درس

اعمال ۱۷ باب، ۲۲۔ ۳۱  پر

Teaching

Book of Acts 17: 22,31

Published in Nur-i-Afshan April 20, 1894
By Rev. Kidarnath

تب پولس  اریوپگس کے بیچ کھرا ہو کے بولا۔ اے اتینیوالو میں دیکھتا ہوں۔ کہ تم  ہر صورت  سے دیوتوں کے بڑے پوجنے والے ہو۔ ۲۲ کیونکہ میں نے سیر کرتے  اور تمہارے معبودوں  پر نظر  کرتے ہوئے ایک قربان گاہ پائی جس پر یہ لکھا تھا۔ کہ نا معلوم  خدا کے لئے پس جسکو  تم  بےمعلوم کئے پوجتے ہو میں تم کو اُسی کی خبر دیتا ہوں ۲۳۔

ان پہلی دو آیتوں میں  رسول کے وعظ کی تمہید پائی جاتی ہے۔ یہ الہامی  تمہید  ایک عجیب دل کش تمہید ہے۔ رسول اس تمہید  کو ایسی سنجیدگی کے ساتھ بیان کرتا ہے۔  کہ سنُنّےوالوں کے خیالات خواہ وہ کیسے ہی پر اگندہ  کیوں  نہوں فوراً مقناطیسی  کشش کی مانند کنھچکر  دل و جان  سےسنُنّے کے واسطے مرکز بن جائیں۔ اور جوکچھ وہ بیان کرنا چاہتا  ہے وہ سامعین کی موجودہ  حالت  پر بخوبی اثر پزیر  ہو۔ ایسی تمہید نہ صرف  بیان کرنے والے کی قوت بیانیہ کو وسعت بخشتی ہے۔ بلکہ سامعین کو بھی طیار کرتی ہے۔  کہ وہ تہ دل سے سنُنّے کو مخاطب ہوں۔ تمہید کی دوسری  آیت کے درمیانی حصہ میں رسول وہ جملہ استعمال کرتا ہے جو کہ اسُ  کے وعظ کا موضوع ہے اوروہ  جملہ رسول نہ اپنی طرف سے پیش کرتا ہے۔بلکہ اُنہیں کے قربان گاہ کے کتابہ کو  اقتباس  کر کے اُس کی اصلیت کی طرف اُن  کو رجوع  کرتا ہے یعنے

’’نامعلوم  خدا کے لئے‘‘

یہ دستور ہمارے ہندوستانی بت پرستوں میں بھی رائج ہے۔کہ جب وہ سارے جانے ہوئے دیوی دیوتاؤں  کو پاجا پاچڑ  ھا لیتے ہیں۔ تب بھولے ہوئے دیوتا کے نام پر بھی چڑھاتے ہیں۔ محمدی فرقہ بھی باوجود  یکہ ایک خدا پر بہت زور دیتا ہے۔ اسی بھول بُھلیاّں میں پڑ کر  خداکے اِسم اعظم سے ناواقف ہے۔ اور شب برات  میں جب نام بنام فاتحہ خوانی ہو چکتی ہے۔ تب وہ بھی ہندؤوں کی تقلید پر انجانے  ہوئے کے نام پر فاتحہ پڑھتے  ہیں۔ پس کچھ شک نہیں کہ اتینیوں میں بھی ایک ایسی قربانگاہ ہو۔ جو نامعلوم خدا کے لئے اُن کے درمیان قایم ہوئی۔

یہاں کس قدر مشکل ہے تو صرف اس بات میں۔ کہ اُسی خدا اور نامعلوم خدا میں کیونکر طبیق ہو سکتی  ہے۔ اور کہ اتینیوں  کےنامعلوم خدا کی بابت رسول  کایہ دعویٰ۔ کہ میں تمہیں اُسی خدا کی خبر دیتا ہوں۔ کہاں تک واجب  اور واقعی معلوم ہوتا ہے۔ لیکن یہ مشکل اِس طور سے حل ہو جاتی ہے۔ کہ دنیا کے حالات  اور مختلف اقوام  کی تواریخ  پر نظر کتنیسے ایک ایسی ہستی کا وجود ضرور چابت ہوتا ہے۔ جس کا کم سے کم وحشی اقوام  میں بھی کسی نہ کسی طور پر  خیال پایا جاتا ہے۔  اور نیز اُس کی اُن صفتوں پر جن کی طرف خود رسول۔ اپنے وعظ میں اشارہ دیتا ہے اور خاصکر  خط  رومیوں کے ۱۔ ۱۹ ، ۲۰ آیت میں قایل کرنے والی دلیل کی صورت  میں بیان ہوا ہے۔ سخت بت پرست بھی  اقرار کرتا ہے۔  اور وہ اقرار نہ کسی منطقی دلیل یا فلسفی  وجوہ پر بلکہ ہر ایک شخص کے ضمیر اور حواس  خمسہ کی بنیاد پر موقوف ہے۔  اگر ممکن  ہوتا  تو کسی دہریہ کے دل کو چیر کر دکھا دیتے۔ کہ اُس نامعلوم خدا کی بابت اُس  کی زبانی نہیں نہیں  اُس کی باطنی ہاں ہاں  پر کس قدر زور دیتی ہے۔ الہامی  کتابوں کے سلسلہ میں آستر کی کتاب جو طومار نیچر۔ یا اوراق فطرت کا ایک حّصہ  ہے۔ ہم کو صاف بتا دیتی ہے۔ کہ وہی جس کا نام اس کتاب میں نہیں۔ ’’ خلاصی اور یہودیوں  کے واسطے نجات دوسری طرفسے طلوع کریگا‘‘۔ آستر ۴۔۱۴ اور جیسا کہ خود خدا نے  موسیٰ سے فرمایا۔ کہ میں وہ ہوں جو میں ہوں۔ اور وہ جو ہے ۔  خروج  ۳ باب ۔  ۱۴، ۱۵ آیت۔ پس صاف ظاہر  ہے ۔ کہ پولس اُسی خدا کی منادی کرتا  تھا۔ جو خاص طور سے یہودیوں کا۔ اور عام طور سے تمام جہان کا خلاصی اور نجات دہندہ ہے۔  گو دنیا کے لوگ اُس سے ناواقف رہیں۔ کیونکہ ہمارے خداوند نے دنیا  میں سے اُنہیں آدمیوں پر خدا کے نام کو ظاہر  کیا جو اُسے دئے گئے۔ یوحنا ۱۷ ۔ ۱۶۔ پس اس دلیل سے بھی  ثابت ہوا۔ کہ نا معلوم  خدا وہی خدا ہے۔ جس کو مسیح اپنا باپ کہتا  ہے۔ اور کہ وہ دنیا کے لوگوں  پر نامعلوم ہے ۔ ۲۴ آیت۔

’’ خدا۔ جس نے دنیا  اور سب کچھ  جو اُس  میں ہے پیدا کیا۔ جس حال میں کہ وہ آسمان و زمین کا مالک ہے ہاتھ کی بنائی ہوئی ہیکلوں میں نہیں رہتا۔‘‘

یہاں رسول کدا کی لا محدودی پر حوالہ دیکر ثابت کرتا ہے۔  کہ وہ جو خاص جگہ میں رہتا۔ خدا نہیں  ہو سکتا اور دو لا محدود  ہستیوں کا ہونا عقلاً  محال ہے۔ پس نا معلوم  خدا کے سوا اور جتنے  خدا ہیں۔  وہ خدا نہیں ہیں۔ کیونکہ اول تو محدود  ہیں ۔  دویم لا محدود۔ ایک سے زیادہ ممکن  نہیں ۲۵۔ آیت میں ہے۔ کہ ’’ نہ  آدمیوں سے خدمت لیتا  گویا کہ کسی چیز کا محتاج ہے۔  کیونکہ وہ تو آپ سب  کو زندگی اور سانس اور سب کچھ بخشتا  ہے۔ ‘‘ اس بیان سے بتوں کی محتاجی پر زور دیکر  اُن کی اُلوہیت کو ردکرتا ہے۔ اور خدا کی بخششوں  کا زکر کر کے صاف ظاہر کرتا ہے۔ کہ دیوتاؤں میں یہ صفت پائی جاتی ۔ پس وہ اپنے پوجاریوں  کو کچھ  دے نہیں سکتے۔ 

۲۶ ویں آیت میں ہے۔ کہ ’’ اور ایک ہی لہو سے آدمیوں کی سب قوم تمام زمین کی سطح پر بسنے کے لئے پیدا کی۔ اور مقرر وقتوں اور اُن کی سکونت کی حدوں کی ٹھہرایا۔

اس میں کئی باتیں ہیں۔

اول زمین کی تمام مخلوقسے اعلیٰ  مخلوق آدمیوں کی سبقوم کی نسبت بتایا جاتا ہے کہ خدا نے ایک ہی لہو سے بنایا۔  پس یہ خیال  کہ زات میں اونچائی اور نچائی ہے ایک اعلیٰ ہے اور دوسرا ادنی  ٰ  ۔ یہ خدا کی طرف سے نہیں۔  بلکہ آدمیوں کی بناوت ہے۔

دوم۔ کہ اس سے خدا کی عجیب قدرت بھی ظاہر ہوتی ہے۔ کہ باوجودیکہ  سب ایک ہی لہو سے بنائے گئے ہیں۔  تو بھی ایک  دوسرے سے صورت میں مختلف  ہیں۔

سوم۔  کہ خدا کی دانائی اور اُس  کی عالم  الغیبی۔ اور ازلی تقدیریں ایسی لازم و ملزوم ہیں۔ کہ بغیر ان کو خدا میں مانے ہوئے ہم کو اطمینان  نہیں ہوتا۔ کہ دنیا کے سارے واقعات  نہ اتفاقی۔ بلکہ اُسی لا محدودہستی کے ٹھہرائے ہوئے ارادہ  کے موافق  ہوتے ہیں۔ لیکن دیوتاؤں کے پوجاری  ان باتوں سے محض بے خبر اپنیہی کاریگری  کو کہتے ہیں کہ تم ہمارے خدا ہو۔

۶۷ ویں۔ آیت میں ہی۔ کہ ’’خداوند کو ڈہونڈھیں  شاید کہ ٹٹول کر اُسے پاویں۔ اگرچہ وہ ہم میں کسی سے دور نہیں‘‘۔

اس آیت میں رسول ثابت  کرتا ہے۔ کہ نامعلوم خدا  جس کی خبر میں  تم کو دیتا ہوں مادّی  نہیں ہے۔ یہاں تک کہ وہ ہر طرح کے مادّہ سے خواہ کثیف ہو۔ خواہ لطیف۔ جن کو ہم حواس ظاہری یا باطنی سے چھو سکتے ہوں علیحدہ ہو۔  یہاں ٹٹولنے کالفظ  وارد ہے۔ اس طرز پر ہمارے خداوند  نے اپنے جی اُٹھنے  کے بعد جب کہ شاگرد گھبرا کے اور خوف سے خیال کرتے تھے۔ کہ کسی روح کو دیکھتے ہیں۔ استدلال کیا کہ ’’میری ہاتھ  پانؤں کو دیکھو۔  کہ مین ہی ہو۔ اور مجھے چھوؤ  اور دیکھو۔ کیونکہ روح کو جسم اور ہڈی نہیں  جیسا مجھ میں  دیکھتے ہو‘‘۔ لوقا ۲۴۔ ۳۹۔  پہر یہ کہ ’’ وہ ہم میں کسی سے دور نہیں ‘‘ اگرچہ اس جملہ سے خدا ی ہمہ  جا  حاضری صاف طور پر ظاہر ہوتی ہے۔لیکن اُس سے بڑھکر یہ بتایا جاتا ہے۔ جیسا کہ ۲۸ آیت میں  ہے۔ کہ ’’اُسی  سے ہم جیتے ۔ اور چلتے  پھرتے۔ اور موجود ہیں۔ ‘‘ یعنے خدا کی ہر جا حاضری۔ اور سب کے ساتھ موجودگی اس لئے اور بھی ضروری ہے۔ کہ ہمارا ہستی میں رہنا اور چلنا بھر نا صرف خدا پر موقوف  ہے۔ پس بعض نادانوں کا یہ خیال۔ کہ خدا نے خلقت  میں ایک مشین بنا دی ہے۔ کہ وہ  ازخود چلی جاتی ہے۔ خدا کے حاضر و ناظر  ہونے کی کچھ ضرورت  نہیں۔ غلط ثابت ہوتا ہے۔ اسی آیت میں رسول اُن کے ایک شاعر  کا قول نقل کرتا ہے۔  کہ ’’ہم  تو اُسی کی نسل ہیں‘‘۔ معلوم ہوتا ہے  کہ رسول نے یہ فقرہ قلقیؔہ کے شا عر مسمی اراتس کی تصنیف سے اقتباس کیا ہے۔۲۹ آیت میں اس فقرہ  سے غیرت  دلا نیوالا نتیجہ ظاہر کیا جاتا ہے۔ کہ ’’پس خدا  کی نسل ہو کے ہمیں مناسب  نہیں۔ کہ یہ خیال کریں۔  کہ خدا سونے روپے یا پتھر کی مانند ہے جو آدمی کے ہنر اور تدبیر  سے گھڑہے گئے۔‘‘

اب ۳۰ ویں آیت میں رسول بہت گہری نیو کھودنے  کے بعد جس میں بیان ہوا ہے۔ کہ ’’ غرض خدا جہالت کے وقتوں سے طرح وے کے اب  سب آدمیوں  کو ہر جگہ  حکم دیتا  ہے۔

کہ توبہ کریں‘‘ ایک ایسے پتھر کی  جو کونے کا سرا ہے۔ اور جسے معماروں نے در کردیا۔ بنیاد ڈالتا ہے۔ جو اُس کے تمہید ی بیان میں نامعلوم خدا کہلاتا ہے۔ مگر  ساتھ ہی اس کے رسول کا  طرزخاتمہ بھی عمیق نظر سے دیکھنے کے قابل ہے۔ کہ جس ھالت میں۔ کہ  وہ  اریوپگس کی عدالت گاہ میں وعظ  کرتا تھا۔ بہ نظر  سنجیدگی اور مناسبت مقام عدالت کا  زکر  کرنے لگا۔ اور اس  سے بڑھکر یہ بات بھی۔ کہ بیان کا سلسلہ خود  ہم کو یہاں پہنچاتا ہے۔ تاکہ ظاہر  ہو جاوے۔ کہ ایسے بیہودہ کام کرنیوالے کیونکر اُس عدالت سے بچ نکلیں  گے۔ جس کا بیان ۳۱ آیت میں یوں ہوتا ہے۔ کہ اُس نے ایکدن ٹھہرایا ہے۔ جس میں وہ راستی سے دنیا  کی عدالت کرے گا۔ اُس آدمی کی معرفت  جسے اُس نے مقرر کیا۔  اور اُسے مرُدوں میں سے اُٹھاکے یہ بات سب پر ثابت کی۔ کہ جس نےگنہگاروں کےواسطے اپنی جان دی وہ اس لایق ہے۔ کہ زندوں اور مرُدوں کی عدالت کرے۔  آمین۔  کیدار ناتھ