خود غرضی

علامہ کدرناتھ

Selfishness

Published in Nur-i-Afshan December 19, 1889
By Rev. Kidarnath

عزیز دوستو!یہہ ایک عام قاعدہ ہے کہ خود غرضی انسان کو حق و باطل میں تمیز نہیں کرنے دیتی اور یہہ خود غرضی  دو قسم کی ہے۔ ایک دُنیاوی ۔ دوسری دینی۔

اوّل  جھوٹے مقدّمات بنانا جعل سازی کرنا و  دغا بازی  سے کسی کا مال ہضم کر لینا جھوٹی قسمیں کھانا حاکم  ہو کر کسی فریق کے لحاظ یا اپنے عہدہ کو قایم رکھنے کی غرض سے حق کو  ناحق  کر ڈالنا  وغیرہ۔ چنانچہ  پنطوس پلاطوس حاکم  کی خود غرضی اسی قسم کی تھی۔ دویم اپنی یا اپنے پیشوا  کی تعلیم کی بطالت نقلاً اور عقلاً ظاہر ہوجانے یا کسی خاص  تعلیم کی بناوٹ اور اپنے خیال  کی خامی معلوم  ہو جانے پر بھی  اکثر بڑے بڑے  سر گرم غیر تمندان مذہب کا سچّی  با ت  کو جھٹلانا  یا جھوٹی  بات کو سچ بنانا اور حقیقی ہادی کی جان تک کے خواہاں  ہوجانا۔ جیسے کہ آجکل ہندو محمّدی  اور سوائے اُنکے اور فریق  بھی اسی دینی خود غرضی میں شامل ہیں۔ لیکن اِن کو چھوڑ  کر اُس قوم پر لحاظ  کریں جو خدا کی قوم  ہے اور جو ابتدا سے مسیح کی تشریف آوری  تک خدا  کے عجیب انتظاموں کے وسیلہ پاک کلام کی امانتدار رہکر  مسیح سے پیشتر مسیح کی منادی  اور  تھی  اور شب و روز اُسکے ظہور کی انتظاری کرتی تھی۔ مگر تو بھی  یا انسانی کمزوری یا بار بار مصیبتیں جھیلنے  یا رومی حکومت  سے تنگ  آکر اپنے  ربیوں کی غلط فہمی سے خداوند  مسیح کی دنیوی  شان و شوکت  سے قبول کرنے پر تّیار ہورہی  تھی۔ اسی خود غرضی نے اُنکو منزل مقصود تک نہ پہنچنے  دی بلکہ اپنے ہی رہانندہ اور آرام دہندہ کو ایسے سخت عذاب سے مصلوب کرایا کہ اگر اُنہوں نے توبہ نکی ہو اور اُسی مصلوب پر ایمان نہ لائے ہوں تو سب سے پہلے وہی جنّہم کے وارث  ہونگے۔

چنانچہ آیات زیل پر غور  کرنے سے ہماری  دونوں تقسیموں کی صداقت ظاہر ہوتی ہے۔

انجیل یوحناّ ۱۹۔ باب ۱۵، ۱۶ ویں آیات ۔

پر وہ چلاّئے کہ لیجا لیجا اُسے صلیب دے۔ پلاطوس نے کہا ۔ کیا تمہا رے  بادشاہ کو صلیب  دوں؟  ۔ سردار کاہنوں نے جواب دیا کہ قیصر  کے سوا ہمارا کو ئی بادشاہ نہیں ہے۔

اِس پندرہویں آیت میں تین جملہ ہیں۔

پہلے میں یہودیوں کا جواب ۔ دوسرے  میں پلاطوس کا سوال۔ تیسرے  میں سردار کاہنوں  کا جواب۔

مگر پہلے جملہ میں یہودیوں کا جواب کسی سوال کو چاہتا ہے وہ چودھویں آیت میں موجود ہے۔ کہ دیکھو اپنا بادشاہ اب مطلب کھلُ گیا کہ پلاطوس نے یہودیوں سے کہا کہ دیکھو ؔ  اپنابادشاہ۔ غیر قوم بُت پرست حاکم تو مسیح کو  یہودیوں کا بادشاہ بناتا ہے جیسا کہ اُسنے کتابہ پر  بھی لکھا تھا اور اُسکے بدلنے میں یہودیوں کا کہا نمانا  مگر جو اپنے کو خدا کا برگزیدہ جانیں وہ خدا کے بیٹے کو رَد کر کے بت پرست قیصر کو اپنا بادشاہ  مانیں یہہ کیسی دینداری ہے ۔

تب یہودیون نے  جوابدیا  کہ لیجا لیجاؔ اُسے صلیب دے لیکن پلاطوس  مکرر پوچھتا ہے کہ کیا تمہارے بادشاہ کو صلیب دوں یہہ تکرار اچھے موقع پر واقع ہوئے تاکہ یہودیوں کو مسیح کی بادشاہت کو رَد کرنے میں کو ئی عزر باقی نہ رئے۔

یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ پلاطوس نے مسیح کو کیوں بادشاہ کہا۔

اِسکے دو جواب ہیں۔

اول خدا کا ارادہ تھا کہ اپنے بیٹے کی بادشاہت کی منادی غیر قوم  بیدین  حاکم سے کرائے اور جھوٹے ریاکار  یہودیوں  کو شرمندگی حاصل ہو۔

لوقا کے ۲۳ باب کی ۲۔ آیت سے معلوم ہوتا  ہے کہ یہودیوں نے آپ پلاطوس کے حضور اور جھوٹے الزام لگاتے ہوئے یہہ بھی کہا تھا کہ وہ اپنے تئیں  مسیح بادشاہ کہتا ہے اور یہی یوحناّ  ۱۹ ۔ ۱۲ میں بھی ہے۔ اگرچہ یہودیوں کو عہد عتیق  میں بار بار مطالعہ کرنے سے خوب معلوم تھا کہ مسیح بادشاہ  ہے اور کہ اُسکی بادشاہت ابدی ہے۔ دیکھو زبور ۴۵۔ ا۔ اور یسعیاہ  ۲۳۔ ۱ ۔ یرمیاہ۔ ۴۳۔ ۵۔ وغیرہ۔

 تو بھی اُنکی خود غرضی اور اُنکے ربیوں کی غلط فہمی نے اُنہیں یہانتک  بیوقوف  بنا دیا کہ مسیح کی روحانی بادشاہت کو دنُیوی سلطنت سے بدل ڈالا۔

حالانکہ خداوند نے  یوحناّ ۶۔ ۱۵ کے مطابق  اُنہیں اس غلطی سے محفوظ رکھنا چاہا اور صاف فرمایا کہ میری بادشاہت اِس جہان کی نہیں  یوحنا ّ  ۱۹۔ ۳۶۔ لیکن پھر بھی وہ اپنی غلطی سے باز نہ  آئے اور سردار  کاہنوں نے صاف  کہا کہ قیصر کے سوا  ہمارا کو ئی بادشاہ نہیں۔ پیدایش ۴۹۔ ۱۰  کہ مطابق یہہ سچ بھی ہے۔ کیونکہ سیلا اُگیا اور یہودا سے ریاست کا عصا جاتا رہا  در حقیقت اُسوقت یہودی بادشاہ نہ تھا بلکہ رومی لیکن  عام خیال میں پروردگاری  اور خالقّیت کے لحاظ  سے خدا  تو اُنکا نہ صرف  بادشاہ  بلکہ بادشاہوں کا بادشاہ  موجود تھا اگرچہ  ۱سموئیل ۱۔  ۵ ، ۷ ، ۱۲ کے موافق اُنکے باپ دادوں نے خدا کے بدلے ساؤل  کو بادشاہ بنایا تو بھی ایسا انکار محض  جہالت اور بیدینی  ہے۔

واضع ہو کہ مسیح کی یہہ تعلیم نہیں ہے کہ اپنے  بادشاہ وقت سے بغاوت کر و بلکہ صاف  فرمایا کہ  جو چیز یں  قیصر  کی ہیں قیصر کو  اور جو خدا  کی ہیں خدا کو دو متی ۲۲ ۔ ۲۱۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہودی اسی تعلیم سے اور بھی  زیادہ  جل گئے تھے کیونکہ وہ ہر وقت رومی حکومت سے ناراض رہتےتھے آخر کار جس سے باغی رہتے  تھے اُسی قیصر کو اپنا  بادشاہ بنا لیا اور سوائے کا لفظ  بولنے سے خدا کی بادشاہت کے منُکر ہوگئے ۔ یہہ گویا پرائی بدشگونی  کیواسطے اپنی ہی ناک کاٹ لی۔

 پھر آئت ہذا کے تیسرے جملہ میں سردار کوہنوں کے جواب دینے سے پایا جاتا ہے کہ جسطرح خدا نے موسیٰ کی معرفت  احبار کے ۱۔ ۵ میں فرمایا  ہے کہ کاہن جو بنی  ہارون ہیں لہو لاویں۔ اُسی  طرح اِس حقیقی برّہ کے خون  ہیں۔ ( جو جہاں کا گناہ اُٹھا  لیجاتا ہے) سردار کوہنوں  کے ہاتھ رنگے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اور یون خدا کا ارادہ  پورا ہوا اور چابت کر دیا کہ سب اگلی قربانیاں اس حقیقی قربانی کی  نشانیاں تھیں اِس آئت میں صلیب  کا لفظ  جو  واقع  ہوا ہے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اُسکی نسبت بھی کچھ  بیان کریں۔

یاد رکھنا  چاہئے کہ مسطیر لکڑی  کے اُپری سرے پر دوسری چھوٹی  مسطیر آڑی لکڑی  لگی ہوئی تھی اگر ہم اپنے دونوں  ہاتھ دہنے بائیں  پھیلائیں  تو  صلیب کی شکل  معلوم ہو گی اِس سے ثابت ہوتا ہے کہ مسیح کی صلیب  کو آدم زاد سے نیچرل  طور پر بھی کہانتک مناسبت ہے۔ خیر۔  اُس لکڑی کو زمین پر ڈالکر مجرم  کے دونوں ہاتھوں  کو پھیلا کر ہتھیلیوں  میں اور دونون پاؤں میں کیلیں ٹھونکدیتے  تھے پھر جھٹکا دیکر اُٹھاتے اور گاڑدیتے  تھے اِس جھٹکے سے مصلوب  کو سخت تکلیف ہوتی تھی اور تڑپ تڑپ  کر مشکل سے جان نکلتی تھی اور جلد جان نکلنے کی غرض  سے کبھی کبھی ہڈّیاں  بھی توڑی جاتی تھیں۔ مگر ہمارے مصلوب منُجی کی نہیں کیونکہ داؤد  نبی الہام سے فرما چکا تھا۔ کہ وہ اُسکی ساری ہڈیوں کا نگہبان  ہے  اُنمیں سے ایک بھی ٹوٹنے  نہیں پاتی۔ زبور ۳۴ ۔ ۲۰۔ اور یہہ اُس حُکم کی مطابقت ہوا جو خروج ۱۲ ۔ ۴۶ میں ہے اور نہ اُسکی  ہڈی توڑی جاوے۔ المختصر یہہ سخت بیرحمی  کی وحشیانہ سزا حقارتاً رومی جو طالم و ستم میں اپنی مانند آپ تھے جنگ سے بھاگے ہوؤں  اور غلاموں  وغیرہ  کو دیتے تھے۔  افسوس  کہ ہمارے خداوند یسوع  ناصری کو یہی سزا اُٹھانی پڑی نہ اپنے لئے بلکہ ہمارے لئے دیکھو یسعیاہ ۵۳۔ ۵۔

یہاں ایک سوال  پیدا ہوتا ہے کہ یہودیوں نے صلیب دئے جانیکی  درخواست کیون کی اور آپ ہی مدُعّی ہو کر  حاکمانہ  فیصلہ کیوں کر لیا۔

ہمارے پاس اسکے دو جواب ہیں۔

اوّل خدا کے ارادہ میں مسیح کیواسطے صلیب مقرر ہو چُکی تھی دیکھو ۲۲ زبور کی ۱۶  ویں آئت  میں داؤد نبی الہام سے فرماتا  ہے کہ وہ میرے ہاتھ اور میرے پاؤں چھیدتے پھر  پولوس رسول کا  خط  گلتیوں  کو ۳ ۔ ۱۳ سے واضع ہوتا ہے کہ استثنا ۲۱ ۔ ۲۳ میں جو حکم  ہے کہ وہ جو پھانسی دیا جاتا ہے خدا کا ملعون  ہے۔ یہہ مسیح کے حق میں پیشین گوئی تھی پھر مسیح نے آپ  بھی فرمایا تھا کہ میں  صلیبی  موت سے مرونگا دیکھو  متی ۲۶۔ ۲ ابن آدم حوالہ  کیا  جائیگا کہ صلیب  پر کھینچا  جاوے۔ مگر یہودیوں  نے فعل مختاری سے یہہ جانکر کہ ہم مسیھ کو حقیر بناویں۔ کیونکہ اُن دنوں  صلیبی  موت عموماً حقیر گنی جاتی تھی شرارت اور بیدینی  سے خدا کے ارادہ کو پارا کیا اور سزا کے مستحق  ہوئے  اور یہہ بھی ہمارے خداوند کی  پست  حالی  پیدایش سے موت تک  چابت ہو۔ دیکھو جب وہ پیدا  ہوا  تو چرنی میں رکھا گیا  لوقا  ۲۔ ۷۔ اور موُا تو صلیبی موت موا۔

دوم خداوند کے مقدمہ سے ظاہر ہے کہ پلاطوس  عدالت عدالت نہ تھی بلکہ اندھیر نگری چوپٹ  راج۔ کیونکہ اِس مقدّمہ کی بنیاد سے انتہا  تک غلط  اور محض یہودیوں  کی جنبہ داری  بات بات میں ظاہر  ہوتی ہے ۔ پہلے الزام  نامعقول  ۔ کہ اگر یہہ بدکار  نہوتا  تو ہم تیرے حوالہ  نکرتے ۔ یوحناّ  ۱۸۔ ۳۰۔

دوسرے گواہ  جھوٹے کہ اسنے کہا کہ میں ہیکل کو ڈھا  دونگا۔ متی ۲۶۔ ۶۱ حالانکہ  مسیح نے کہا تھا کہ  تم ڈھا دو ۔ یوحناّ ۲۔ ۱۹۔

تیسرے  بیجری ثابت  ہونے پر بھی پلاطوس نے مسیح  کو نہیں چھوڑا۔ یوحناّ ۱۹۔ ۱۵۔

 الغرض خود غرضی  کی گھنگھورگھٹا چھا رہی تھی اور اُنکے دلوں میں شرارت کا اندھیرا گھپ تھا۔  اُسوقت  اُنکی  تمیز بھی اندھی ہو رہی تھی پس ہمارے نزدیک کچھ بعید نہین کہ یہودیوں نے کہا۔ لیجا یجا اُسے صلیب دے۔ تب ؔ اُسنے اُسے  اُنکے حوالہ کیا کہ مصلوب  ہو۔ اور وہ یسوع  کو پکڑ  لیگئے۔ یوحناّ  ۱۹۔ ۱۶۔ اسی باب کی ۱۴ویں  آیت میں لکھا ہے کہ چھٹی گھڑی کے قریب  تھا یعنی انگریزی حساب  کے موافق صبح کے۶ بجے تھے یہہ بات  بھی قابل لحاظ  ہے کہ جب تمام  جہان میں روشنی کا عالم تھا تب  پلاطوس  کے عدالتی  دالان میں تاریکی  کا دور دورہ ہو رہا تھا۔ اگر چہ آفتاب  صداقت آپ اُنکے روبرو تھا لیکن  اُن شّپرہ چشموں  کی دِلی  رتاریکی  میں  سورج گہن  سے زیادہ اندھیرا  تھا۔  اُسی وقت پلاطوس نے مسیح  کو یہودیوں  کے حوالہ  کیا گویا خدا کے برّہ  کو شیطانی  بھیڑیوں  کے منُہ کا نوالہ کیا۔  دیکھو خود غرضی  بھی کیسی بُری بلا ہے جو آدمی کو اپنا فرض  منصبی سچاّئی  سے ادا نہیں  کرنے دیتی  تمام عدالتوں  میں مدُعاّ  علیہ  پولیس کے حوالہ ہوتا ہے۔ یہاں مدُعاّ علیہ پولیس  کے حوالہ ہوتا ہے۔ یہاں مدُعاّ علیہ  مدعیوں  کی حوالات می کیا  گیا۔

پھر اِس حوالگی سے لوقا ۲۳ ۔ ۱۷ کے بموجب کیا  کوئی  تنبیہ منظور تھی ۔ نہیں ۔ بلکہ لوقا ۲۳۔ ۲۴ موافق  یہودیوں کی خواہش  کے موافق مصلوب ہونیکو۔ 

اور وہ یسوع کو پکڑ کر لیگئے۔

 اورانواع وا قسام کی زلّت  و حقارت کے ساتھ اپسے مصلوب  کیا۔ جیسا کہ اگلی  ۱۷ ،  ۱۸ وغیرہ  آئیتوں  میں مندرج  ہے۔ اوریوں  ہمپر  کھلا کہ توریت زبور انبیا کے صحیفوں  اور انجیل کا خلاصہ یہہ ہے کہ  مسیح ہمارے گناہوں  کے واسطے  ہوُا  اور گاڑا گیا اور تیسرے دن کتابوں کے موافق جی اُٹھا  اور شریروں کی شرارت سے خدا نے ایمانداروں  کیواسطے  نیکی نکال لی۔


حاصل کلام

اِس تمام بیان سے ہمکو  چند نصیحتیں ملتی ہیں ۔

اولؔ  گناہ سخت جرم ہے۔ جسکی سزا اِنسانی برداشت سے باہر ہے۔

دومؔ خدا باپ کی محبت کہ اُسنے جہان کو ایسا پیار  کیا کہ اپنے فرزند عزیز کو اِس  حقیر موت کیواسطے بخشدیا۔

سومؔ خدا کے بیٹے  کا پیار کہ اُسنے گنہگاروں  کی محبت میں خدا ہو کے  خدا کی برابر  ہونا  غنیمت  نہ سمجھا  بلکہ آپ کو یہانتک حقیر بنایا کہ صلیبی موت  کی تکلیفوں  کو بلاتّکلف  گوارا  کر کے ہمکو ہاں خاص مجھکو لعنت سے بچایا۔

چہارؔم  ہمپر  فرض ہے کہ مسیح  سے محّبت رکھیں کیونکہ پہلے اُسنے ہم سے محبت رکھی  بنی اسرائیل  کی  موافق نہ بنیں کہ جنکے واسطے  خاص  مسیح آیا  پر اُنہوں نے اُسےّ عداوت کر کے اُسنے مصلوب کیا۔ اور نہ بنی اسمٰعیل کی صورت  جو آجتک  اُس مصلوب  غمزدہ  کو ٹھٹھوں میں اوڑاتے ہیں اور عربی نبی کی محبت  میں خدا کے بیٹے پر ایمان نہیں لاتے۔

پنؔجم  کسی کام کو جو ہمارے واسطے منع ہے یہہ  سمجھ کر  کہ خدا کے ارادہ میں ایسا ہی ہے۔ یا سہوًا  اپنی فعل مختاری  سے پورا نہ کریں  کیونکہ قانون کی عدم فہمی  کے سبب مجرُم  سزا سے نچ نہیں سکتا۔ دیکھو داؤد  بادشاہ نے کیونکر ساؤل پر ہاتھ ڈالنے  سے خود  کو بچایا ۔ ۱ سموئیل  ۲۴۔ ۶، ۲۶۔ ۹،۱۱۔ آخر خدا کا ارادہ  دوسرے  طور پر پورا ہوا۔  ۱ سموئیل ۳۱۔ ۵۔

ششؔم خود غرضی کو پاس نہ آنے دیں خواہ وہ سچ کے پیرایہ میں کیوں  نہو جسطرح  فقیہ  فریسی  دہ یکی  کے پردہ میں بیواؤں کا گھر لوٹتے  تھے اور سبت کے بہانہ خیرات  تک نہ کرتے  تھے اور لمّبی  چوڑی دُعاؤں سے غافل نہوتے  تھے۔ پر خداوند  نے فرمایا کہ وہ  مکاّر ہیں اُنکے خمیر سے چوکس رہو۔

ہفتؔم  ہم جو مسیح مصلوب کی منادی کیواسطے  تیاری کرتے  ہیں۔ اِس مضمون  سے یہہ ضرور  دیکھ لیں کہ ہم پر کیسی  ہی مصُیبتیں ایزائیں تکلیفیں یا زرکا لالچ غیر اقوام  کیطرف  سے کیوں نہ آئیں  وہ ہمیں  ہزار ٹھٹھوں میں اُڑائیں مگر ضرور ہے کہ ہم اِس  بھاری کام کو ختم کر کے دُنیا سے کوچ کرتے وقت اپنے خداوند  کی موافق کہہ سکیں کہ پورا ہوا۔ یوحنّا  ۱۹۔ ۳۰۔ آمین

رقم زدہ۔ کیدارناتھ ۔ جونیر کلاس۔ مدرسہ علم سہارنپور۔