Great Blue Heron

کوئی بغیر وسیلہ میرے باپ پاس جانہیں سکتا

No one can come to the Father
except through me.

Published in Nur-i-Afshan Oct 15, 1897

اے پیارے ناظرین اس امر سے تو آپ عموماً واقف ہونگے کہ یہ دعویٰ کس کا ہے۔ ہاں اگر کلام ہو گا تو اِس بات میں کہ ہم اِس دعویٰ کو قبول نہیں کر سکتے۔ ایسا دعویٰ ہمارے اختیار و طاقت کو محدود کر دیتا ہے۔ ہم خدا کے پاس کیوں نہیں جا سکتے کون سی روک ہے جو ہم کو خدا کے پاس جانے سے باز رکھتی ہے۔ پھر بعض صاحبان یہ فرمائینگے کہ ہمارا بھی ایک وسیلہ ہے اگر عیسائی حضرت مسیح کے وسیلہ سے خدا کی قربت حاصل کرینگے تو ہم بھی اپنے نبی کے وسیلہ سے بہشت کے باغ کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کھائینگے اور میوہ دار درختوں کے سایہ تلے حور ع غلمان سے خدمت لینگے۔ مگر صاحبو خداوند مسیح کے اِس دعویٰ پر اگر آپ غور کریں اور اُس کے صحیح معنی و مطلب کو دریافت کرنا چاہیں تو اپ کو معلوم ہو گا کہ اس میں کسی دوسرے نبی یا وسیلہ کی گنجایش باقی نہیں رہتی اور ہمارے سارے راستہ اور دروازہ مسدود و مسمار ہو چکے ہیں۔ ہم اُن کو پھر ہموار درست کر نہیں سکتے۔ لہذا ہم اس دعویٰ کی صداقت پر کچھ دیر تک غور کریں اور دریافت کریں کہ کن سببوں سے ہم بغیر خداوند مسیح کے وسیلہ باپ کے پاس دخل نہیں پا سکتے۔ ( ۱ ) سبب جس سے بغیر وسیلہ باپ پاس کوئی انسان نہیں پہنچ سکتا اِنسان کی خطا کاری ہی اور اسی نے ہمکو باپ سے جُدا کر دیا اور ہم اُس کی حضوری و قربت سے گرائے گئے۔ کوئی چارہ و علاج گناہ کی برُائی کے مٹانے کا انسان کی دست قدرت میں پاقی نہیں ہے۔ یہی وجہ کہ دُنیامیں آج تک کوئی شخص بے گناہ نہیں ملتا اور جب تک ہم بیگناہ نہوں اُس وقت تک خدا کی قربت دریافت کے لایق نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ رفاقت و قربت دو متحد مزاج اور طبیعتوں میں ہوا کرتی ہے پر ہم میں اور خُدا کی طبیعت میں زمین و آسمان کی دوری سے بھی زیادہ فرق نظر آتا ہے اور جب تک یہ اختلافَ مٹِ نہ جائے عقل ہم کو کسی طرح سے اس امر کا پورا اِطمینان دلا نہیں سکتی کہ ہم اُس کی رفاقت و قربت میں دخل پا سکتے ہیں جو گناہ اور بدی کو دیکھ نہیں سکتا۔ پھر ہمارے بعض بھائی یہ خیال کرتے ہیں کہ اگر ہم گناہ کو ترک کر دیں اور پا بن جاویں تو کیوں خدا کے پاس براہ راست نہیں جا سکتے اور پھر ہمیں وسیلہ کی کیا ضرورت باقی رہیگی۔ ہاں بھائیوں ایسا خیال کرنا تو ممکن ہے پر محض خیال ہی خیال ہے۔ حقیقت سے بہت دور ہے۔ جب عمل کی راہ پر انکھ کھول کر دیکھا جاتا ہے تو ہم کو وہی بات کہنی پڑتی ہے جو اوپر کہ چکے کہ دُنیا میں معمولی اِنسانوںکو چھوڑ کت انبیاؤں تک عملی راہ سے گمراہ اور بھٹکا ہوا پاتے ہین۔ کسی مذہبی تواریخ مین ( با ستثنأ خداوند یسُوع مسیح ) ایسا ایک شخص بھی نہیں ملتا جو گناہ کے داغ سے صاف و پاک ہو۔ حقیقت ھال یہ ہے کہ زندگی پر گناہ نے کچھ ایسی تاثیر و قبضہ کر لیا ہے کہ اُس کا ظہور وقتاً فوقتاً آزمایش کی حالتوں میں ہوتا رہتا ہے۔ بڑے بڑے دینداروں اور مقدسوں نے اپنے تجربہ میں اس مر کا اظہار و اقرار کیا ہے بلکہ ہم جس قدر پاکیزگی میں بفضل خداوند ترقی کرتے اور گناہ سے نفرت رکھتے ہین اُسی قدر ہم کو اپنی کمزوری اور گناہ کا زور نطر آتا ہے۔ پھر اگر ہم بفرض محال ایک ساعت کے لئے اِس امر کو بھی مان لیں کہ ادمی گنہگار ہو کر بھی پاک و صاف ہو سکتا ہے تو بھی وہ گناہ جو ہم سے گزشتہ زندگی میں ہوئے اُن کی سزا سے رہائی اور معافی کا پیغام ہم کو نہ تو صحیفہ نیچر اور نہ سچے الہام سے بغیر وسیلہ ملتا ہے۔ جس حال کہ آدم کے ایک ہی گناہ نے اُس کو زندگی میں ملعون اور مرنے والا ٹھہرا کر کدا کی نزدیکی و حضوری سے جدُا کر دیا تو جنہوں نے کثرت سے گناہ کئے اُن کی معافی کی نسبت عقل کی رہبری سے کونسا تسلیّ بخش جواب مل سکتا ہے۔