مختلف مذاہب کا نتیجہ

Result of Different Religions

Published in Nur-i-Afshan July 1873
By Rev. Elwood Morris Wherry
(1843–1927)

Qur'an with prayer beads

دنیا میں بے شمار  اور مختلف  ادیان کے رایج ہونے سے ہر فرد بشر  بخوبی واقف ہے نہ صرف واقف بلکہ ہراہل مذہب کے دلی تعصب آپسمیں کی عداوت ۔ ضد ۔ بغض ۔  حسد ۔ ایکدوسرے کی عیب جوی اور نقص گیری اور اپنے اپنے فخر اور بڑائی جتانے کا قائلِ ۔ اور یہ امر بھی کچھ محتاج بیان نہیں ہے کے ہر مذہب محض اپنے آپ کہ ہی اصل اور ناجیہ اور باقی سب کو مصنوعی اور مرتد بتا رہا ہیں ؎ کس نگوید کہ دوغ من ترش ست ، یہ ثابت کرنا کہ اُنکا یہ دعوےاز روے مقابلہ اُنکے فروع و اصول کے غلط ہے یا صحیح کچھ  آسان امر نہیں ہے کیونکہ انمیں سے کوئی بھی ایسا نظر نہیں آتا جنسے معجزہ یا کرامت کو اپنی بنیاد  نہ ٹھہرائی ہو اور اِس امر کو  گو عقل انسانی بہ سبب خرق عادت کے سراسری قبول نہیں کر سکتی تاہم اُنکے قایلوں کے ساتھ متفق ہو کر ہم بھی قائیل ہیں اور تسلیم کرتے ہیں کہ قادر  مطلق خدا کے آگے اپنے بندوں کی معرفت معجزہ و کرامات کا دکھلانا کچھ   بڑی بات نہیں ہے مگر خوراک کو ہم ایمان کا  منحصر قلبہ نہیں ٹھہراسکتے ۔ بیشک جس زمانہ میں معجزہ میں معجزہ دکھایا جاتا تھا بہت لوگ محض اسی سبب قائلِ ہوتے اور ایمان لاتے تھے مگر فی زماننا جبکہ یہ چیز  عنقاء کا حکم رکھتی ہے تو پھر چاہیے کہ کوئی قا ئِل نہ ہو اور ایمان نہ لائے حالانکہ ایسا نہیں ہےبیشمار  ایماندار لوگ جو اب موجود ہیں اُنکی ایمانداری کا موجب صرف مذہب کی اندرونی شہادت ہے نہ کہ بیرونی جو معجزہ وغیرہ سے مطلب ہے ۔مگر باندک تامل یہ اندرونی شہادت بھی صرف اُنکے لیے ہی کافی  دکھائی دیتی ہے جو  اُس مذہب کے اول سے ہی متقدّ ہیں اور نہ کہ غیروں کے لیے۔ ایک شخص کی عینک  سے شاید دوسرا نہیں دیکھ سکیگا ؎

ہر   کس نجیال خویش ربطی دارو

البتہ یہ بات ایک قا بل تسلیم نظر آتی ہے کہ اگر کل مذاہب کے نتائج کو آپسمیں مقابلہ کر کے دیکھاجاوئے کہ کس مذہب نے اپنی بھاری برکتیں عطا کر کے انسان کو  چاہ ضلالت سے اوج ہدایت  پر پہنچایا اور اُسکے تنگ و تاریک  دل  کو  اپنے نور کی روشنی اور فیض کی برکت سے منور اور کشادہ کر دیا۔ سچیّ عدالت نیک اخلاق اور  راست بازی کو اپنے متقدّوں میں پھیلایا اور اُنکو  اِ س دنیا میں خوشی اور ابدی برکت کی امید سے مالامال بنا دتو البتہ جبکہ دنیا نمو نہ آخرت مشہور ہے تو اغلب ہے کہ ایسا مذہب اپنے دعوے  ناجنیہ اور سچے ہو میں میں سچا ہو۔ پس نظر امتحان جب ہم ہندو دھرم کو بیدک سے پرانک تک گواُسکے اقسام بیشمار ہو گئے ہیں اور  بدہ لا سہُ وغیرہ  بت کو جو مہت سے ممالک مشرقی میں رائیج ہے اور مذہب اسلام کو  جو عہد محمد  صاحب سے تا  آج تک مشتہر  ہے اور جسکے ستر  اور دو بہتر فرِیق مشہور  ہیں اور کسدی زردشت وغیرہ پرانے مذہبوں کو جواب ایک طرح سے مذہب اسلام میں ہی مخلوط معلوم دیتے ہیں دیکھتے ہیں تو صاف نظر  آتا ہے کہ کسی نے بھی اِنمیں سے بہبودی وبہتری خلائیق دینداری و پرہیزگاری راستبازی اور دلکی پاکیزگی عورت کی آزادگی  بچونکی حفاظت بردہ فروشی کی ممانعت بنج بیو پارلین دین وغیرہ دنیوی معاملات میں صفائی معاملہ اور رفاہ عام  شائیستگی کے پھیلانے میں کچھ ترقی نہیں کی ہے حالانکہ یہ سب مزاہب اپنے اپنے طور  پر  دنیا کے بہت سے حصوّں کو  اپنا متقد  بنا چکے ہیں اور بعض بعض اب بھی اپنے زور میں ہیں ۔اگر تعصب کو چھوڑ کر بلا طرفداری منصفانہ غور کیجاوے تو یہ اوصاف کامل اور مکمل مذہب مسیحی کی تعلیم میں موجود پائے جاتے ہیں اور صرف اُن مقامات میں جہاں اِس مذہب کا سچاّ اجراء  اصلی اور صاف طور پر بلا افراط و تفریط ہو رہا ہے نہ کہ اور ملکوں میں جہاں یہ دین اپنی  اصلی صورت سے متغیر  ہو کر بدعات اور مختر عات سے آلودہ ہو گیا ہے اِسکا عملدرآمت برائے ناپ ہے کیونکہ وہاں کی حالت کو بھی ہم دوسرے مزاہب کی حالت پر کسی نوع ترجیح نہیں دے سکتے ۔ شاید مخالفین تخالف یا عداوت کے رو سے اِس میرے قول کی نسبت بہت سے اعتراضات پیش کر سکتے ہیں اور کرینگے بھی مگر وہ  صرف تعصب کے بھرے ہوئے  دلکاجوش سمجھائیگا ۔ کیو نکہ اگر انصاف کو ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے تو کل اوصاف جو عقل کے نزدیک رفاہ عام و انسان کی بہتری کے موجب ہیں اور مزاہب میں ڈہونڈے بھی نہ ملینگے۔ اب میں اِس آرٹیکل کو طول دینا نہیں چاہتا اور کسی اور  موقعہ پر اسکی نسبت قیل و قول کرنیکا وعدہ کر کے ختم کرتا ہوں ۔