہیں سُنائی کوئی اَور خُوشخبری تُمہیں سُنائے تو ملعُون ہو‘‘۔
(انجیل مقدس خط گلتیوں۸:۱)
عدم ِضرورتِ قرآن
تصنیف
علامہ پادری جی ایل ٹھاکر داس
امریکن یونائیٹڈ پریسبٹیرین مشن
پنجاب رلیجیس بک سو سائٹی کے لئے لودیانہ
مطبع مشن لودیانہ میں باہتمام پادری سی ۔بی نیوٹن صاحب مطبوع ہوا
۱۸۸۶ء
Do not add to what I command you and do not subtract from it.
Deuteronomy 4:2
But even if we or an angel from heaven should preach a gospel other than the one we preached to you,
let them be under God’s curse!
Galatians 1:8
Adam-i-Zarurat-i-Quran
Absence of Any Need for the Qur’an
By
Rev Allama G.L.Thakur Das
1852 - 1910
Showing the Qur’an claims to be to divine revelation is incorrect,
and its re-statement as a fresh revelation of truths that were already promulgated was unnecessary,
with appendices on the Paraclete and “that prophet” (John 1:20)
عدمِ ضرورتِ قرآن
دیباچہ
شکر اور تعریف حق سبحانہُ تعالیٰ ،خالق زمیں و زمان ،مالک کون و مکان کو ہو جو اپنے انتظامِ خاص سے انسان کے حالاتِ پاکیزہ اور آلودہ کانگران حال رہتا ہے اور اپنی محبت سے اس کی ہدایت کرتا ہے اور ہدایت کے لئے وہ ہدایت نامہ بخشا ہے جو بائبل کہلاتاہے اور اسی آسمانی ہدایت کو انسان کے لیے ہر امرو نہی (حکم و ممانعت) کا کامل مخزن ٹھہرایا ،جو فریبیوں اور جھوٹے پیشواؤں کی آزمائش کی کسوٹی کا بھی کام دیتی ہے۔اس بائبل کی یہ حالت ہر تجاوز او ر آمیزش کی مانع (منع کرنے والی) ہے۔ایسا کرنے والوں کے حق میں وہ خوفناک کلمے کہتی ہے۔لیکن بعض لوگ اپنے تئیں کچھ ظاہر کرنے کا موقع پا کے اور خدا کے کلام کا کچھ لحاظ نہ کر کے اپنی باتوں اور خیالوں کو مقدم ٹھہرانے لگتے ہیں۔وہ جوا پنی عقل کے طریق پر چلتے ہیں اگر ان میں گاہے گاہے ایسے پیشوا اٹھیں تو کچھ اندھیر کی بات نہیں ہے ،جیسے برہمو سماج ،آریا سماج اور کوکا سماج وغیرہ اس ملک میں اور بدھا ، کنفیوشس اور لامہ وغیرہ سلطنت چین میں ۔لیکن اگر دائرہ مشاہدات ربانی میں ہو کر خود پسندی کی غرض سے ایسی گستاخی اور بے تمیزی ظہور میں آئے تو افسوس صد افسوس ہے! اور یہ اس حال میں جب اظہار ربانی کی باتیں چُرا کے اور نیز مان کے اور قدرے عمل کر کے اسی کے برخلاف لات اٹھائی جائے یا برابری کا ادعا (دعویٰ کرنا) ظہور میں آئے ۔ایسوں کی یہ حرکت خود انہیں شرمندہ اور نالائق ٹھہراتی ہے۔
حقیقتاً ہمیں پوپ پر اس قدر رنج نہیں جس قدر حضرت محمدصاحب پر ہے۔ گو نیت دونوں کی یکساں ہی ہو۔ہمارے مسیحی برادران نے محمدصاحب اور اس کے قرآن کا خدا کی طرف سے نہ ہونا ثابت کیا ہے اور بہت زور کے ساتھ کیا ہے۔لیکن تصنیف ہٰذا میں ان باتوں کا خیال نہیں کیا گیا ہے کہ آیا محمدصاحب نے معجزے کیے یا صاف انکار ہی کیا،نبوت کی یا نہ کی،ایک عاشق مزاج آدمی تھا یا نہ تھا وغیرہ ۔مگر اس بات کا اندازہ کیا گیا ہے کہ اگر محمدصاحب نبی ہو اور قرآن کلام خدا ہو ،تا ہم قرآن کی ضرورت کیا ہے؟آیا جب قرآن نہ تھا تو کیا قرآن والی باتیں لوگوں کو معلوم نہ تھیں ؟یا وہ باتیں اگلی کتابوں میں نہ تھیں؟ اس بات کو ہم نے اپنے مضمون کا مرکز ٹھہرا کر اس امر کی تفتیش مناسب سمجھی اور بموجب ہماری تحقیقات کے قرآن کا کلام اللہ اور محمدصاحب کا نبی ہونا تو بجائے خود وہ تو ایک جعل (دھوکا۔جھوٹ) ثابت ہو ا ہے اور ہمارے نزدیک جعلی کتاب وہ ہے جو نقل ہو کر اصل ہونے کا دعویٰ کرے۔اصل ہونے کا دعویٰ یہ ہے کہ یہ یا وہ بات وحی ہی کی معرفت معلوم ہوئی ۔لیکن قرآن نے نقل ہو کر ایسی اصل کا دعویٰ کیا حالانکہ اس کا اس وقت کی مروجہ باتوں کا نقلی مجموعہ ہو نا ثابت ہے،جس سے ظاہر ہے کہ قرآن ایک جعلسازی ہے اور اس لئے اس صورت میں بھی اس کی ضرورت نہیں ہےیعنی ہر دوحالتوں میں فضول ہےاور ضرورت اسی کتاب کی ہے جس کی قرآن خود تصدیق کرتا ہےیعنی بائبل کی ۔ بے شک محمدصاحب کو یہ طور(طریقہ) اختیار کرنا مناسب نہ تھا اور واجب و لازم تھا کہ خوب طرح دریافت کر کے بائبل مقدس کے مضامیں سے واقفیت حاصل کرتے تو یہ قرآن مروجہ لکھنے کی نوبت نہ پہنچتی۔اس بات سے محمدیوں کی جدید بناوٹ نسخ اور تحریف قرآن سے رد ہوتی ہے، کیونکہ واقعی امر کومنسوخ کہنا تو بے معنی کلام ہے اور پھر ان کو جن کی قرآن میں تکرار آئی ہےاور وہ باتیں جو قرآن میں نئے قصے معلوم ہوتے ہیں اور بائبل میں نہیں ہیں تو وہ دراصل نئے نہیں ہیں ۔بات یہ ہے کہ ان کا مبدا بائبل نہیں، لیکن اَور پرانی کتابیں یا روایتیں ہیں۔البتہ امور اخلاقیہ منسوخ ہو سکتے ہیں لیکن وہ امور جو مقرری ہیں(و ہ منسوخ نہیں ہو سکتے)۔مگر قرآن میں تو وہ بھی درج کر لیے ہیں،منسوخ کس کو کیا اور محرف کو نسا ٹھہرا؟ اس لئے ہم نے کہا کہ اس حال میں قرآن کی رو سے یہ وہم بالکل رد ہوتا ہے ۔اور بائبل مقدس میں تو کوئی ایسی بات نہیں جو قرآن سے منسوخ ہو سکے وہ تو اصلی ضروری اور پوری کتاب ہے۔اور ناظرین اس رسالہ میں یہ سب امورآپ لوگوں پر خوب روشن ہو جائیں گے۔حق شناسی اور انصاف سے غور کرو،خدا ہدایت بخشے گا۔
تمہید
نبی کی ضرورت تذکرہ
بعض علمائے جدید کا گمان ہے کہ جس طرح پہلے دنیا تاریک اور مختلف خیالوں میں غرق تھی اب بھی اسی طرح ہی ہے ۔اس لئے اگر خدا نے سابق میں نبی بھیجے تھے تو اب بھی ان کی ضرورت ہے، کم سے کم ایک ایک تو ہر براعظم میں ہو نا چاہیئے۔ہماری طرف سے اس کا یہ جواب ہے کہ نبی کی ضرورت، ضرورت پر موقوف ہے ۔اگر کوئی امر انبیا ئے سلف سے رہ گیا جو انسان کی حاجات موجودہ اور آیندہ کے لئے نہایت ضرور ی ہے یا کسی امر میں ان سے خطا ہو گئی جس کی تصحیح سوائے کسی مرسل کے نہیں ہو سکتی تو کسی نبی کے آنے کی ضرورت ہے ۔لیکن اگر کتب الہامیہ مسیحی میں کمی نہیں اور کسی امر میں قاصر نہیں ہیں ،تو کسی اور نبی کا ذکر کرنا بھی عبث ہے ۔اگر ایک الہام مستند اور کامل موجود ہے تو دوسرے کی حاجت نہیں۔اس اثنا میں ہمیں ایک دوزخی اور ایک بہشی کی گفتگو یاد آتی ہے (لوقا۱۹:۱۶۔۳۱)۔دوزخی نے اپنے قیاس میں مناسب سمجھ کر یہ عرض کی کہ اگر کوئی مردوں میں سے ان کے (اس کے رشتہ داروں کے) پاس جائے تو وہ تو بہ کریں گے ۔بہشتی نے جواب دیا کہ جب وہ موسیٰ اور نبیوں کی نہیں سنتے تو اگر مردوں میں سے کوئی اٹھے تو اس کی بھی نہ مانیں گے۔پس فرض کرو کہ اب کوئی نبی بھیجا جائے تو اسے کیا کرنا پڑے گا،یہ کہ اپنی رسالت ثابت کرے۔
اولاً ۔ وہ مرد خدا جو آج ظہور دکھائے اپنی رسالت کے کون سے ظاہری ثبوت دے گا اور ہم اس سے کیسے ثبوت طلب کریں گے ؟ظاہری، وہ جنہیں ہمارے ظاہر ی حواس تسلیم کر سکیں اور دھوکے کی صورت میں نہ ہو۔تو کیا وہ اپنے ملہم(الہامی) ہونے کا سلف سے زیادہ تر صریح ثبوت دے سکے گا۔ وہ کون سا امر ظاہر کرے گا جس کی مثال ہم نے سنی یا دیکھی نہ ہو۔ کیا وہ دریائے چناب کو دو حصے کر دے گا؟ مگر موسیٰ نے بحر قلزم کا یہ حال کیا۔کیا وہ وبا وغیرہ سے ہندوستان کو تحیر میں ڈالے گا؟یہ بھی موسیٰ نے کر دکھایا۔کیا جنم کے اندھوں کو آنکھیں دے گا؟ یہ خداوند یسو ع مسیح(عیسیٰ) نے کر دکھایا۔کیا مردوں کو زندہ کرے گا؟یہ بھی خدائے مجسم نے چار دن کا مردہ زندہ کر کے دکھا دیا۔ پس ان سے بڑھ کر کو ن سا کام کرےگا؟ طوفان کو دھمکائے گا؟ پر اس کو بھی دھمکی مل چکی ہے ۔ہاں شاید ہم ا س مرد خد ا نو آمدہ کو کہیں گے کہ عالم غیب کی خبر لائے۔سو مسیح کی موت کو یاد کرو۔پس اگر ایسی حرکات فوق العادت کو اپنے قائل ہونے اور ایمان لانے کی شرط پیش کریں گے تو یہ تو پیشتر بھی ظاہر ہو چکی ہیں۔ہم جاننا چاہتے ہیں کہ اہل ہند ان کو کیوں نہیں مانتے ، اس لئے اگر ان کو نہیں مانتےتو اس کو بھی نہ مانیں گے۔
ثانیاً۔ وہ مرد ِخدا جو یورپ میں ،خواہ ایشیا میں ظاہر ہو کوئی غیب کی خبر دے گا یا نہ دے گا؟ نسل آیند ہ کو بھی اس کی رسالت کا ظاہر ا ثبوت چاہیئے یا نہ چاہیئے؟پس اگر اخبارِ غیب بھی اثباتِ رسالت کی جزو میں داخل ہیں تو ہم اس سے لکھو ا لیں گے اور نسل آیندہ ان کی صحت کو بچشم خو ددیکھ لے گی اور یوں اس کی رسالت کے ثبوت میں ہمارے ساتھ متفق ہو گی۔پر کیا انبیائے سلف اخبار غیب نہیں لکھ گئے؟ اور کیا قریباً ہر زمانہ نے ان کی تکمیل کو نہیں دیکھا اور کیا آج کل ان کا فرمودہ وقوع میں نہیں آتا؟تو کیا ہم نے ان مانی ہے؟جب ان کو نہیں مانا تو اس کو بھی نہ مانیں گے۔دیکھتے ہوئے نہ دیکھنا اسی کو کہتے ہیں۔
ثالثا ً۔ کیا وہ نبی ان حقائق سے افضل حقائق بیان کرے گا جو کتب الہامیہ مروجہ میں مندرج ہیں؟ترتیب کی خاطر ہم حقائق کو چار قسموں میں لکھتے ہیں ۔(اول )خدا کی بابت ،(دوم) انسان کی بابت،(سوم )گزشتہ اور (چہارم) آئند ہ کی بابت۔
(اول)خدا کی بابت:خد اکی بابت ہم تسلیم کرتے ہیں کہ بلحاظ بت پرستی وغیرہ کے ایک بادئ(ظاہر) الہٰی کی ضرورت تھی۔مگر یہودو عیسائیوں کے پاس انبیائے سلف کی وہ کتب الہامیہ موجود ہیں (جو پڑھے سو دیکھ لے) جن میں بت پرستی کی نسبت (خوا ہ کسی قسم کی ہو) سخت ہولناک امور موضوع ہیں ۔او ر خدا کی ہستی اور دیگر صفات ایسے صریح طور سے بیان ہوئی ہیں کہ توضیح مزید کی حاجت نہیں رکھتیں ۔خدا کی خدائی اور صفتیں جو دیکھنے میں نہیں آتیں لاریب(بے شک) اس کے کاموں پر غور کرنے سے معلوم ہو سکتی ہیں ۔مگر جب انسان باوجود ان کاموں کے اپنی عقلوں کی پراگندگی میں آوارہ ہوئے اور خالق کو مخلوق سے بدل دیا تو بے شک امداد الہٰی کی اشد ضرورت ہوئی ،چنانچہ وہ حاجت رفع ہو گئی ہے۔اب ہم پوچھتے ہیں کہ وہ نیا نبی خد اکی بابت اور کیا سکھائے گا؟ کیا صفات الہٰی کو بائبل سے بڑھ کر مکشوف او ر مشرو ح کرے گا؟ اگر خدا کی ہستی ،حکمت، قدرت،پاکیزگی ، عدل ،مہربانی ،سچائی ،بے انتہائی اور ہمہ دانی خدا کے لائق بیان نہیں ہوئی تو بیان دیگر کی حاجت ہے۔ مگر پیشتر اس سے کہ ہم کسی بیان ثانی کی ضرورت کے قائل ہوں ان صفات کی نسبت بیان الہامیہ کی کمی یا قصو ر اہل ملہم ثابت کر دیں تو بہتر ہو گا۔ تاوقتیکہ یہ نہ ہو کہ کسی نئے نبی کا تذکرہ فضول ہو گا۔ پھر کیا وہ رشتہ جو خدا اور انسان میں ہے، وہ نیا نبی توڑے گا یا محکم کرے گا؟ اگر اس سے انکار کرے تو کرے اور بہتر کر رہے ہیں اس کو بھی مثل اوروں کے سمجھ چھوڑیں گے اور اگر کہو کہ تقویت دے گا تو الہا م بائبل کو کسی نوزاد نبی کی تقویت کی حاجت نہیں۔ اگر اس کی نہ مانو گے تو اس کی تقویت کو بھی عبث سمجھو گے۔
(دوم)انسان کی بابت: انسان کے فرائض کی بابت جو جو مذکور کتب الہامیہ میں درج ہو چکے ہیں،معنی میں اس سے کوئی اور بیان فضیلت لے جا سکتاہے۔’’ خُداوند اپنے خُدا سے اپنے سارے دِل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل سے محبّت رکھ۔بڑا اور پہلا حکم یہی ہے۔ اور دُوسرا اِس کی مانِند یہ ہے کہ اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبّت رکھ‘‘ (متی۳۷:۲۲۔۳۹) ،کیا اس میں کچھ اور باقی رہ گیا ہے جو ہمیں پھر بھی کسی اور نبی کا محتاج رکھے؟ اس سے بڑھ کر ہم کیا کر سکتے ہیں اور خد اہم سے کیا طلب کر سکتا ہے؟ہاں اگر کہو کہ نیا نبی کچھ تخفیف کر دے گا تو ہم کہتے ہیں کہ بے جا کرے گا اور اگر اس کی تقویت کرے گا تو جب تم نے پہلوں کو نہ مانا تو پچھلے کی کب مانو گے۔ اس لحاظ سے نبی کی ضرورت نہیں ہے۔پھر وہ نبی خدا او ر انسان کے میل او ر صلح کا کون سا طریقہ بڑھ کر بتائے گا؟شاید ہمارے نوجوان ہم عصروں کی تائید کرے گا کہ نجات کچھ حقیقت نہیں ، بےہودہ خیال ہے اور کفارہ ایک وسوسہ ہے اور نیکی کو صلح کا ذریعہ بیان کر ےگا۔اور یا ان باتوں کے خلاف سکھائے گا یعنی نیکی جس قدر مطلوب ہے، ہو نہیں سکتی اور اس لئے خدا سے عداوت جاری رہے گی اور صلح کبھی نصیب نہ ہو گی۔اور اس لئے کفارہ ہی نجات کا کافی و شافی وسیلہ ہے،مگر نیکی کرنا تو ہمار ی طبیعت ہی گواہی دیتی ہے کہ بھلا ہے اور الہام سابقہ میں بھی اس کی تاکید معہ امور نیک کے آچکی ہے۔اس لئے اگر وہ نبی فقط اسی قدر مژدہ لے کر آئے تو بہتر ہے کہ نہ آئے ۔یہ تو ہم خاطر خواہ جان چکے ہیں۔اور اگر وہ یہ پکارتا ہوا آئے کہ نجات ایک ضرور ی امر ہے اور کہ نجات کا انحصار کفارہ ہی پر ہے تو اس امر میں بھی الہام نے ہماری پوری تسلی کر رکھی ہے ۔او ر بالفرض اگر کوئی نبی ظاہر ہو بھی جائے تو ہمارے ہم عصر صرف یہ کہہ دیں گے کہ تسلیم الہام کی تو عادت ہی نہیں ،ہمارا کچھ اور ہی مت (عقل )ہے۔پس ظاہر ہے کہ جب بائبل کو نہ مانا تو اور کو کس طرح مانیں گے۔نہ مانیں گے، نہ مانیں گے، نہ مانیں گے۔
(سوم) گزشتہ کی بابت: گزشتہ کی بابت وہ نیا نبی کو ن سی نئی بات بتائے گا یا مظہر شدہ میں کو ن سا نقص بیان کرے گا؟ کائنات کا عدم سے موجود ہونا قادر مطلق کی قدرت کے کامل ظہور پر د لالت کرتا ہے۔اب کیا اگر وہ اس بیان مظہور کی تائید کرے تو یہ لوگ مانیں گے ، اگر اس کی مانیں گے تو الہام موجود ہ ہی کو کیوں نہیں مانتے ؟دنیا میں گناہ کے آنے کی کوئی نئی صورت بیان کرے گا یا الہام موجودہ کا موید (تائید کرنے والا) ہو گا؟ اگر ہم اس کی ماننے پر تیار ہیں تو کتب الہامیہ انبیائے سلف سے کیوں دل ڈر ڈر کے بغل میں دھسا جاتا ہے؟جب خدا کی طرف سے تواتر انبیا کا ہوگا تو اختلاف نہیں ،ان کے کلام میں یکسانی پائی جائے گی۔چنانچہ یہ امر انبیائے عہد عتیق و جدید کی موافقت سے عیاں ہے ۔اور اگر اس کے خلاف بتائے گا تو مخالفت پیشتر بھی موجود ہے اور پھر یہ لوگ کہیں گے کہ الہام الہٰی میں بھی اندھیر پڑ رہا ہے اور ہر دو حالت میں تسلیم کرنے سے متنفر رہیں گے۔
(چہارم) آیندہ کی بابت: آیندہکی نسبت جس قدر انسان اندیکھی چیزوں کو تعریف سخن سے سمجھ سکتا ہے کیا بائبل میں بیان نہیں ہوا؟ ابدیت،ابدی خوشی اور ابدی عذاب کو انسان بغیر آزمائے کس قدر قیاس میں لاسکتا ہے؟ کیا اس کی قابلیت کے بموجب آیندہ کا صحیح بیان نہیں ہوا۔پس وہ نبی بڑھ کر کیا بتائے گا، جب پاس والی خبر کو نہ مانیں تو اس نئے حامی کی کیونکر مانیں گے۔
رابعا: کیا اس نئے نبی کی تعلیم او ر اس کی تعمیل سے زیادہ تر فوائد حاصل ہوں گے؟بائبل کی تعلیم نے تو دنیا کے وسوسوں کو زیر و زبر کر دیا ہے۔ انسان کے جسمانی اور روحانی تقاضے اس کی تعمیل سے پورے ہو رہے ہیں ۔وہ انسان جو پایہ انسانیت سے گر گئے تھے ان کو بحال کر دیا ہے اور کر رہی ہے۔کیا اس نبی کی تعلیم سے ان سے بڑے فوائد دنیا کو حاصل ہوں گے۔مگر بائبل مقدس اپنے کاموں سے ظاہر کر رہی ہے کہ وہی اس کام کے لئے مقرر ہوئی ۔پس جب ایسی ہدایت طاہر ،ماہر اور ظاہر کے شنوا نہ ہوئے تو دوسرے کی بھی نہ سنیں گے۔امور مذکورہ بالا کے سبب سے ہم قرآن وغیرہ کو بے فائدہ اور فضول جانتے ہیں،کیونکہ الہام کتب مقدسہ بائبل کا مل ہے اور لازم ہے کہ اسی کی سنیں اور بچیں۔
نبی کی ضرورت پر ایک جالندھری مسلمان کی پہلی تحریر کے جواب میں
واضح ہو کہ نبی کی ضرورت کے لئے مسیح کو ایک نبی اور روح القدس کو دوسرا نبی اور مسیح کی روحانی بادشاہی کو تیسرا نبی سمجھ کر تسلسل انبیا کی ضرورت منتج (نتیجہ) کر لینا کیا عمدہ دقیقہ (خفیف معاملہ) ہے! ان تینوں کو تو ہم ایک ہی صیغہ کے جزو سمجھتے تھے اور واقعی ایسا ہی ہے۔ اور اس مضمون کے لکھنے سے ہماری غرض اس نبی یا نبیوں سے تھی جو ا س دائرہ سے باہر ہیں ۔ بلحاظ مثال ہم محمدصاحب کو نذر ناظرین کرتے ہیں۔اور یہ جو کسی جالندھری مسلمان نے اقوال مسیح تحریر کئے کہ میں زمانہ کے آخر تک تمہارے ساتھ رہوں گا (متی۲۰:۲۸) اور کہ جہاں دو یا تین بھی اکٹھے ہو کے میرے نام سے کچھ مانگیں تو میں انہیں بخشوں گا (متی ۲۰:۱۸؛یوحنا۱۳:۱۴۔۱۴) ۔سو یاد رہے کہ یہ وعدے فقط مسیحیوں سے ہیں اور جب مسیحی ان باتوں کو یاد کرتے ہیں تو انہیں اپنی حالت زندگی میں بڑی تسلی پہنچتی ہے۔مسیح کا یہ وعدہ تو کسی غیر نبی کی ضرورت کو اور بھی بر طرف کرتا ہے۔پھر اگر ان وعدوں ہی پر غور کریں تو کیا خداوند کا مسیحیوں کے ساتھ رہنا اور ان کی دعاؤں کا سننا مسیحیوں کو مضامیں مندرجۂ بائبل سے کبھی افضل بیان القا کرنے کا موجب ہوتا ہے؟ ہر گز نہیں ۔ کیا کوئی عارف کہہ سکتا ہے کہ میں پولس سے سبقت لے گیا ہوں حتٰی کہ پولس کی نہیں اب میری ضرورت ہے؟مسیح کا ہمارے ساتھ رہنا اور دعا ؤں کا سننا بائبل کو برطرف نہیں کر دیتا،مگر بائبل کی صداقت کا ایک ثبوت ٹھہرتا ہے۔تو کیا ان روحانی نعمتوں کو جو رسول مقبول بائبل میں درج کر گئے اگر ہمیں حاصل ہوں تو ہم کہیں گے کہ اب دوسرا نبی چاہیئے اور پھر تیسرا نبی چاہیئے وغیرہ۔ان ہی نعمتوں کے سبب ہم بار بار کہتے ہیں کہ کسی غیر نبی کی ضرورت نہیں۔
قَولُہ‘۔(قَو۔لُ۔ہُو) (اس کا قول) ا گر اُن مرسلوں (مرسل:بھیجنے والا۔خط بھیجنے والا) جیسے جو پچھلے زمانوں میں خدا پرستوں کی ہدایت کے لئے بھیجے جاتے تھے ، اگر اب بھی بدستور ارسال ہوتے رہیں تو فائدہ سے خالی نہ ہو گا اور بعد اس کے آپ لکھتے ہیں کہ ہمارا زمانۂ رواں کسی قسم کی کرامات و معجزات دیکھنے کا چنداں محتاج نہیں۔ تو کہیے صاحب ان مرسلوں کی شناخت کی کیا صورت ہو گی ۔معجزات وغیرہ دیکھنے کے آپ محتاج نہ ہو ں گے مگر ان ایام رواں میں ہم کیا ہمارے جیسے کروڑ ہا بِن دیکھے پاس نہ بیٹھنے دیں گے۔ اگر آپ ان کے بدستور ارسال کے قائل ہوتو بدستور کرامات سے کیوں منہ پھیرا۔اسی لئے کہ فریبی بھی مرسلوں میں چل جائیں۔دستور سابقہ جاری رکھنا اور نہ رکھنا اللہ تعالیٰ کےاختیار میں تھااور اس کی عدم ترویج سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے اس میں زیادہ فائدہ نہ دیکھا۔اگر مرسل سلف سے شکوک و شبہے رفع نہیں ہوتے تو یاد رہے کہ ان سے زیادہ گھول کے نہ کسی نے پلایا، نہ کوئی پلائے گا۔مسیح سے اب تک قریب دو ہزاار برس ہوتے آتے ہیں۔تو کون سا بڑا شارح پیدا ہوا جس نے مسیح کو مات کردیا۔ کیا محمدصاحب ،کیا نانک،کیا بابو کشیپ چندر سین یا سید احمد خان بہادر (ہمہ مصلحین بے کرامت) کا وہاں تک دست فہم پہنچا ہے؟ اور با کرامت تو کوئی ہوا ہی نہیں۔ان سب کے ظاہر ہونے سے سوائے اختلاف کے کیا حاصل ہے۔ اسلئے ہم کہتے ہیں کہ نہ کسی نبی بے کرامت اور نہ نبی با کرامت کی ضرورت ہے۔بے کرامت تو اختلاف کا باپ ہو گا اور باکرامت یا الہامی بڑھ کر کچھ نہ کہہ سکے گا۔ اور پھر بائبل سے فائدہ پہنچ رہا ہے تو اس کا مکتفی ہو نا کسی غیر نبی کی ضرورت کو عدم ضرورت میں ڈالتا ہے۔
قَولُہ‘۔فرمایئے کون مسیحی ایسا دعویٰ کر سکتا ہے کہ بائبل ۱ میں مقدمہ نجات کے سوائے حال اور استقبال کے جتنے ماہیات ہیں سب کے سب بہ تشریح بیان ہو چکے ہیں یا کسی کی سمجھ میں پورے طور پر آگئے ہیں۔
اس کے جواب میں ہم وہ بیان جو آیندہ کی نسبت از منجانب مسطور (اوپر لکھاگیا) ہوا دو بارہ لکھتے ہیں یعنی آیندہ کی نسبت جس قدر انسان ان دیکھی چیزوں کو تعریف یا نظیر سے سمجھ سکتا ہے کیا بائبل میں بیان نہیں ہوا؟ابدیت ،ابدی خوشی اور ابدی عذاب کو انسان بغیر آزمائے کس قدر قیاس میں لاسکتا ہے کیا اس کی قابلیت کے بموجب آیندہ کا صحیح بیان نہیں ہوا؟ مگر آپ کہتے ہیں کہ مثلاً روح اور اس کے مونزیات قیامت اور عدالت، دوزخ اور بہشت، بعد از مرگ روحوں کی کیفیت وغیرہ کی کس نے ایسی تصریح (واضح کرنا) کے ساتھ شرح (تفسیر) دی ہے کہ شک کے لئے جگہ نہ چھوڑی ہو۔
اگر آپ عقلی شرح کے محتاج ہیں تو سیری بھی کبھی نہ ہو گی اور اگر کہو کہ یہ امور بائبل میں بھی بطریق مشتبہ بیان ہوئے ہیں تو بائبل کو پھر پڑھو۔ اظہار بائبل روح کی نسبت یہ ہے کہ وہ جسم سے علیٰحدہ شے ہے (متی ۲۸:۱۰؛۱۔تھسلنکیوں۲۳:۵) ۔بقائے روح کی ایک اور وصف ہے اور یہ وصف انجیل کے ان مقامات سے مصرح (صراحت کرنے والا) ہے جہاں ہمیشہ کی زندگی اور ہمیشہ کے عذاب کا ذکر ہے۔قیامت کی بابت مسیح اور اس کے رسولوں نے نہ صرف تعلیم ہی دی جیسا لوقا ۱۴:۱۴ اور اعمال ۱۵:۲۴ سے مصرح ہےاور نہ صرف صدوقیوں کو انکار قیامت کی نسبت ملامت ہی کی (مرقس ۱۸:۱۲۔۲۵) بلکہ خود مردوں میں سے اٹھ کر ایسا واضح کر دیا کہ شک وشبہ کی تاب کو بے تاب کر دیا۔عدالت کی نسبت بھی بائبل ایسی تصریح کے ساتھ شرح دیتی ہے کہ شک گداز ہوتا ہے (دیکھو متی ۳۱:۲۵۔۳۲؛اعمال ۳۱:۱۷؛۲۔کرنتھیوں ۱۰:۵) ۔ بہشت اور دوزخ کی بابت بھی اکثر مقامات سے مصرح ہے کہ مقدم جائے آرام ہے اور موخر جائے عذاب ۔ان امور کی بابت بائبل صاف صاف بیان کرتی ہے یعنی جس قدر انسان بغیر دیکھے ان امور کو قیاس میں لاسکتا ہے اور جوجو کیفیت ان کی نسبت آیندہکے متعلق ہے، وہ اس زندگی میں نہیں دیکھی جا سکتی۔ اور بعد از مرگ روحوں کا بھی اسی قدر مذکور ہوا ہے جس قد ر بغیر تجربہ کے کسی چیز کو معلوم کرسکیں اور جو کچھ حال میں ان کی نسبت جاننا ضرور ہے، وہ تو مصرح ہے۔ ہمیں خیال گزرتا ہے کہ آپ مفسروں کی لا علمی وغیر ہ پر اعتراض کرتے ہیں ،مگر یاد رہے کہ مفسروں کی یہ حالت اس وقت ہوتی ہے جب ان باتوں کی وہ کیفیت معلوم کرنی چاہتے ہیں جو بائبل میں مکشوف نہیں ہوئیں ۔نبیوں کے الہام میں دخل بے جا دینے سے لاعلمی کیا گمراہی کی نوبت پہنچ جایا کرتی ہے۔
قَولُہ‘۔مسیح کا خاص فرمودہ ہے کہ تمہارے سمجھانے کے لئے ابھی بہت باتیں باقی ہیں،مگر اس واسطے نہیں سمجھائی جاتیں کہ تم میں ان کی سمائی نہیں (اس لئے ہر زمانہ میں اور اب بھی نبی ضرور ہیں)۔
صاحب اگر اسی زمانہ میں وہ بہت باتیں حواریوں کو سمجھائی گئی ہوں تو ظاہر ہے کہ اب کسی سمجھانے والے کی حاجت نہیں جوکچھ سمجھنا اور سمجھانا تھا انبیائے بائبل سمجھ کے سمجھا گئے ۔اب دوسرے کی کیا حاجت رہی۔پھر یہ کہنا کہ روح القدس نے بھی حواریوں کی معرفت ایمانداروں پر پورا پورا مکاشفہ نہیں کیا ، مسیح کے اقوال کے بالکل خلاف ہے کہ روح قدس تمہیں سب چیزیں سکھائے گا۔ وہ تمہیں سار ی سچائی کی راہ بتائے گا۔آخر میں آپ نے اس سامری عورت کا قول منقول کیا ہے کہ اس نے اپنے شبہات حضرت عیسیٰ کے سامنے پیش کر کے اقرار کیا کہ یہ سب باتیں تب ہی حل ہوں گی جب مسیح آئے گا۔اگر سامریوں کے شبہا ت سے آپ واقف ہوتےتو یہ بات نہ کہتے ۔مگر ہر ناظرین بائبل پر روشن ہے کہ کیا تھے۔پس واضح ہو کہ سامریوں اور یہودیوں میں مسیح کے آنے کی انتظاری تھی اور ان لوگوں نے ہر قسم کے شبہات کا حل مسیح کی آمد اول پر منحصر کر رکھی تھی اور مسیح نے آکر وہ شبہے حل کر دیئے ۔ نیز وہ شبہ جو اس سامری عورت نے بیان کیا تھا اس لئے کسی دوسرے حل کرنے والے کی ضرورت لاحق نہیں ،ناحق ہے۔
ساتھ ہی بعد اس سامری کے تذکرہ کے آپ نے مسیحیوں کی انتظاری بھی بیان کر دی کہ مسیح کے تشریف لانے پر ہزاروں اسرار اور عقد ے منکشف ہو جائیں گے۔بے شک وقت معینہ پر منکشف ہو جائیں گے۔حجاب آیندہ اپنے وقت پر اٹھ جائے گا اور امور متعلقہ آیندہکی باقی کیفیت بحیثیت ہماری قابلیت کے معلوم ہو جائے گی اور ضرور ی تجربے جو اس زندگی میں حاصل نہیں ہو سکتے ،اس وقت حاصل ہو جائیں گے۔اگر آیندہ کو زمانہ حال میں کھینچ لانے کی ضرورت ہے تو بے وقت ضرورت ہے ۔اس لئےاس کے لئے بھی کسی او ر نبی کی ضرورت نہیں ۔جوباتیں آیندہ کے لئے مقصود ہوئی ہیں، وہ آیندہ ہی میں منکشف ہو ں گی ۔اس لئے ٹھہر جاؤ ،صبر کرو،مسیح کو آلینے دو۔
پھر روح اور اس کے لوازمات مثل قیامت اور عدالت ،دوزخ اور بہشت کی بابت اور بھی واضح ہو کہ یہ اسی حال میں فائدہ رکھتے ہیں اگر روح زندہ ہو یعنی روح کو بقا ہو اور اگر روح کو فنا ہے تو اس کو ان لوازمات سے کچھ تعلق نہیں ہے ۔لیکن انجیل سے یہ بات بخوبی ظاہر ہے ۔چنانچہ لکھا ہے کہ ’’مگراب ہمارے منجی مسیح یسوع کے ظہور سے ظاہِر ہُوا جِس نے مَوت کو نیست اور زِندگی اور بقا کو اُس خُوشخبری(انجیل)کے وسیلہ سے روشن کردِیا ‘‘ (۲۔تیمتھیس۱۰:۱)۔اس سے یہ امر روشن ہوتا ہے کہ روح کو زندگی اور بقا ہے۔اب معلوم کرو کہ اس بات کو مسیح نے کس طرح روشن کیا ہے۔نہ اس طرح سے جیسے ڈاکٹر جانسن وغیرہ نے کیا ہے ۔فیلسوفوں کی توضیحات خیالی ہیں اور فرضی باتوں سے تائید کی جاتی ہیں ، مگر انجیل کی توضیح حقیقت اور تجربہ پر مبنی ہےاور اگر ایسا نہ ہوتا تو انجیل یہ ادعا ظاہر نہ کرتی کہ زندگی او ر بقا انجیل سے روشن کئے گئے ہیں ۔ فلاسفی کہتی ہے کہ روح ہیولیٰ(مادہ) نہیں اس لیے ضرور نابود ہو نے کے قابل نہیں۔لیکن کس وجہ سے یقین ہو سکتا ہے کہ ہیولیٰ نہ ہونے سے روح نیست ہونے کے قابل نہیں، کس فلاسفر نے روح کی آیندہ حالت کا تجربہ کیا ؟ہم نے تسلیم کیا کہ روح ہیولیٰ نہیں پر اس سے کیا حاصل ؟ اس سے کچھ غرض نہیں کہ روح روح ہے ،مگر غرض اس بات سے ہے کہ روح کی آیندہ حالت اس دلیل سے کیونکر دائرہ یقین میں آسکتی ہے۔یعنی کیونکر یقین کامل ہو کہ اس کا ہیولیٰ نہ ہونا اس کی بقا کی دلیل ہے؟ یہ بات صرف فرض کر لی گئی ہے کہ روح ہیولیٰ نہیں اس لئے اس کو نیستی نہیں، یعنی موت کے بعد بھی زندہ رہتی ہے۔یہ مشکلات ،یہ کم اعتقادی انجیل سے رفع ہو گئی ہے۔بائبل میں نہ صرف مردگان پیشین مثل ابراہیم ، اسحاق اور یعقوب کی موت کے بعد زندہ حالت کا بیان ہو ا ہے بلکہ ان سے بڑھ کر یہ بات ہے کہ مسیح نے مردوں میں سے زندہ ہو کر ثابت کیا ، دکھایا دیا۔ ایک آیندہ حالت کو تجربہ میں لا کر اسی دنیا میں روشن کیا کہ روح کو زندگی اور بقا ہے ۔اس نادیدنی حالت کی ایک دیدنی نظیر دی ہے۔یہ اس دھندلی آیندہ حالت کی ایک روشن مثال ہے۔اس حقیقت سے کم اعتقادی کی چون و چرا کا عملی جواب ملتا ہے اور یقین کامل ہو تاہے کہ اسی طرح اور روحوں کو بقا ہے ،کیونکہ اب تو مسیح مردوں میں سے جی اٹھا ہے اور ان میں جو سو گئے ہیں پہلا پھل ہوا (۱۔کرنتھیوں۲۰:۱۵)۔
پھر فلاسفی کی ایک اور مضبوط دلیل یہ ہے کہ روح بلحاظ اپنی طاقتوں کی ترقی کے غیر فانی ثابت ہوتی ہے۔یہ بات اور بھی تجربہ کے خلاف اور آیندہ میں خیال دوڑانا ہے۔یہ تو یہاں ایک باٹ مقرر کر لینا اور اس کانتیجہ آیندہ میں یوں یادوں فرض کر لینا ہے۔قوتوں کی ترقی سے بالکل یہ یقین نہیں ہوتا کہ یہ موت روح کی حد انتہائی نہیں ہے ۔تجربہ اس دلیل کی بنا نہیں ہے۔ انسان تندرستی کی حالت میں ایسا خیال کر سکتا ہے۔مگر عزیزو اس شخص سے پوچھو جو موت کے بستر پر ہے۔ا س کو قوتوں کی سو برس کی ترقی آیندہ ترقی کی کچھ امید دیتی یایقین کامل دلاتی ہے۔دریائے موت کے پار دیکھنے کا اس کے پاس کو ن سا ذریعہ ہے؟ دیکھو تجربہ تو اس دلیل کے بر خلاف معلوم ہو تا ہے۔بقا کی نسبت موت اور ا س کے لوازمات جیسی ناامید کرنے والی اور کوئی چیز نہیں ۔ا س وقت قوتیں ضعیف اور نیکیاں ختم ہو جاتی ہیں۔ موت اس کو موت کے بستر پر گزشتہ خوشی اور تنگی پر گویا جبراً قناعت کا حکم دیتی ہے۔نیچر اس کو نہیں بتاتی کہ نکلا دم ہست رہا یا نیست ہو گیا۔ پس ظاہر تجربہ تو یہ ہے اور انجیل بھی اس تجربہ کی تائید کرتی ہے کہ موت عذاب ہے ۔ہاں مسیح سے باہر وہ دہشت اور سختی ہے،کیونکہ اس نے زندہ ہو کر تجربہ کے نتیجہ کے برخلاف تجربہ سے ثابت کر دکھایا کہ روح کو بقا ہے ،قیامت ایک صداقت ہے۔پس دیکھو کہ کیونکر انجیل زندگی اور بقا کو روشن کرتی ہے۔کیا دفعیہ(دفعہ کرنے کی تدبیر۔توڑ) شک کے لئے اس دنیا میں روح اور اس کی آیندہ حالت کی اس سے زیادہ تصریح کے ساتھ شرح ہو سکتی ہے؟اس دنیا میں نہ ہوئی ،نہ ہوگی اور نہ کسی اور کی ضرورت ہے۔
جالندھری مسلما ن کی دوسری تحریر کے جواب میں
جس جس مقام میں جالندھری صاحب نے نبی کی ضروررت نہیں لکھنا تھا، وہاں ضرورت ہی لکھ دیا۔ چنانچہ ہم انہیں کی وجوہات کی رو سے اس نفی کو پھر درج کیے دیتے ہیں اور ساتھ ہی مطلع کرنا بھی انسب(زیادہ مناسب) سمجھتے ہیں کہ آپ کے مضمون کا پہلا ڈیڑھ کالم ہمارے مدعائے بحث سے بالکل خارج ہے۔ اس حصہ میں جو باتیں آپ نے تحریر کی ہیں ان ہی کے سبب سے ہم کسی غیر نبی کی ضرورت کے نافی (نفی کرنے والا)اور مبطل(باطل کرنے والا) ہیں۔
قریباً شروع مضمون میں آپ نے اختلا ف سمجھ کے سبب کسی نبی کی ضرورت کو ظاہر قرار دیا ہے۔ اس پر ایک نظر تو ہم پیشتر لکھ چکے ہیں ،اب ایک دو اور باتوں کا بیان کیا جاتا ہے۔اول یہ کہ اختلاف ِسمجھ سے بائبل میں نقصان مظنون(ظن کیا گیا۔مشکوک) نہیں ہوتا۔ بائبل کے اجزائے اظہار ایسے ہیں جو ایک کل کی طرف راجع ہیں ۔ا ن میں اختلاف نہیں، کمی نہیں، قصور نہیں ۔اختلاف عقلیہ کی طرف حواری کا اشارہ معلوم ہوتا ہے جب اس نے غیر انجیل سنائے جانے پر لعنت کی اور کلام الہٰی سے اختلاف یا اس کی مختلف تعبیریں کر نے کا یہ سبب بتایا کہ نفسانی آدمی خدا کے روح کی باتیں قبول نہیں کرتا کہ وہ یہ اس کے آگے بیو قوفیاں ہیں اور نہ وہ انہیں جان سکتا ہے،کیونکہ وہ روحانی طور پر بوجھی جا تی ہیں۔سچ ہے، اگر کلام خدا اس دنیا کی حکمت سے ہوتا تو نفسانی روح اسے سمجھ سکتی اور ایسا اختلاف نہ ہوتا اور بدعتیوں کا نام بھی نہ سنتے۔ اب اس نفسانیت کو دل سے دور کرنے والا روح حق ہے ،نہ کہ کوئی آم ز اد۔
دوم ،ایک انسان سچائی کو زیادہ سمجھ سکتا ہے اور دوسرا کم ۔ایک کو سچائی کا ایک حصہ سمجھنے کا ادارک ہے دوسرے کو کوئی اور ۔اس سبب سے بھی اختلاف سر زد ہ جاتا ہے اورظاہر ہے کہ ہر بشر کے فہم کی یکساں وسعت نہیں ہے۔پھر اختلاف سے حیران کیوں ہوں۔ پولس اور دیگر حواریوں نے انجیل سے انحراف اور اختلاف ظاہر کرنے پر بار بار متنبہ کیا ہے۔ اس لئے بائبل اپنے کسی اظہار میں قاصر نہیں، جو ہر زمانہ میں ایک نہ ایک پولس کی ضرورت کو جگہ دے ۔اُسی پولس کے نامہ جات (خطوط)اب بھی کافی ہیں کہ اختلاف وغیرہ کو منتشر کریں۔
قَولُہ‘۔مسیح کا شہود دنیا پربطور نبی، کاہن اور بادشاہ کے تھا اور میں پو چھتا ہوں کہ وہ عہدے جن کی اشد ضرورت اس وقت کے لوگوں کو تھی ،کیا حال کی امت کو نہیں ہے؟ بے شک ہے۔ ہم جواب میں یہ کہتے ہیں کہ ہم نے تو ان باتوں کی بابت لکھ دیا کہ ان تینوں کو ہم ایک ہی صیغہ کی جزو سمجھتے ہیں اور واقعی ایسا ہی ہے اور ہماری غرض اُس نبی یا نبیوں سے تھی جو ا س دائرہ سے باہر ہیں۔ اس کے ساتھ ہم یہ لکھ چکے ہیں کہ مسیح کا وعدہ ساتھ رہنے ، دعاؤں کے سننے کا اور روحانی نعمتوں کی تحصیل کسی غیر نبی کی ضرورت کو اور بھی برطرف کرتی ہیں اور اُن غیروں کا پتا بھی بتا چکے۔ اس لئے ہم کہتے ہیں کہ مسیح کا نبی ، کاہن اور سلطان ہونا اور ہر گھڑی اور ہر ساعت (بلحاظ ان عہدوں کے) انسان کو روحانی ترقی بخشنا اور اس کی حاجتوں کو پورا کرنا بعد ُ ہ‘(بَع۔دُ۔ہُو) (اُس کے بعد) ہر زمانہ کی امت کے لئے کسی غیر نبی کی آمد کو عبث ٹھہراتا ہے ۔مسیح کا وہ شہودِارضی اور یہ ظہور فلکی غیر نبی کی عدم ضرورت کے لیے دلیل کافی ہے اور ہم جالندھر ی صاحب کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے کسی غیر نبی کی عدم ضرورت کے اظہار میں ہماری خوب مدد کی ہے۔
قَولُہ‘۔عیسی ٰ ہمارا نبی ہے اور اپنے کلام ذریعہ سے ہر وقت اور ہر ساعت وہی کام کر رہا ہے جو اس نے عالم شہو د میں آکر کیا تھا۔جب یہ حال ہے تو صاحب من خود ہی اظہر ہے کہ آپ کا عنوان غلط ہے کہ ہر وقت اور ہر حال میں نبی کی ضرورت ہے ۔جب مسیح موجود ہے تو پھر اس ضرورت کے کیا معنی۔مسیح کے ساتھ رہنے اور وہی کام کرنے کی ضرورت تھی ،سو وہ تو حاصل ہے۔اس لئے غیر غیر ہی ٹھہرا۔
قَولُہ‘۔مانا کہ وہ جلیلی (گلیلی )آج کل ٹابیرئیس(تبریاس) کے کناروں پر بدستور کھڑا ہو کے لوگوں کووعظ و نصیحت نہیں سناتا۔ تاہم اس کا کلام اسی مقام پرکہاہوا بدستور موجود ہے۔ برادر عزیز اس کلام کا بدستور موجود ہونا کسی غیر نبی کے کلام کی مداخلت کا مانع ہو ا یا نہ ہوا۔عدم ضرورت کی یہ ایک اور دلیل ہے اور یہی ہمارا مدعا ہے۔اسی کلام موجودہ کی ضرورت ہے ،نہ کسی اور کی۔ اس لئے مناد سناتے ہیں او ر لوگوں کو سننا واجب ہے۔
قَولُہ‘۔مسیح نے خود اپنے وقت میں اپنے سے پہلے نبیوں پر اشارہ کرکے یہودیوں کو باآواز بلند فرمایا تھا کہ تم لوگ کیوں ان کا کلام نہیں پڑھتے ہو۔ سو اگر حال میں نبی کی ضرورت نہیں رہی تو بتاؤ کہ مسیح کے اس خطاب سے کیا مراد تھی۔
اس خطاب سے مراد یہ تھی کہ انبیائے سابقین کی کتب میں میری خبر ہے ۔سو تم لوگ ان میں یہ خبر ڈھونڈ و کہ مسیح کے نسب ،کام ، کلام ، منزلت اور رتبہ کی بابت وہ کیا لکھ گئے تھے اور یوں میری ضرورت کے قائل ہوگے ۔کسی غیر نبی کی ضرورت کا اشارہ نہیں کیا اور اگر کچھ ہے تو یہ ہے کہ انہیں کتابوں میں ڈھونڈو، انہیں میں میری خبر ہے ۔یہ حکم کسی غیر کتاب کی طرف رجوع کرنے کامانع ہے۔جالندھری صاحب کی باقی ماندہ تحریر سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہمارا مدعا پا گئےا ور جس ضرورت کا آپ اب تک گیت گاتے رہے اس کاتو ذکر نہیں ۔اسی کے تو ہم مفر (جائے فرار)ہیں اور اسی کے سبب غیروں کی عدم ضرورت کی تشبیہ میں ہمیں ذرا پس و پیش نہیں ہے۔
۱ مخفی نہ رہے کہ قیامت اور عدالت ،دوزخ اور بہشت وغیر ہ وغیرہ جو مقدمہ ٔ نجات آئندہ کے متعلق ہیں اور مقدمۂ نجات کے تعلقات میں سے جو جو ہماری اس زندگی کے متعلق ہیں یعنی جس کا جاننا ، ماننا اور عمل کرنا قبل از مرگ ضرور ہے وہ تو بقول آپ کے سب کے سب بہ تشریح بیان ہو چکے ہیں۔پس صاحب ان کو تو جانو ، مانواورآئندہ میں باقیوں کو جان اور مان لینا جو اس دیس کے متعلق ہیں انہیں وہیں چل کے اور بھی اچھی طرح جان لیں گے اور جس قدر ان کی نسبت جاننا ضرور ہے ،اس کی تشریح میں بائبل قاصر نہیں ہے۔