سلامتی
یوحنا۔ ۱۴۔ ۲۷۔
My Peace I Give Unto You
John 14:27
Published in Nur-i-Afshan April 06, 1894
سلا متی تم لوگوں کے لئے چھوڑ کر جاتا ہوں ۔ اپنی سلامتی میں تمہیں دیتا ہوں۔ تمہارا دل نہ گھبرائے اور نہ درے۔ یوحنا۔ ۱۴۔ ۲۷۔
اِ س لفظ سلام یا سلامتی کا ترجمہ بعض مترجموّں نے صلح۔ یا اِطمینان کیا ہے۔ لیکن اِس سے مطلب مین کچھ فرق نہین پڑتا۔ کیونکہ اِن لفظوں کےمعنے قریب قریب یکساں۔ اور ایک ہی مطلب اُن سے حاصل ہوتا ہے۔ یعنے یہ کہ خداوند مسیح نے اپنے رسولوں کو اُن سے جدُا ہونے سے پیشتر اپنی سلامتی بخشی ۔ جبکہ وہ نہایت مضطرب اور گھبرائے ہوئے تھے۔ کیونکہ اُنہوں نے خداوند سے سنُا تھا، کہ اُن میں سے ایک اُسے قتل کے لئے حوالہ کریگا۔ اور ایک اُس کا انکار کریگا۔ اور وہ سب اُس کو تنہا چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔ اِس لئے خداوند مسیح نے یہ تسلی آمیز باتیں اُن سے کہین۔ جو یوحنا کی انجیل کے چودہویں باب سے لے کر سولھویں باب کے آخر تک مرقوم ہیں۔ اُس نے اپنے آسمان پر جانے۔ تسلّی دینے والے روح القدّس کے بھیجنے اور اپنے پھر دنیا میں آنے کا اُن سے وعدہ کیا۔ باپ سے اُن کے لئے نہایت دلسوزی کے ساتھ دعا مانگی۔ اُس کے نام کی خاطر جو مصائب اور تکلیفات اُن پر گزرنے والی تھیں۔ اُن سے اُنہیں آگاہ کیا۔ اور فرمایا کہ’’ یہ باتیں مینے تمہیں کہیں۔ تاکہ تم مجھ مین اطمینان پاؤ۔ تم دنیا میں مصیبت اُٹھاؤ گے۔ لیکن خاطر جمع رکھو کہ میں دنیا پر غالب آیا ہوں۔ ‘‘ یہ وہ خاص اطمینان و سلامتی تھی۔ جو مسیح خداوند نے اپنے مومنوں کے لئے اپنے بیش قیمت کفاّرہ سے حاصل کی۔ اور جس پر ایمان لانے کے سبب راستباز ٹھہر کر اُن میں اور خدا میں یسوع مسیح کے وسیلہ صلح اور میل قایم ہو گیا۔ مسیح نے نہ صرف صلح یا سلامتی کا لفظ سنُایا۔ مگر فی الحقیقت صلح و سلامتی اُنہیں بخش دی۔ کیونکہ یہ اُس نے اپنی کمائی سے پیدا کی تھی۔ اور یہ صرف مسیح ہی دے سکتا ہے۔ اور کوئی نہیں دے سکتا۔ دنیا کی کسی فانی چیز۔ دولت۔ عزت۔ علم۔ حکمرانی۔ اقبالمندی وغیرہ سے انسان کے دل کو ہر گز سلامتی و اطمینان حاصل نہیں ہو سکتی۔ اور نہ کسی عمل نیک سے یہ مل سکتی ہے۔ کتنا ہی عبادت و ریاضت ۔ خیر و خیرات تیرتھ و زیارت کچھ ہی کرے۔ لیکن کامل اطمینان ۔ اور خدائے عادل و قدوس کے ساتھ صلح اور میل حاصل ہو جانے۔ اور اپنے کسی عمل سے بھی اُس کے حضور میں مقبول و راستباز ٹھہرنے کا یقین دل میں پیدا ہونا بالکل محال ہے۔ ہم نے ایک ہندو بنگالی عورت کو جو عمر رسیدہ تھی۔ پُشکر کے میلہ میں جو ہندوؤں کی بڑی تیرتھ گاہ ہے دیکھا۔ کہ وہ صعوبت مسافت ست تھکی ہوئی مشن سکول کے چبوترہ پر بیٹھی تھی۔ دریافت کرنے سے معلوم ہوا۔ کہ وہ ہندوستان میں جتنے ہندوؤں کے تیرتھ اور مقدّس مقام ہیں سب میں ہوآئی تھی۔ اور پُشکر میں اَشنان کرنا گویا اُس کے لئے سب تیرتھوں پر تکمیل کی مہرُ تھا۔ جب اُس سے سوال کیا گیا۔ کہ کیا اب تمھارے دل میں پورا یقین اور اطمینان ہے کہ تمہارے سب گناہ معاف ہو گئے۔ اور خدا کے اور تمہارے درمیان صلح ہو گئی ہے ؟ تو اُس نے مایوسانہ یہ جواب دیا کہ ’’ایشور جانے‘‘! اب یہ امر قابل غور ہے۔ کہ باوجود اِس قدر اپنے مذہبی فرائض ادا کرنے۔ اور تیرتھ و یاترا کرنے کے بھی اُس کے دل میں اطمینان اور صُلح و سلامتی کا کچھ اثر نہ تھا۔ ورنہ وہ یہ ہر گز نہ کہتی۔ کہ ’’ ایشور جانے‘‘ کیا کوئی مسیحی جس کو خدواند مسیح نے یہ صُلح و سلامتی بخش دی ہو ایسے سوال کے جواب میں یہ کہ سکتا ہے ؟ ہر گز نہیں۔ بلکہ وہ بلا پس و پیش ظاہر کرے گا۔ کہ میں جو آگے دور تھا مسیح کے لہو کے سبب نزدیک ہو گیا ہوں ۔ کیونکہ وہی میری صلح ہے جس نے دو کو ایک کیا۔ اور اُس دیوار کو جو درمیان تھی ڈھا دیا ہے۔ اور اگر کوئی اُس صُلح و سلامتی کو جو صرف مسیح سے ہی مل سکتی ہے لینا منظور نہ کرے۔ اور نہ اُس کو اپنے دل میں جگہ دے۔ تو یہ اُسی کا قصور ہے۔ کہ وہ بغیر سلامتی رہے گا اور ہمیشہ مضطرب و ملول رہ کر کفِ افسوس ملے گا۔ مگر پھر کچھ اِس سے حاصل نہو گا۔آج مقبولیت کا وقت اور آج ہی نجات کا دن ہے۔ اور بس۔