سلطنت اسلامیہ میں اسلامی شریعت کے
مطابق مسیحیوں کے ساتھ کیا برتاؤ ہوتا ہے۔

How Ottoman Empire Treated Christians
according to Islamic Sharia Law


Published in Nur-i-Afshan April 19, 1895
By Canon Malcom


یاد رکھنا چاہئے کہ ہند میں اسلام کی سلطنت  نہیں اور یہاں پر فقط  اسلام  کی عبادت اور عبادت کے متعلق  دیگر مستورات عمل میں آتے ہیں۔ لیکن جہاں اسلام اسلام کی سلطنت ہے وہاں مذہبی حکومت ہوتی ہے اور عدالت  اسلامی  شرع کے مطابق کیجاتی ہے۔ مفتوح قوموں کی بابت شرع کا یہ حکم ہے۔ کافروں کے تین  گروہوں کے علاوہ باقی سب کو دو باتیں پیش  کی جاتی ہیں۔  یعنے قرآن یا موت سے۔ تین گروہ جو  مستثنےٰ ہیں  مسیحیؔ،  یہودیؔ۔ اور گبرؔ ہیں۔ یعنے قرآن یا موت یا جزیہ اور اس قانونکے مطابق یہودی  اور مسیحی سلطان روم کی سلطنت  میں جزیہ دیتے ہیں۔ لیکن اب ہم دیکھیں کہ زّمی یا جزیہ دینے والے کا درجہ اور مرتبہ کیسا سمجھا جاتا ہے۔ خلیفہ عمر نے جو عہد نامہ یروسلم پر قبضہ  کرتے وقت مسیحیّوں کے ساتھ کیا تھا۔ اس میں مسیحّیوں کی حالت چنداں سخت نہ کی گئی تھی۔  عمری کی تصنیف  سے یہ باتیں معلوم  ہوتی  ہیں۔ مسیحی کو حکم ہے کہ کسی مسلمان کومسیحی ہونے کی ترغیب  نہ  دے اور نہ کسی مسلمان کو بپتمسہ دے۔  اگر اُس کو کوئی رشتہ  دارمسلمان ہوناچاہئے  تو ہر گز کسی طرح اُس خواہش کے خلاف ترغیب  نہ دے۔ اِن حکموں کو توڑنے کی سزا موت ہے۔ مسیحی  کا فرض ہے کہ اگر وہ کسی مسلمان کو دیکھے خواہ وہ مسلمان  کیسے ہی درجہ  کا ہو تو اُس  کے سامنے کھڑا ہو جائے۔ مسیحی نواب  یا  آرچ  بشپ مسلمان بھیک منگےکے سامنے ادب کے لئے کھڑا ہو۔ کوئی مسیحی گھوڑے پر زین ڈالکر  سوار نہو۔ اُس کو اجازت  نہیں کہ تلوار یا لڑائی  کا اور کوئی  ہتھیار  رکھتے۔مسیحی کوئی نیا گرجا  یا رہبان  خانہ یا کوئی  اور مکان مزہبی غرض  سے نہ بناویں۔ شہر میں یا شہر کے گردنواح  میں۔ اگر کسی ایسی گلی میں جس میں  مسلمان رہتے ہوں ۔ کوئی گرجا پرُانا  ہوجائے تو مسیحی اُس کی مرمت نہ کریں۔ دوسری جگہ میں ان کو اجازت  ہے۔ کہ اپنی مقدّس عمارتوں  کی مرمت کریں۔ لیکن یہ عمارتیں پرانی جگہ  پر اور بعد مرمت پرانی قد  اور مقدار کی ہوں۔ وہ صلیب کا نشان  نہ بناویں اور اپنے مرُدوں  کے لئے ماتم نہ کریں۔ اگر کوئی مسلمان  مسافران  کے پاس آے  تو تین دن تک اُس کی مہمانی  کریں اور اگر سال بھر مسافر آتے رہیں تو سال بھر مہمانداری  جاری رہے۔

خلیفہ  عمر کی امان بہت ہی پر از رحم سمجھنی  چاہئے۔ اور  عمر کے بعد جوملک  مسلمانوں نے بہت  فتح  کئے ان میں  مسیحیوں  پر ان سے کہیں  زیادہ دہ سختیاں کی جاتی تھیں۔ یہ قانون سلسلہ ھسپانیہ اور ھند میں پاری طرح جاری رہ  چکا  ہے۔  اور اب  سلطان کی سلطنت  میں جاری ہے۔ اگر کوئی مسلمان  کہے کہ یہ قوانین  قرآن سے چابت نہیں ہوسکتے تو جاننا چاہئے کہ ایسا کہنے والا ناواقف  ہے کیونکہ قرآن  اسلامی دنیا پر حاکم  نہین بلکہ وہ اجماعی قواعد  اور قوانین  جو کہ  ( ماموں نے قرآن  اور حدیث  سے استنناط کئے ہیں۔ ترکوں کا کوڈ  جس کے مطابق  اُن کی سلطنت  میں حکومت  ہوتی ہے بنام  ملُنق مشہور ہے۔  اور ایک شخص بنامی ابی سینی  جو سلطان  کے سول سروس میں بیس برس ملازم تھا۔  اُس  کا یوں بیان کرتا ہے۔ اس کتاب میں مسائیل عبادت و اخلاق اور سلطنت  کے تمام  اُمور فیصل  ہو چکے ہیں۔  اور  آیندہ تبدیل  یا تفسیر  کی جگہ باقی چھوڑی نہیں گئی۔ یہ کتاب ایک محکمہ ہے۔ جس کے بعد کوئی اور جائے اپیل باقی نہیں ۔ اس کتاب میں پوری طرح  سے بیان کیا گیا ہے کہ مسیحیوں کے ساتھ  کیسا اور کس طرھ  برتاؤ  کرنا چاہئے ۔ اور اسکتاب کے قانون اس بارے میں ایسے پر جفا اور خالی  از رحم  ہیں کہ ان سے بڑھکر  خیال کرنا بھی محال ہے۔ علاوہ ان سختیوں  کے جو عمر نے مسیحیوں پر جایز  رکھی تھیں یہ کتاب چند اور بھی مقرر کرتی ہے۔ اس کتاب میں حکم  ہے کہ مسلمان کے خلاف مسیحی کی گواہی کبھی نہ سُنی جاوے اور زِلّت کے چند اور سامان بھی  بہم کئے گئے ہیں۔ مسیحی کو حکم  ہے کہ  اپنے دروازے پر ایک نشان  لگاوے جس سے سب کو اُس کا گھر معلوم ہو جاوے  اور جس کو دیکھ کر  بھیک منگے  بھی اس کو خدا کے نام سے دعا دینے سے باز رہیں۔ اگر سڑک  پر چلتے  وقت اس کو کوئی مسلمان ملے تو عیسائی  کو لازم ہے کہ سڑک کے تنگ  حّصے کی طرف ہوجائے۔ جزیہ  لینے والا جزیہ لیتے  وقت اس کے ساتھ بڑی بیرحمی  سے پیش آوے۔ یعنے اس کو جھنجھوڑے  اور اس کی چھاتی پر  مارے یا زمین پر  گھیسٹتے اور کہے اے زمی ای اﷲ کے دشمن جزیہ دے۔ اور یہ اس واسطے کرے کہ مسیحی زلیل اور بیعزت  ہو جاوے۔ بعض  کونسل اس برتاؤ کا چشم  دید بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایسا کرنے والے حاکم اپنی طبیعت کی سختی کے باعث ایسا کرتے ہیں۔ لیکن وہ اس بات میں غلطی پر ہیں کیونکہ یہ تو حکم  شرع ہے۔ ایک کونسل لکھتا ہے۔ کہ مسیحیوں  کو بے خطر ہر قسم کی  گالیاں دی جاتی ہیں۔  اور دوسرے بیعزتی کے کلمات  کہے جاتے ہیں۔ اور اس امر میں خاصکر حکاّم  بڑے مشتاق  ہیں کمیٹوں اور عدالتوں میں تمام گالیاں جو ترکوں کی زبان میں  مرکب  ہوسکتی ہیں عیسائیوں کو دی جاتی ہیں۔ اور اُن کے مذہب کی توہین کی جاتی ہے۔ سلطنت کے حاکم اور جج ہر گھنٹہ حقیر  اور زلیل  مسیحیوں کو گالیاں دیتے ہیں۔

اگر کوئی مسیحی مرجاتا تو اہلکارون کی اصلاح میں جاتا ہے کہ وہ جہّنم رسیدہ ہوا۔ آرمینیہ کے ایک قاضی  نےایک مسیحی مرُدے کے دفن  کے لئے سارٹیکفٹ  دیا جس کو میں نے کود پڑہا۔ اس کے الفاظ  یہ تھے۔ مریم کے گرجا کے پادری کو ہم اجازت دیتے  ہیں کہ فلاں شخص کی ناپاک سڑی گلی بدبو دار لاش کو جو آج  واصل جہنم  ہوا زمین میں چھپا دیوے۔

یاد رکھنا  چاہئے کہ مذکورہ بالا قوانین ہنوز پرُانے نہیں ہوئے۔ احکام شرع  نہ موقوف  ہو سکتے ہیں۔ اور نہ بدل سکتے ہیں۔ سلطان بھی ان پر کچھ اختیار نہیں رکھتا۔ اگر سلطان چاہے  کہ ان قوانین میں سے کسی موقوف کرے تو لوگوں کا اختیار ہے کہ اُس کی تابعداری  چھوڑ دیں۔ اور شیخ الاسلام  کے فتویٰ سے وہ تخت سے معزول کیا جا سکتا ہے۔ محکمہ عدالت کا مختار  سلطان  نہیں بلکہ شیخ الاسلام ہے۔ اور شیخ الاسلام کے فتویٰ کے بغیر سلطان سلطان کاکوئی ملکی حکم کچھ بھی زور  نہیں رکھتا ۔ پیرس۔ برلن  اور سائی پرس کے عہد ناموں میں  جو وعدہے  سلطان نے عیسائیوں کے ساتھ منصفانہ برتاؤ کرنے کی بابت کئے  اُن پر شیخ الاسلام  نے کبھی اپنی مہر نہیں کی۔ اس لئے وہ تمام وعدے جو سلطان  کر چکا ہے۔  خاک کی مانند ہیں جو سلطان  نے یورپ کی آنکھوں میں ڈال رکھی ہے۔ اور کوئی مسلمان سلطان  کے علاقہ میں اُنکا زرہ بھی پابند نہیں۔ کسی سلطان نے آجتک  اِن وعدوں کے پورا کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اور اگر سلطان اِن کو پورا کرنے کو کوشش کرے تو اُس کا تخت  جاتا رہیگا ۔ گویا خلاصہ یہ ہے کہ  زبردستی اگر یورپ والے چاہیں تو سلطان کو انصاف  سکھا سکتے ہیں۔

مسلمانوں کی شرع  کی رو سے ترکوں کی عدالتوں میں مسیحی کی گواہی ہر گز منظور نہیں ہو سکتی۔ علاوہ اس کے  لبنان کے صوبہ کے علاوہ باقی صوبوں میں مسیحیوں کو ہتھیار رکھنے کی بھی اجازت نہیں۔ لبنان کا صوبہ اس واسطے  مستثنیٰ ہے کہ سنہ۱۸۶۰ء  سے وہ صوبہ  سلطان کے اختیار سے کسی قدر نکال لیا گیا ہے۔ ایک اور ظلم  یہ ہے کہ شرع  حکم کرتی ہے کہ مسیحی مسلمان اہلکاروں اور مسافروں کی تین  دن تک مفت مہما نداری کریں۔ اگر کوئی مسیحی کسی مسلمان کو اپنے مذہب میں لانیکی کوشش کرے تو اُس کے واسطے موت کی سزا ہے۔ اور جو مسلمان  مسیحی ہو جاوے اُس کے واسطے بھی موت کا حکم  ہے۔ اِن احکام پر سلطان کی سلطنت میں پوری طرح عمل کیا جاتا ہے۔ اِن احکام پر سلطان  کی سلطنت  میں پوری طرح عمل کیا جاتا ہے۔ سنہ ۱۸۸۰ میں چرچ مشن کے ایک پادری بنام ڈاکٹر  کالر نے ترکوں کے کسی  کالج کے ایک  پروفیسر  سے دعائے غمیم کی کتاب کے چند صفحوں کی تصیح میں  مدد لی۔  یہ جرم سمجھا گیا اور پادری گرفتار  کیا گیا۔ لیکن چونکہ وہ جرمنی کا باشندہ  اور انگریزوں  کا مشنری تھا۔ اس لئے وہ رو رہاہوگیا۔ لیکن شیخ الاسلام نے مسلمان پروفیسر پر موت کا فتویٰ دیا۔  یورپ والون نے مزاحمت  کی۔ سلطان نے اس ساری واردات کا الزام اپنی پولیس کے زمہ لگایا۔سر ھنری لیرڈ نے لارڈ سالر بری کے حکم سے درخواست کی کہ وہ پولیس  افسر یں نے یہ ظلم  کیا تھا  موقوف کیا جاوے چند دنوں کے بعد سر ھنری  لیرڈ  نے اِنگلستان تار بھیجا  کہ یہ ساری کار ستانی سلطان  کی ہے  اس لئے پولس کا افسر  موقوف  نہیں ہو سکتا۔ خلاصہ  یہ ہوا کہ  یورپ کی چھ بڑی سلطنتوں نے بڑی کوشش سے چار مہینے  میں سلطان کے دروغ اور تاخیر اور بہانوں پر غالب  آکر  اِس بیچارے  مسلمان پروفیسر  کی جان بچائی۔ جب بہت زور دیا گیا تو سلطان اور اُس  کے اہلکاروں نے اقرار کیا کہ جب  یہ پروفیسر اپنے فعل سے ازروئے شرع  موت کا سزاوار ہو چکا ہے توسلطان  بھی اس کی جان نہیں  بچا سکتا۔ اُسکی جان  مسیحی فقط زبردستی  کر کے بچا سکتے  ہیں یہ تمام واردات  سنہ ۱۸۸۰ء مین پارلیمنٹ  کی طرف سے چھپ چکی ہے۔ سنہ ۱۸۷۷ء میں شیخ الاسلام  نے قسطنطنیہ  میں علما کی ایک کونسل منعقد کی اور ان سے دریافت  کیا کہ کی کسی شرع کا حکم ڈھیلا ہو سکتا ہے یا نہیں۔ تاکہ آیندہ عیسائیوں کی  شہادت قبول ہوا کرے اور ان کو ہتھیار  رکھنے کی اجازت ملے مشورہ کے بعد فتویٰ نکلا کہ ہر گز ایسا نہیں ہو سکتا۔

میجر کالس رایل انجنیر  جس کو سلطان کے علاقہ میں بھیجا  یوں لکھتا ہے۔ مسیحیوں کو حکم  ہے کہ اجنبی  مسلمانوں کی مہمانداری  کریں۔ اور اِس حکم سے مسلمان بالکل  آزادہیں۔ اور حکم ہے کہ جب کسی عیسائی کے گھر میں کوئی مہمان  ہو تو مسیحی مرد اپنے گھر سے باہر رات کاٹے اور اپنی جورو اور بیٹیوں  کو اس مسلمان کے سپرد  کر دیوے۔ اس حکم سے عیسائی ہر گز بچ نہیں سکتا۔ اُس کے پاس ہتھیار نہیں اور کچہری  میں اُس کی نالش مسلمان  کے خلاف سنی نہیں جاتی۔ اُس کی زندگی اور اُس کے عزیزوں کی زندگی  مسلمان کے اختیار  میں ہے۔ اِس قانون سے سلطان کی پولس کے سپاہی  اکثر فائدہ اُٹھاتے ہیں۔

راقم ۔۔۔ ملکم مکال۔ لندن