اہل اسلام کے اعتراضوں کے کے جواب میں

Response to Muhammadan
Objections to Christianity

Published in Nur-i-Afshan October, 1875
By. Rev. Elwood Morris Wherry
(1843–1927)

اعتراضات د رباب مسئلہ تثلیث و الوہیت مسیح

پہلا اعتراض     عیسائی دعوے کرتے ہیں کہ باپ بیٹا اور روح القدس ایک واحد لا شریک خدا ہے۔ یعنی ایک کو تین اور تین کو ایک کہتے ہیں اور اکثر  لوگ یہہ کہ  بھی کہتے ہیں عیسائی  تین خدا کو مانتے ہیں۔ لیکن یہہ بات بالکل  باطل  ہے  کیونکہ عیسائی بھی کہتے ہیں اور  بیبل میں بھی لکھا ہے  کہ خدا ایک اور واحد ہے  جیسے استثناء  ۶ باب اور ۴ آیت میں لکھا ہے کہ ہمارا خدا اکیلا خداوند ہے  اور مرقس کی انجیل  ۱۲ باب ۲۹ آیت  کہ خداوند جو ہمارا خدا ہے ایک ہے خداوند ہے پس اچھی طرح سمجھنا چاہیے کہ بیبل میں خدہونے کے بابت کیا لکھا ہے ۔ توریت کے پہلے باب کی پہلی آیت میں خدا کا نام الوہیم ؔ  لکھا ہے اور یہہ لفظ ألو کی جمع  اور اُس میں تثلیث کا اشارہ ہے اور مسیح نے اپنے حق میں فرمایا  کہ جس نے مجھ کو دیکھا خدا کو دیکھا ہے اور پھر یہہ کہ میں اور باپ ایک ہیں ۔ پھر لکھا ہے کہ سب چیزیں  اُسی سے پیدا ہوئیں اور وہ سب چیزیں کو  بناتا ہے اور پھر یہہ کہ سب لوگ  بیٹے کی عزت  کریں  جیسے کہ باپ کی عزت کرتے ہیں ۔ اور روح القدس کے حق  میں لکھا ہے کہ وہ ہر ایک کو اپنی مرضی کے موافق نعمت دیتی ہے۔ پھر یہہ کہ اُس سے جھوٹ بولنا  خدا  سے جھوٹ  بولنا ہے۔ دیکھو اعمال کےپانچویں باب کی تیسری اور چوتھی آیت۔  پھر جب عیسیٰ آسمان پر جانے کو طیار تھااُس نے اپنے شاگردوں کو کہا کہ تمام دنیا میں  جاؤ اور ہر ایک مخلوق کو باپ بیٹے روح القدس کے نام سے بپتما دو۔ اور پھر پولوس رسول نے ایمان لانے والوں کے واسطے دعا مانگ کہ کہا کہ خداوند عیسیٰ مسیح کا فضل اور خدا کی محبت اور روح القدس کی رفاقت تم سبھوں کے ساتھ ہووے۔ آمین۔ یہہ کہیں نہیں لکھا ہے کہ مسیح  روح القدس  باپ سے الگ ایک خدا ہے لیکن ہر جگہ میں اُنکی الوہیت اُسی  وحدانیت سے جو باپ کے ساتھ  رکھتے  ہیں ثابت  ہوتی ہے مسیح کے حق میں لکھا ہے وہ باپ کی  گود میں تھا ۔ پھر یہہ کہ خدا نے اُسکو دنیا میں بھیجا ۔ پھر مسیح نے فرمایا کہ میں جا کر روح القدس کو با پ کے پاس سے بھیجونگا ۔ پھر عیسیٰ نے روح القدس کے حق میں فرمایا کہ وہ اپنی  نہ کہیگی لیکن  جو کچھ وہ سنیگی وہ کہیگی اِس لیے کہ وہ میری بزرگی  کریگی وہ میری  چیزوں سے پاویگی اور تمھیں دیکھاویگی ۔ اور پھر عیسیٰ نے اپنے حق میں فرمایا کہ اُسر وز  ( یعنےقیامت کے دن) تم جانو گے کہ میں باپ اور تم  مجھ میں اور میں  ہوں۔ اور پھر یہہ  بھی کہ اگر کوئی آدمی مجھے پیا ر کرتا ہو تو وہ میری کلام پر عمل کریگا اور میرا باپ اُسکو پیار کریگا اور ہم اُسکے پاس آو ئینگے اور اُسکے ساتھ رہینگے پر عیسیٰ نے فرمایا کہ بیٹا آپ سے کچھ  نہیں کر سکتا مگر جو کچھ کہ وہ باپ کو کرتے دیکھتا ہے کیونکہ جو کام کہ وہ کرتا ہے بیٹا بھی اُسیطرح وہی کرتا ہے اور روح القدس کی نسبت مسیح نے کہا کہ میرے باپ  کی روح تم میں بولیگی۔ دیکھو یوحنا کی انجیل  ۱۴و ۱۵ و ۱۶ باب۔

ان آیتوں سے معلوم ہوتا   ہے کہ تین خدا نہیں ہیں مگر ایک اور یہہ بھی کہ بیٹا روح القدس باپ سے الگ ہو کر ایک  خدا نہیں ہے حقیقت یہہ ہے کہ باپ اور بیٹا  ایک ہیں اور روح القدس اور بیٹے کی روح ہے اس لیے وہ تینوں ایک واحد خدا ہیں۔  

اگر کوئی اعتراض کرے کہ وحدت وحدت میں کثرت  کسطرح ہو سکتی ہے تو یہہ درست ہے یعنے اگر کوئی  کہے کہ تین چیزیں ایک چیز ہے  یا  تین زاتیں ایک زات ہے تو یہہ  بیشک بر خلاف عقل کے ہے ۔ لیکن عیسائی  یہہ نہیں کہتے اور نہ انجیل میں اسطرح لکھا ہے  صرف اُنکا دعوے یہہ ہے کہ باپ بقا ہے بیٹا بھی بقا اور روح القدس بھی بقا باپ قادرمطلق بیٹا قادر مطلق اور روح القدس قادر  مطلق ہے تو بھی تینوں بقا یا قادرمطلق نہیں مگر ایک ہے اگر کوئی کہے کہ یہہ بات عقل او رسمجھ  سے باہر ہے تو جواب یہہ کہ خدا کی زات اور صفات موجودات کی عقل اور سمجھ سے باہر ہیں ۔ عقل سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا  ہے لیکن نہیں معلوم کہ وہ کیا ہے۔ بعض فیلوسف کہتے ہیں  کہ دو خدا ہیں ایک  تاریکی اور برُائی کا مالک دوسراؔ  روشنی اور  نیکی کا۔بعضوں  کا قول ہے  کہ نا چیز سے کچھ نہیں پیدا ہوتا یعنےبغیر   مادہ کے کوئی چیز  بنا نہیں سکتا۔ اور نہ بن سکتی ہے ۔ اِس سبب سے وہ ساری چیزوں کو خدا کہتے ہیں ۔ کون بیان کر سکتا ہے کہ خدا نے گناہ اور دکھ درد اور موت کو کیوں دنیا میں  آنے دیا     ۔کیا وہ اِن چیزوں کو  پسند کرتا  تھا یا کمزور تھا کہ اُنکو روک نہ سکا ۔ کون بتلاویگا کہ بیچ سے بیچ کس طرح  پیدا ہوتا ہے ۔ کون بیان کر سکتا ہے کہ خدا کس طرح سب جگہ میں موجود ہے۔ با وجود یکہ اُسکے  حصہ نہیں ہیں  ۔ جب یہہ ساری باتیں ہماری سمجھ سے باہر ہیں تو ہم تثلیث کے مسئلہ کو  جو خدا کی کلام میں صاف لکھا ہے کس طرح رد کریں گو ہماری ناقص سمجھ میں نہیں آتا یہہ بالکل مغروری اور جہالت کا نشان ہےکہ اُسکو رد کریں ۔ ہم جانتے ہیں کہ انجیل خدا کا کلام ہے اور جو کچھ اُس کے حق میں اُس کتاب  میں لکھا ہے ہم مسیح جانتے ہیں اور جو کچھ ہم کہتے ہیں وعین مضمون کتاب کا ہے۔

کوئی نہ کہے کہ عیسائی لوگوں نے یہہ تعلیم خود اپنی کتاب میں درج کی ہے۔ ہمنے ثابت کیا  ہے کہ اسطرح  ہو نہیں سکتا اور کیونکہ ہمنے یہہ تعلیم صرف انجیل سے نہیں پائی بلکہ توریت میں بھی موجود ہے ۔اور سب عاقل جانتے ہیں کہ توریت زبور اور انبیا کی کتابیں یہودیوں کے قبضہ میں ہیں اور وہ عیسیٰ سے بڑی دشمنی  رکھتے ہیں  اور اُسکو جھوٹا جانتے ہیں اور اپنی کتابیں  بے نہایت خبرداری سے رکھتے ہیں ۔ اور عیسائیوں کو کبھی فرصت نہیں دیتے کہ اُنکی قدیمی کتابیں بگاڑ سکیں اور اپنے مطلب کے موافق اُنمیں نئی تعلیم لکھیں ۔

اور سب اہل اسلام کو معلوم ہے کہ قرآن شریف میں بار بار لکھا ہے کہ توریت اور انجیل برحق ہیں اور موجود ہیں اور قرآن سے خود معلوم ہوتا ہے کہ اُس  زمانہ کے لوگ عیسیٰ کو خدا سمجھکے  اُس کی عبادت کرتے تھے ۔ لیکن اُنہوں نے یہہ تعلیم بھی انجیل سے پائی  اور اِسمیں آجتک یہہ تعلیم  ہے اور جو عیسائی لوگونکو تواریخ سے واقف ہیں وہ بخوبی جانتے  ہیں کہ مسیح سے ۳۱۸ برس پیچھے ایک معلم  بنام ایریئس پیدا ہوا تھا وہ  عیسیٰ کی الوہیت کا انکار کرتا تھا اور کہتا تھا کہ وہ  صرف ایک مخلوق ہے۔ اگرچہ سب مخلوقات سے بہتر اور بڑا  ہے پھر اُسکے  بعد آجتک اُس کی مانند بہت کہتے ہیں کہ انجیل سچ اور برحق ہے ۔ لیکن  مسیح کو مخلوق جانتے ہیں باوجود  اِسکے یہہ بھی اِقرار کرتے ہیں  کہ بیبل میں مسیح کا نام خدا  خدا کا بیٹا وغیرہ لکھا ہے اگر کوئی یہہ  پوچھے کہ مسیح نے کیوں کہا کہ باپ مجھ سےبڑا ہے ۔ اُسکا جواب یہہ ہے کہ مسیح باپ سے نکلا اور باپ کے پاس  سے آیا اور پھر  باپ کے پاس گیا۔  اور مسیح نے بھی فرمایا کہ خدا  روح القدس کو میرے نام  سے بھیجگا  اور وہ روح بھی باپ  سے نکلتی ہے۔  اِن آیتوں سے خوب معلوم ہوتا ہے کہ دونوں یعنے روح اور مسیح خدا باپ سے نکلے ہیں ۔ جس طرح سورج اور اُس کی گرمی اور اُسکی روشنی  ایک ہیں ۔ اور کوئی  اُن کو خدا نہیں کرسکتا  اور روشنی  گرمی  سورج کے پیچھے سے پیدا نہیں ہوئی جب سے سورج  بنا ہے تب سے نور اور گرمی بھی بنی ہے۔ اور وہ ایک ہی کہلاتے ہیں  مگر سورج  اپنی  روشنی اور گرمی سے تا ثیر کرتا  ہے ۔ اس طرح  کا   حال باپ اور بیٹے اور روح  القدس کا  ہےکہ وہ ایک ہی ہیں مگر باپ باپ بھی مسیح   اور روح القدس  سے  سب کام  کرتا ہے۔ اسلئے مسیح نے کہا کہ وہ مجھ سے بڑا  ہے ۔ پھر لکھا ہے کہ مسیح نے فرمایا کہ میں  جہان کا نور  ہوں ۔پھر لکھا ہے کہ وہ خدا کے جلال کی رونق ہے۔ پھر  یہہ کہ وہ   خدا کا کلام  یعنے خدا کا ظاہر کرنے والا۔ سو جیسے سورج اپنی روشنی سے ظاہر ہوتا ہے اور اُسی سے تاثیر کرتا ہے ویسا ہی خدا  اور مسیح ظاہر ہوتا  ہے اور اُس  سے تاثیر کرتا ہے ۔ پس اُس کا  یہہ کہنا  بجا ہے کہ جسنے مجھے دیکھا ہے اُسنے خدا کو دیکھا ہے پھر دنیا میں ظاہر ہے کہ کسان زمین میں بیچ بوتا ہے لیکن اگر گرمی نہ ہوتی بیچ  ہر گز نہ اُگتا ایسا ہی خدا کی کلام میں لکھا  ہے کہ کلام دل میں بویا   جاتا ہے اور خدا روح  سے اُگتا  ہے اور پھل لاتا ہے پس سورج  گرمی اور روشنی  باپ بیٹے اور روح القدس کا ایک خو ب نمونہ ہے ۔

اگر کوئی بیٹے کے لفظ سے ٹھوکر کھاوے وہ دریافت کرے کہ اِس لفظ کے کیا معنے ہیں ۔اکثر محمدیوں کا قول ہے کہ عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ خدا نے دوسرے خدا کو اپنی پشت سے مخلوقات کی مانند پیدا کیا یہہ بات   بالکل ہماری عقل اور عقیدہ کے برخلاف ہے۔ عسیائیوں کاعقیدہ ہے کہ مسیح روح کے طور پر خدا کا ابدی بیٹا ہے یعنے باپ اور بیٹے کی ایک ہی زات ہے۔ اور یہہ بھی سچ ہے کہ جبرائیل نے مریم کے پاس آکر کہا کہ تو پیٹ سے ہوگی اور بیٹا جنیگی اور اُسکا  نام عیسیٰ رکھنا۔  مریم   نے کہا یہ کسطرح ہوگا جس حال  کہ میں مرد کو نہیں جانتی ۔ تب فرشتہ نے جواب دیا کہ روح القدس تجھ پر اُترے گی اور خدا تعا لیٰ کا بیٹا کھلاویگی۔

پس معلوم ہوتا ہے کہ مسیح دونوں انسانیت اور الوہیت کے طور پر  خدا کا بیٹا ہے ۔ پھر اکثر پوچھتے ہیں کہ اگر عیسیٰ خدا  تھا تو اپنے باپ سے کیوں دعا مانگتا تھا۔  واضح ہو کہ بیان کیا گیا ہے کہ مسیح باپ  سےالگ ایک خدا نہیں بلکہ اِسلیئے خدا ہے کہ باپ سے نکلا ہے اور وہ باپ میں تھا اورباپ  اُس میں۔ اور یہہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ عیسیٰ میں پوری انسانیت تھی ۔ یہہ تعجب کی بات نہیں ہے کہ وہ اپنے باپ سے جس پر انسانیت اور الوہیت موقوف  تھی  دعا مانگے ۔ خدا بیٹے میں روح کی تاثیر سے معلوم ہو جاتاہے۔ کوئی باپ کو نہیں جانتا اور روحانی  طور پر اُس کی بندگی نہیں کر سکتا  جب تک کہ بیٹے کو نہیں  جانتا۔ جیسے عیسیٰ  نےخود کو کہا  کہ کوئی بیٹے کو نہیں جانتا مگر باپ اور کوئی باپ کو نہیں مگر بیٹا۔  اور جس مر بیٹا اُس کو ظاہر کرے  خدا ہم سبھوں کے دلوں کو نرم  اور روشن کرے تاکہ ہم اِس بھید کو جسکی پہچان سے ہمیشہ کی زندگی   آرام اور خوشی ہے۔ بدل اور جان قبول کریں ۔ آمین۔

محمدی یہہ  اعتراض کرتے ہیں کہ انجیل میں لکھا کہ خدا مسیح میں مجسم ہوا لیکن خدا بیحد ہے کسطرح وہ ایک آدمی کا بدن  میں محدود ہو ا۔ اور پھر یہہ کہ خدا مریم کے پیٹ میں جو ناقص جگہ تھی کسطرح درآیا۔ دوسرے اعتراض کاجواب  یہہ ہے کہ خدا ہر ایک جگہ خواہ ناپاک حاضر اور موجود  ہے تو اُسکا مریم کے پیٹ میں درآنا اُس کے جلال اور عزت کے برخلاف نہیں ہے۔ قرآن اور  تفسیر میں اِس   بات  کی گواہی دیتے ہیں کہ خدا کا دیدار ہوگا۔ محمدی لوگ یقین  کرتے ہیں کہ ایماندار  لوگ بہشت میں جا کے خدا کو دیکھنگے۔

اس سے معلوم ہواکہ خدا دیکھا جائیگا اور جب کوئی شے نمودہو کر دیکھی جاتی ہے تو اُسکی حد ّ  بھی ظاہر ہونگی  کیونکہ ہم  ٖصرف حدّوں کو دیکھ سکتے ہیں تو جب خدا  دیکھا گیا تو پھر وہ  بیحد کس طرح ہو ا اگرچہ ہم اِن  دونوں  باتوں  کا پورا پورا بیان نہیں کر سکتے پر تو بھی ہم جانتے ہیں  کہ دونوں باتیں سچ یعنے خدا دیکھا بھی  جائیگا اور وہ بیحد بھی ہے ۔ تو اس سے ثابت ہو کہ اکثر  باتیں حقیقت میں سچی ہیں مگر اِن  پر اگر کوئی شبہ  کیا جاوے تو ہم اِس شبہ کو رفع نہیں کر سکتے ۔ مثلاً ہم سب جانتے ہیں  کہ خدا مہربان ہے۔ اگر کوئی پوچھے کہ اِس میں ہی مہربان  ہے کہ جونوروں کو ایسا بنایا  کہ ایک دوسرے کو کھاویں  اور سانپ  کے مُنہ میں زہر بھر دی  کہ لوگوں کو کاٹے۔ پھر ظاہر ہے کہ خدا رحیم ہے پر اگر کوئی  کہے کہ یہی رحم ہے کہ گنہگار جہنم میں ڈالے جاویں تو   یہہ بالکل اُسکی بیرحمی ہے تو ہم اُسکو کیا جواب  دیونیگے ۔ معُرض کا اعتراض  ہے کہ تمام الوہیت مسیح میں تھی اَور جگہ خدا بالکل موجود نہ تھا  لیکن میں نہیں جانتا کہ یہہ نتیجہ  اُس نے کہاں سے نکالا ہے۔ سب لاگ بلاتفاق  یقین کرتے ہیں کہ خدا ہر ایک جگہ حاضر اور موجود ہے۔ مگر اِسکا جسم اور یا شکل بالکل نہیں  ہے۔ اگر جسم فرض کیا جاوے  تو اُسکے اجزا ضرور ہونگے گر اُسکے اجزا نہیں ہیں اِس سے ثابت ہوا کہ خدا ہر ایک جگہ کلُ حاضر و موجود ہے جب یہہ بات پایہ ثبوت  کو پہنچی تو اِس سے یہہ نتیجہ نکلا کہ خدا اور جگہ نہ  ہوگا۔ پس یہہ کیا بات ہے ہم تو صرف اتنا ہی  جانتے ہیں جو انجیل میں لکھا ہے کہ  خدا مجسم ہو ا اگر یہہ عقل سے بعید ہے تو عقل کے برخلاف بھی نہیں ہے۔ اور خداوند عیسیٰ مسیح یہہ نہیں فرماتے  خدا کی ہستی مجھ میں محدود ہے جب وہ دنیا میں تھا تو اُسنے فرمایا کہ کوئی شخص آسمان پر نہیں گیا مگر ابن آدم جو آسمان  پر ہے۔  لوگ یہہ بھی سوال کرتے ہیں  کہ مسیح جو تین دن تک  دوذخ میں رہا تو خدا  دوزخ میں رہا یہہ انجیل میں نہیں ہےکہ عیسیٰ تین دن یاتین ساعت تک دوذخ   میں رہا۔ مگر یہہ لکھا ہے کہ وہ جسم کے رو سے بارا گیا  اور روح سے زندہ کیا گیا اور اُس سے اُن روحوں کے پاس اسیطرح ایک یہودی پیغمبر نے مسیح کی پیدایش کے سات سوبرس  پہلے لکھا ہے کہ اُسکا نام عجیب ہوگا بیشک وہ عجیب ہے۔ جس میں یہہ دو زاتیں ملتی ہیں۔

محمدی لوگ پوچھتے ہیں کہ اگر عیسیٰ  کو اُتار یعنے مجسّم خدا مانیں تو کشؔن اور شوؔد کالؔی کو بھی مانیں ۔ کہ خدا مجسم ہیں ۔ اِس سوال کا جواب صاف  یعنے ایک سچّا اور باقی چھوٹے ہیں۔ ایک کا زکر خدا کی کلام یعنے انجیل صحائیف انبیاء اور زبار میں ہے۔ اور دوسرونکا کا زکر ہندؤں کی کتاب میں ہے جو کسی دلیل سے خدا کا کلام ثابت نہیں ہوتیں ۔

پھر پوچھتے ہیں کہ عیسیٰ نے کیوں یوحنّا کے ہاتھ سے بپتمسا پایا۔ جب عیسیٰ یوحنّا کے پاس آیا کہ اُسے بپتمسا پاوے تو یوحنّا نے اُسے منع کیا کہ میں تجھ سے بپتمساپانیکا  محتاج ہوں۔ اور تو میرے پاس آیا ہے۔ عیسیٰ نے جواب میں اُسے کہا  اب ہونے دے۔ کیونکہ ہمیں مناسب ہے کہ یوں ہی سب راستبازی پوری کریں۔ تب اُس نے ہونے دیا۔ پوشیدہ نہ رہے کہ عیسیٰ دنیا میں آیا تاکہ گنہگاروں کے بدلے میں ساری راستبازی کو پورا کر کے اپنی جان ہمارے بدلے میں قربان دیوے  اور راستبازی کو پورا کرنے میں اُس نے خدا کے سارے حکموں کو جو اُسے آگے دئے گئے تھے پورا کیا۔ اِس سبب سے وہ ہماری راستبازی اور ہمارا کفارہ اور ہماری نجات ہے۔

اعتراضات درباب کفارہ

بے حد ضروری کے مصنف نے مسیح  کے کفارہ  پر بیس (۲۰) اعتراض کئےہیں ہم اُن سب کا جواب  مختصر طورپر دیتے ہیں۔

پہلا اعتراض    اگر کفارہ صحیح ہو تو لازم آتا ہی کہ یہوداہ اسکر یوطی مسیح کے پکڑوانے والے کو خبرا خیر ملے اور نجات ابدی کو پہنچے ۔

جواب    اعمال جز اخیر کے لایق اُسوقت ہوتے ہیں کہ جب وہ نیک نیت سے ظہور میں آوے اگر عامل کا بد اور فاسد ارادہ ہے تو کسطرح جزا خیر پائیگا ۔ مثلاً اگر کوئی شخص کسی بیمار کو زہر کھلائے اِس ارادہ سے کہ اُسکو یہ ہلاکت پہنچائے اور وہ بیمار زہر کھانے سے ازدست تندرست ہو جائے ۔تو وہ شخص شاید معترض کے نزدیک جزا خیر کے لایق ہوگا۔ ورنہ از روئے عقل و عدالت کے تو سزا کے قابل ہے ۔ علاوہ اِسکے ہم اپنے دعویٰ کو ایک اور مثال سے ثابت کرینگے۔ مثلاً اگر کوئی بدمعاش بادشاہ کو مار ڈالے اور پیچھے اُسکا بیٹا تخت نشین ہو کہ اپنے باپ کے قاتل کو اپنا وزیر بنائے تو کیا معترض صاحب کے نزدیک وزارت اِس قاتل کا حق ہے۔ اگر نہیں تو کبھی نہ فرمائیں کہ لازم آتا ہےکہ یہوداہ اسکریوطی کو جزاخیر ملے۔

دوسرا اعتراض    یہہ عدل نہیں کہ گنہگار دنیا   میں اچھی طرح گناہ  کریں اور عاقبت کو بھی جنت میں  میں داخل  ہوں اور عوض اِن کے حضرت مسیح  بیگناہ صلیب پر چڑھائے جائیں اور دوذخ میں بھی  رہیں غرض یہہ ظلم ہے۔  

جواب      یہہ بات تو سچ ہے لیکن زرا غور کیجئے کہ جو کوئی مسیح پر ایمان لائیگا وہ دنیا میں کس طرح گناہ اچھی طرح کریگا بلکہ اُسکو بالکل گناہ سے نفرت ہوگی ۔ پھر اِس بات پر ہمارا اعتقاد ہے ہی نہیں کہ جو تمام عمر گناہ کرے اور گناہونمیں مرے وہ بہشت میں جائے ۔ ہمارا عقیدہ تو یہہ ہے کہ جو کوئی گناہ سے توبہ کر کے مسیح پر ایمان لائے وہ نجات یعنے گناہوں سے خلاصی پائیگا۔ اور ہم اس بات کہ بھی ہرگز نہیں مانتے مہ مسیح دوزخ میں رہا اور پھر اِسمیں کچھ ظلم نہیں۔ جیسا اُس نے کہا میں بھیڑوں کے لیے اپنی جان دیتا ہو ں کوئی اِسے مجھ سے نہیں لیتا ہے بلکہ میں آپ سے دیتا ہوں کہ مسیح ہمارے لئے سزا اُٹھائے۔ کیونکہ اُس نے خوشی سے ہمارے گناہوں کے بدلے جان دی اور دنیا میں یہہ بندوبست خدا کا ہے کہ ایک آدمی سے گناہ ظہور میں آوے اور دوسرا اُسکی تکلیف اُٹھاوے جیسے خدا کی کلام میں ہے کہ آدم نے گناہ کیا اور اُسکے فرزندوں نے تکلیفیں اُٹھائیں اور اُٹھاتےہیں۔

تیسرا اعتراض    اگر حضرت عیسیٰ اپنی خوشی سے کفارہ قبول کرتے تو صلیب پر کیوں پکار کر کہتے ۔ کہ ایلی ایلی سبقتنی یعنے اے میرے خدا اے میرے خدا ۔ تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا۔

جواب    غضب الہیٰ بھی ایک حصّہ گناہ کی سزا کا ہے۔ اور مسیح نے گناہ کی تمام پس وہ نہ اسلئے ایلی ایلی پکار ا کہ سزا ُٹھانے سے ناراض تھا بلکہ اسلئے تاکہ سب جانیں کہ غضب الہیٰ بھی اِسپر نازل ہوا۔ اگرچہ خدا مسیح سے خوش اور راضی تھا۔ تو بھی اِن گناہونکے سبب جو ہمارے مسیح نے اُٹھائے خدا اُسکے ساتھ سختی سے پیش آیا۔

چوتھا اعتراض    جب مسیح نے سب گناہ اُٹھالئے تو گویا وہ مجموعہ گناہوں کے ہوئے پس گنہگار آدمی اپنے گناہ سے عزاب ابدی میں رہیگا تو کیا حال ہے اُسکا جس نے سب کے گناہ اُٹھائے۔

جواب    گناہ اُٹھانے کے یہہ معنے نہیں ہیں کہ اِنسان گناہ سے پلید ہو جاتا ہے۔ لیکن یہہ گناہ کی سزا اُٹھانا ہے جیسے کہ احبار کے ۲۰باب ۲۰ آیت اور ۲۲ باب ۹ آیت اور ۲۴ باب ۱۵آیت کہ جو کوئی کسی طرح کے گناہ کرینگے وہ اپنے اپنے گناہونکو اُٹھاوینگے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح نے صرف ہمارے گناہوں کی سزا اُٹھائی۔ بیشک مسیح نے بہت بھاری بوجھ اُٹھایا ہے۔ لیکن سمجھنا چاہیے کہ خداوند یسوع الوہیت رکھتا تھا۔ لیکن یہہ خیال نہ کرنا چاہیے کہ اُس نے اِتنی تکلیف اُٹھائی جتنی سب گنہگارونکا حق ہے۔ اور خدا اِس لیے سزا نہیں دیتا کہ وہ گنہگار ونکی تکلیف سے خوش ہوتا ہے۔ بلکہ قانون اور حکومت کے قائم رکھنے کے لیے سزا دیتا ہے ۔ بس اُس نے مسیح کو اِتنی سزا دی جتنی درکار تھی نہ زیادہ مگر انسان کو معلوم نہیں کہ کتنی تھی لیکن اتنا تو معلوم ہے کہ اُسکا درجہ نہایت بلند تھا۔ پس اِسکی تکلیف بھی نہایت قیمتی تھی۔

پانچواں اعتراض    بتقدیر تسلیم کفارہ انبیاء جو پہلے مسیح کے گزرے ہیں لازم آتا ہےکہ کفارہ کے ساتھ دوذخ میں رہے ہوں کیونکہ تب تک کفارہ نہ ہوا تھا۔

جواب    عہد عتیق سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی آنیوالے مسیح پر اعتقاد بلکہ ایمان رکھتے تھے اور خدا کے نزدیک زمانہ ماضی ۔ حال اور مستقبل سب ایک ہے۔

چھٹا اعتراض   ہم پوچھتے ہیں کہ کفارہ سب کا ہوا ہے یاکہ موجودیں کا برتقدیر ثانی آیندہ اور گزشتہ کے واسطے اور کفارہ چاہیے برتقدیر ادل جب لوگ پیدا نہ ہونے تھے تو اُن کے گناہ کیونکر ایک شخص نے اُٹھائے ۔

جواب    دنیا کے ابتدا سے لیکر دنیا کے آخر تک جو مسیح پر ایمان لائے ہیں اِن سب کےلیے مسیح کا کفارہ ہوا خدا پیش بینی سے پہلے ہی چاہتا تھا کہ گناہ کس قدر ہونگے اور گنہگار کس قدر ہونگے اِس لیے اُس نے ایک ایسا کفارہ کامل مقرر کیا جو سب کے لیے کافی ہو اور یہہ بھی سمجھنا چاہیے کہ اگر کوئی جانے کہ کل میرا بیٹا کسی کے سو روپیہ کا نقصان کریگا تو پھر وہ چاہے کہ میں آج اُسکا نقصان ادا کردوں تو وہ ضرور ادا کر سکتا ہے۔

ساتواں اعتراض    جب مسیح نے سب کے گناہ اُٹھا لیے تو وہ گویا اوّل نمبر گنہگار وں کے ہوئے پس محتاج ہوئے طرف کسی منُجی کے کیونکہ بغیر منُجی کے نجات ممکن نہیں پس وہ بھی محتاج کفارہ کا ہوگا اور تسلسل لازم آئیگا۔

جواب    اگر کسی گنہگار پر جُرمانہ ہو اور میں ادا کروں تو میں گنہگار نہیں ہو جاتا اسیطرح مسیح نے خود بیگناہ ہو کر ہمارے گناہوں کی سزا اُٹھا ئی پس وہ گنہگار نہیں ہو گیا کہ کسی اور منُجی کا محتاج ہوتا اور تسلسل لازم آتا مسیح نے ہمارے گناہونکی آلودگی نہیں اُٹھائی بلکہ اُن کی سزا اُٹھائی ہے۔

آٹھواں اعتراض    کفارہ سے لازم آتا ہے کہ قاتل اور چور وغیرہ مجرم کو پھانسی کی سزا دی جاتی حالانکہ مسیح دیتے اور لیتے بھی ہیں۔

جواب    مسیح اُن کے عوض جو اُسپر ایمان لا تے ہیں موا تاکہ خدا کی شریعت کا اقتضا پورا کرے وہ انسان کے قانون کے حکموں کو پورا کرنے نہیں آیا بلکہ خدا کی شریعت کو اور وہ جو اِنسانی قانون کے رو سے گنہگار ہونگے واجب ہے کہ قانون کے حکم کے مطابق سزا پاویں اگرچہ وہ ایمان کے وسیلے عاقبت میں اپنے گناہونکی معافی پائینگے علاوہ اِسکے یہہ بھی سوچنا چاہیے کہ مسیح سب کو نہیں بچائیگا۔ مگر اُن کو جو اُسپرایمان لاتے ہیں ۔ اور یہہ سزا قانون کے حکم کے مطابق دنیا میں ملتی ہے وہ عوام کی مصلحت کے لیے ہے ۔

نواں اعتراض    جب کفارہ ہوگیا تو کیا حاجت رہی نیکی کرنے کے باوجود یکہ مسیح نے چالیس روزہ رکھے اور حوار ین بھی پابند نیکی کے رہے۔

جواب    خداوند عیسیٰ مسیح دنیا میں آیا کہ ہم لوگوں کو ہمارے گناہوں سے بچاوے اُسنے ہماری سزا کو اٹھایا ۔ اور ہم اور خدا میں صلح کرا کے راہ کو کھول دیا کہ خدا اپنی پاک روح ہمپر نازل کرے جس سے ہم نیکی کر سکیں۔ اور اُسنے وعدہ کیا کہ میں اُن سب پر جو ایمان لاتے ہیں روح القدس بھیجونگا۔ تاکہ وہ اُن کو سکھلاوے اور پاک کرے کہ وہ ہر ایک نیک کام کے لیے تیار ہوویں پس معلوم ہو کہ نیکی ہمارے ایمان کا پھل اور مہر ہے اور جس طرح سے کہ اچھا درخت اچھا پھل لاتا ہے۔ اور یعقوب رسول بھی سکھلاتا ہے کہ بدن بغیر روح مردہ ہے۔ ویسا ہی ایمان بغیر اعمال نیک کے مردہ ہے سچےّ ایمان سے خدا کی محبت پیدا ہوتی اور یمان سے فرمانبرداری ۔ حاصل کلام یہہ ہے کہ ہماری نجات کی بنیاد مسیح کی موت ہے۔ جس کی شرط ایمان ہے اور پھل پاکیزگی۔

دسواں اعتراض    اگر مسیح نے گناہ اُٹھائے بھی ہوں تو لازم آتا ہے کہ امور غیر متناہی واقع ہوں۔

جواب    اگرچہ وقوع امورغیر متناہی محال ہے۔ مگر آدمی کے نزدیک جو متناہی ہے نہ خدا کے نزدیک جو خود غیر متناہی ہے اور مسیح میں جب کامل الوہیت ہے تو کچھ محال نہیں۔

گیارھواں اعتراض    مسیح اگر کفارہ ہونے کو آئے تھے تو آتے ہی کفارہ کیوں نہ ہوئے بلکہ انجیل سے ثابت ہے کہ خلقت کو نصیحت کرنے آئے تھے۔

جواب    مسیح کے تین عہدے تھے ۔ کہانؔت ۔ نبؔوت۔ بادؔشاہت۔ پس وہ نبوت کا کام بخوبی بجا لایا یعنے نصیحت کی ۔ جب انجیل میں لکھا ہے اور کہانت کا کام بھی ایسا پورا کیا اور کرتا ہے کہ اپنے تئیں قربان کر کے خدا کے حضور ہمیشہ اپنی اُمت کی سفارش کرتا ہے اور جب اُسنے مردوں میں سے زندہ ہو کر فرمایا کہ آسمان اور زمین کا سارا اختیار مجھے دیا گیا ہے تو اُسکی بادشاہت جو روحانی اور ابدی ہے۔ اُسوقت سے لیکر ا بتک موجود ہے اور ابد تک قایم رہیگی اور آخر سب پر غالب آویگی ۔

بارھواں اعتراض    اس کفارہ کے ہونے سے معافی گناہ کی تو نہیں ہوئی ۔ بلکہ زیادتی وقوع میں آئی ہے ۔ کیونکہ یہودی مسیح کی حقارت کرنے کے باعث مستحق عذاب کے ہوئے۔

جواب    خداوند عیسیٰ مسیح اسواسطے دنیا میں آیا کہ جو کوئی اُسپر ایمان لاوے ہمیشہ کی زندگی پاوے اور جو کوئی اُسپر ایمان نہ لاوے اُسکے واسطے سزا کا حکم ہے ۔ جیسا کے خدا کے حکم سے نوح نے کشتی کو بنایا اُن کے واسطے جو اُسمیں داخل ہوویں نہ اُن کے واسطے جو انکار کریں ۔ بیشک بہتوں نے مسیح سے ٹھوکر کھائی اور عذاب کے مستحق ہوئے جیسے لوقا کی انجیل دوسرا ۳۴ آیت میں درج ہے یعنے مسیح اِسرائیل میں بہتوں کے گرنے اور اُٹھنے کے لیے رکھا ہے۔

تیرھواں اعتراض    اگر کفارہ موافق مرضی خدا کے ہونا تو علامات رحمت ظاہر ہوئیں حالانکہ چاروں اناجیل سے ثابت ہے کہ بعد سولی کے اِسطرح کی علامت قہر خدا ظاہر ہوئیں کہ کبھی نہ ہوئی ہونگی۔ مثلاً جہان میں اندھیرا ہو جانا اور مرُدونکا قبر وں سے نکلنا ، زمین کا کانپنا ، ہیکل کا پردہ پھٹ جانا۔

جواب    علامت جو وقوع میں آئیں غضب اور رحمت دونوں پر دلالت کرتی ہے۔ نہ صرف علامت قہر ِ خدا ظاہر ہوئیں۔ جیسا کہ معترض کہتے ہیں چنانچہ تاریکی اور زلزلہ دونوں نشان غضب الہیٰ کے ہیں اِس سبب کہ انہوں ایسا سخت گناہ کیا کہ مسیح کو صلیب دیا۔ مگر مردونکا زندہ ہونا اور پردے کا پھٹ جانا دونوں نشان رحمت کے ہیں ۔ پہلا اِس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ہم مردے مسیح کے وسیلے زندہ ہوتے ہیں۔ دوسرا اِس پر دال ہے کہ وہ پردہ جو درمیان خدا اور انسان کے تھا پھٹ گیا۔ یعنے وہ راستہ جو خداوند کی طرف جاتا ہے کھل گیا۔

چودھواں اعتراض    جبکہ باقرار مسیحیان حضرت عیسیٰ جزء خدا کے ہیں اور یہہ تو ظاہر ہے کہ صلیب پر کھینچنے والا انسان تھا۔ پس اِس سے غلبہ مخلوق کا خالق پر پایا جاتا ہے۔

جواب    مسیحی ہرگز اِس بات کے مقر نہیں کہ عیسیٰ خدا کی جزء ہے۔ بلکہ اُسکے حکم کے موافق اُسکو اور خدا کو ایک جانتے ہیں جیسا یوّحنا کی انجیل باب ۱۰ آیت ۳۰ میں ہے کہ میں اور باپ ایک ہیں اور اُس کی انسانیت کو بھی مانتے ہیں چنانچہ یوحّنا کے ۵ باب ۲۷ آیت میں ہے کہ وہ انسان کا بیٹا ہے۔ غرض کہ اُسکی الوہیت اور عبوریت کو صلیب نہیں دیا کہ غلبہ مخلوق کا خالق پر پایا جاتا ۔ مگر اُس کی عبوریت کو ضرور صلیب دیا سو یہہ امر بھی اُسکی مرضی سے وقوع میں آیا ورنہ انکا کیا اختیار تھا چنانچہ یوّحنا کے۱۰ باب ۱۷و۱۸ آیت میں مسیح نے فرمایا ہے کہ میرا اختیار ہے جان دینا اور پھر لینا۔

پندرھواں اعتراض    اگر کفارہ کو مان لیں تو الزام آتا ہے کہ کسی بخشش کرنے والے کی حاجت نہ رہے حالانکہ کتاب اعمال میں موجود ہیں کہ حوارئین بخشش دیتے تھے اور مسیح حوارئین کو فرماتے تھے کہ جسکو تم بخشو گے وہ بخشا جائیگا۔

جواب    یہہ بات سچ نہیں کہ حواریوں نے خود کسی کے گناہ بخشے اور یہہ جو مسیح نے اُنہیں فرمایا کہ جس کو تم بخشو گے وہ بخشا جائیگا اِسکے یہہ معنے ہیں کہ میں آسمان پر جا کر روح القدس تم پر بھیجونگا ۔ اور وہ تم کو سم کچھ سکھلائیگیاور اُن شرطوں کے بتلانے اور بیان کرنے پر جن سے نجات حاصل ہوگی تم کو اختیار ملیگا جو دل سے سنیگا ور ایمان لائیگا وہ نجات پائیگا ۔ جیسے ایلچی کو اختیار دیا جاتا ہے کہ دوسرے بادشاہ کے پاس جائے اور بیان کر ے کہ اِس شرط پر ہمارا بادشاہ آپ سے صلح کریگا اور جب وہ شرط اُس بادشاہ نے قبال کر لی تو بیشک وہ ایلچی کہیگا کہ بس اب صلح ہوگئی۔ اس طرح حواریوں کو اختیار اور طاقت دی گئی ہے کہ گنہاگاروں کو بتائیں اور سمجھائیں کہ خدا کس شرط پر بخشیگا اور جس وقت اُس شرط کو وہ منظور اور قبول کر لیں تو بیشک حواری کہیں کہ تمہارے گناہ بخشے گئے ۔ پھر حواری مسیحی کلیساکے سردار تھے اور اُنکو اختیار تھا کہ چاہے ممبروں کو قبول کریں چاہے رد کریں اِسواسطے ہم کہہ سکتے ہیں کہ گناہونکا بخشنا اُسی کے اختیار میں ہے۔ اگرچہ فی الحقیقت خدا گناہوں کو بخش سکتا ہے۔

سولھواں اعتراض    اناجیل سے ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ قیامت کو عدالت کرینگے اگر یہہ سچ ہے تو بطلان کفارہ میں کیا شک ہے۔

جواب   یہہ انجیل میں کہاں لکھا ہے کہ گناہ کلُ بخشے گئے پس ضرور قیامت کو مسیح عدالت کرینگے یعنے جو اُسکے کفارہ پر ایمان لائے ہیں وہ سزا سے نجات پائینگے اور جو نہیں لائے وہ جہنم میں جائینگے اسی کا نام عدالت ہے۔

سترھواں اعتراض ۔    ہر ایک فرقہ پر اطاعت پیشوا اپنے کی لازمی ہے۔ پس اگر مسیح مصلوب ہوئے تو عیسائی کیوں صلیب پر نہیں چڑھتے ۔

جواب    مسیح خو د صلیب پر نہیں چڑھے بے ایمانوں نے پکڑ کے اُن کو صلیب دیا پس اِسیطرح مسیحی بھی تیار ہیں۔ کہ جب کوئی اُن کو صلیب دے تو قبول کرتے ہیں ۔ چنانچہ بہتوں نے ایسا ہی کیا صلیب بھی اور صلیب برابر اور ہزاروں تکلیفیں اُٹھائیں ۔ چنانچہ مثل مشہور ہے کہ شہیدونکا خون کلیسیا کا تخم ہے۔

اٹھارھواں اعتراض ۔    اعتقاد کفارہ سے تحقیرشان متصّور ہے۔ یہہ تحقیر اُن کے پیر و پولوس صاحب بھی کرتے رہے قطع نظر مخالف سے چنانچہ گلاتیوں کے خط میں لکھا ہے کہ جو سولی دیا گیا وہ لعنتی ہے۔

جواب    لعنت کے معنے غضب خدا کا ہے۔ اور مسیح نے بیشک خدا کا غضب ہمارے لیے اُٹھایا اور اُسکے مغضون ہونے کو تو ہم اپنا فخر سمجھتے ہیں یعنے جب اُس نے ہماری لعنت کو خود اُٹھایا ۔ اور ہمیں چھڑایا تو کیا اِس لفظ کے بولنے سے ہم اسکی عزت سمجھینگے یا حقارت بیشک اسمیں عزت پائی جاتی ۔

   اُنیسواں  اعتراض ۔ اگر مسیح کفارہ ہونے آتے تو دعا  اتردید بلائے  ہذا نہ مانگتے حالانکہ باب ۱۴ مرقس میں موجود ہے۔ کہ مسیح نے رات بھر  بہت تضرّع سے دعا  مانگی کہ یہہ عذاب  سولی کا مجھ سے ٹل جائے۔

جواب   ۔ مسیح نے کبھی نہیں کہا کہ یہہ عذاب صلیب کا مجھ سے ٹل جائے بیشک یہہ بات مرقس میں ہے  کہ یہہ پیالہ مجھ سے دور ہوتو بھی میری مرضی نہیں بلکہ تیری مرضی ۔ اُسوقت مسیح نہایت تکلیف میں تھا جیسے لکھا ہے کہ اُسکا عرق بدن سے خون کے موافق نکلتا تھا کیونکہ ہمارے گناہوں کا بوجھ اُسپر تھا ایسی سخت  جان کندکی سی رنج میں باپ سے یہہ لفظ بولا تاکہ جس قدر ہوسکے یہہ تکلیف اِس سے دور کی جائے پھر یہہ بات بھی ساتھ کہی کہ میری مرضی نہیں۔ بلکہ تیری مرضی ۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُسکی تکلیف کس قدر بھاری تھی اور کس قدر کامل اُسکی تابعداری  تھی۔

بیسواں اعتراض    مسیح من حیث الرّوح کفارہ ہوئے ہیں یامن حیث الجسم برتقدیر ثانی جسم اُنکا بشریت کا تھا۔ اور کلُ بشر گنہگار ہیں برتقدیر اوّل روح کو آپ خدا سمجھتے ہیں وہ سولی دئے جانے سے بہتر بتراہی دوسرا روح محسوس نہیں جو صلیب پر کھینچا جاتا۔

جواب۔    مسیح من حیث الانس مصلوب ہوا ۔ اور اگرچہ جسم اُسکا بشریت کا ہے۔ لیکن بشر گنہگار ہیں وہ گنہگار نہ تھا۔ کیونکہ وہ بشر کا تخم نہیں ہے کہ گنہگار ہوتا ۔ جیسا فرشتے نے مریم صاحبہ سے کہا کہ روح القدس تجھ پر اُتریگی اور خدا تعالےٰ کی قدرت کا سایہ تجھ پر ہوگا۔ اِس سبب سے وہ پاک لڑکا خدا کا بیٹا کھلاویگا دیکھو لوقا کی انجیل ا باب ۳۵ آیت اور چونکہ الوہیت اُس میں کامل تھی اِس لیے اُسکے کفارہ کی فضلیت کامل تھی عزیزو یہہ بھی دریافت کرو کہ خدا کے نبیوں اور حواریوں نے مسیح کے کفارہ پر کس قدر گواہی دی ہے یسعیاہ کی کتاب باب ۵۳ آیت ۴ سے ۷ تک لیکن اُس نے ہمارے آزار اُٹھائے اور ہمارے عملوں کا حامل ہوا اور ہم نے خیال کیا کہ وہ مارا خدا کا کوٹا اور دُکھایا ہوا ہے پر وہ ہمارے گناہوں کے لیے گھایل کیا گیا اور ہماری بدکاریوں کے لیے کچلا گیا اور ہماری سلامتی کے لیے اُسپر سیاست ہوئی ۔ اور اُس کے مار کھانے سے ہم چنگے ہوئے ہم سب بھیڑوں کی مانند بٹھک گئے ہم میں سے ہر ایک اپنی اپنی راہ پر متوجہ ہوا۔ اور خداوند نے ہم سبھونکی بدکاری اُسپر لادی وہ مظلوم تھا۔ اورغمزدہ تو بھی اُسنے مُنہ نہ کھولاوہ برّےکی طرح زبح ہونے کو لایا گیا اور جیسا بھیڑ اپنے بال کتروانے والے کے آگے چُپ چاپ ہے ویسا ہی اُسنے اپنا منُہ نہ کھولا فقط۔ پھر پولوس کا خط رومیوں کے نام ۴ باب ۲۵ آیت وہ ہمارے گُناہوں کے لِئے حوالہ کر دِیا گیا اور ہم کو راست باز ٹھہرانے کے لِئے جِلایا گیا۔فقط ۔ پھر پولوس کا خط قرنتیون کو پہلا خط ۱۵ باب ۳ آیت میں لکھا ہے چُنانچہ مَیں نے سب سے پہلے تُم کو وُہی بات پُہنچا دی جو مُجھے پُہنچی تھی کہ مسِیح کِتابِ مُقدّس کے مُطابِق ہمارے گُناہوں کے لِئے مُؤا۔فقط۔ پھر پولوس کا پہلا خط باب۳ ۔ آیت ۱۸ میں لکھا ہے کیونکہ مسیح نے ایک بار گناہوں کے واسطے دُکھ اُٹھایا ۔ یعنے راستباز نے ناراستوں کے لیے تاکہ ہم کو خدا کے پاس پہنچائے کہ وہ جسم کی نسبت تو مارا گیا لیکن روح کی نسبت زندہ کیا گیا ۔ فقط پھر پولوس کا خط رومیوں کو ۵ باب ۶ آیت سے ۱۰ تک لکھا ہے کہ کیونکہ جب ہم کمزور ہی تھے تو عَین وقت پر مسِیح بے دِینوں کی خاطِر مُؤا۔ کِسی راست باز کی خاطِر بھی مُشکل سے کوئی اپنی جان دے گا مگر شاید کِسی نیک آدمی کے لِئے کوئی اپنی جان تک دے دینے کی جُرأت کرے۔ لیکن خُدا اپنی مُحبّت کی خُوبی ہم پر یُوں ظاہِر کرتا ہے کہ جب ہم گُنہگار ہی تھے تو مسِیح ہماری خاطِر مُؤا۔ پس جب ہم اُس کے خُون کے باعِث اب راست باز ٹھہرے تو اُس کے وسِیلہ سے غضبِ اِلہٰی سے ضرُور ہی بچیں گے۔ کیونکہ جب باوُجُود دُشمن ہونے کے خُدا سے اُس کے بیٹے کی مَوت کے وسِیلہ سے ہمارا میل ہو گیا تو میل ہونے کے بعد تو ہم اُس کی زِندگی کے سبب سے ضرُور ہی بچیں گے۔فقط اور مسیح نے خود بھی اپنی زبان مبارک سے فرمایا چنانچہ یوّحنا کی انجیل ۳ باب ۱۴ آیت و ۱۵ و ۱۶ آیت میں مرقوم ہے اور جِس طرح مُوسیٰ نے سانپ کو بیابان میں اُونچے پر چڑھایا اُسی طرح ضرُور ہے کہ اِبنِ آدم بھی اُونچے پر چڑھایا جائے۔ تاکہ جو کوئی اِیمان لائے اُس میں ہمیشہ کی زِندگی پائے۔ کیونکہ خُدا نے دُنیا سے اَیسی مُحبّت رکھّی کہ اُس نے اپنا اِکلَوتا بیٹا بخش دِیا تاکہ جو کوئی اُس پر اِیمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زِندگی پائے۔پس جس کفارہ پر ایسی گواہیاں برحق اور ایسے گواہ صادق ہوں اُس کو باطل تصوّر کرنا سراسر بطلان اور بہتاں اور کفران ہے ۔ وساوس شیطانی سے خدا پناہ بخشے آمین آمین۔

اعتراضات عشاءربانی کےحق میں

اکثر لوگ عشاء ربانی پر ہنستے ہیں اور کہتے ہیں کہ کیا  عجیب بات ہے کہ عیسائی روٹی لیکر توڑتے  اور آپس میں بانٹ کھاتے ہیں اور پھر مے پیالہ میں ڈال کر مسیح کی موت کی  یادگاری کے لیے پی لیتے ہیں سچ ہے کہ مزہبی رسوم پر ہنسنا  مشکل نہیں ہے اگر کوئی ہندو رسم ختنہ  پر ہنسے اور کہے کہ یہہ ایک عجیب ہے کہ محمدی اپنے لڑکوں کے بدن سے ایک ٹکڑا چمڑا کاٹتے ہیں اور اپنی خام خیالی سے کہتے ہیں کہ یہہ حرکت خدا کو پسند آتی ہے تو کیا جواب دو گے۔ تو بھی ہم کو معلوم ہے کہ خدا نے اِس رسم کو ابراہیم پر فرض کیا یہہ سب لوگ جو تواریخ  سے واقف ہیں جانتے ہیں کہ اہل اسلام محمد صاحب کے وقت سے لیکے ختنہ کو مانتے چلے آئے ہیں۔ اِسیطور پر عیسائی عشاء ربانی مسیح کے وقت سے مانتے  ہیں۔ پس جو عشاء ربانی پر ہنستا ہے  وہ مسیح  پر ہنستا ہے اور جو مسیح پر ہنستا ہے وہ  محمد صاحب پر ہنستا ہے  کیونکہ  اُس نے بار بار کہا کہ مسیح خدا کا  نبی ہے۔ سب عقلمندوں پر فرض ہے کہ بخوبی سوچیں کہ رسم کا کیا فائدہ ہے اگر اِس بات کو دریافت کرینگے تو اُنکو اُنکا  فائدہ معلوم ہوگا کہ رسمیں روحانی اور غیب   کی بللونکو ں کو ظاہر کرتی ہیں۔ اکثر آدمی اپنی مذہبی رسمونکا مطلب نہیں دریافت کرتے ہیں اور اگر کوئی پوچھے کہ رسم کو کیوں  مانتے ہو تو  وہ یہی جواب دیتے ہیں کہ خدا کا حکم ہے ۔ لیکن سمجھنا  چاہیے کہ خدا دانا ہےاور دانائی اُسکی سب کاموں اور سب احکاموں میں ظاہر ہے ۔ دینی ریت و رسم میں اگر ہم بخوبی غور کریں تو ضرور الہیٰ دانا ئی ظاہر ہوتی ہے ۔ اور خوبی رسم کی یہہ کہ روحانی باتوں کو اچھی طرح ظاہر کرے۔ میرے عزیزو   اِن  باتوں پر غور کرو اور سوچو  اور معلوم کرو کہ عشاء  ربّانی کا مطلب کیا  ہے۔ اور وہ مطلب  اِس رسم  سے پورا  ہوتا ہے کہ نہیں  ۔ عیسائی مزہب کی یہہ بنیاد ہے کہ خداوند عیسیٰ مسیح گنہگاروں کے بدلے میں قربان ہوا اور صدہا جگہ لکھا ہے کہ ہم اپنی نیکی پر نہیں مگر اُسکی موت پر بھروسا رکھیں ۔ پس جب عیسیٰ مرنے پر تھا تو  اُس نے روٹی لیکر توڑی اور اپنے شاگرد وں کو دیکر کہا۔ کہ یہہ میرا بدن یعنے بدن کا نشان ہے جو تمھارے واسطے  توڑا  جاتا ہے۔  ویسا ہی مے لیکر کہا کہ یہہ میرا لہو ہے۔ میری دانست میں یہہ رسم بخوبی اِس عمدہ بات پر دلالت کرتی ہے۔ اور اِسکے سوا  عیسیٰ نے اپنے شاگردوں کو سکھلایا  کہ حق اور زندگی میں ہی ہوں ۔ اور پھر  اُسنے کہا کہ میں زندگی کی روٹی  ہوں اور جو میرے پاس آتا ہے کبھی بھوکھا نہ ہوگا اور وہ جو مجھ پر ایمان لاتا ہے کبھی پیاسا نہ ہوگا۔ اور پھر یہہ وہ ہی روٹی ہے جو آسمان سے اُتری  کہ آدمی اُسے کھاوے اور نہ مرے ۔ مسیح فرماتا ہے کہ میں وہ جیتی روٹی ہوں جو آسمان سے اُتری اور وہ  روٹی جو میں دونگا میرا گوشت ہے جو میں دنیا کی زندگی کے لیے دونگا۔ تب یہودی لوگ اُسپر کُڑکڑانے  لگے کہ یہہ آدمی کس طرح اپنا گوشت ہمکو کھانے کے واسطے دیگا  ۔ تب عیسیٰ نے فرمایا کہ میں تم سے سچ سچ کہتا ہو ں کہ اگر تم ابن آدم  کا گوشت نہ کھاؤ اور خون نہ پیو تو تم میں زندگی نہیں ۔ پھر اُس نے کہا کہ میں سّچے انگور کا درخت کا  اور تم ڈالیاں ہوں اور اگر تم مجھ قایم ہو تو تم پھل لاؤ گے۔ اِن باتوں کا مطلب یہ کہ جس طرح اِنسان کی زندگی خوراک پر منحصر ہے اِسیطرح ایمانداروں کی زندگی  عیسیٰ مسیح سے ہے ۔ گناہ کے باعث تمام دنیا  مردہ ہے لیکن جو شخص مسیح پر ایمان لاتا ہے اور اُسمیں پیوند ہوجاتا ہے اُس کے تمام  گناہ  بخشے جاتے ہیں اور اُس میں روحانی زندگی پیدا  ہوتی ہے ۔ یہہ بات  ہم انجیل اور تجربہ سے ثابت کر سکتے ہیں ۔ اور  دونوں باتیں  عشاء ربانی سے ظاہر ہوتی ہیں ۔ پس میرے عزیزو تم سوچو کہ  یہہ رسم خدا کے لائق ہے کہ نہیں ہزاروں لوگ اُس سے تسّلی اور روحانی  قوت پاتے ہیں اور داؤو خدا کے روحانی نعمتوں کا ز کر کے  کہتا ہے کہ تو نے میرے لیے میرے دشمنوں کے آگے دستر خان بچھایا۔

اور جب ایماندار لوگ ایک دسترخوان پر جمع ہو کر کھانا کھاتے ہیں وہ خوشی سے یاد کرتے ہیں کہ ہم سب ایک ہیں باپ ہے یعنے خدا  اور ہم سب کیا چھوٹے کیا بڑے کیاامیر کیا غریب خدا کےفرزند ہیں۔ اگر کوئی پوچھے کہ اِس عید میں انگور کے رس کا کیوں استعمال کرتے ہو۔ تو یہہ جواب ہے کہ ہم اُس عرق کو کو جسے اِس ملک میں شراب کہتے ہیں نہیں استعمال  کرتے  یہہ صرف تہمت ہے۔ لیکن مسیح کے حکم سے وائین ضرور پیتے ہیں موسیٰ یا عیسیٰ نے مے پینے شیرہ انگور منع نہیں فرمایا۔ اور اِسکے پینے میں کچھ عیب بشرطیکہ اِس کو بدطور سے استعمال نہ کیا   جاوے۔ اور میری سمجھ میں عیسیٰ نے اس واسطے  حکم دیا کہ اِس عید میں وائین پیویں کہ اکثر لوگ  خیال کرتے ہیں کہ  خدا  کی عبادت میں بڑی تکلیف ہے۔ اور دے جو اُسکو بجا لاتے ہیں بڑا ثواب حاصل کرتے ہیں  اِس لیے وہ تکلیف اُٹھاتے ہیں لیکن حق یہہ ہی  کہ سّچے پرستار جو روح اور سچائی سے خدا  کی عبادت کرتے ہیں اُس سے ایسی خوشی حاصل کرتے ہیں جیسا کہ دنیاوی لوگ  مال و غنیمت سے خوش ہوتے ہیں۔ اور جس طرح مے آدمی کے دل  کو خو ش کرتی ہے  ویسا ہی بلکہ اُس سے زیادہ تر سّچےپرستاروں کے دل خدا کی صحبت سے خوش ہوتے ہیں ۔ کاش کہ یہہ حقیقی خوشی ہم سبھوں کو ملے کہ ہم بھی داؤد کے موافق کہیں کہ تو نے میرے دل کو  خوشی بخشی  ہے۔ اُس خوشی سے زیادہ جو  اُنہیں اُنکے غلہ اور مہ کی بہتات سے ہوتی ہے  ۔ پانچویں زبور کی ساتویں آیت۔

درباب ریت و رسم

اکثر لوگ کہتے ہیں کہ عیسائی لوگ بالکل بیدین ہیں کیونکہ وہ قربانی نہیں کرتے حلال حرام میں  تمیز نہیں  کرتے اور ہر  مذہب  کے لوگوں کے ہاتھ سے کھاتے  ہیں ۔ اور بار بار محمدی لوگ پوچھتے ہیں کہ کہ ختنہ کیوں نہیں کرتے۔ فلانی فلانی چیز کیوں کھاتے  اور پیتے ہو۔ نماز کیوں نہیں پڑھتے روزہ کیوں نہیں رکھتے ہیں۔ اِن باتوں کا جواب بڑی خوشی سے دیتا ہوں مہربانی کر کے اپنی عقل  کوتعصّب کے زنجیر سے آزاد کر کے دیکھو کہ جواب معقول ہے یا نہیں ۔ پہلے اِن دستورونکی  ہامیت کو عقلی و نقلی دلایل سے ثابت کرنا واجب ہے شاید تم کہو گے دونوں سے    ثابت  کرنا ضروری ہے۔ لہذا  پہلے عقلی دلایل  پیش کرتے ہیں۔

اکثر لوگ  اعتراض کرتے ہیں  کہ فلانے فلاں   جانورگوشت کھانا  حرام ہے اِس لیے وہ میل کھاتے ہیں ۔ اگر یہہ پختہ دلیل ہے تو معترض بھیڑاور بط وغیرہ کیوں کھاتے ہیں ۔ اور کیونکر اُنکی کتاب میں لکھا ہے کہ یہہ جانور حلال ہیں۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہہ دلیل کسی کام کی نہیں پر میں کہتا ہوں اگر یہہ دلیل پختہ ہے تو شیر کا گوشت حلال اور گائے کا گوشت حرام ہوگا۔ کیونکہ گائے میل کھاتی ہے اور شیر میل نہیں کھاتا۔ اگر تم اچھی طرح دریافت کروگے تو تمکو  معلوم ہوگا کہ جیسا  ہمیں کسی چیز کے کھانے  کی عادت ہو  تو  ہم اُس کو حلال جانتے ہیں ور اُس چیز کے کھانے سے گہن آتی ہے۔ مثلاً محمدی لوگ سور کو بہت خراب سمجتے ہیں۔ لیکن سکھ لوگ اُس کو بہت چاہتے ہیں ۔ اہل اسلام اور یہودی  ٹڈی کو حلال جانتے ہیں۔ لیکن عیسائیوں اور ہندیوں کو اِس سے گہن آتی ہے۔ محمدی  اور عیسائی گائے کا گوشت کھاتے ہیں ۔ لیکن ہندؤلوگ اُس جگہ سے جہاں گائے کا گوشت دیکھتے ہیں کوسوں بھاگتے ہیں۔ پھر کون عقل سے ثابت کر سکتا ہے۔ اونٹ کا گوشت حلال اور ہاتھی کا گوشت حرام ہے۔ تب عقلی دلایل کو چوڑ دینا چاہیے۔ کیونکہ وہ سب خام ہیں۔ باقی رہیں  نقلی سو  یہہ ہیں کہ قرآن میں لکھا  ہے کہ فلانی فلانی چیز حرام ہے۔ اِس واسطے اِن کو کھانا  نہ چاہیے یہہ بات  محمدی لوگوں کیواسطے  دلیل ہو یا نہ ہو۔ مگر عیسائی مذہب پر اِس لیے اعتراض  نہ کریں۔ لیکن اگر تم کہو کہ موسیٰ ہی نے اِن چیزوں کو منع کیا ہے  اور عیسائی لوگ توریت کو مانتے ہیں ۔ اگرچہ یہہ بات سچ ہے کہ عیسائی لوگ توریت مانتے ہیں ۔ اگرچہ یہ بات سچ ہے کہ عیسائی لوگ خوب مانتے ہیں کہ توریت خدا کا کلام ہے۔ لیکن ہماری خاص کتاب انجیل ہے  اور ہم اُس سے تعلیم پاتے ہیں کہ کس بات کو سچ جاننا  اور کس پر عمل کرنا ہے۔ مسیح جو توریت کی بابت ہمکو سکھلاتا ہے وہ یہہ ہے کہ اُس نے کہا کہ میں توریت اور انبیاء کی کتابوں کو منسوخ کرنے نہیں آیا۔ لیکن اُن کو پورا کرنے کو آیا ہوں۔  مرقس کی انجیل کے ساتویں  باب ۱۴ و ۱۳ آیت دیکھو۔ اور پھر پولوس رسول کا خط جو گلتیوں کو لکھا گیا۔ چوتھا  باب پہلی اور پانچویں آیت دیکھو تو تم کیوں دوبارہ اِن ضعیف اور ادنٰی قواعدرسول  کی طرف مائیل ہوتے۔ جنکی غلامی پھر تم کیا چاہتے ہو تم دنوں اور مہینوں اور فصلوں اور برسوں کو مانتے ہو  میں تمھارے حقمیں ڈرتا ہوں تا نہ محنت جو میں نے تمپر کی ہے بیفائدہ ہووے۔

اِن باتوں سے خوب معلوم ہوتا ہے کہ اصلی حقیقی شریعت ہمیشہ قایم ہےا ورتبدیل نہیں ہوتی لیکن  اسپر عمل کرنا ہمیشہ سب پر فرض ہے۔ اور اُسکے بہت سے احکام اور رسوم کو مسیح نے پورا کیا ۔ جیسا کہ قربانی دینا۔ کھانیمیں  فرق کرنا۔ میں اِس بات کو تمثیل دیکر بیان کرتا ہوں۔

ایک آدمی نے اپنے لڑکوں سے وعدہ کیا کہ چند روز کے بعد میں تمھارے واسطے بہت خوبصورت اور فایدہ مند چیز یں لاؤنگا اور لو اُن کا نمونہ میں تمہیں دیتا  ہوں اِس لیے کہ وہ چیزیں ہمیشہ  تمہاری  یاد میں رہیں۔ تم اُن نمونوں کو خبرداری سے رکھو اور اُن کو بار بار دیکھو اگر چند روز کے بعد وہ باپ اُن  تحفہ چیزوں کو لاوی۔ اور اُن کو دیوے تو وہ بڑے خوش  ہونگے۔ اور جب نمونوں کا اصل اُن کو مل گیا تو اُن کی قدر کچھ نہ کرینگے ۔ اگر کوئی لڑکا  اُن تحفہ چیزوں  کو چھوڑ کر صاف نقل  کو قیمتی سمجھے تو باپ ضرور اُسکو کہیگا کہ اب نقل کسی  کا م کی نہیں اصل کو لوکہ وہ اچھی ہیں ۔ اِسیطرح خدا نے یہودیوں کو بہت ریت ورسم بخشیں جو آنے والی برکتوں کے نمونہ  تھیں لیکن جب مسیح آیا اور اِس نے اُن رسموں کو پورا کیا ور اُن کو سکھلایا کہ جب تم لڑکے تھے تب  اِن تربیت کرنے والی رسموں کی جو دنیاوی بند میں تھی۔ لیکن اب تم کیوں دوبارہ اِن ضعیف اور ادنٰی قواعد رسوم کی طرف مایل ہوتے ہو۔ اور پھر اُن کی غلامی میں کیا رہتے ہو۔  گلاتی کا چوتھا باب دیکھو ۔ اگر کوئی کہے کہ ایک ایک ریت کے معنے بتاؤ۔ میں ہر ایک کے معنے نہیں بتا سکتا۔ لیکن کسی کسی کے بتلاؤنگا۔ خدا نے موسیٰ کو فرمایا کہ ہارون اور اُسکے بعد اُس کی اولاد میں سے ایک سردار کاہن مقرر ہووے ہمارے مسیح کا نشان تھا۔ سردار کاہن کے لیے حکم تھا کہ پاکترین جگہ میں جا کر جانور کا خون  چھڑکاوے۔ یہہ مسیح کے خون کا نشان تھاکہ ہمارے گناہوں کے واسطے بہایا  گیا۔  کاہن کے لیے حکم تھا کہ عبادت گا ہ میں جا کر خوشبو ئی جلاوے  یہہ خوشبو روحانی  بندگی  کا جو خدا کی خدمت میں پہنچتے ہیں  ایک صاف نشان  اِسی عبادت خانہ میں چراغ ہمیشہ رہتا تھا یہہ اُس روحانی روشنی  کا جو خدا کا کلام اور روح سے ایماندار وں کے دلوں  میں پیدا ہوتی ہے نشان ہے اور خدا نے چند ایک جانور جیسے سوؔر اُوؔنٹ گھؔوڑا اور خرگوؔش وغیرہ کا گوشت منع فرمایا ہے۔ اِس سے یہہ مراد ہے کہ ہم دنیاوی لوگوں کے ناپاک کاموں سے پرہیز  کریں جو کوئی کہے کہ مسیح نے ختنہ کرایا ضرور چاہیے کہ تمام عیسائی لوگ مختوں ہوں۔ کیونکہ کرید کو اپنے پیشوا کی ہدایت پر چلنا  چاہیے تو یہہ جواب یہ ہے کہ اپنے اُستاد یا نبی کے نمونہ پر ہر ایک بات میں نہیں چلنا چاہیے۔ مثلاً محمد صاحب نے اٹھاراں عورت کے ساتھ نکاح کیا۔ لیکن محمدی نہیں سمجھتے ہیں کہ ہم پر فرض ہے کہ اٹھاراں عورت کے ساتھ  نکاح کریں۔  خدا نے ختنہ کا حکم ابراہیم کو دیا ۔ جس وقت اُس نے اُسے کہا کہ دیکھ میں تجھ سے یہہ عہد کرتا  ہوں ۔

یہہ ایسا ہےجیسے ایک یونانی حاکم لیکر گسؔ نے یہہ دیکھ کر کہ لالچ سے بڑی خرابی ہوتی ہے سونے چاندیکا سئکہ بنانا اور استعمال میں لانا بالکل منع کر دیا۔ اگر کوئی شکم پرست ہو تو اُس کے لیے نقصان ہے۔ دیکھو روٹی کھانے میں نہیں بلکہ بد پرہیزی میں گناہ ہے۔ روپیہ حاصل کرنے میں نہیں بلکہ خیانت  اور لالچ میں گناہ ہے۔ اِسیطرح شراب پینے میں نہیں بدپرہیزی میں گناہ ہے ۔ اِسی واسطے بیبل میں شراب پینا منع نہیں ہے۔ اور کسی نبی نے کبھی منع نہیں کیا لیکن متوالا ہونا اکثر منع ہے ۔ اور صاف لکھا کہ کوئی کوئی متوالا بہشت میں داخل نہ ہوگا۔ اگر تم کسی دانا  طبیب سے دریافت کروگے تو وہ  مے اور شراب کے بہت فوائید بیان کریگا کہ اکثر اوقات اِس سے جان بچ جاتی ہے۔ تو بھی اِسلیے کہ اُسکی کثرت سے بہت نقصان ہوتے ہیں۔ بہتر ہے کہ بغیر سبب کہ ہم نہ ہٹیں ۔ میرے بھائیو یقین کرو  کہ خدا  کی مصنوعات میں کوئی چیز بیفائیدہ نہیں اگر ہم اُن کو اُسکی مرضی کے موافق اِستعمال میں لاویں تو اُس  کے فایدے معلوم  ہوتے ہیں۔

پھر محمدی لوگ کہتے ہیں کہ عیسائی  نماز نہیں پڑھتے باوجود یکہ عیسیٰ نماز پڑھتاتھا۔ لیکن دریافت کرنا چاہیے کہ نماز کیا ہے یہی کہ آدمی جھکے اور پھر کھڑا ہووے یا سر زمین پر رگڑے  عرؔبی یا عبراؔنی یا سراؔنی زبان میں جس کو وہ سمجھتا نہیں چند الفاظ پڑھے جس سے اُس کے دلپر کچھ تاثیر نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ اُنکے معنے نہیں جانتا  ہے۔ عیسیٰ مسیح نے اِس طرح نماز نہیں  پڑھی اور نہ اپنے شاگردوں کو اِس طرح  سکھلائی ہے۔ وہ اکثر اوقات پہاڑ پر یا باغیچہ میں لوگوں سے پوشیدہ ساری رات دعا  مانگنےمیں گزارتا تھا۔ اور اپنے شاگردوں کو کہتا  کہ مانگو توتم کو ملیگا۔ڈھونڈھو  تو تم پاؤگے ۔ کھٹ کھٹاو تو تمہارے واسطے کھولا جائیگا۔ اسلیئے مناسب ہے کہ ہم ہمیشہ دعا مانگیںاور اُس میں سسُتی نہ کریں ۔ اُس نے اِس مضمون کی ایک تمثیل سنائی کہ کسی شہر میں ایک غریب بیوہ رہتی تھی اور اُسی شہر میں ایک بے اِنصاف قاضی بھی رہتا تھا۔ اُس بیوہ نے بار بار جا کے اُس  قاضی کے پاس عرض کی ۔ قاضی   نے اُسکی ہرگز نہ سنُی۔ جب وہ بہت دفعہ اُس کے پاس آئی گئی تو اُس نے کہا کہ اگرچہ نہ  میں خدا  سے ڈرتا  اور نہ آدمی کی کچھ پرواہ رکھتا ہوں تو بھی میں اِس عورت کا انصاف کروں۔ایسا نہ ہو کہ وہ بار بار آنے سے میرا دماغ خالی کرے۔  پس خدا  جو مہربان  ہے وہ کس قدر زیادہ اپنے  برگزیدونکا  اِنصاف  کریگا۔ پھر لکھا ہے کہ روزّمرہ دعا مانگو۔  عیسیٰ نے کہا  کہ خدا روح ہے۔ اور ضرور  ہے کہ وے جو اُسکی بندگی کریں  روح اور سچائی سے کریں ۔ پھر اُسنے فریسیوں کو جو بڑے نماز گزار تھے اور بڑے لالچی اور ظلم بھی تھے کہا کہ اے ریاکارو تم سفید قبروں کی مانند ہو جو باہر بہت اچھی معلوم ہوتی ہیں پر اندر سے مرُدونکی ہڈیوں اور ہر طرحکی ناپاکی سے بھری ہیں ۔ اے  ریاکاروتمپر افسوس  کہ بیواؤں کے گھر نگلجاتے ہو اور مکر سے لمبی چوڑی نماز پڑھتے ہو۔ اِس سبب سے تم زیادہ  تر سزا  پاؤ  گے انتہاء ۔ پھر عیسیٰ نے کہا کہ جب تم دعا مانگو اپنی کو ٹھری میں جاؤ۔ اور پوشیدگی میں اپنے باپ سے دعا مانگو اور وہ جو پوشیدگی میں دیکھتا ہے ظاہر میں تمکو بدلہ دیگا۔ پھر کہا کہ جب تم دعا مانگو تو کہو  اے ہمارے  باپ جو آسمان پر ہے تیرے نام کی تقدیس ہو وغیرہ۔ پھر اُس نے کہا آپس میں اکھٹے ہو کے ایک دوسرے کو نصیحت کرو۔ اِن باتوں کے مطالعہ کرنے سے معلوم  ہوتا ہے کہ نماز ضروری  کام ہے ۔ بلکہ آدمی کی جان کے برابر ہے۔ لیکن اگر وہ دل اور  جان  اور سمجھ سے نہ ہو تو وہ بالکل بیفائیدہ اور جھوٹی  ہے۔ پھر معلوم ہو کہ ریاکار ی سے نماز پڑھنا بڑا گناہ ہے۔ نماز اکثر اپنے گھر میں لوگوں سے علیحدہ ہو کر پڑھنی چاہیے ۔ پر نصیحت سننے اور عبادت کرنے کے لیے اکھٹا ہو نا فرض ہے۔  

پھر لوگ پوچھتے ہیں کہ روزہ کیوں نہیں رکھتے ہو اُسکا جواب یہہ ہے کہ جب لوگ مسیح سے پوچھتے  تھے کہ تیرے  شاگرد روزہ کیوں نہیں رکھتے۔ اُس نے کہا کہ کیا براتی جبتک دُلہہ اُنکے ساتھ ہے  اوداس ہو سکتے ہیں لیکن وہ دن آوینگے کہ دُلہہ اُن سے جُدا کیا جاویگا  تب وے روزہ رکھینگے ۔ متی کی انجیل کےنویں(۹) باب کی پندرھویں آیت کو دیکھو۔  پھر اُس نے کہا جب تم روزہ رکھو  اپنے سر پر چکنائی لگاؤ اور منہ دھوؤ تاکہ آدمی نہیں پر تمہارا باپ جو پوشیدگی میں  ہے تمہیں روزہ دار جانے۔ اور تمہارا باپ جو پوشیدگی میں دیکھتا ہے  تمہیں ظاہر میں بدلہ دیگا۔ اِن باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ اچھا ہے لیکن حقیقت میں وہ غم کا نشان ہے۔ دکھلانے کے واسطے روزہ مقرر نہیں ہوا کیونکہ اکثر اُسکا زکر دعا کے ساتھ آیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ کا یہہ فایئدہ ہے کہ آدمی بالکل کھانے پینے سے الگ ہو کر خدا  کی عبادت میں مشغول رہے  نعوذ بااﷲ کوئی یہہ نہ سمجھے  کہ خدا ہمارے بھوکے رہنے سے راضی ہے۔ جب کائی باپ اپنے بیٹے کے دکھ سے راضی نہیں  تو خدا جو تمام جہان کا خا لق ہے ہمار ے دُکھ سے کس طرح خوش ہوگا۔ پس کوئی نہ سمجھے کہ ہم اپنے تئیں تکلیف دینے سے خدا کو خوش کرسکتے ہیں  خدا نے نبی کی معرفت فرمایا ہے۔ یسعیاہ کی کتاب ۵۸ باب  ۵ و ۶ اور ۷ آیت  کیا یہ وہ روزہ ہے جو مُجھ کو پسند ہے؟ اَیسا دِن کہ اُس میں آدمی اپنی جان کو دُکھ دے اور اپنے سر کو جھاؤکی طرح جُھکائے اور اپنے نِیچے ٹاٹ اور راکھ بِچھائے؟کیا تُو اِس کو روزہ اور اَیسا دِن کہے گا جو خُداوند کامقبُول ہو؟ کیا وہ روزہ جو مَیں چاہتا ہُوں یہ نہیں کہ ظُلم کی زنجِیریں توڑیں اور جُوئے کے بندھن کھولیں اور مظلُوموں کو آزاد کریں بلکہ ہر ایک جُوئے کو توڑ ڈالیں؟ کیا یہ نہیں کہ تُو اپنی روٹی بُھوکوں کو کِھلائے اور مِسکِینوں کو جو آوارہ ہیں اپنے گھر میں لائے اورجب کِسی کو ننگا دیکھے تو اُسے پہنائے اور تُو اپنے ہم جِنس سے رُوپوشی نہ کرے؟ غرض کہ اکثر لوگ دریافت نہیں کرتے کہ روزہ کا کیا فائیدہ  ہے جو کچھ  سورۃ البقر ۱۸۵ آیت میں لکھا ہے ۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ مصنّف کی سمجھ میں روزہ خوشی کا نشان ہے۔ روزہ سے ایک اور فائیدہ ہے کہ نفس کی خواہش کو مارنا ہے۔ لیکن جو کوئی سارا دن بھوکا اور ساری رات کھاتا  رہے خاص کر سویرے بہت کھاوے کہ تمام دن بھوکھ نہ لگے ۔ اِس سے نفس اور شہوت کم نہیں ہوتی بلکہ زیادہ تر ہوتی ہے۔ ور جو آدمی گرمی میں سارا دن بھوکھارہے پانی  اور حقہ تک نہ پئیے بیشک اُس کے دماغ میں  تیزی اور غصّہ پیدا ہوگا۔ چنانچہ اکثر مشاہدہمیں آتا ہے  اور غصہ حرام ہے۔

اِس ماجرہ کی بابت ہوشیع نبی کی کتاب کے ۱۲باب اور ۴آیت میں لکھا ہے کہ وہ یعنے یعقوب فرشتے کے ساتھ کُشتی لڑا اور غالب آیا۔ جو کوئی بیبل کو غور سے پڑھے گا اُسکو معلوم ہوگا کہ اُس میں بار بار عہد کے فرشتے کا زکر ہے جو آؔدم اِبرؔاہیم یعقؔوب ہوؔشیع اور یسعؔیاہ وغیرہ پر ظاہر ہو ا اور صفات اِلہیٰ تھا جیسے وہ باتیں کرتے اور دعا مانگتے تھے۔ یہہ بیشک کلام خدا تھا جو پیچھے عیسیٰ میں مجسم ہوا کہ یعقوب کو سکھلاوے کہ جو کوئی دعا مانگنے میں مستعد رہیگا اگرچہ بدن کو تکلیف ہو تو بھی اُسپر خدا کا رحم و فضل سے غالب آویگا ور بڑی برکتیں پاویگا تو اِس میں کیا برائی ہے اور محمدی لوگ سورۃ اعراف کی ۱۴۳ آیت کے مضمون کو مطالعہ کریں ۔ قَالَ رَبِّ أَرِنِي أَنظُرْ إِلَيْكَ قَالَ لَن تَرَانِي وَلَٰكِنِ انظُرْ إِلَى الْجَبَلِ فَإِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهُ فَسَوْفَ تَرَانِي فَلَمَّا تَجَلَّىٰ رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا وَخَرَّ مُوسَىٰ صَعِقًا یعنے موسیٰ نے کہا کہ اے رب تو اپنا مجھے دیدار دکھلا ۔ خدا نے فرمایا کہ تو میرا دیدار ہر گز نہ کر سکیگااور پھر جب خدا اُس پہاڑ پر نمودہوا تو وہ پہاڑ گر پڑا اور بہیوشی موسیٰ پر طاری ہوئی۔ اور بیشک توریت میں بھی لکھا ہے کہ خدا موسیٰ پر نمود ہوا پھر کوئی یہودی یا عیسائی یا محمدی خدا کے نمودہونے پر اعتراض نہیں کرتا ۔ آج کل بہت محمدی لوگ یہہ کہتے ہیں کہ عیسائی لوگ خدا کو ریچھ اور اور شیر کہتے ہیں۔ یہہ بات بالکل بیجا ہے لیکن جو لوگ چاہیں سو کہیں ۔ یرمیاہ نبی نے ضرور نالہ کر کے کہا کہ خدا میرا مخالف ہے تمام دن مجھ پر دست انداز ہے اُس نے میرے گرد ایسا احاطہ باندھا ہے جس سے میں نکل نہیں سکتا وہ میرے لیے ایسا مہیب ہوا جیسے بھالو جو گھات میں بیٹھا ہو اور جیسے شیر ببر جو چھپ کر کین گاہ میں ہو۔ یرمیاہ نبی نے یہہ بات اُسوقت کہی جبکہ نبو خودنذر بابل کے بادشاہ نے آکر بیت المقدس کو برباد کیا تھا وہ بیان کرتا ہے کہ خدا نے کس طرح کلدیوں کے ہاتھ سے بنی اسرائیل کو برباد کیا یعنے اُسنے ایسا کیا جیسا ریچھ یا شیر اپنے مقابلہ کرنے والوں کے ساتھ کرتا ہو یہہ نہیں کہا کہ خدا شیر ہے اور وہ لوگ جو یہہ تہمت لگاتے ہیں حق جوئی چھوڑ کر تعصب کی طرف زیادہ مایل ہیں اور یہہ گمان کرتے ہیں کہ جو ہمارے ہم مذہب ہیں۔ اُن پر چھوٹی تہمت لگانا گناہ نہیں ہے اور پھر جب خدا نے ہوشیع کی معرفت کہا کہ میں افرایم کا پتنگا اور یہودیوں کے گرانے کے لیے گہُن ہونگا وہ یہہ ظاہر کرتا ہے کہ میں اُن قوموں میں کیا کرونگا ۔ اور جو اِس سبب سے کہے کہ بیبل میں لکھا ہے کہ خدا کیڑا ہے وہ تعصب کرتا ہے یہہ ایک بطور مثال کے کہا جاتا ہے جیسے کییا سعادت جومحمدیوں کی کتاب ہے خود اُس میں لکھا ہے کہ خدا شیر کی صورت ہے۔

پھر یسوع کے ۳باب ۱۷ آیت میں لکھا ہے کہ خدا وند صہیونکی بیٹیوں کی چاندی کو گنجا کر ڈالیگا۔ اور خداوند  ان کے اندام نہانی کو اُکھاڑیگا۔ انتہیٰ اس باب میں خدا یہودیونپر  ظاہر کرتا ہے اُن کے گناہوں کے واسطے اُن کو کیا سزا ملیگی  سولھویں آیت سے لیکے وہ اُنکی عورتو ں کے گناہونکا اور اُن کی سزا کا زکر کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ وے فاحشہ اور بے شرم ہیں اسلیے خدا اُنکی خوبصورتی اور بصورتی اور اُن کی برہنگی ظاہر کریگا۔ مفسریں کہتے ہیں  کہ یہہ آخری فقرہ ایک دستور کی طرف جو اُس وقت  جاری  ہوا تھا  اشارہ کرتا ہے ۔ یعنے کہ اسیروں کو ننگا کرکے اپنے ملکوں میں لیجاتے تھے۔ اِس طرحسے کہنا کہ خدا اُن کی برہنگی کوظاہر کریگا کچھ نہیں کیونکہ جو کچھ ہوتا ہے  خدا کی تقدیر سے ہوتا ہے۔ اور جب خدا نے ارادہ کیا کہ یہہ سخت سزا اُنکے گناہوں کے واسطے اُن پر لا وے تو اُن کےآگے اطلاع  دیوے کہ ایسی  آفت  اُن پر   نازل ہونے والی ہے تاکہ وے توبہ کر یں  اور اُس سے بچ جاویں۔

اِس بات پر بھی لوگ بہت اعتراض کرتے ہیں  کہ حزقئیل کے چوتھے باب کی ۱۲ آیت میں لکھا  ہے کہ   خدا نے نبی سے فرمایا کہ لوگوں کے سامنے انسان کے گواہ سے روٹی پکا کے کہا۔ اور یشوع کے بیسویں باب کے ۳ آیت میں لکھا ہے کہ خدا نے یشوع نبی سے کہا جا اور ٹاٹ کا لباس اپنے بدن سے دور  کر اور اپنے پاؤں سے جوتی اُتار ۔ اور اُسنے ایسا ہی کیا کہ وہ ننگے پاؤں اور ننگے بدن پھرا کیا لیکن  اُس سے نہیں معلوم ہوتا کہ یشوع بالکل ننگا ہو کر اُن کے سامھنے پھرتا تھا۔ اور یہہ مشہور ہے کہ جب آدمی اُوپر کے کپڑے اُتار کر بازار میں پھرے تولوگ کہتے ہیں کہ ننگا پھرتا ہے ۔ اور یہہ بھی یاد رہے کہ جب حزقئیل نے خدا کی درگاہ میں عرض کی۔ تو اُس نے اُس سے کہا کہ روٹی گوبر سے پکا کر کہا ؤ۔ اور سب لوگ جانتے ہیں کہ جب شہر کا محاصرہ ہوتا اور اُس کے باشندے اسیر ہوجاتے تو ہر طرح کی تکلیف لوگوں پر آتی ہے۔ محمدی لوگ بھی جانتے ہیں کہ ایسی آفتیں خدا کی  طرف  سے آتی ہیں۔ اور اگر خدا ایسی آفتیں لوگوں پر بھیجے تو کیا  عیب ہے کہ پہلے خدا ایک نمونہ کے طور پر ظاہر کرے کہ یہہ آفتیں آتی ہیں کہ وے ڈریں اور گناہ سے ہٹ جاویں اور اپنے تئیں ایسی بُرائی سے بچاویں ۔ اور ضروری ہے کہ جب ہم کو ئی آفت دیکھتے تو اُس کی زیادہ تاثیر ہوتی ہے بہ نسبت اُسکے جو ہم سُنیں۔ اِسواسطے  خدا نے حکم دیا کہ یہہ نشان دکھلائے  جاونیگے اور محمدی لوگ جو توریت اور نبیونکے صحیفوں پر اعتراض کرتے ہیں اُنکو چاہیے کہ خیال کریں کہ ہم بھی موسیٰ داؤد اور یسعیاہ  کو نبی جانتے ہیں ۔

پھر اعتراض  کے کیا معنے ۔ مگر شاید یہہ سمجھتے ہیں کہ اُن کی کتابیں بدل گئیں ۔ پھر جس طرح تم مانتے ہو کہ سب کتابیں  جو کہ قرآن سے پیشتر  آئیں خراب ہوگئیں ۔ اگر ہم بھی اقرار کریں کہ جو انجیل سے پیشتر آئیں سب خراب ہوگئیں تو ہمارےاورتمہارے حال میں کیا   فرق ہوگا۔ اگر تم اگلی کتابیں باقص جانتے ہو اور قرآن کو مانتے ہو اگر ہم بھی اگلی کتابوں کو ناقص جانیں اور انجیل  کو مانیں تو اگلی کتابوں کا زکر کرنا  فضول ہے۔ اِس مباحثہ میں صرف انجیل اور قرآن کا ذکر کرنا مناسب ہے۔ اور اعتراضونکا جواب دینا کچھ ضرورت نہیں اسلیے کہ میں خدا کی ساری کتابوں کو برحق جانتا   ہوں۔ اِس چھوٹی تہمت سے بچناچاہتاہوں۔

پھر اہل اسلام سوال کرتے ہیں کہ داؤد نے یسعیاہ کے ساتھ کیسا بدسلوک کیا ہے باوجوداِس کے اِسکی تعریف انجیل میں کیوں لکھی ہے ۔ اگر اکیانوں زبور پڑھو گے تو تم کو معلوم ہوجوویگا کہ اِس میں کیا  لکھا ہے یعنے جب داؤد نے وہ بدکام  کیا تھا۔ناتن نبی نے اُسکے پاس جاکر اُسکو سمجھایا۔  تب داؤو  نے توبہ کر کے اِس زبور کو لکھا  جسمیں ایسی باتیں پہلی آیت سے لیکے گیارہ آیت تک دیکھو۔ بیبل کی یہہ تعلیم ہے کہ سب لوگ بابا آدم لیکر جو ماں باپ سے پیدا ہوئے ہیں سب کے سب گنہگار ہیں۔ لیکن خدا کا سچاّ بندہ وہ ہے جسکو خدا کے فضل سے نیا مذاج ملتا ہے اور توبہ کر کے سچاّ ایماندار ہو جاتا ہے۔ اور ضرور یہہ بات سب لوگوں کی تسلی کے واسطے ہے اور اگر وہ توبہ کریں اور خدا کی راہ میں آویں تو اُن کےلیے نجات ہے۔ اور خدا اُنکی تعریف کرتا ہے۔

یہہ اعتراض بھی اکثر کیا جاتا ہے کہ پولوس رسول فریب  سے یا بیدینی سے لوگوں کو اپنے دین میں لاتا  تھا۔ اوّل قرنتیوں  کے ۹ باب  کی ۱۹ آیت میں لکھا ہے کہ بیشک پولوس نے فرمایا کہ  مَیں یہُودیوں کے لِئے یہُودی بنا تاکہ یہُودیوں کو کھینچ لاؤں ۔ جو لوگ شرِیعت کے ماتحت ہیں اُن کے لِئے مَیں شرِیعت کے ماتحت ہُؤا تاکہ شرِیعت کے ماتحتوں کو کھینچ لاؤں ۔ اگرچہ خُود شرِیعت کے ماتحت نہ تھا۔  بے شرع لوگوں کے لِئے بے شرع بنا تاکہ بے شرع لوگوں کو کھینچ لاؤں (اگرچہ خُدا کے نزدِیک بے شرع نہ تھا بلکہ مسِیح کی شرِیعت کے تابِع تھا کمزوروں کے لِئے کمزور بنا تاکہ کمزوروں کو کھینچ لاؤں ۔ مَیں سب آدمِیوں کے لِئے سب کُچھ بنا ہُؤا ہُوں تاکہ کِسی طرح سے بعض کو بچاؤں۔اور مَیں سب کُچھ اِنجِیل کی خاطِر کرتا ہُوں تاکہ اَوروں کے ساتھ اُس میں شرِیک ہوؤں۔ اب کوئی عقل مند  آدمی بے تعصب ہو کے اُسکو پڑھیگا تو وہ ضرور کہیگا کہ یہہ کیا خیر خواہ اور رحم دل تھا اور جہاں تک ہو سکا اُس نے اپنی  خواہش اور خوشی اور دوستوں کو چھوڑا اور غیر لوگوں کے دستوروں پر عمل کیا تاکہ اور لوگوں کو خدا اور مسیح کی طرف پھیرے۔ جیسا کہ کوئی انگریز عیسائی محمدیوں کے ملک میں جا کے اُن کی روشوں اور دستوروں پر جہاں تک وے خدا کے حکموں کے برخلاف  نہیں ہیں عمل کرے اور بہت لوگ اُسن کی تعریف کریں۔ ایسا ہی پولوس نے کہا تاکہ بُت پرست اور یہودی عیسائی پر  ایمان لائیں۔  کوئی آدمی گمان نہ کرے کہ اُسنے کوئی کام خدا کے حکم کے برخلاف کیا کیونکہ اُس کہا کہ میں خدا کے نزدیک  بے شریعت نہ ٹھرا بلکہ مسیح کی شریعت کا  پورا  تابعدار تھا۔ پولوس نے جسکا آگے نام سولوس تھا رومیوں کی طرف سے جو حکم وقت تھے بڑا عہدہ پایا  تھا اور وہ یہودیوں میں ایک بڑا معلم تھا۔ لیکن جس وقت سے اُس نے عیسیٰ کو دیکھا جب مر کے جی اُٹھا اُس نے دنیاوی دولت عزت اور حشمت کو ناچیز سمجھ کے چھوڑ دیا۔ ہر ایک ملک میں جہاں پر ایک طرح کی بیعزتی اور تکلیف تھی گیا اور اپنے عیش و آرام اور خوشی کو چھوڑاتاکہ  اور لوگوں کو بچاوے۔ میری سمجھ میں اِس سے خوب ثابت ہوتا ہے کہ وہ  سچاّ  آدمی تھا نہیں تو کسواسطے اتنی تکلیف اُٹھاتا ۔ جس دلیل سے مخالف چاہتے ہیں کہ انجیل کو جھٹلاویں۔ اُسی سے اُسکی سچائی ثابت ہوتی ہے۔

پھر بہت لوگ اِس بات پر اعتراض کرتے ہیں کہ متی کی انجیل میں لکھا ہے کہ فلانی بات یرمیاہ  نے کہی ۔ لیکن یہہ بات یرمیاہ کی کتاب میں نہیں مگر ذکریاہ کی کتاب میں پائی جاتی ہے۔ متی کی انجیل ۲۷ باب ۹ آیت کو دیکھو یعنے جب مسیح پکڑا گیا وہ یرمیاۃ نبی کی معرفت کہا گیا تھا پورا ہوا کہ اُنہوں نے وہ تیس روپیہ لیا اُس کی ٹھرائی ہوئی قیمت۔ اِس اعتراض کے دو جواب ہیں پہلے کہ ابتدا میں اِسجگہ ذکریاہ لکھا ہوا تھا اور نقل کرنے میں وہ یرمیاہ لکھا  گیا ذکریاہ نے اپنی کتاب میں یہہ بات لکھی تھی۔ اگر یرمیاہ نے بھی  جو  اکثر تعلیم دیتا تھا یہہ بات کہی تو اس میں کیا عیب ہے کہ معترض اعتراض کرتا ہے یہہ بھی توسوچنا چاہیے کہ وہ کیا بات تھی اور کس کے حق میں ذکریاہ نے کہا وہ یہہ تھی ذکریاہ ۱۱ باب ۱۲ اور ۱۳ آیت  اور مَیں نے اُن سے کہا کہ اگر تُمہاری نظر میں ٹِھیک ہو تو میری مزدُوری مُجھے دو نہیں تو مت دو اور اُنہوں نے میری مزدُوری کے لِئے تِیس رُوپَے تول کر دِئے۔ اور خُداوند نے مُجھے حُکم دِیا کہ اُسے کُمہار کے سامنے پھینک دے یعنی اِس بڑی قِیمت کو جو اُنہوں نے میرے لِئے ٹھہرائی اور مَیں نے یہ تِیس رُوپَے لے کر خُداوند کے گھر میں کُمہار کے سامنے پھینک دِئے۔

اُس کے معنے یہہ ہیں کہ ذکریاہ  نبی نے پیشین گوئی کے طور سے کہا جب مسیح دنیا میں  آویگا  تو لوگ تیس روپیہ اُس کی قیمت ٹھراوینگے ۔ اور جب یہہ تیس روپیہ ملینگےتو لوگ اُن سے کہمار کا کھیت مول لینگے معترض اعتراض کرتا ہے کہ یہہ پیشین گوئی ذکریاہ نے کی تھی۔ اور انجیل سے معلوم ہوتا ہے کہ یہہ پیشین گوئی مسیح میں پوری  ہوئی۔ پس اِس سے ثابت ہوتا ہے کہ عیسائی دین سچاّ ہے اِسلیے کہ مسیح سے پانچسو برس پہلے نبی نے پیشین گوئی کی تھی کہ وہ گنہگاروں کے ہاتھ بیچا جاویگا۔ کاش کہ لوگ تعصب چھوڑ کے انہیں باتوں پر بخوبی غور کریں اور خداوند اُن کی رہنمائی کہ وے سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ جانیں۔

بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ایک  یہہ بڑا اعتراض  ہے کہ عیسیٰ نے پطرس کو شیطان کہا اور اُس سے ثابت ہے کہ پطرس ماننے کے لائیق نہیں۔ اِس بات کو ذرادریافت کرنا چاہیے۔ سب کو معلوم ہے کہ عیسیٰ نے بارہ شاگرد چنے تھے کہ اُس کی موت کے بعد انجیل سُناویں۔ لیکن مسیح نے جب مرنے  پر تھا اُن سے صاف کہا کہ میں فارقلیط تم پر بھیجونگا۔ اور وہ تمہیں ساری سچاّئی کی راہ بتلاویگی  وہ میری  بزرگی کریگی اِس لیے کہ وہ میرس چیزوں سے پاویگی  اور  تمہیں دکھلاویگی۔ اور پھر اُس نے کہا کہ تمہارے لیے میرا جانا فائیدہ مند ہے۔ کیونکہ اگر میں نہ جاؤں فارقلیط تمپر نی آویگی پر اگر میں جاؤں  تو میں اُسکو بھیجونگا ۔ اور پھر اُس نے اُن سے وعدہ کیا  تھا کہ جب تک یہہ وعدہ پورا نہ ہو ۔ یروشلم شہر سے باہر نہ نکلنا۔ اعمال کی کتاب میں بیان ہے کہ مسیح کی موت کے پچاس دن بعد سب حواریوں پر جب وے سب ایک جگہ میں ہوکے دعا مانگتے تھے کس طرح روح القدس نازل ہوئی اور کس طرح اُسوقت سے لیکے روح القدس کی طاقت سے انجیل سُناتے تھے اور بیشمار لوگ اُن کی باتوں پر یقین کر کے اپنے پرُانے جھوٹے  مذہب اور گناہوں کو ترک کر کے عیسیٰ پر ایمان لائے اور حیات ابدی حاصل کی۔ جب تک حواریوں نے  روح القدس سے یہہ بپتمسا نہیں پایا  تب تک تو بیشک اِس کام کے لیے لائیق نہ تھے۔ لیکن جس دن سے کہ یہہ بپتمسا پایا جسکا  ذکر یوّحنا بپتمسا دینیوالے نے کہا  کہ میں تمکو پا نی    سےبپتمسا دیتا ہوں۔ لیکن تمھارے درمیان ایک ہے جو تم کو روح القدس سے بپتمسا دیگا  تب سے وے تمام الہام سے بولتے تھے اور اُنکی بات قبالیت کے لائق تھی۔ لیکن سُنو کہ عیسیٰ نے پطرس کو کیوں شیطان کہا۔ واضح ہوکہ مسیح اپنے شاگردوں کو سکھلاتا تھا کہ میں یروشلم میں جا کر دُکھ  اُٹھاونگا ۔  تب پطرس نے اُسے جھنجھلاکر کہا  کہ اے خداوند تیری سلامتی ہو تجھ پر یہہ کبھی نہ ہو گا۔ اور معلوم ہو کہ عیسیٰ خاص کر کے اِس کام کیواسطے دنیا میں آیا تھا کہ اپنی جان دے یکر گنہگاروں کے لیے جو ایمان لاویں نجات تیار کرے۔ اور اِس نجات کے لیے خدا دنیا کو قائیم رکھتا ہے اور شیطان خدا کا مخالف ہے خاص کر کے اِس نجات کو روکنے میں اور گنہگاروں کو برباد کرنے میں خدا کی مخالفت اور دشمنی کرتا ہے۔ پس جب مسیح نے دیکھا کہ پطرس اِس کام سے مجھ کو روکتا ہے اورکہتا ہے کہ تیری سلامتی ہو یہہ تجھ پر کبھی نہ ہوگا  تو  اُسے کما حق ملامت کی اور کہا کہ اے شیطان مجھ سے دور ہو ۔ پوشیدہ نہ رہے کہ مسیح عیسیٰ کے نام کے سوا کوئی دوسرا  نام بخشا  نہین گیا جس سے ہم جنات پاویں۔ اور عیسیٰ ہمکو سکھلاتا  ہے کہ جو کوئی اِس نجات کے کام کو روکے وہ خدا اور آدمیوں کا دشمن ہے۔ اور اُس کے لیے شیطان کے نام سے کوئی اور بہتر نام نہیں ہو سکتا ۔ پھر  جائے غور ہے کہ اگر حواری فریبی ہوتے تو بیشک وہ کبھی اپنے حق میں نہ کہتے کہ عیسیٰ نے ہم میں سےکسی کو شیطان  کہا ہے۔ اور اُور ایسی بہت  باتیں  جو انجیل میں ہیں کبھی نہ لکھتے ۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ وے سچےّ  آدمی تھے اور اُنکی باتیں اعتبار کے لائق ہیں اور یہہ جو انجیل متی کے ۲۶  باب  ۲۹ آیت میں لکھا ہے کہ مسیح فرماتا ہے کہ مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ انگُور کا یہ شِیرہ پِھر کبھی نہ پِیُوں گا۔ اُس دِن تک کہ تُمہارے ساتھ اپنے باپ کی بادشاہی میں نیا نہ پِیُوں۔ اور اُوربہت جگہ لکھا  ہے کہ بہشت میں کوئی بیاہ نہیں کرتا ۔ اور جسم اور خون خدا کی بادشاہت کے وارث نہیں ہوسکتے۔ تو اُس جگہ مسیح کی یہہ مراد نہیں ہے کہ جیسا میں اب تمھارے ساتھ کھاتا پیتا ہوں اسیطرح بہشت میں تمھارے ساتھ کھاؤں پیونگا۔بلکہ مراد یہہ ہے کہ جیسا کہ لکھا ہے کہ نیا آسمان اور نئی زمین ہوگی ۔ یعنے اور طرح کی زمین اور آسمان ہوگا کہ بہشت میں نیا یعنے طرح کی عید ہوگی کہ مسیح کے ساتھ حقیقی اور دلچسپ صحبت ہوگی وے البتہ جنکی مزاج روحانی نہیں ہے وہ چاہتے ہیں کہ شراب اور عورتیں وغیرہ ہمکو ملیں۔ لیکن خدا اور مسیح اور فرشتوں اور مقدسوں کی صحبت ہی حقیقی عید ہے ۔ اور اکثر لوگ یہہ سمجھتے ہیں  کہ اِس آیت سے مسیح کی یہہ مراد ہے کہ جب میں پھر دنیا میں اُسوقت میں پھر تمھارے ساتھ کھاؤں پیونگا۔

لوقا کی انجیل ۱۸ باب سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح  جب وہ چلتے چلتے یریحُو کے نزدِیک پہنچا تو اَیسا ہُؤا کہ ایک اندھا راہ کے کنارے بَیٹھا ہُؤا بِھیک مانگ رہا تھا۔ اُس نے چِلاّ کر کہا اَے یِسُو ع اِبنِ داؤُد مُجھ پر رحم کر۔ اور عیسیٰ نے اُسکو چنگا کیا لیکن متی کہتا ہے جب وہ یریحوُ سے باہر آیا دو اندھے بیٹھےبھیک مانگتے تھے۔ اور عیسیٰ سے چلا کر کہا کہ اے عیسیٰ داؤد کے بیٹے ہم پر رحم کر۔ لوگ کہتے ہیں کہ اِن باتوں میں اختلاف ہے لیکن اختلاف کچھ نہیں۔ فرض کرو کہ جب وہ شہر  میں جاتا  تھا ایک آدمی نے چلا کر کہا کہ اے عیسیٰ داؤد کے بیٹے مجھ پر رحم کر  اور اُسنے اُسکو تندرست کیا اُسنے جا کر اپنے دوستوں کو جو اندے تھے خبر دی اور وے سویرے یہہ جانکر کہ عیسیٰ یروشلم کو جاتا ہے راہ میں بھیک مانگتے تھے ۔ اور جب عیسیٰ نزدیک آیا اُسی طرح چلائے کہ اے عیسیٰ داؤد کے بیٹھے ہمپر رحم کر اور اُس نے اُنکو بھی تندرست کیا ۔ اِن باتوں میں کچھ اختلاف  پایا نہیں جاتا۔

مرقس کی انجیل مے ساتویں باب میں لکھا ہے کہ عیسیٰ نے  گلیل کے دریا کے پاس آکر ایک بہرے کو تندرست کیا ۔ لیکن متی ۱۵ باب میں یہہ  لکھا ہے  کہ جب گلیل کے دریا  کے پاس  آیا تو وہ  پہاڑ پر چڑھ بیٹھا۔ اور بڑی بھیڑ لنگڑوؔں  اندھؔوں گنگوؔں  اور ٹنڈوں کو لیکر اُسکے پاس آئی۔ اور اُس نے اُن کو شفا بخشی۔ لوگ کہتے ہیں کہ اِس میں بھی اختلاف پایا جاتاہے ۔لیکن کچھ اختلاف  نہیں ہے وہاں لکھا ہے کہ جب وہ دریا کے پاس آیا تھا اُس نے ایک بہرہ کو تندرست کیا اور پیچھے پہاڑ پر چڑھ بیٹھا۔ اور جلدی اُس معجزے کی خبر پھیل گئی۔ اور بہت لوگ سنکر اپنے بیماروں کو اُسکے پاس لائے۔ اور اُس نے اُن کو شفا  بخشی۔

اسبات پر بھی شک کرتے ہیں کہ یوّحنا کی انجیل کا ۲۱ باب  اور ۲۵ آیت میں لکھا ہے کہ اَور بھی بُہت سے کام ہیں جو یِسُو ع نے کِئے ۔ اگر وہ جُدا جُدا لِکھے جاتے تو مَیں سَمجھتا ہُوں کہ جو کِتابیں لِکھی جاتِیں اُن کے لِئے دُنیا میں گُنجایش نہ ہوتی۔  انتہیٰ۔ اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ یہہ مبالغہ ہے اور  اُس کی مراد یہہ ہے کہ عیسیٰ نے بہت سے کام کئے ہیں  جیسے جب بہت لوگ کسی جگہ جاتے ہیں تو کہتے کہ دنیا  جاتی ہے ۔ اور بہت مفسریں سمجھتے ہیں کہ لفظ (یونانی لفظ) جسکا ترجمہ سما سکیں ہیں یہہ معنی دیتا ہے کہ لوگ قبول کرسکتے اور پڑھ سکتے کہ اتنی پوتیں کہ دنیائے لوگ اُن  کو اپنی سمجھ اور دل  میں نہ رکھ  سکتے۔

ایک اور اعتراض یہہ ہے کہ بیبل کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ آدمیوں کا کلام ہے نہ خدا  کا ۔ کیونکہ اسمیں اکثر مصنف کہتے ہیں کہ میں کہتا ہوں   جیسے میں پولوس تم سے کہتا ہوں وغیرہ لیکن چاہے کہ خدا جس طرح چاہئے اپنی مرضی ہم پر ظاہر کر سکتا ہے جب مسیح آسمان پر جانے لگا تو اُس نے شاگردوں کو کہا کہ میں روح القدس بھیجونگا اور وہ سب کچھ جو میں نے کیا اور کہا تمہیں یاد دلاویگی۔ پس ایسا ہوا یعنے روح القدس آئی اور اُ س نے اُنہیں یاد دلایا اور انہوں نے یہہ کتابیں لکھیں ۔ پس جب روح القدس سے لکھیں گئیں تو  ضرور خدا کا کلام ہوا۔ انجیل میں لکھا ہے کہ نبوت کی باتیں آدمی کی خواہش سے کبھی  نہیں ہوئیں بلکہ خدا کے مقدس  لوگ روح القدس  کے بلوائے بولتے ہیں۔ اِسکے یہہ معنے ہیں کہ خدا نے اپنی روح کے وسیلے اپنے بندوں کے دل میں کلام ڈال  دیا اور اُنہوں نے خدا کی مرضی کے موافق اپنی اپنی کتابوں میں لکھا ہے۔

یوّحنا کی انجیل کے ۱۴ باب ۱۲ آیت میں لکھا ہے کہ عیسیٰ نے فرمایا   مَیں تُم سے سچ کہتا ہُوں کہ جو مُجھ پر اِیمان رکھتا ہے یہ کام جو مَیں کرتا ہُوں وہ بھی کرے گا بلکہ اِن سے بھی بڑے کام کرے گا کیونکہ مَیں باپ کے پاس جاتا ہُوں۔ اور پھر مرقس کی انجیل ۱۶باب ۱۷ آیت میں لکھا ہے کہ اور اِیمان لانے والوں کے درمِیان یہ مُعجِزے ہوں گے۔ وہ میرے نام سے بدرُوحوں کو نِکالیں گے۔نئی نئی زبانیں بولیں گے۔ سانپوں کو اُٹھا لیں گے اور اگر کوئی ہلاک کرنے والی چِیز پِئیں گے تو اُنہیں کُچھ ضرر نہ پُہنچے گا ۔ وہ بِیماروں پر ہاتھ رکھّیں گے تو اچھّے ہو جائیں گے وغیرہ جہاں پہلی آیت میں جو لکھا ہے کہ یعنے جو مجھ پر ایمان لائے۔ یونانی انجیل میں یوں لکھا ہے (یونانی الفاظ) جسکا  ٹھیک یہہ ترجمہ ہے کہ وہ ایمان ہے کہ وہ ایمان لانیوالا۔ اور پچھلی جگہ میں لکھا ہے۔ (یونانی الفاظ) یعنے اُن ایمان لانے والوں  یعنے ایمان لانے والے کراماتیں کرینگے جیسا کہ کوئی کہے کہ انگریز لوگ ہندوستان میں حکومت کرتے ہیں۔ اِس سے یہہ نہیں پایا جاتا کہ ہر ایک انگریز اُس ملک کا حاکم ہے۔ اسیطرح یہہ ثابت نہیں ہوتا کہ تمام ایمان لانیوالے کراماتیں کرینگے ۔ اور بیشک مسیح کے حواری وغیرہ جو اُسوقت موجود تھے اور بہت عیسائی لوگ اُس زمانہ میں بھی بیشمار کراماتیں کرتے تھے اِس میں مسیح کی بات پوری ہوئی۔

ایک محمدی مصنف کہتا ہے کہ عیسیٰ نےاپنی والدہ کو جھڑکا اور کہا کہ عورت چلی جا۔ میں نہیں جانتا کہ تو کون ہے۔ اور پھر یہہ کہ عیسا نے پلیدی پاکی کا کچھ فرق نہیں کیا ۔ ایسی باتوں کا ہم کیا جواب دیوں۔ مگر یہہ کہ یہہ سب بہُتا ن ہے۔ بیشک جب مریم نے چاہا  کہ عیسیٰ  میری مرضی کے موافق ایک معجزہ دکھلاوے تو اُس نے اُسکو کہا  اے مستورہ مجھے تجھ سے کیا کام ۔

یعنے یہہ مناسب نہیں کہ تو اِس کام میں ہاتھ ڈالے۔ اُس لفظ مستورہ  میں کچھ بیعزتی نہیں ۔ کیونکہ جب مسیح نے مرتے وقت یوّحنا شاگرد کا ہاتھ مریم کے ہاتھ میں دیا تو اُس نے کہا اےمستورہ اپنے بیٹے کو دیکھ ۔ یہہ صرف محاورہ ہے جو علیٰحدہ علیٰحدہ ملکوں میں علیٰحدہ علیٰحدہ  ہے جیسا کہ اِس ملک میں لفظ تو عزت دار آدمکے حق میں بالنا بڑی بیعزتی کی بات ہے لیکن اور ملکوں میں اِسمیں بیعزتی نہیں۔ اور اِس ملک میں بھی  لفظ تو خدا کے لیے بولتے ہیں۔ کوئی عالم ایسی نکمّی باتونکو پکڑے تو اُسکا کیا عالم ہے۔ پھر مسیح نے لوگوں کو باربار کہا کہ کوئی حرام  یا حلال نہیں ہے سوائے اُس کے جو آدمی کے اندر سے نکلتی ہیں۔ یعنے حرام اور حلال صرف دل سے تعلق رکھتا ہے۔ یہہ بات درست اور عقل کے موافق ہے  اور کوئی عقل سے نہیں کہہ سکتا کہ اُونٹ حلال ہے اور اور ہاتھی حرام یا کہ ٹڈی حلال اور برّہ حرام ہے۔ یہہ صرف  ملکونکا    رواج ہے۔

پھر پوچھتے ہیں کہ کس جگہ میں لکھا ہے کہ عیسیٰ نے خود کہا کہ میں خدا ہوں۔ اور کہا ں تثلیثکا زکر کیا ہے۔ جب تھوما رسول نے عیسیٰ کو کہا کہ اے میرے خداوند  اے میرے خدا۔ مسیح نے اِن خطابوں کو کو منظور کر کہ جواب  دیا کہ تو نے دیکھ کے یقین کیا۔ لیکن مبارک وہ ہے جو نہ دیکھے اور یقین لاوے۔ دیکھو یوّحنا کی انجیل ۸ باب ۵۸ آیت پھر اُسنے کہا کہ مَیں تُم سے سچ کہتا ہُوں کہ پیشتر اُس سے کہ ابرہا م پَیدا ہُؤا مَیں ہُوں۔ اور یہہ کہ میں اوّل اور آخر ہوںیعنے کہ میں ازل سے ابد تک ہوں۔ دیکھو یوّحنا کے ۱۷ باب ۵ آیت۔ اور مکاشفات پہلا باب  ۸ آیت ۔ پھر اُس نے اپنے تئیں قادر مطلق بنایا ۔ اُس نے کہا  کہ حیات و ممات میں ہوں۔ پھر کہا کہ میں ہی قادرمطلق ہوں۔دیکھو انجیل یوّحنا ۵ باب۲۱ تا ۲۵ آیت پھر مکاشفات پڑھو اُس میں کئی ایک دفعہ ظاہر کیا کہ میں حاضر و ناظر ہوں دیکھو متی کی انجیل ۱۸ باب  ۲۰ آیت اور ۲۸ باب ۲۰ آیت ۔ پھر اُس نے کہا آخری دن میں سبھوں کی عدالت کرونگا۔ دیکھو انجیل متی ۲۵ باب ۳۱ و۳۲ آیت۔ اِس سے صاف ظاہر ہے کہ بیشک عیسیٰ نے صاف صاف سکھلایا ہے کہ میں خدا ہوں۔ اور ذکر نہیں کیا تو بھی  اُس نے باپ بیٹا روح القدس کا ذکر بار بار کیا ہے۔ اور یہہ بھی سکھلایا ہے کہ صرف ایک واحد خدا ہے۔ اِن باتوں سے تثلیث ثابت ہوتی ہے۔ کچھ ضرور نہیں کہ تثلیث کا ذکر کریں یا کہ مانیں۔ بشرطیکہ باپ بیٹے ارو روح القدس کو ایک واحد خدا مانیں ۔

پھر پوچھتے ہیں کہ اگر عیسیٰ کے ماننے والے اُس سے نجات پاوینگے تو کیا محمد ی جو اُسکو مانتے ہیں نجات حاصل نہ کرینگے۔ اِسکا جواب یہہ ہے کہ لفظ عیسیٰ  کے معنے بچانے والا ہے۔ پس جو اُسکو اپنا نجات دہندہ  جانتے ہیں وہ ضرور اس سے نجات حاصل کرینگے۔ نہ وے جو اُسکو صرف نبی جانتے ہیں ۔ یہہ بھی پوچھتے ہیں کہ برناباس کی انجیل کیوں نہیں چھپواتے۔ جواب۔ اِس لیے کہ وہ جعلی ہے اور عیسائی بزرگوں میں سے ایک نے بھی اُسکا زکر نہیں کیا اور جس حالت میں کہ مسلمان سمجھتے ہیں کہ عیسیٰ پر ایک ہی انجیل اُتری ہے اور وہی اصل ہے تو اُن کو سمجھ میں بھی برناباس کی انجیل ضرور جعلی ہے۔ اور جب ہم بھی اُسکو جعلی سمجھیں اور وہ بھی تمام اِس بات پر متفق ہیں تو کیونکر اُسپر جھگڑا اور ایسے سوال کرتے ہیں۔ پھر دعوی کرتے ہیں کہ یونانی انجیل کو ترجمہ کے ساتھ کیوں نہیں چھپواتے ۔ اُن ملکوں میں جہاں یونانی علم ہے اسیطرح چھپواتے ہیں ۔  لیکن جب ہندؤ اور مسلمان یونانی  سے واقف نہیں تو اُس سے کیا فائیدہ ہوگا۔ لیکن جو شخص یونونی انجیل کو پڑھنا چاہے تو پادری صاحبان اُسکو نہایت شوق سے پڑھاتے ہیں۔ گاہ گاہ محمدی لوگ عیسائیوں سے کہتے  ہیں کہ جب تک تم عربی سے واقف نہ ہو تو تب تک ہماری کتابوں پر وعتراض مت کرؤ۔ اسیطرح وہ بھی انجیل پر اعتراض نہ کریں کیونکر وہ یونانی  واقف نہیں۔

پھر کہتے ہیں کہ عیسیٰ  کہتا ہے کہ توریت کبھی منسوخ نہ ہوگی اور پولوس رسول یوں کہتا ہے کہ وہ کمزور ہے ۔ انتہیٰ۔  عیسیٰ نے کہا یہہ خیال نہ کرو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتاب منسوخ کرنے کو آیا میں منسوخ کرنے کو نہیں بلکہ پورا کرنے کو آیا ہوں۔  ایک نقطہ توریت سے نہیں مٹیگا جب تک سب کچھ پورا نہ ہو۔ جو لوگ انجیل سے واقف ہیں  وہ خوب جانتے ہیں کہ بار بار اِسمیں یہہ تعلیم ہے کہ عیسیٰ ہمارے بدلے شرع کو پورا کرنے کے لیے دنیا میں آیا۔ اور اِسی باعث سےوہ ہماری راستبازی ہے۔  اور پولوس جو کہتا ہے کہ توریت کمزور ہے کمزوری سے مراد منسوخی کی  نہیں بلکہیہہ مراد ہے کہ وہ ہمکو بچا نہیں سکتی اِس لیے کہ اُس پر عمل نہیں کر سکتے۔ اور پولوس آپ ہی کہتا ہے کہ کیا ہم شریعت کو باطل کرتے ہیں۔ ایسا نہ ہووے بلکہ ہم تو شریعت کو قایم کرتے ہیں ۔ دیکھو  رومیوں کا تیسرا باب  ۳۱ آیت پس شریعت ہمکو نیکی کا راستہ دکھلاتی ہے لیکن بچا نہیں سکتی۔ یہہ نھی اکثر پوچھتے  ہیں کہ کس نے وہ پیشنگوئیاں کیں جو انجیل میں پوری نہیں ہوئیں۔ جیسا کہ متی ۲۶باب ۲۴ آیت میں لکھا ہے کہ مسیح  نے لوگوں سے کہا کہ تم مجھے بادلوں میں آسمان سے اُترتے دیکھو گے اور ابتک انہوں نے نہیں دیکھا  پھر عیسیٰ نے کہا کہ جو لوگ کھڑے ہیں بعضے اُن میں سے نہ مرینگے کہ میں آسمان پر سے اُترونگا۔ انجیل متی سولھواں  باب ۲۸ آیت ۔ اہل اسلام کیوں ایسے کرتے ہیں کیونکہ وہ بھی نہیں جانتے ہیں کہ روز حشر یا روز حشر سے پہلے مسیح   پھر آویگا ۔ اور کہ جب لوگوں نے مسیح سے پوچھا کہ تو کب  آویگا۔ اُس نے جواب سے انکار کیا لیکن جب وہ آویگا تو ضرورزندہ اور مرُدہ  سب اُسکو دیکھینگے  ۔ عیسیٰ نے نہیں کہا  کہ جو کھڑے ہیں اُن میں سے بعضے نہ مرینگے جب تک میں آسمان  سے نہ آؤں  بلکہ یہہ کہا کہ جبتک میں اپنی بادشاہت میں نہ آؤں  نہ مرینگے۔ اگر معترض یوّحنا کی انجیل  چودھویں باب کی ۱۸ ۔ ۲۳ آیت دیکھیےتو اُسکا معلوم ہوجاویگا کہ مسیح  کا آنا دو طرح یعنے روحانی  اور جسمانی طرح سے ہوسکتا  ہے۔ عیسیٰ ہمیشہ اپنے لوگوں  کے ساتھ ہے جیسا کہ اُس نے وعدہ کیا ۔ اور اپنے مرنے کے بعد اُسنے آکر اپنی بادشاہت کو خوب مقرر کیا۔

گلتیوں کے خط کےتیسرے باب ۱۳ آیت میں لکھا ہے کہ مسِیح جو ہمارے لِئے لَعنتی بنا اُس نے ہمیں مول لے کر شرِیعت کی لَعنت سے چُھڑایا کیونکہ لِکھا ہے کہ جو کوئی لکڑی پر لٹکایا گیا وہ لَعنتی ہے۔انتہیٰ۔ اِس پر سوچنا چاہیے کہ لعنت کے معنے گناہ کی واجبی سزا ہے۔ پس اِس آیت کہ یہہ معنے ہیں کہ عیسیٰ  نے ہماری سزا اُٹھائی ہے۔

یہہ بھی اعتراض کرتے ہیں  کہ قرنتیوں کے پہلے  خط کے پہلے باب ۲۵ آیت میں لکھا ہے کہ خدا کی بیوقوفی آدمیوں کی دانائی سے زیادہ دانا ہے۔ جواب۔ اِس کے ساتھ ۳ آیت کو بھی دیکھو۔ جس میں یہہ ہے کہ ہم عیسیٰ مصلوب کی منادی کرتے ہیں جو یونانی لوگوں کے سامنے بیوقوفی ہے۔ جیسے کہ اب بھی لوگ اُس کو بیوقوفی سمجھتے ہیں ۔ تو پولوس کہتا ہے کہ تم اِس بات  کو یعنے  انجیل  کو بیوقوفی کہتے ہو لیکن وہ آدمیوں کی دانائی سے زیادہ  دانائی ہے۔