بائبل کے مخالف جھوٹے

علامہ طالب الدین

Objectors to the Bible

Published in Nur-i-Afshan October 10, 1889
By Rev. Talib-u-Din

 اِنسان جو سہو کا مضغہ ہے اور تمام عمر غلطی پر غلطی  بھول پر بھول  کرتا رہتا ہے اور بعد از مرگ  چند دن کے لئے یاد  آنا ہے اور پھر نسیًا منسیًا  ہو جاتا  ہے اُس کی کیا بضاعت کہ وہ اسرار  ربانی کے باریک اور ملائیم  السطح راستہ پر بغیر ہدایت قدم تعقل دھرے اور نگرے۔ اگر کوئی عقلمند ایک انچ کا  پیمانہ  نبا کر کلکتہ اور لندن کے درمیانی فاصلہ کو پیمایش کیا چاہے تو دیکھینے والے  ضرور ایسے دور اندیش کی عقل پر قہقہہ مارینگے ۔ کیونکہ  نہ تو یہہ امکان ہو سکتا ہے کہ اِس عقل کے دشمن کی عمر کامیاب  ہونے تک وفا کریگی اور نہ یہ گمان  ہو سکتا ہے کہ اگر بفرض  محال  عمر کا طول پورا بھی نکلے تو اُسکو وہ سامان اور اسباب میسر آئینگے جن سے راستے کے خطرات و خدشات  پر غالب  آسکے۔ بلکہ برعکس اِسکے یہہ نظر  آتا ہے کہ یہہ  پیمانہ  مصیبتونکے تیز کنارونسے  گھِس گھِس  کر انجام کار ٹوٹ  جائیگا۔ کوسوں تک کا سمندر۔ سمندر میں کی  ہزاروں  بلائیں۔ زاد راہ کی کمیت۔ امداد کی قلت وغیرہ  حوارث  ناگزیر سے بغیر کشتی کیونکر بچیگا۔ اسی طرح اُس آدمی کا حال ہے جو عقل کے سریع الزوال  دولت لیکر خدائے حی القیوم  کی ہستی بے  بدل کا سراغ لگانا چاہتا ہے۔ پہلے چادر کے پہنے کو جانچنا چاہئے اور پھر پاؤں  پھیلانیکی  تدبیر کرنا چاہئے کہاں خدائے بے ہمتا کہاں آدمی خطا کا شکار۔ کہاں وہ ہستی  جسکے حقمیں یوں تسلیم کیا جاتا ہے کہ وہ کالق الافلاک صانع الموجودات ہے۔ کہ وہی مرکز نور ہے جسکے اردگرد  سیارگاں  گھوم گھومکر  روشنی پاتے ہیں کہ وہ  ایسا کاریگری جسکے دستقدرت نے ستارونکو ایسی ترتیب اور استقامت  بخشی ہے کہ وہ زمانونسے  بے ستون  معلق کھڑے ہیں۔ آدمی اور چیونتے میں تو بلحاظ قدر منزلت کچھ نسبت ہے لیکن خدائے لا محدود اور انسان مین کچھ بھی نسبت متصور نہیں ہوسکتی  تو پھر ایسے خدا کو جو نادیدنی ہے  عقل  اور علم کی آنکھ کیونکر دیکھ  سکے اگر منطق ہے تو منطق  اُسقیدر کار گر ہو سکتا ہے جہانتک  اُسکا  دایرہ ہے اگر طبعیات ہو تو  اُسیقدر عمل  درآمد  ہو سکیگا جہانتک  مضردومرکب کی قید  ساتھ ہے لیکن ہم  تو خدا  اُس  ہی خدا کو کہتے ہیں جو ان تمام قیود  سے مبّرا ہے۔ منطق کے نشیب و فراز  کو امتحان کرو کہ منطقیونکی  آرا میں ہی کسقدر اختلاف ہے۔ کو ئی منطق کی تعریف کیسطرح  کرتا ہے اور کو ئی  کسیطرح  کوئی کہتا  ہے منطق صرف  خیال کو درست کرنے کا فائیدہ دیتا ہے کوئی  کہتا ہے نہیں یہہ غلط ہے اور  منظق صرف اِسی حالت میں واجب الاستعمال  ہے جبکہ  اُسکا عودان اشیاء پر ہو جو واقعی موجود ہیں۔ غرضکہ  کو ئی کسی مسئلے کو کسی طرح بیان کرتا ہے اور کوئی کسیطرح ۔ اب جبکہ اُس آلہ  میں جسکی مدد سے ہم ایک نادیدنی شے کو دریافت کیا چاہئے  میں ایسے نقص موجود ہیں  کہ اُسکو استعمال کرنیوالے بالاتفاق یک زبان نہیں تو ہم اُنکے نتائج  پر کیونکر  تکیہ کر سکتے ہیں اور پھر جبکہ یہہ دیکھتے ہیں کہ جسیانہ زبردست  لمحہ  منطقی یہہ ثابت کرتا ہے کہ  خدا نہیں ہے (لاحول ولا)  ویسا ہی عالم دیندار منطقی یہہ ثابت کرتا ہے کہ خدا ہے (الحمداﷲ) تو کیوں اُس دلیل کو زمانیں جو خیز بجانب ہے۔ اگر خدا انہو اور ہم کہیں کہ ہے تو ہمارا کیا نقصان اور اگر ہے اور ہم کہین نہیں تو بیشک ہمارا بہت برُا ھال ہو گا پس اگر علم طبعیات  ہے تو مادہ لو اور اُسکے پہلو سہلاؤ۔ نجوم ہو تو انم جہانکو۔ کیمیا ہے تو گھریا ڈھونڈو سونا چاندی  پگھلاؤ پر اِن  علموں سے خدا کو معدوم  ٹھہرانے کے لئے اسکے پیچھے کیوں پڑو  اُسکے پہچاننے کو اُسیکا  کلام ہے۔ کیا خوب کسی دانا نے کہا ہے اگر علم کا عمل  درست طور پر نہو تو مثل  آب و دانش  اُس سے بجائے فائدے کے لاکھوں نقصان اُٹھانے  پڑتے ہین بھلا اِس سے بڑہکر اور کیا نقسان ہو سکتا ہے کہ انسان اُمید اور تسلی کھو بیٹھے ۔جب آدمی یہہ سمجھ بیٹھے  کہ خدا  کو ئی چیز نہیں تو اُسکے پاس کیا باقی رہا۔ انہیں ایام میں مجھے ایک رسالہ دیکھنے کا اتفاق  ہوا جو برڈالا لامذہب کی تصنیفات  سے تھا۔ اگرچہ چکھنے مین میٹھا  تھا لیکن زہر قاتل  سے پرُ تھا۔ اُسکے لفظونمیں کچھ کچھ وہی مزہ پایا جاتا تھا جو باغ  عدن کی اُن دلفریب  باتونمیں  تھا جنہوں نے ہمارے بھولے باپ کو بہلا لیا۔  لیکن شکر ہے خدا کا کہ وہ اپنے بندوں  کو تریاق ہدایت عنایت کرتا ہے جس کے طفیل سے سم الحاد اُنپر تاثیر پزیر نہیں ہو سکتا مگر افسوس  اُن نوجوانونپر جو محض حجت اور بدعت کے لئےاور پھر نہایت شوق سے ایسی زہر آلود اور بداخلاق کتابونکا مطالعہ کرتے ہیں۔ میں نے اپنا فرض سمجھا کہ میں اُن خیالات کو ظاہر  کروں جن کی مدد سے مین اس ہلاہل  کی تاثیر سے بچاتا کہ اگر کوئی ا،س سنکھۓ کو چکھکر حالت کشمکش میں ہو گیا ہو شاید ان خیالات کو کام میں لاکر بحال ہو جائے۔ اب ہم اُس  رسالے کالب لباب  اپنے لفظونمیں بیان کرتے ہیں مصنف نے الفاظ ’’بڑھو اور پھلو‘‘ پر  چشمک کی ہے جو خدا نے آدم کو برکت دیتے وقت استعمال  کئے تھے اُسکا یہہ اعتراض  ہے ’’بڑہنا اور پھلنا آبادی کی ترقی کو کہتے ہین اور آبادی کی ترقی سے افلاس پھیلتا  ہے اور افلاس سے لوگوں کی حالت  روّی  ہوئی ہے پس یہہ برکت ہے یا اُسکے برعکس۔ چنانچہ  زیادہ آبادی کے سبب سے انگلستان  کا حال ایسا ہی ہو رہا ہے کہ لوگ افلاس کے ہاتھوں اپنا وطن چھوڑ  چھوڑ غیر ملکوں کو جا رہے ہیں غریب غربا کو محنت کا  موقع نہیں ملتا مزدوری دستیاب نہیں ہوتی مارے بھوک پیاس کے چلاتے ہیں سینکڑوں پادری پیکٹ پر سے مانگتے ہیں نہیں پاتے ۔ ڈھونڈتے ہیں اور اُنکو نہیں ملتا کھٹکٹاتے ہیں اور نہیں کھولاجاتا کیا بڑھنے اور پھلنے کی برکت دینے والا خدا سو گیا۔  کیا یہہ برکت پولٹیکل  اکانومی (سیاست مدن) کے اِس اصول سے متفق ہے کہ جہانتک ہو سکے آبادی کو کم رکھو تاکہ بھوک سے نہ مرو۔ کیا خدا سے یا پولٹیکل اکانومی سے ایسے معاملے میں صلاح لینی چاہئے  اور کس کا کہا ماننا چاہئے؟ دیکھنا کہیں اِن تڑیوں میں نہ آجائے۔ آؤ تو لفظ  بڑھو  پر غور کریں کہ کس وقت کہا گیا۔ بائبل اِس لفظ کو اُس  زمانے سے منسوب کرتی ہے جبکہ دنیا میں صرف  دو انسان  تھے۔ کیا  ایسے وقت میں جبکہ زمین  بالکل غیر آباد تھی یہہ برکت زیبا  نہ تھی اور کیا اب ساری زمین آباد  ہو چکی ہے جو مخالف  طعن سے یوں  کہہ رہا ہے۔  یوروپ  صدیوں سے اُٹھ اُٹھ کر امریکہ اور آسٹریلیا و جا رہا ہے اب دنیا کو بڑہا رہا ہے  مگر اُسکی راہیں ہماری  راہوں سے بعید ہیں۔ یوں نہ کہو کہ افلاس کے مارے اپنا ملک چھوڑ  چھوڑ کر چلے جا رہے ہیں  شاید اُسنے اِس افلاس میں یہہ  بھید رکھا ہو کہ آسٹریلیا اور امریکہ  کے غیر آباد خطوں کو یوروپ کے غریب  مسیحیونسے آباد کرے تاکہ وہ مسیحیت کو ساتھ لیکر جائیں اور جا کر وہاں بسیں جہاں  بڑھنے اور پھلنے کو ہنوز جگہ ہی آدمی کون ہو جو اُسکے کام میں دست اندازی کر سکے خدا مثل برتن بنانے  والے کے اور آدمی  مانند برتن کو بنادیگا  خدا  انگور  لگا نیوالا  اور آدمی انگور اگر وہ اُسکو شاخوں کی طرح کاٹتا چھانٹتا ہے تو وہ یہہ بھی جانتا ہے کہ آئندہ پھل میں کس قدر قدر ترقی ہوگی۔ اور اگر کو ئی  اُسکے کاٹنے چھانٹنے  میں مزاحمت کرے تو پہلے براہ مہربانی یہہ ثابت کر دے کہ کسقدر نیکوں کے پھل لاکر اُس نے اِس مزاحمت کا استحقاق پیدا کیا ہے۔  باشندگان اضلاع  متحدہ میں سے ہزاروں  اسی غریبی کے مارے اپنے وطن سے نکلے تھے جو اب ہر علم اور سبُز میں اور اقبالمندی میں اپنے پرُانے ہموطنوں سے ایکقدم پیچھے نہیں ۔ خدا جو کچھ کرتا ہے ہماری بہتری اور بھلائی  کے لئے کرتا ہے۔ پھر دوسرا طعن  مخالف کا دعا پر ہے کہ عیسائی دعا کرتے ہیں  اور اُنکی دعائیں قبول نہیں  ہوتیں۔ مصنف رسالے کا یہہ کہنا بجا ہے کیونکہ نہ اُنہوں نے کبھی دعا مانگنے کی تکلیف  اُٹھائی اور نہ کبھی مستجاب الدعوات کی بخشش کا تجربہ کیا پر ہر ایک سچا عیسائی  کہہ سکتا ہے کہ بیشک خدا دعاؤں کا سننیوالا خدا ہے۔ اگر دیندارونکی اُن دعاؤنکو جو قبول ہو چکیُں کا غذ پر لکھیں تو ممکن ہو کہ جلد پر جلد تیار ہو لیکن اتنا میں بھی کہتا ہوں کہ اگر دعا بد و ضعی سے مانگی جائے تو وہ ہر گز  قبول نہوگی۔  مانگنا۔ ڈھونڈنا۔ کھٹکھتانا۔ تب ہی بامر اد ہوگا جبکہ اسکی اُمید یہہ ہو کہ مونگینوالا خدا کا جلال ظاہر کر سکے اور ہمیشہ اُسکے ساتھ خوشحال  رہے کہ وہ مسیح کو تہِ دل سے پیار کر سکے اور اپنے بھائیونکو اپنی طرح ۔ کہ وہ بہرحال خدا کے کلام میں مگن رہے خواہ وہ ھالت تکلیف کی ہو یا آرام کی چاہے دولتمندی کی ہو یا افلاس کی اور اگر دعا خدا کی مرضی  پر تجاوز کرے اُسکی قبولیت میں کمال شک ہے اور  نہ کوئی دیندار  کبھی ایسی دعا کرتا ہے کہ اے خدا گو یہہ تیری ہی مرضی ہے کہ میں مفلسی کے دُکھ سہوں تو بھی میں یہہ چاہتا ہوں کہ مجھکو بار  افلاس  سے سبکدوش  کر کے مالدار اور غنی بناوے اور اگر  کوئی  ایسی  دعا کرتا ہے تو وہ عبث مغز خالی کرتا ہے کیونکہ  یہہ دعا ہر گز سُنی نجائیگی۔ مجھے کامل یقین ہے کہ تمام دیندار  پلپٹ پر سے دعا مانگنے والے خواہ انگلستانمیں  ہوں یا امریکہ میں خواہ یوروپ مین ہون یا افریقہ میں اگر انسانیت کے لحاظ سے اور کمزوری کے سبب سے چند روزہ  رنج  و عنا  سے بچنے کی دعا مانگتے بھی ہوں تاہم یہہ بھی ساتھ ہی اپنے  خداوند کسیطرح ضرور کہتے ہونگے ــ باپ میرے میری مرضینہیں پر تیری مرضی ہو۔ مانگینوالا بچہ کیا جانتا ہے کہ چھرُی  کٹاری میرے لئے مفید ہے یا مضر پر باپ جانتا ہے کہ مچھلی دوں یا سانپ۔ پھر متعرض  پولٹیکل  اکانومی اور بائبل شریف میں اختلاف  دکھلاتا ہے جو بالکل غلط ہے۔ بائبل کسی سائینس یا علم کی مخالفت نہیں کرتی  پر ہم بائبل  کے بھیدونکو کس علم  کی امداد  و زریعہ سے کماحقہ دریافت نہٰیں  کر سکتے تاوقیکہ بائبل  کی مدد نہ لیں۔ اِس اعتراض کے جواب سے پہلے ہم اِس  بات پر غور کر لین کہ احکام ربانی کی پیروی  سے ہمارا  فائیدہ ہے یا خدا کا مثلاً جب ہمیں شراب خوری سے ممانعت کی  جاتی ہے اِسمیں  ہمارا فائیدہ ہے یا خدا کا۔ ہر  کس و ناکس  اس سے خوب واقف ہو کہ استعمال مسکران سے کیا نتایج برآمد  ہوتے ہیں تو خون نکرنا ’’ تو چوری نہ کرنا‘‘ وغیرہ تمام احکام ایسے ہیں جو سراسر صرف بہبودی کے لئے ہیں۔ جسکو میں خدا کہتا ہوں وہ ایسا خدا ہے کہ جسکے جلال اور بزرگی میں میرے نیک چلن سے ایک  رتی بھر ترقی نہیں ہوتی اور نہ میرے بدچلن سے اُسکی عظمت میں یک سرِسو فرق آتا ہے کیونکہ اُسکی  قدرت اور جلال ازل سے ابد تک ہمیشہ یکساں ہیں  کمال شکر ہو ترا اے باپ کہ تو میرے فائیدے اور آرام کو اپنا جلال سمجھے اب ہم اِس سلسلہ میں اعتراض کی مدافعت یعنے اختلاف کی مدافعت کیا چاہتے ہیں خدا نے جو یہہ حکم دیا  کہ ’’تو زنا نہ کرنا‘‘ اِسکے عدول  کرنے میں کیا قباحتیں متصور ہو سکتی ہیں؟ بے شمار مثلاً اِس فعل بد کے تکرار سے ٹوٹ  زائل ہوجاتی ہے طرح طرح کی بیماریاں لاحق ہوجاتی ہیں۔ اور بہت سے نقصان پیدا ہوتے ہیں ازاں جملہ میں ایک یہہ بھی سمجھتا  ہوں کہاگر یہہ حکم نہوتا تو ضرور آبادی  حد سے زیادہ ہوجاتی بیشک خدا نے ہمارے  ہی فائیدہ  کو مدنظر رکھکر یہہ حکم دیا کہ مبادا آبادی کی کثرت انداز سے بڑھ جائے یقیناً اگر یہہ زنجیر  تیار کیجاتی اور اگر یہہ سرپوش تجویز نہوتی تو دنیا اُبل اُبل  پڑتی۔ اِسدنیا میں ہزاروں  آدمی ایسے  موجود ہیں جو اسی لگام سے جکڑے جکڑے ہیں اور پھر خدا نے صرف اس حکم پر اکتفا نکیا  بلکہ اُسنے یہہ حکم بھی دیا کہ ایک جورو سے زیادہ جورواں  نکرو۔ کون کہتا ہے کہ پولٹیکل  اکانومی اور بائبل میں اختلاف  ہے غور کرو کہ ابتدائے عالم سے کیسی  مطابقت  بائیبل  اور پولٹیکل  اکانومی میں چلی آئی ہے کہ جب دنیا میں لوگ بہت بہت جوروآں کرتے تھے اور خدا برداشت کرتا تھا اور یوں آبادی زیادہ ہوگی۔ بنی اسرائیل کا نمونہ اور قوموں نے لیا پھر آخر اُس  نے یہہ مستقیم ارادہ  ظاہر کیا کہ تیرا مددگار ایک ہی ہے بس  ہے اس سے زیادہ  نہو۔ کیا ان باتونسے  یہہ ظاہر ہوتا ہے کہ بائبل  پولٹیکل اکانومی سے مطابقت نہیں رکھتی اگر اسکو مطابقت  نہیں کہتے تو میں نہیں جانتا کہ مطابقت  کس چیز کا نام ہے۔ خدا نے ہمارے فائدے کے لئے سب کچھ کر دیا اب اگر بنی آدم  اپنی شہواتی عادات کو بس  میں نہ رکھے تو خدا کا کیا قصور

؎  گر نہ بیندبروز شپرہ چشم
چشمۂ آفتاب راچہ گناہ

اب کوئی چودہ جورواں کرے یا چار اُسکی مرضی۔ کوئی زنا کرے یا بدکاری اُسکی رضا۔ پر اگر لوگ خدا کے حکم کے بموجب  پرہیزگاری اور صبر سے چلیں تو پھر دیکھیں کہ کسطرح آبادی اِسقدر پھیل جائے جو لاگ بھوکوں مریں۔ بس اے عزیز خداوند کا شکر کرتے ہوئے ٹھراتے ہوئے اپنی نجات کا کام کرتے جاؤ۔

راقم طالب الدین از لاہور