سلوک ہمسایہ

Neighborly Kindness

Published in Nur-i-Afshan August 7, 1884
By. Rev. Elwood Morris Wherry
(1843–1927)

بڑے حکموں میں دوسرا حکم یہہ ہے کہ تو اپنے بڑوسی کو اپنے برابر پیار کر۔ یہاں پڑوسی سے دنیا کے سب لوگ مراد ہیں پر خصوساً  اس لفظ سے وہ لوگ مراد ہیں جو ہمارے آس پاس  رہتے ہیں۔ چنانچہ دیل کی باتیں اُنہیں سے متعلق ہیں۔

سوال یہہ ہے کہ ہم اپنے  پڑوسیوں کے ساتھ کیسا سلوک کریں۔ج۔ قانون صاف اور ظاہر ہے کہ تو اپنے پڑوسی کو اپنا برابر پیار کر۔اگر ہم  اسے بخوبی سمجھ لیں تو  ہر معاملہ  میں اُس  سے رہنمائی  پائینگے۔ ہمکو چاہیئے کہ اپنے پڑوسیوں  کو  اپنے ساتھ خدا کے بڑے  خاندان  میں شریک  تصور کریں اور اُنسے وہی سلوک  کریں جو ہم چاہتے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ کریں۔ اُن باتوں سے کنارہ  رہنا لازم ہے جنسے ہمارے پڑوسی  کو رنج یا نقصان  پہنچے۔ اسجگہ میں کوڑا  پھینکنا جس  سے ہمارے ہمسایہ کو تکلیف  ہو مناسب ہے۔  پڑوسی کے آنگن میں پتھر پھینکنے  یا اُسکے لڑکے بالوں سےبدحلو کی کرنیکی اپنے لڑکوں  کو اجازت  دینا بیجا ہے۔

جس وقت کوئی ہمسایہ ہمکو نقصان پہنچائے تو گالی دینے یا عدالت میں رجوع کرنے  کے برخلاف یہہ بہتر ہو گا  کہ اُسکے  پاس جاکے  آیندہ کے لیے ایسی باتوں کے دور  رکھنے کے لیے  مشورہ کریں ۔ زیل کے قصہ سے وہ طریقہ  ظاہر ہوتا ہے  جسپر عمل کرنا چاہیئے۔

ایک آدمی نے یوں بیان کیا ہے کہ  آگے میرے پاس بہت سی مرغیاں تھیں اکثر میں انکو بند رکھا کرتا تھا پر آخر کو یہہ خیال کیا کہ انکے پروں کو تراش دوں تاکہ  وہ اُڑ نہ سکیں اور اُنہیں احاطہ میں پھرنے دوں ایک روز جب میں مکان پر  آیا تو مجکو  یہہ خبر ملی کہ میرا پڑوسی نہایت خفا  ہو کے میرے مکان ٍپر  دوپھر کو آیا تھااور معلوم ہوا کہ میری مرغیاں اُسکے باغیچے  میں گئی تھیں اُسنے  اُن میں سے کئی ایک  کو مارا کے  میرے احاطہ میں پھینکدیا۔ یہہ حال سنکر مجکو بہت غصّہ آیا اور اُس شخص سے بدلہ لینے یعنے اُسکو عدالت میں لیجانے یا اُس سے کسی اور طرح کا انتقام لینے کا ارادہ کیا لیکن پہلے بیٹھ کے مینے کھانا کھایا اور جب میں کھانا کھا چکا تو میرا دل کچھ نہ کچھ ٹھنڈا  ہو چکا تھا اور مجھے یہہ خیال  ہوا کہ شائد ایسی چھاٹی بات کے لیے اپنے پڑوسی سے لڑنا اور یوں اُسے سخت دشمن بنا لینا مناسب  نہیں  پس مینے ایک دوسرے  بے طور  کا سلوک اُسکے ساتھ  کرنیکا ارادہ کیا چنانچہ کھانے کے بعد میں اُسکے مکان پر گیا تو وہ اپنے باغیچہ  میں تھا جب میں وہاں پہنچا  تو اُسے باتھ میں چھڑی لئے ہوئے ایک مرغی کے پیچھے دوڑتے اور اُسے ہلاک  کرنیکی کو شش  کرتے پایا جب میں نے اپس سے صاحب سلامت کی تو بڑی خفگی سے مجھپر نظر کر کے چلاّ اُٹھا کہ ارے تو نے میرا بڑا نقصان  کیا ہے اگر ہو سکے تو میں تیری کل مرغیوں کو مار ڈالونگا کیونکہ اُن سے میرے باغیچہ کی تمام بر بادی ہوئی۔

میں نے کہا کہ میں بہت افسوس کرتا ہوں کیونکہ میں آپکا نقصان نہیں چاہتا اور اب مجکو معلوم ہوا کہ میں نے جب اپنی مرغیوں کو باہر جانے دیا تو بڑی غلطی  کی میں آپ سے معافی  مانگتا ہوں اور اُس سے راضی ہو کہ جو کچھ نقصان آپکا ہوا ہو اُسکا چھہ گنا بدلہ دوں۔

یہہ سنکے وہ شخص حیران ہوا اور یہہ نہ جانا کہ کیا جواب دے۔ پہلے آسمان کی طرف  پھر زمین کی پھر میری طرف پھر اپنی چھڑی پر۔ پھر اُس  بیچاری  مرغی کی طرف جسکے پیچھے دوڑ رہا تھا نگاہ کی لیکن کچھ بول نہ سکا۔

پھر میں نے کہا کہ اپنے نقصان کا حساب  بتلایئے اور میں اُسکا چھہ گنا بدلہ دونگا اور پھر پیری مرغیاں یہاں ہرگز نہ آنے  پائینگی  جتنا آپ بتلائیں اُتنا ہی میں دونگا  ۔ میں نہیں چاہتا کہ مرغیوں یا اور کسی چیز کے سبب سے اپنے پڑوسی کی  خیرخواہی یا محبت  کو ضائیع کروں۔ اتنا سنکر اُسنے کہا کہ میں بڑا بیوقوف  ہوں کیونکہ جو نقصان میرا ہوا وہ  زکر  کرنیکے قابل نہیں ہے بلکہ واجب ہے کہ میں اُن مرغیوں کے بدلے آپکو  کچھ دوں  اور آپ سے معافی مانگوں۔

جو  لڑائیاں پڑوسیوں کے بیچ میں ہوتی ہیں اُنکی جڑ اکثر چغلی ہوتی ہے۔ مثلاً کوئی شخص اپنے ہمسایہ سے ناراض ہو کے اُسکی نسبت کوئی سخت کلام  کرتا ہے پر  سننے والے اُسکے خلاف کہ صلح کروانیکی کوشش کریں اُسکے  پاس جاکے  جسکی نسبت کہا گیا تھا شائد مبالغہ کے ساتھ  اُس سے بیان کرتے ہیں تب دوسرا یہہ سنکے بدلہ  لینکا ارادہ کرتا ہے اور اپس حال میں جو کچھ وہ کہے وہ پہلے کے پاس پہنچایا جاتا ہے اور یوں ہی فسادِ عظیم ہوتا ہے۔ اکثر خانگی نوکروں کو اسبات کا بڑا شوق ہوتا ہے کہ جو کچھ اپنے مالکوں کے حق میں سنتے اسے مبالغہ کے ساتھ بیاں کرتے ہیں لیکن اُنکی ہرگز سننا نہ چاہیے۔

اگر کسی پڑوسی کی تمکو شکایت کرنی منظور ہو تو اُسی کے پاس جا کے سہولت سے اُسپر اظہار  کرو لیکن غیر شخص سے اُسکا  زکر نہ کرو اگر تم اپنے پڑوسی کے حق  میں کسی سے سخت کلام سنو تو چغل  خوری سے اپنی نفرت ظاہر کرو لیکن خود چغل  خور مت بنو اگر تم اپنے پڑوسی کے حق میں اچھا نہ کہہ سکو تو  بُرا بھی نہ کہو اکثر خاموشی دانائی  اور فضول  گوئی بیوقوفی ہے۔

حتی الا مکان پڑوسیوں پر مہربان ظاہر کرنی واجب ہے۔  جب ہم اُنکو راہ میں دیکھیں تو آپ سے سلام کرنا واجب  ہے۔  اگرچہ پڑوسیوں کی خانگی باتونکی تحقیقات کرنی واجب  نہیں  ہے تو بھی مدد کرنی اور اُنکو خوشی پہنچانے کے موقعوں کو  خود بڑھنا چاہئے۔ خصوصاً مصیبت اور تکلیف کیوقتوں میں انکو مدد اور تسلّی دینا ضرور ہے۔ ہمسایہ جو نزدیک ہوں وہ اُس بھائی سے جو دور ہوں بہتر ہے۔ اُسوقت سے پہلے  کے رشتہ دار ہماری مدد کو آئیں مددگار کا وقت گزر جاتا لیکن دوست اور پڑوسی فوراً حاضر ہو کے مدد پہنچا سکتے ہیں  پھر اپنے پڑوسیوں کو بہتری پہنچانے میں بہت سے عمدہ طریقہ انکو اخلاق اور دلی بہبودی پہنچا نیکی کو شش کرنی ہے۔ اس  معوملہ میں سب سے عمدہ تعلیم وہ ہے جو نیک نمونہ سے ظاہر ہوتی ہے۔ اپنی چال چلن سے  انکے سامنے وہ خاصتیں دکھلایا  کرو جنہیں  تم چاہتے ہو کہ وہ رکھیں ۔ علاوہ اس کے یہہ بھی ممکن ہے کہ دوستانہ  ملائیم طور سے اپنے پڑوسیوں  سے اُن برُی برُی عادتوں کا جس سے اُنکو پرہیز رکھنا  ضرور ہے اور نیکیونکا  جنپر عمل  کرنا مناسب ہے بیان کریں۔  خاص کر یہہ ضرور ہے کہ تم اُنہیں بت پرستی کے ترک کرنے اور حقیقی خدا  کی پرستش  کرنیکی ترغیب دو۔ اغلب ہے کہ اُس مہربانی کے بدلے جو ہم پڑوسیوں کے ساتھ کرتے ہیں کبھی کبھی وہ ناشکری ظاہر کریں انسان ہمیشہ ناشکری کی شکایت کرنیکویتا  رہتا  ہے لیکن عموماً اسکا سبب یہہ ہے کہ ہم اپنے نیک اعمال کی زیادہ قدر کرتے ہیں۔ گاہ گاہ جب کسیکی مہربانی کے بدلہ  ناشکری ہوتی  ہے تو وہ یہہ کہتا ہے کہ میں ہرگز  کسیکے لیے اتنا پھر نکرونگا۔ ہمکو چاہئے کہ نیکی کو اس غرض سے نکریں کہ  کو ئی ہمارا شکر گزار ہو۔ حکم یہہ نہیں ہے کہ اپنے پڑوسی کے ساتھ نیکی کرو کیونکہ تم اس طرح سے اپنے لیے بڑی خوشی  اور فائیدہ  حاصل کروگے خداوند مسیح یہہ فرماتا ہے کہ اپنے دشمنوں کو پیار کرو  تاکہ تم اپنے باپ کے جو آسمان پرہے فرزند ہو کیونکہ وہ  اپنے سورج کو بدوں اور  نیکوں پر اگاتا  ہے اور راستوں اور نادانوں پر مینھہ برساتا ہے فقط  از نخرن المسیحی۔