سچےّ مذہب کے دریافت کرنیکا طریقہ

The Process of Discovering the True Religion

Published in Nur-i-Afshan November 13, 1884
By. Rev. Elwood Morris Wherry
(1843–1927)

ہندوستان میں اکثر اشخاص  موجود ہیں جنہوں نے مغربی علوم میں کسی قدر مہارت پیدا کی اور مغربی خیالات کا زائیقہ حاصل  کیا اور مغربی  تہذیب سے چندے واقفیت پیدا کی اسلئے وہ ان دیرینہ مذہبی خیات کے قائیل  نہیں جنمیں اُنہوں  نے پرورش  پائی۔ اکثر اُنمیں سے ہندو ہیں بھلا وہ کیونکر یقین کریں کہ زمین ایک بیل کے سینگوں پر قائیم  ہے اور کہ کھیر  دہی گھی وغیرہ کے سات سمندر ہیں اور بعض اُنمیں  سے محمّدی  ہیں وہ اسبات کے قائیل نہیں  کہ پہاڑ  زمین کے لیے میخیں ہیں اور آفتاب غروب ہونے کے وقت دلدل ہیں ڈوب  جاتا   ہے کہ سات آسمان  اور سات زمینیں ہیں کہ خدا گھوڑے وغیرہ کی قسم کھاتا ہے۔ جب وہ چھوٹے لڑکے  تھے وہ اِن باتوں  کے قائل تھے مگر اب وہ لڑکے  نہیں۔ چونکہ اُنہوں نے اپنے اباو اجدا کی نسبت بہتر دنیا  وی تعلیم حاصل  کی اسلیئے وہ بہتر دینی تعلیم کے محتاج ہیں لیکن اکثرایسا وقوع میں آیا  ہے کہ بجائے  تحقیق کے وہ مذہبی روک ٹوک کو قطعیٔ دور کر دیتے   ہیں یا یوں کہیں کی وہ اسبات کے قائل تو ہیں کہ ایک  خدا  ہے مگر الہامی کتابوں کے منکر ہیں اور ایسی زندگی بسر کرتے ہیں کہ گویا  خدا اور شیطان بہشت اور دوذخ کو ئی چیزہی نہیں اگر  کوئی کہے کہ ہمارے مذہبی طریقوں میں سچائی نہیں اسلیے حق سب میں  معدوم ہے یہہ بات راست نہیں اگر وہ لوگ جو موتیوں  یا سونے کی تلاش میں ایک دو جگہ تلاش کے بعد نا کامیاب ہوں اور نتیجہ  نکالیں کہ موتی یا سونا دنیا میں معدوم ہے اور مایوس ہو کر بیٹھ رہیں تو یہہ بالکل درست نہیں  ہوگا۔

خدا نے ہمکو عقل کا جوہر عطا فرمایا ہے کہ ہم تفتیش کریں کہ حق کیا ہے اور راستی و ناراستی میں تمیز کر سکیں اور کہ حق کو حاصل کر کے اُسکو  نہ چھوڑیں اور جھوٹ کو ترک کریں۔ دیکھو کانکن  زمین کھودتا ہے اور بڑی خبرداری سے سونے چاندی کو میل  سے علیحدہ کرتا ہے اور کسیقدر محنت صبر اور ہنر کو کام میں لاتا ہے کوئی توقع نکرے کہ جو اہرات  کنکروں کی طرح زمین پر بکھرے پاویگا لہزا کوئی یہہ بھی امید نرکھے  کہ حق کو صبر اور تجسس کے بغیر حاصل کر لیگا۔  لارڈ بیکن ساحب  فرماتے کہ میں بلا توش نے بے پروائی سے سوال  کیا کہ حق کیا ہے اور جواب کی انتظاری  نکی۔ اگر کوئی حق جوئی کا دعویٰ کرے اُسکو مناسب ہے کہ اُسکی ایسی تلاش کرے جیسے گنج  پنہان کے کرنے میں ایک قدیم  بزرگ کا قول ہے۔ حکمت کہاں سے حاصل   ہوگی اور فہمید کی جگہ کہاں ہے انسان  اسکی قدر نہیں جانتا سمندر کہتا ہے کہ یہہ مجھ میں  ہیں اور  گہراوکہ  یہہ  میرے پاس موجود نہین یہہ سونے سے حاصل نہیں  ہوتی اور چاندی سے یہہ معاوضہ میں نہیں آتی خدا  اُسکے راہ اور جگہ کو جانتا ہے ( ایوب ۲۸۔ ۱۲ سے ۲۳ ) قریب ۳۰۰۰ ہزار برس کے گزرے ایک بادشاہ کا قول ہے کہ حکمت  سب سے اعلی ٰ شے ہے اسلیئے حکمت  کو حاصل کرو  کیونکہ  حق کی شناخت اور اطاعت ہی ھکمت ہے۔ اکثر لوگ حق جوئی کی کچھ قدر نہیں کرتے   شائد وہ خیال کرتے ہیں  کہ حق حاصل نہیں ہو سکتا اور جھوٹ سے حق کا تمیز ہونا  مشکل و محال ہے شائد وہ سمجھتے ہیں کہ اگر کو ئی شخص  ایک طریق  کو اختیار کرے اور اُسپر قائم رہے ضرور بہشت میں داخل ہو گا مگر کیا ہو سکتا ہے کہ کوئی غلطی سے خوراک  کے عیوض  زہر کھاوہ اور پھر بدن میں طاقت کی توقع رکھے یا کوئی غلط راہ پر قدم  مارے اور  پھر منزل مقصود   کو پہنچے ۔ حق ہمارے پانؤں کے لیے چراغ اور ہماری راہ کے لیے روشنی ہے مگر ناراستی اندھیرا اور تاریکی  ہے خدا حق  ہے اور جب ہم حق میں چلتے ہیں تب  ہی اُسکے  قریب میں رہتے ہیں اور اُسکے نزدیک پہنچتے ہیں۔ حق ہم کو گناہ سے آزاد  کر سکتا ہے اور دوذخ سے بچا سکتا ہے۔ خدا  حق ہے اور حق کو پیار کرتا ہے اور ناراستی سے نفرت کرنا بہت  مناسب ہے کہ ہم حق کی شناخت پیدا کرنے  کی سعی کریں۔ اگر  خدا ہی تو صاف نتیجہ اور بات ہے کہ میں اُسکی شناخت حاصل  کروں اور اگر کو ئی طریق  ایسا ہے کہ میں اپنے گناہونکی  مستحق سزا سے رہائی  پا سکتا ہوں  تو بہت ضرور ی امر ہے کہ میں اُس سے واقف ہو جاؤں میری روح جاودانی ہے اور میں اسکو دولت اور دوستوں  و نیکنامی  اور تمام چیزوں  کی نسبت جنکو لوگ عزیز جانتے ہیں نہایت قیمتی سمجھتا ہوں۔ آدمی  کو کیا  فائیدہ اگر وہ تمام دنیا کو حاصل  کرے اور اپنی  روح کو کھو دیوہ حق جوئی میں فقط  سرگرمی ہی درکار نہیں بلکہ فروتنی  بھی اکثر لوگ غرور سے پرُ اور آپکو دانا سمجھتے ہیں خاص کر وہ لوگ جو  اورونکی نسبت  کچھ زیادہ علم رکھتے ہیں زیادہ متکبر ہو جاتے ہیں ۔ اکثر اوقات دیکھا جاتا ہے کہ جوان لوگ  جنہوں نے  کسیقدر ملٹن اور بیکن اور سکس پرکو پڑھ لیا آپکو اپنے معلموں سے زیادہ دانا تصور  کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ افسوس ہمارے اُستاد ایسی باتوں کے قایل ہیں جو چھوٹے بچوں کی لائیق ہیں ۔ شائد اُنہوں نے اپنے معلموں کے عقائد پر چند ظاہری اور پوچ اعتراضات  کو پڑھ لیا ہے اور اُن دلائیل کو کبھی نہیں دیکھا جن سے اُستاد اپنے عقائد  کی سچائی کے قایل ہوئے وہ شاگردنو تعلیم یافتہ تو نہایت مشکل  ساولات فوراً بلا غور حل کر سکتے  ہیں مگر طرفین دلائیل کا کچھ بھی لحاظ نہیں کرتے کاش کہ وہ لوگ بہت دن سرائی زق نیوٹن کے نمونہ کی پیروی کرنے جسکا قول ہے کہ میں فقط چھوٹا لڑکا ہوں اور علم کے سمندر اعظم کے کنارے پر سیپیاں چن  رہا ہوں اور  ایوب کا نمونہ بھی پیروی  کے لایقٔ ہے جسکا قول ہے کیا تو خدا کو تللا ش سے پا سکتا ہے کیا  تو قادر کو کامل طور پر دریافت کر سکتا ہے وہ تو آسمان جیسا بلندہے اور پاتال جیسا عمیق ہو تو کیا کریگا  اور کیا سمجھے گا۔

مناسب ہے کہ ہم حق کی تلاش مصمم ارادہ سے کریں کہ ہم اُسکی ہدایت پر قدم ماریں ہندوستان میں بہت تعلیم یافتہ نوجوان  ہیں جو اپنے مذہبی رسوم کے قائل نہیں ہیں اور معقول سچائی سے بے پرواہ رہتے ہیں مثلاً بہت ہیں جو بتُ پرستی کو بُرا جانتے ہیں تاہم بتوں کے آگے گھٹنا ٹیکتے ہیں۔ بہت ہیں جو زات پات کو بیہودہ  رسم جانتے پر اُسکے تمام  دعووں پر عمل  کرتے ہیں  وہ مانتے ہیں کہ فقط ایک ہی برحق خدا ہے پر اُسکو لائیق عزت نہیں کرتے والدین کی رضامندی کے لیے  یا ذات میں قائم   رہنے کے واسطے وہ ایسے کام کرتے ہیں جو راست نہیں ہیں پس وہ حق   پر نہیں چلتے ۔ ہندوستان میں تعلیم یافتہ لوگ بے علم لوگوں کی ہدایت پر عمل کرتے ہیں  پر اور ملکوں میں اس قسم کی ہدایت قبول نہیں کیجاتی۔ اگر کو ئی سچائی سے واقف ہونا چاہے۔ مناسب  ہو کہ اُسپر عمل کرے  ایسے کرنے سے حق  کی محبت اور سر گر می بڑھتی ہے اور جب ہم اُس سچائی کا ثبوت سے تعاقب کرتے ہیں ہم حاصل کرتے ہیں ۔ اگر کسی کے پاس کچھ ہواور وہ اُسپر عمل کرے  تو اُسکی بڑھتی ہوگی بہت مناسب ہے کہ ہماری جستجو دعا  کے ساتھ شروع کیجاوہ  خدا تمام سچائی کا چشمہ اور تمام نور عنکا عطا کرنیوالا ہے۔ اُسکا  نام ہے  نور ونکا باپ۔ اُسنے دل  کو پیدا کیا  اور وہی  اُسکو منور کر سکتا  ہے۔ وہ جسنے آنکھ کو بنایا اندھوں  کو بینائی  دیسکتا ہے کہتے ہیں کہ جب  امریکہ کے تیرا صوبیجات انگلستان  سے علیحدہ ہو گئے اور اس ملک کے دانا دار اشخاص  جمع ہوئے کہ نئی قوم کی حکومت  و ہدایت کے  لیے قوانین تیار کریں بہت دنوں تک اُنہوں  نے محنت وسعی کی پر کچھ حاصل  نہ ہوا آخر کار ایک نہایت دانا شخص  بنام ڈاکٹر فرنکلین صاحب نے کہا  صاحبوں تم بہت  دنوں تےک کوشش کرتے رہو کہ حکومت و ہدایت  کے لیے قوانین ایجاد  کریں پر کچھ حاصل  ہوا تم میں  مباحثے  ہوئے اور طرفین سے مختلف  خیالات ظاہر ہو چکے ہیں مگر سب  بے ثمرہ کیا ہی تعجب کی بات  اتنی پریشانی و مشکل کے وقت  ہمتے نورونکے  باچکی طرف توجہ کرنے کا فکر ہی نہیں کیا  جو صفت عطا فرمایا   اور ملامت  نہیں کرتا  کہ وہ ہماری اس ضرورت کے وقت ہدایت فرماوہ اور اُس بزرگ صاحب نے تحریک کی آئینہ کو روز مرہ خدا سے ہدایت  اور روشنی کی التجا کیجاوہ پس اس وقت سے یہہ کام خوب امن کے ساتھ  ترقی پاتا گیا اور مجموعہ قوانین طیار ہو گئے۔ پس نہایت ضروری امر ہے کہ ہم خدا سے التجا کریں کہ وہ ہمکو وہ نور اور ہدایت بخشے جو اُس گناہ اور تاریکی سے معمور دنیا میں ہمکو   نہایت ضرور ہیں۔ علاوہ  بریں جو کوئی سو تیونکی تلاش  میں  ہوتا ہے اُسکو یہہ موقع نہیں ہوتی کہ کس تازہ شیرین پانی  کی نہر میں موتی پاویگا بلکہ سمندر میں اور سمندر کی طرف اُنکی تلاش  میں  جاتا  ہے اور جو کوئی زمین کے عمدہ حاصلات مثلاً  انگور۔ انار۔ آم۔ گندم ۔ وغیرہ کی خواہش رکھتا ہے  اسکو یہہ امید نہیں ہوتی کہ ایسی چیزیں  کسی جنگل میں پاعیگا بلکہ کسی عمدہ زرخیز ملک  میں  بس سچےّ مذہب  کی تلاش کے وقت یاد رکھنا چاہیئے کہ ہم توقع نہیں رکھ سکتے کہ ہم اُسکو جاہل بے تہذیب وحشیوں  میں پاوینگے بلکہ مہذب شائستہ اور نیک لوگوں میں۔ لہزا بہت مناسب ہے کہ اس ملک کے تعلیم یافتہ  باشندہ۔ مسیحی مذہب کے وعدوں کا نہایت اطمینان اور صبر اور دعا کے ساتھ  امتحان کریں دنیا کی نہایت مہذب قومی بائیبل  کے سوا کسی اور کی متعقد نہیں  ہیں اور اُسکے  سوا اور کوئی کتاب نہیں  جو الہام کا دعویٰ کرے اور قبولیت  کے قابل ہو۔ جن قوموں نے بائیبل  کو قبول کیا ہےاُنہوں نے اسکے زریعنہ سے نہایت بھاری  برکتیں حاصل  کی ہیں  اس ہی سے انکو نہایت پاکیزہ اخلاق کا درجہ حاصل  ہے  اور اُسکے زریعہ سے خدا کی ہستی اور اُسکی صفات سے اعلیٰ خیالات انکو نصیب ہیں اور اُنکو بہشت کاراہ معلوم ہو گیا ہے جسپر وہ قدم مار سکتے ہیں اس لیے آپ  لوگوں سے التماس ہے کہ اسبات پر غور کرو کہ انجیل خدا کی طرف سے اور مسیح آدم زاد کا نجات دہندہ ہے کہ نہیں؟