Camel Rides on Road to Jericho

اِلہام کی ضرورت کیوں؟

کیدارناتھ

Why do we need inspiration?


Published in Nur-i-Afshan November 29, 1895
By
Kidarnath


کیا ایسی حالت میں جبکہ  معدودے  چند کے سوا  جو کسی شمار میں نہیں کل مذاہب  اور فریق اس بات کے قائیل  ہیں کہ خدایا  پرمیشر نے اس اندھیری  دینا میں اپنے  نور الہام  کی روشنی پھیلائی اور کسی نہ کسی  قدر مختلف پیراؤ نمیں  آسمانی آواز رویا خواب مکاشفہ میں اپنی مرضی  کا سورج  چمکایا ہمارا مندرجہ  عنوان سوال  ناظریں  نور افشاں  کے غور کے لایق اور جواب پانے کی قابلیت رکھتا ہو ؟  ہم آپ ہی  عرض ہرواز ہیں کہ اگر اور کسی صورت میں نہو تو نہوو مگر ایک اور حل طلب مشکل ہے جس کے آسان کرنے کے واسطے  سوال  ہذا کے جواب تحریر کرنے میں ہم نے اپنے فامہ دو زبان کو جالان کیا ہے کہ آجکل بعض اشخاض دنعلیم دعویٰ کرتے ہیں کہ خدا نے اپنی توحید پھیلانے کو الہام بخشا اور حضرت  موسیٰ سے زکی الطبع  شخص نے اپنی پانچوں کتابیں اس غرض کے  برلانیکو تحریر  فرمائیں ۔ مگر ہمنے جہاں تک غور  کیا اس امر کو کسی اور پہلو کی طرف  جھُکتا پایا اس لئے کہ اگر ہم اس بات کو مان لیں کہ  اﷲ جل شانہ  نے محض اپنی توحید شایع  کرنے کو الہام کا تحریری  زخیرہ  جسکا شمار مختلف  ۶۶ کتابوں تک پہنچتا ہے ہمارے ہاتھوں  میں دیا تو ہم ایک ایسے اندھیرےگپُ میں  جا پڑتے ہیں جہاں  ہاتھ مارے تک نہیں سوجھتا  کہ آج  تک کسی  پیغمبر  یا عالم  نے صاف   نہ بتلایا کہ خدا  جو ایک ہی وقت میں مختلف  مقامات پر کیونکر موجود ہے اس دلیل سے ہم اُن  کو کیونکر اندھیرے  سے اوجالے میں لاسکتے ہیں جو اس مشکل لاحل کے ہاتھوں  دہریت کی خندق  میں گر پڑے ہیں پھر یہ کیسا ناکامی الہام ہے جو پہلے ہی قدم میں آگے  پاؤں رکھنے کو جگہ نہیں دیتا توحید ی عیسائی  تو بڑے  فخر  کے ساتھ  ہمکو ٹھٹھوں میں اوڑاتے اور تثلیث  الہیٰ کو بابلی تثلیث  قرار دیتے  مگر ہم کو  معلوم ہوتا ہے کہ جدید سے لے کر قدیم باطلہ  مذایب  تک  جو اپنی موجودگی حضرت  موسیٰ سے کروڑہا برس  پیشتر  بتاتے وہ بھی ہم آواز ہو کر چلاّتے ہین کہ خدا  ایک ہے مہربانی  فرما کر بتا دیجئے کہ قدیم ہندوں یا آریوں نے خدا کی وحدت  کی تعلیم اُس الہام سے کب پائی جس کی بابت دعویٰ کیا جاتا ہے کہ محض توحید کی اشاعت کے لئے آسمان سے نازل ہوا اور اگر اُن کا یہ دعویٰ سچ نکلے  کہ الہام حقیقی کے نزول سے پیشتر ہماری کتابوں  میں پرمیشر کی یکتائی کی تعلیم موجود ہے تو آپ کا دعویٰ اور کس دلیل سے چابت ہو سکتا  ہے بہرحال  اُسی خندق میں جو تثلیثی مسیحّیوں کے گرانے کو کھودا تھا توحیدیوں کو گرنا پڑا  لہذا  جو اصل  سبب نزول الہام کا ہے وہ ہم پیش کرتے ہیں۔ واضح  ہو کہ حضرت  موسیٰ کی کتابوں  میں اکیلے خدا کی پرستش کی تعلیم بتا کید پائی جاتی ہے ضرور لیکن سبب اُس کا کثرت  الاربابی جو تمام اردگرد کی قوموں میں پایا جاتا ہوا اور جیسا کہ  ہم نے ابھی  اوپر تحریر کیا کہ دنیا کی جملہ اقوام  ایک خدا کی  قایل ہین پس جہانتک  مناسب  تھا اُن کو اُسی قدر اُس پہلو کی طرف جُھکایا  گیا اور جب نئے عہد نے اپنی جگے لی اُس وقت یہودیوں  کی غلط فہمی  نے توحید الہی کی بابت تمام اقوام  مختلفہ میں جہاں وہ تتر بتر  ہوئی ایک عجیطب زاہد نہ خشک تاثیر پیدا کر دی کہ ضرورتاً  وہیں  جو مناسب  وقت  اور مطابق حال  تھی زات آلہیٰ کی تشخیصّیت باپ بیٹے روح القدس  کی اقنومیت میں ظاہر کی گئی جس کی بابت ہم کو اور مذاہب  باطلہ سے بھی اشارہ ملتا ہے خواہ وہ قایل  الہام ہوں خواہ  یونانی کے حکیم مثلاً افلاطون  اور وید کے اندر اگنی سورج  یا پرانوں کے برمہاوشن مہیش جس محض غلطی میں اصلی سچائی کسی قدر نمایاں ہے ۔لیکن ایک اور اہم  مشکل  ہے جس کے لئے الہام بخشنے  کی ضرورت آپڑی  اور اُس کی قدامت  آج سے لے کر پچھلے قدموں حضرت آدم و حوا تک پہنچتی  ہے اور جس وقت الہام ان پیارے  اور عبرتناک الفاظ ہیں ظاہر ہوا کہ اے آدم تو کہاں ہے پھر  دوسری آواز  بالمقابل  یہ تھی اور مین تیرے اور عورت  اور تیری  نسل  اور عورت کی نسل  کے درمیان دشمنی ڈالوں گا وہ تیرے  سر کو کچلے  گی اور  تو اُس کی ایڑی کو کاٹیگا۔ پیدایش ۳: ۱۵ یہاں اگر یہ آواز  آتی کہ میں اکیلا خداہوں تو ہم جانتے کہ بیشک الہام کی ضرورت محض اشاعت توحیدی ہے اور اگر ایسا ہوتو تو موقع و محل  کے مناسب  بھی تھا کہ حضرت  آدم نے اگر چہ  کوئی پتھر کی تراشی ہوئی مورت نہیں پوجی اور نہ کسی اور کو خدا مانا مگر تو بھی دوسری صورت نافرمانی میں جس کے حکم سے ایسا کیا شیطان ضرور اُن کے لئے خدا بن بیٹھا  پر تو بھی ہماری رائے کی تائید مین الہام کا نزول  اس امر کے افشا کے واسطے  ہوا کہ آدم اپنے گناہوں  سے کیونکہ رہائی پاسکتا ہے۔ اور سچ مش اسی بھید کے کھولنے  کی خدا کو ضرورت تھی کہ آدم انجیر کے پتوں کی لنگیوں سے اپنی شرم کو نہیں چھپا سکتا بلکہ چمڑے  لالباس درکار ہے۔ بغیر لہو بہائے گناہوں کی معافی نہیں  ہاں الہام نے ہمکو صاف بتایا کہ جب تک پہلا خیمہ کھڑا رہا پاکزپن مکان کی راہ نہ کھُلی تھی وہ خیمہ اس وقت تک ایک مثال ہے جس  جس میں نزریں اور قربانیاں گزرانتے  جو عبادت کرنے والیکو دل کی نسبت کامل نہین کر سکتی کہ وے صرف  کھانے  پینے  اور طرح طرح  کے غسلوں کے ساتھ جو جسمانی  رسم ہیں اصلاح کے وقت تک مقرر  تھیں پر جب مسیح آنیوالی  نعمتوں کا سردار کاہن  ہو یا تو بزرگ تر اور کامل تر خیمے کی راہ سے جو ہاتھوں کا بنا نہیں یعنے اس خلقت  کا نہیں نہ بکروں نہ بچھڑوں کا لہُو لے کے بلکہ اپنا ہی لہُو لے کے پاکترین مکان میں ایک بار  داخل  ہوا کہ اُس نے ہمارے لئے ہمیشہ کی خلاصی  کی عبرانی  ۹: ۸۔ ۱۲ تک خلاصہ یہ ہے کہ الہام  کی ضرورت یہ تھی کہ گنہگار انسان نجات کیونکر پا سکتا ہے توحید  اور تثلیث  کا بیان الہام میں ہموزن اور برابر  اور ایک دوسری پر اسقدر  موقوف اور منحصر  ہے کہ ایک کو چھوڑیں تو محض  بت پرستی اور دوسری کو چھوڑیں تو محض  محمدی  توحید وہمی۔ خدا نے بڑی مہربانی کی کہ جس امر کے بغیر  ہم جہنم  کو جاتے وہ اُس نے ہم پر اگلے زمانہ میں نبیوں کے وسیلہ باپ دادوں سے بار بار اور طرح بطرح اور آخری  دنوں میں بیٹے کی موت کے وسیلہ کھول دیا۔ پس الہام کی ضرورت  کیوں؟  جواب بنی آدم  کی نجات اور بس۔

راقم ۔۔۔۔۔۔  کیدار ناتھَ