View of Earth from Space

 

سوال۔ کیا بدلے کی تعلیم سے ہم خدا کی ذات میں نقیض پیدا کرتے ہیں؟

 

کیدارناتھ


Revenge and God

By

Kidarnath

Published in Nur-i-Afshan March 19, 1897


 

جواب: اِسکے جواب میں امور زیل تنقیح طلب ہیں

( ۱) بدلہ کیا ہے؟ اِس سے بدل لینا مراد ہے خواہ بدل اور مبدل میں برابری ہو یا غیر برابری تاہم مانی ہوئی حقیقت میں مساوات ضرور ہو۔ مثلاً چاندی کے روئپے کا بدلا تانبے کے ۶۴ پیسہ یا ۶ ثار گیہوں یا چیزھ کا ایک بکس یا ۴ گز خاصہ اب دیکھئے چاندی تانبا لکڑی گیہوں خاصہ برابر نہیں ہیں اور ۴،۶،۶۴،۱ بھی غیر برابر ہیں مگر ٹھہرایا جانا ایک حقیقت ہے جو ایک دوسرے کو ٹھیک برابر کر دیتی ہے۔ یا روٹی اور گوشت مختلف ترکاریاں جو کہ روز مّرہ ہم کھاتے ہیں اُسکے بدلہ میں گوشت ہڈی خون اعضائے بدن کی طاقت ہمارے جسم میں ہے اسی اخری تمثیل سے ہم خداوند مسیح کے اُس فرمان کو سمجھ سکتے ہیں جو اُسنے اپنا گوشت کھانے اور اپنا لہو پینے کے حق میں فرمایا جسکے نہ سمجھنے سے یہودیوں اور بعض یہودی مزاج شاگردوں نے ٹھوکر کھائی۔

( ۲)خُداکی ذات کیا ہے؟وہ انسانی عقل اور سمجھ اور دریافت سے نہایت بلنداور بالا ہے تو بھی انسان زی عقل اخلاق صاحب تمیز ہو کر اتنا مان چکا ہے کہ جب تک وہ اپنی ذات کا انکار نہ کرے خدا کی ذات کا انکار نہیں کر سکتا اِنسان اپنے میں اِنصاف اور رحم مادہ موجود پاتا ہے باوجود یکہ موجودہ حالتمین سب کچھ بگڑا ہوا ہے وہ اپنی اصلی تمیز سے محسوس کرتا ہے کہ خدا نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا۔ اِس ایک ہی دلیل سے چابت ہو گیا کہ خُدا کی ذات اِنصاف اور رحم ہے۔ 

(۳ ) نقیض کیا ہے؟ نقیض کا ٹھیک ترجمہ اُردو میں مخالفت اور ہندی میں بیڑہےاور منطقی اصطلاح یہ ہے کہ نقیض دوجملوں میں واقعہ ہوتی ہے اور زیل کی آٹھ باتیں کسی نہ کسی صورت میں ہونا ضرور ہیں موضوع جسکی بابت کہا جائے۔ محمول۔ جو کچھ کہا جائے۔ مکان ۔ جہاں واقعہ ہو۔ زمان جب واقعہ ہو۔ شرط۔ اضافت۔ جزو۔ کل۔ نقیض ایک کو ضرور رکھتی مگر دوسری کو مٹا دیتی ہے دونوں ایک ساتھ نہوں گی مثلاً یہ کہنا کہ زید فانی ہے اور یہ کہنا کہ زید فانی نہیں ہے یہ نقیض ہے مگر اعتبار اس نقیض کو یوں دور کر دیتا ہے کہ باعت بار جسم فانی اور باعتبار روح غیر فانی ہے پھر یہ کہنا کہ کالا بعض سفید ہے اور کالا بعض سفید نہین ہے یہ نقیض ہے کیونکہ موضوع دونونکا ایک ہی ہے مگر یوں کہنا کہ کالا بعض سفید ہے اور کالا کل سفید نہیں ہے نقیض کو رفع کرتا ہے کیونکہ ایک قضیہ جزوی ہے اور دوسرا کلّی ہےاِسیطرح یوں کہنا کہ زید منصف اور مہربان ہے اور زید منتقم ہے نقیض نہیں ہے کیونکہ پہلے قضیہ کا محمول اور ہے دوسریکا اور یپں تبدیلی محمول کی نقیض کو مٹاتی ہے اور ایک ہی شخص واحد میں بزمان واحد عدل و رحم دونوں صنعتوں کو بشمول انتقام متحد کر دیتی ہے اِسی طرح خدا کی ذات میں جو عادل اور مہربان ہو کر بدلہ قبول کرتا ہے کفارہ کی تعلیم نقیض پیدا نہیں کرتی۔ منطقی طور پر یہ قضیہ یوں بھی بن سکتے ہیں کہ بدلہ لینا انصاف ہے اور بدلے کا قبول کرنا رحم ہے پس رحم انساف ہے یا یوں کہو کہ بدلہ خود انصاف ہے مگر بدلا رحم پر موقوف ہے پس رحم پر موقوف ہے وہ رحم کے خلاف نہیں بس بدلآانصاف اور رحم کے خلاف نہیں اسلئے بدلے کی تعلیم خدا کی ذات میں اتحاد پیدا کرتی ہے نقیض نہیں۔ 

الف۔ کیا انصاف ہے کہ حاکم بیگناہ کو سزا دے؟

جواب۔ انصاف کیا ہے۔لغوی معنے کچھ ہی ہوں مگر جہاں تک غور کیا تو یہ معلوم ہوا کہ خدا کی ظاہر شدہ مرضی اور عدل کا برتاؤجہان تک کہ اپنے مفروضہ دائیرہ میں رہے انساف ہے مثلاً تازِرات ہند کی دفعہ ۴۵ میں سرقہ کی سزا دو برس ہے۔ لیکن منصف نے ایک مجرم کو ۶ ماہ کی اور دوسرے اُسی دفعہ کے مجرم کو ایک برس کی اور ایک تیسرے کو ۱۵ یوم کی سزا دی تو بھی منصف پر بے انصافی کا الزام نہیں کیونکہ دو برس کے دائیرہ سے باہر سے باہر قدم نہیں رکھا۔ اب دفعہ۳۲۵ پر غور کرو یہاں آٹھ صورتیں ہیں جو جرم ہیں۔ ( ۱ ) ناک کاٹنا (۲ ) دانت توڑنا ( ۳ ) کان کاٹنا ( ۴ ) آنکھ پھوڑنا ( ۵ ) ہڈی توڑنا ( ۶ ) مخنث کرنا ( ۷ ) چہرہ کو ہمیشہ کو بد صورت کرنا ( ۸ ) ایسا مارنا کہ بیس روز تک بیکار رہے۔ اِنمیں سے ہر ایک جرم پر دو برس قید کی سزا ہے لیکن اگر ایک ہی مجرم ایک ہی وقت اِن میں سے ایک خواہ کل جرمونکا مرتکب ہو تو منصف مجاز نہین کہ ۱۶ برس کی سزا دے انصاف یہ ہے کہ دو برس سے میعاد باہر نہو اگر چہ ہماری نظروں میں عجیب ہو اب قانون کہتا کہتا ہے کہ بعض مقدمات معُمولی میں متغیث مدعی ہو مگر بعض مقدمات ہو۔ متغیث کے عوِض گورنمنٹ مدعی ہو اور متغیث گواہ۔ قرضہ۔ معاملات میں مجرم کا قرضہ کوئی ادا کر دے عدالت عزر نہ کرے گی مگر خون کے مقدمہ میں نہ دوسرے کو پھانسی ہو سکتی ہے اور نہ مقتول کا وارث قاتل سے راضی نامہ کت سکتے اور نہ معافی ہو سکتی ہے کیوں اسلئے کہ قانون نے اجازت نہیں دی مگر قرضہ میں ممانعت نہیں پس دونوں باتیں اگرچہ ایک دوسرے کے خلاف ہیں تو بھی انصاف کہی جاتی ہیں اسی طرح خُدا نے ٹھہرا یا اور اُسکی ظاہری شدہ مرضی سے جو با مکمل ہو ثابت ہوتا ہے کہ خداوند مسیح مجاز ہوا کہ نجوشی خاطر اپنی جان کفارہ میں دے اور اُسے اختیار ہے کہ پھیر لے پس مسیح بیگناہ کو سزا دینا قانون آلہی سے باہر نہیں اور اسلئے ہم کہ سکتے ہیں کہ جو کچھ انصاف ہوا۔

ب۔ کیا ایک نیکی یا بدی دوسرے کو منسوب کرنا ممکن ہو؟

جواب۔ نیکی اور بدی سے جزا اور سزا مراد ہے اور یہ دنیا میں روز ہم دیکھتے باپ کے اصراف سے بیٹے کی مفلسی اور بیٹے کی ترقی و دولتمندی سے باپ کا آرام یقینی ہے بد صحبت سےبدی اور نیک صحبت سے نیکی چھیی ہوئی بات نہیں ہے ۔ غدر میں چند ہندوستانیوں نے بغاوت کی مگر نسلاً بعد نسلاً ہم سے ہتھیار چھینے گئے کیا ہم باغی ہیں؟ نہیں۔ اُنکی بغاوت پم پروارد ہوئی ہےبعض نے خیر خواہی میں جاگیریں پائیں مگر اُنکی اولاد نسلاً بعد نسلاً جاگیردار ہو گئی ایک مچھلی سارے تالاب کو گندہ کرتی ہے اور ایک بوند کیوڑہ کٹورہ بھر پانی کو خوشبودار بناتا ہے۔ پس آدم کی ناراستی سے ہم سب ناراست ہوئے اور مسیح کی راستبازی سے ہم سب جو ایمان لائے اور اُسمیں پیوند ہوئے راستباز ٹھہرتے ہیں اور ہماری سزا اُٹھا لی گئی یہی بدلہ ہے اگرچہ ہم میں اور ہمارے خداوند مسیح میں برابری نہیں تو بھی مساوات ہے۔ وہ ہماری ہڈیوں میں سے ہڈی اور گوشت میں سے گوشت ہمجنس انسان سوائے گناہ کے سب باتوں میں ہماری مانند اور دوسری طرف خداوند خدا ہمارا خالق مالک پروردگار ہے۔ غرضیکہ مسیح مصلوب کی صلیب نے رحم اور انصاف کو خدا کی ذات میں ایسا متحد کر دیا کہ اور کسی صورت میں ممکن نہ تھا اِسکے خلاف اور عقیدہ رکھنا خدا کی ذات مین نقیض پیدا کرناہے۔

راقم۔ ک۔ن۔