Göreme

 

روحانی سردار ی نبوت در نبی اسرائیل یا نبی اسمٰعیل

Spiritual Leader: Ishmael or Isaac?

Published in Nur-i-Afshan July 23, 1897

مسلمان علماء میں یہ امر مسلم مانا ہوا ہے کہ روحانی سرداری نبوت کی بنی اسرائیل کے خاندان سے منتقل ہو کر ہمیشہ کے لئے بنی اسمعیٰل کے گھرانے میں آگئی ہے۔ اِسکے ثبوت ہی دعویٰ پیش کیا جاتا ہے۔ مگر عادت چلی کے مطابق دعویٰ بلا شہادت پیش کیا جاتا ہے اور اگر کتب مقدسہ کی کوئی آیت پیش کیجاتی ہے تو اُسکے آگے پیچھے کے تعلقات کو نہ دیکھ کر اِس جہالت کا اظہار کرتے ہیں وہ کتب مقدسہ کے مطالعہ سے بالکل بے بہرہ ہیں مگر سوال لازم آتا ہے کہ اہل اسلام کتب مقدسہ کے حوالے محمد صاحب کے مصداق رسالت بننےّ کے لیے کیوں دیتے اِسکی وجہ یہی معلوم ہوتی ہے کہ کتب مقدسہ کا تسلیم کرنا قرآن کے مطابق ضروری انر ہے مگر اشائے بحث جب محمدی رسالت محمد کو ازروئے کتب مقدسہ پایہ ثبوت کو نہ پہنُچا سکتے تھے تو فی الفور اُنکا منسوخ یا محرف ہونا بتا دتے تھے اور کبھی یہ خیال نہ کرتے تھے کہ اگر محمد صاحب کی رسالت واقعی مبنی بر دعویٰ بلا دلیل نہ ہو تو پھر اُس دعوے کو قدم رکھنے جگہ کی بھی نہیں اسلئے محمدی علماء نے اس امر کو دیکھ بھال کر شروع ہی سے توریت و انجیل کا چند حوالہ دیتے آتے ہیں جو اُنکے گمان کے موافق محمد صاحب کی طرف اشارہ کرتی ہے اِس لئے ایک امر کا تصفیہ تو بخوبی ہو سکتا ہے کہ محمدیوں میں علماء کا توریت و انجیل کی آیات میں رسالت محمد کا حوالہ ڈھونڈھتے چلا آنا یہ امر ثابت کرتا ہے کہ اُنکی نظر میں یہ کتابیں ہر گز منسوخ یا محرف نہوئیں اور اگر تغیر و تبدیل یا تصاحف کی گئیں تو بھی اِس جہت سے اُنہیں محمد صاحب کی رسالت کی کوئی خبر نہ پائی گئی اور اگر برقرار بدستور رہین تو اظہر من الشمس ہے کہ محمد صاحب کی رسالت کی خبر اُنکے خیال کے بموجب اُن کتابوں سے نکلنی چاہئے کیونکہ اُنکی نظر میں محمد صاحب آخر الزمان نبی ہیں۔ اب اگر موجودہ تعلیم یافتہ مسلمان تعصب کو دور رکھ کر اور انصاف کی نظر سے محمد صاحب کی رسالت کو کتب مقدسہ میں ڈھونڈیں اور اُس کی خبر نہ پاویں تو مناسب ہے کہ وہ دائرہ محمدیت سے نگل کر دائرہ عیسویت میں آویں کیونکہ کتب مقدسہ کا خاتمہ اور اُن کی تکمیل مسیح ناصری ہے نہ محمد عربی ڈاکڑ فنڈر صاحب نے اپنی کتاب میزان الحق میں اُن حوالوں پر بحث کی ہے جو اہل اسلام محمد صاحب کی رسالت کے بارہ میں پیش کرتے آئے ہیں۔ اور اُنہی کتابوں کے زریعہ سے صاف صاف طاہر کیا ہے کہ وہ آیات مذکور متنازعہ کیسطرح محمد صاحب کی طرف اشارہ نہیں کرتیں۔ جو چاہے اِس کتاب کو لیکر متنازعہ آیات کا مطالعہ کر کے اپنی تسکین کر لے۔ ہم صرف اُس دعویکی نسبت گفتگو کرینگے جوموعودہ نبی کا زکر موسیٰ کی پانچویں کتاب کے ۱۸ باب کی ۱۵، ۱۸ آیات میں ہے کہ آیا وہ نبی اسرائیل سے ہو گا یا بنی اسمعٰیل سے۔ مناسب ہے کہ ہم وہ کل کیفیات جو اسمعٰیل کے متعلق عہد عتیق میں پائی جاتی ہیں ناظرین کے سامنے پیش کریں تاکہ بخوبی اشکارا ہو جا‍‍ؤے کہ اُس معمودہ وعدہ کے متعلق جو جل شاثہ نے ابراہیم اور اُس کے خاندان کی نسبت ارشاد فرمایا اُس میں اسمعٰیل کا کیا حصہ ہے۔ 

واضح رہے کہ موسیٰ کی پہلی کتااب یعنی پیدایش جسکا سر نامہ اصل زبان میں پڑے مشیت ہے اُس کی غرض یہ ہے کہ وہ علاوہ ابتدائے دنیا و بنی آدم کا زکر کر نیکے اُن آلہی مجوزہ انتظاموں کا بھی زکر کرتی ہے جن کی طفیل بار تیعالی نے اپنی بادشاہت کی بنیاد کو انسان اور دنیا کے درمیان قائیم کیا۔ اِس کتاب کا بیان دنیا کے خلق ہونیسے شروع ہوتا ہےکیونکہ واقعی خدا نے اپنی سلطنت کو مکان و زبان ہی میں قایم کیا اِسلئے خلقت کا زکر موزوں طور پر اول آیا جس میں اُس احکم الحاکمین نے نہ صرف اپنی نادیدنی زات ہی کا انکشاف فرمایا بلکہ اپنی محمبت کا بھی اظہار کیا۔ اوّل دنیا کو خلق کیا تاکہ وہ زیر حکومت خدا کے آجاوے اُس میں ایک مکان خاص اِنسان کی بودو باش کے لئے تیار کیا اور اِنسان کو اپنی صورت پر بنایا دنیا کا تواریخی حال اور خدا کی سلطنت آیندہ اُسی کے کارنامہ سے شروع ہوتی ہے اُس کی عہد شکنی سے تمام معصیت و لعنت میں گرفتار ہوتی ہے اُس کی مخلصی سے فصل کے عہد میں آنیکی جہت سے نہ صرف اسمان و زمین بحال کئے جاوینگے بلکہ جلال پا جاوینگے ( مکاشفات ۲۱: ۱) گناہ کے آنے سے انسان خدا سے جدا اور مورد سزا ہوا مگر کدا نے اپنی بے بہار حمت سے اپنا تعلق انسان سے مطلق نظر انداز نہ کیا نہ صرف اُس نے فتوئے سزا کے بعد بوجہہ احسن انسان کی مخلصی کی بشارت دی بلکہ عملاً اُسوقت وہ متواتر اپنا الہام دیتا چلا آیا تاکہ بنی نوع اِنسان کو اپنی جانب رجوع کرے اور گمراہی و ضلالت سے راہ ہدایت و نجات پر لاوے اور اُس کے کُل طریقہ افعال کا اظہار اصل میں واقعات نجات کے تعلق بنی اِنسان کی تواریخی بڑھاؤ و ترقی کا بیان ہے۔ پیدایش کی کتاب اِسکا بیان شروع سے لیکر زمانہ اسلاف تک جنکو کل دنیا کے لئے خدا نے نجات کا پیغام شاکر چُن لیا چندے بالتوضیح مرتب کرتی ہے۔ یہ بیان تین حصوں میں منقسم ہو اول ابتدائی زمانہ جو آدم سے نوح تک کا وقت ہے ثانی تیاری کا زمانہ یا زمانہ تمحید جو نوح سے ابراہیم کے والد تارہ تک زمانہ ہے جس میں اُس عہد کا زکر ہے جو نوع وے باندھا گیا اور نیز برکتوں و لعنتوں کا زکر بھی پایا جاتا ہے ۔ تیرا زمانہ زمانۂ اِسلاف کہلاتاا ہے جسمیں ابراہیم و اسحاق ع یعقوب کا مفضل بیان ہے۔ یہ وہ خاندان تھا جسکو خدا نے اپنی شیت ایزوی کیا اپنی اُمت منتخب کیا۔ ابراہیم کی آلہی دعوت سے لیکر یوسف کی وفات تک اُسکا بیان ہے (دیکھو ۱۱: ۱ ۔ ۲۷) کُل انسانی تواریخ کا لب لباب اسی تواریخی و انتخابی خاندان میں پایا جاتا ہے اسی کے تعلق عہد قول و قرار ہایا جو بتدریج بوجہہ احسن زمانہ کے دور میں وسعت پاتا گیا یعنی کہ خدا اِس قوم کو اپنے ایفائے وعدہ میں ایک بڑی اُمت بناویگا حتی کہ دیگر اقوام بھی اُس میں برکت پاوینگے اور کہ ملک کنعان ہمیشہ کے لئے اُسے ملُک وراثت عطا ہو گا۔ الغرض کہ پیدایش کی کتاب کی خاص مدعایہ ہئ کہ وہ خدا کی اولی مقرر شدہ بادشاہت کا زکر کرے۔ اسی اثناء میں ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ بمقتضائے قانون انسانی بڑھاؤایک متعدد خاندان سے کئی ایک قبیلے بلکہ رفتہ رفتہ ایک مجموعہ قومونکا کیونکر بنگیا۔ مگر یہ کتاب اس میں یہ بھی دکھلاتی ہے کہ خدا نے اپنے انتظام حکومت میں قانون تفریق کو بھی جاری رکھا ہے ناپاکوں اور گمراہوں کو اُنسے جو راہ حق پر اور خدا ترس تھے جدا طبقہ میں رکھا ہے تاکہ ایک پاکیزہ نسلکُل بنی انسان میں سے نجات کے کام کے لئے محفوظ رکھے۔ اسی وجہ سے نسب ناموں پر زور دیا ہوا ہے تاکہ قانون بڑھاؤ اور نظم و ضبط کے ساتھ خاندانوں کی تفریق بندی بھی ہوتی جاوے۔ چنانچہ اس تفریق بندی کے لحاظ سے یہ کتاب مختلف نسب ناموں کے بیان کرنے میں یوں شروع کرتی ہے کہ یہ تو لد نامے یا پشتیں الخ۔ اِس کتاب میں اِس قسم کےنسب ناموں کے مجموعے دس پائے جاتے ہیں جس میں سم کے نسب نامہ کی تفریق بالخصوص دکھائی گئی ہے کیونکہ اُسی کے خاندان کو خدا نے چُن لیا۔ تاکہ وہ اُس کے اعلان دوحی کے محافظ ہوں۔ سم کے خاندان کی تعلیم اور تیاری کے لئے اُسکا ابتدائی بندوبست ابراہیم کی الہی دعوت سے شروع ہوتا ہے جس میں ابراہیم کے خاندان اسحٰق و یعقوب و اُسکی اولاد کی احتیاطاً جز گیری کی جاتی ہے اور اُنکو فضل کے وعدے عنایت ہوتے ہیں اِس خاندان کی تفریق بندی بھی خوب طاہر کیجاتی ہے اور طرفہ تریہ ہے جن باقی خاندانوں سے وہ جُدا کیا گیا اُنکا پہلے زکر کیا جاتا ہے اور بعد کو اُس مخصوص خاندان کا چنانچہ پہلے قائن کا نسب نامہ ظاہر کیا گیا ہے اور بعد کو سیتھ کا اور اسی طرح نوح کے بعد پہلے ھام و یافت کا اور بعد کو سم کا بیان ہے اِسی طرح ابراہیم بعد پہلے اسمعٰیل و عیسو کا اور بعد کو یعقوب و اسحاٰق کا زکر پایا جاتا ہے۔ اِس سے اول یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس کتاب کا لکھنے والا ایک ہی شخص ہے جو واقعات کا پابند ہو کر اُنکا باتدبیر زکر کرتا ہے اور یہ بھی کہ لکھتے وقت اُسکی ہدایت کرنیوالاخدا ئے عزوجل ہے تاکہ اُس کو غلطی و مسہوسے محفوظ رکھے ۔ اب ہم اپنے خاص مضمون کی طرف مخاطب ہوتے ہیں جو کچھ یہاں تک بیان ہوا وہ اِس امر کے ظاہر کرنیکے لئے ہوا ہے کہ کتب مقدسہ کے طریقہ مطالعہ سے کس طرح اُنکے مقاصد و نمایات دریافت ہوں۔ ہم نے یہ دکھلایا کہ خدا نے اپنی برگزیدہ قوم کی بنیاد ابراہیم کی آلہی دعوت پر رکھی ہے اور کہ کس طرح خدا نے اپنے اعلان و وحی کے زریعہ سے اُسی خاندان میں مخصوص رکھا ہے اور باقی خاندانوں کو اُنکی اپنی نفسانی خواہشوں پر چھوڑ دیا ہے ہے تاکہ وہ بھی اِس امر کے شاہد ہوں کہ بدوں خدا کی زندہ شراکت حاصل کرنے اور اُس کے فضل کے تحت میں آنیکے سلامتی اور برکت عظمٰی حاصل نہیں ہو سکتی۔ اور حضرت ابراہیم کو بھی آلہی دعوت اسلئے ہوئی کہ اُس میں آیندہ تمام قومیں برکت پاویں ۔ ( ۱۲: ۱ ۔ ۳) ابراہیمی سلسلہ دور مانی اُسی کے گھرانے سے شروع ہوتا ہے اُسی میں تین مراتب ہیں جو تین بزرگوں کے نام سے منسوب ہیں یعنے ابراہیم و اسحٰق و یعقوب اور پھر یعقوب کے بارہ بیٹے منتخب قوم کے باپ قرار دیئے جاتے ہیں اِس خاندان میں نبوّت مرتبہ وعدہ اقدس اور برکت عظمیٰ رکھتی ہے چنانچہ جو وعدے اِس خاندان سے ہوئے اُنکا یفا بھی ہوتا چلا آیا ہے جس کے دو جملے تھے ایک تو اُنکی اپنی تواریخ سے تعلق رکھتا تھا جو ظاہر وحی تھا اور دوسرا آیندہ پر اشارہ کرتا ہے جو باطنی یار وحانی ہے۔ چنانچہ اُنکے اپنے مذہب کی بنیاد اُنکا ایمان تھا نہ اعمال ابراہیم کے ایمان نے عمل میں ظہور پکڑا۔ اسحٰق کے ایمان نے دُکھ جھیلے اور مصائب کا سامنا کیا۔ یعقوب کے ایمان نے دکُھوں اور مزاحمتوں کا مقابلہ کیااورغالب ہوا۔ الغرض کیا بزرگان دین فضل کی حکومت میں پائے گئے تاکہ باقی اقوام کا فضل کے تحت میں آنیکا نمونہ بنیں۔ مگر غور طلب یہ بات ہے کہ جب خدا نے ابراہیم کو سم کے خاندان میں سے چُن لیا تو اُسی کی زات و نفس پر انتخاب کو مخصوص نہیں کیا بلکہ آیندہ بھی اُس کی نسل کو انتخاب کیا جو برکت عظمیٰ اور وعدہ سے مستفیض ہو چنانچہ اِسمعیل کو جو اُس کی لونڈی سے ستول ہوا خارج کیا اور سرہ و ابراہیم کو ایک معمورہ بیٹا بخشنے کے زریعہ سے اُسنے اِس بات کو بھی ظاہر کیا کہ وہ کونسی نسل ہو گی جس کے زریعہ تمام قومیں بر کت پاوینگی ۔ یہ سلسلہ انتخاب ایک طرح سے شروع ہی سے چلا آیا اور آیندہ بھی جاری رہا ہے چنانچہ جیسے اسمعیٰل کا رد کرنا اور اسحٰق کا منظور کرنا پایا جاتا ہے اُسی طرح عیسو کا رد کرنا اور یعقوب کا چُن لینا بھی۔ 

اِسمعیٰل کی پیدایش کا زکر پندر باب میں پایا جاتا ہے۔ اسِ باب کو پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ابراہیم و سرہ کو فرزند بخشنے کے وعدہ آلہی کے دس برس بعد جب وہ کنعان میں وارد ہو چُکے تھے اور اُنکو تکمیل وعدہ کی صورت تاحال نہیں نظر آتی تھی تو سرہ نے حسب رضامندی خود ایک مصری لونڈی ہاجرہ نامی اپنے شوہر کے سپرد کی تاکہ اُسکے زریعہ ابراہیمی خانوادہ جاری رہے( ۳۰: ۳) ابراہیم نے سرہ کی تجویز کو منظور کر لیا اس فام خیال پر کہ موعودہ نسل قایم کرے ( دیکھو ملاکی ۱۲: ۱۵) مگر خدا نے اُس کی نفسانی خواہش کو اپنے عہد عظمیٰ کے تعلق پورا نہہونے دیا باب ۱۶۔ سرہ اور ہاجرہ کے درمیان نفاق پڑ گا۔ہاجرہ اسور یعنے عرب کے مغربی شمالی ریگستانی کی طرف چلی گئے وہاں خدا کا فرشتہ ایک کنوئے کے پاساُسے ملا اور صلاح خیر دی کہ وہ اپنی مالکہ کے پاس واپس جاوے اور اُس کی اطاعت قبول کرے اور چونکہ وہ حاملہ تھی اُس آیندہ فرزند کا بھی زکر کیا فرمایا کہ اُس کی اولاد شمار میں بہت ہو اور تو اُس کا نام اسمعیٰل رکھنا اور وہ ایک وحشی آدمی ہو گا اُس کا ہاتھ سب کے اور سب کے ہاتھ اُس کے برخلاف ہوںگے۔ یہ عزت ہاجرہ کی ابراہیم کی وجہ سے کی گئی کیونکر ابراہیم سے نہ صرف خصوصاً روحانی نسل عطا کرنیکا وعدہ فرمایا گیا بلکہ عموماً جسمانی نسل کا بھی چنانچہ اسمعیٰل کی نسلوں کا جو بیدوا کہلاتا ہیں ( یعنے بّدو) حال ہی اور وہ اپنے سب بھائیوں کے سامنے بودو باش کرے گا اُس کی تشریح کے لئے دیکھو ۲۵: ۱۸۔۱ ابراہیم کی چھیاسی برس کی عمر میں ہاجرہ کے لڑکا پیدا ہوا ابتک ابراہیم کو یہی خیال تھا موعودہ لرکا یہی ہے۔ ننانوے برس کی عمر میں خدا پھر ابراہیم پر ظاہر ہوا یعنے اُسوقت جب اسمعٰیل تیرہبرس کا ہو گیا۔ اور یوں خطاب کیا کہ میں الشؔدائی یعنے خدائے قادر ہوں تو میرے حضور میں چل اور کامل ہو اور میں اپنے اور تیرے درمیان عہد کرتا ہوں وغیرہ ( باب ۱۷) جس میں پہلے قومونکا زکر کر کے جنکا وہ باپ ہوگا وہ مخصوص عہد کرتا ہے جو ہمیشہ کا عہد اُس کی نسل کے درمیان پشت در پشت ہوگا۔ علامات عہد بھی مقرر ہوئے اور موعودہ نسلکا عہد سرہ کے تعلق کیا گیا اور اُس کا نام بھی سری سے سرہ رکھا گیا کیونکہ وہ قوموں کی ماں ہو گی تقاضائے بشریت کے بموجب ابراہیم کی یہ درخواست بھی ہوئی کہ اسمعٰیل بھی خدا کے سامنے ہمیشہ رہے مگر چونکہ عہد عظیم کا تعلق اسحٰق سے تھانہ کہ اسمعٰیل سے لہذا اِس عہد میں اُسکا کچھ بھی حصہ نہوا مگر اُس کو بھی خدا نے ابراہیم کی خاطر برومدن کیا حتی کہ وہ بارہ بادشاہوں کا سردار بنا۔ ۱۶ آیت سے صاف طاہر ہے کہ قوموں کی ماں میں اور ملکوں کے بادشاہوں میں اسمعٰیلی قبیلے شامل نہیں ہین اور نہ وہ مدیانی قبیلے جو قتورہ کے بیٹوں سے ہوئے باب ۲۵ میں محض اسحٰق کی نسل عہد فضل میں شامل ہے جیسا آیندہ بھی مصہودہ وعدہ میں اسحٰق کے دونوں توام بیٹے یعنے عیسو اور یعقوب شامل نہیں تھے مگر صرف یعقوب اور جسکے بارہ بیٹے سے اِسرائیلی قوم قائیم ہوئی ( دیکھو خروج ۶ باب اور ۲۰ سے ۲۴ باب تک) ( رومیوں ۴: ۱۱، ۱۲، ۱۶، ۱۷ آیات) علاوہ بریں علامات کے تعلق ختنے کا نشان صرف اُسی کی نسل میں محداد نہ تھا بلکہ اُس کو حکم ہپوا کہ اُسکے گھر کے تمام لوگ خویش و غیر محنتون کئے جاویں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ شروع ہی سے خدائے برحق کے ارادے میں یہ تھا کہ غیر قومیں بھی اکر میں اُسکی برکات فضل میں شامل ہوں گی اِسی لحاظ سے خدا کے وعدو نمیں بھی دو جملے پائے جاتے ہیں۔ ابراہیم نہ صرف اپنی ہی خاص نسل کا باپ اور کنعان کا وارث ہوگا بلکہ اُسکی نسل کُل دُنیا کی وارث ہو گی (رومیوں ۶: ۱۳) اِسی طرح جو کچھ ابراہیم کی نسل نسبت اور ملک کنعان کی نسبت مراد ہے وہی عہد و عہد کی علامات کی نسبت ہے۔ ایک محدودی بلحاظ مکان و زمان+

جب اسحٰق وعدہ کے مطابق ( ۱۷: ۶) پیدا ہو ا اُسوقت اسمعٰیل نے ٹھٹھے مارنا شروع کیا ( ۲۱: ۹ ) یہ ننہا لاچار بچہ قوموں کا باپ ہو گا۔ یہ سب کچھ بغض و کینی و حسد کی وجہ سے اسمعٰیل سے ظاہر ہوا۔ اسمعٰیل کی یہ نفسانی کاروائی اُن اکثر نفسانی کاموں کا نمونہ ہے جو شروع سے نفسانی لوگ جنمیں محمدی لوگ بھی ہیں، خدا کی بادشاہت اور اُس کے برگزیدہ اسحٰق پر تصدیعہ آنے لگے۔ اِسی طرح کلیسیا کا آغاز ایک ادنیٰ تخم سے شروع ہوا۔ اِسی طرح مسیح کی پہلی امد خاکساری و عاجزی کے ساتھ ہوئی ۔ اِسی طرح نفسانی اسمعٰیل نے بر گزیدہ اسحٰق کا ٹھٹھا کیا مگر ابراہیم خدا سے ہدایت پاکر کہ اُس کی سہودی نسل اسحٰق سے ہو گی ( ۲۱: ۱۲) اُس نے ہاجرہ اور اُسکے بیٹے اسمعٰیل کو رخصت کر دیا اور وہ خدا کی پناہ سے جو سب کا مالک و حاکم ہے خاران کے جنگل میں جا بسا اور ایک وحشی آدمی و تیر انداز ہو گیا۔ اور ایک مصری عورت سے نکاح کر لیا اِسی طرح عیسو بھی جو خارج کیا گیا حالانکہ الوہیم کی پروردگاری ہیں تھا کنعانیوں سے ناطہ باندھ لیا۔ جو کچھ اسحٰق کے تعلق گزار دیکھو باب ۲۲۔ جس سے صاف عیاں کہ خدا کا عہد اُسی سے تھا ( دیکھو ۱۲: ۱۔ ۱۵، ۲۱) اور ۱۷ باب ۴،۶، ۱۶۔ آیات کہ ابراہیم اور اُس کی مہودی نسل کا تعلق ایمان کیا تھا اور انہیں کارناموں کے تعلق دیکھو متی ۱۰: ۳۷ؔ و لوقا ۱۴: ۲۶ؔ+

پھر کوہ ماریا پر اسحٰق کی قربانی کا واقعہ باقی شرعی قربانیوں کی طرف اشارہ کرتی ہے بلکہ اُن کی تشریح ہے کیونکہ وہ قربانی کی مرُاد کو ظاہر کرتی ہے۔ یوحنّا اصطباغی نے اِس قربانیکو مسیح پر صادق بتایا دیکھو خدا کے برّے کو جو جہان کے گناہ کو اُٹھا کر لیجاتا ہے۔ اُس میں کُل علامات قربای اصلی و حقیقی ظہور پکڑتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اِن کُل بیانات سے بکوبی مترشح ہے کہ روحانی سرداری نبّوت بنی اسرائیل کے خاندان سے ہر گز منتقل نہوئی بلکہ بدستور قائیم ہے اور اُس میں بنی اسمعٰیل کا کچھ حصّہ نہیں ہے۔ کیونکہ بار تیعالی نے معہودہ قوم کو ابراہیم اور اُس کے بیٹے اسحٰق سے چُن لیا۔ نبوّت اُسی کی اولاد مین جاری رہی حتیٰ کے مسیح میں اُسکا کاتمہ ہوا۔ چنانچہ قرآن بھی سورہ عنکبوت آیت ۲۶ میں اُسکی تصدیق کرتا ہے وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَجَعَلْنَا فِي ذُرِّيَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَالْكِتَابَ وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ۔ یعنی اور ہم نے اُن کو اسحٰق اور یعقوب بخشے اور اُن کی اولاد میں پیغمبری اور کتاب (مقرر) کر دی اور ان کو دنیا میں بھی اُن کا صلہ عنایت کیا اور وہ آخرت میں بھی نیک لوگوں میں ہوں گے ۔ اور پھر دیکھو تصدیق کے لئے سورہ جاثیہ ع ۱۶ دْ آتَيْنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ ۔ یعنی اور ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب اور حکم اور پیغمبری دی ہے ۔