میرے ایک دوست کا ذِکر

Let Me Tell You About One Of My Friends

Published in Nur-i-Afshan October 24, 1889

میرے بہت سے عزیز دوست ہیں جنسے میں ازحد الفت و محّبت رکھتا ہوں۔ اُنمیں سے بعضوں کو میں بڑی  مُّدت سے جانتا ہوں اور  بعضوں کو تھوڑے دنوں سے  اُنکی لیاقتوں  کے سبب  سے میں  اُنکو پیار  کرتا ہوں پر تو  بھی  مجھ کو معلوم ہوا کہ میری مانند اُنمیں اکثر کوئی نہ کو ئی  عیب نہو۔ لیکن میرا ایک دوست ایسا ہے جو سب سے پیارا  و عزیز  ہے اور تم بھی اگر اُس سےواقف ہوتے اُمید  ہے کہ مجھ سے بھی  زیادہ  اُسکو  پیار کرتے  اور اُس پر بھروسا رکھتے۔ بیشمار مشکلات کو اُس نے میرے لئےحل کیا ہے اور جب کو ئی اور دوست پاس نہ تھا تب اُس نے میری حمایت  کی بڑی بڑی  سخت مصیبتوں میں جب کو ئی دوسرا مددگار نہ تھا تو اُسنے مجھے تسلی  بخشی۔ ہاں جب اور دوست مجھ سے پھر گئے اُسوقت بھی وہ وفادار رہا۔  نہ فقط  کلام سے پر کام سے بھی اُسنے اپنی دوستی  کو ثابت کیا چنانچہ  میری  بھلائی و بہبودی  کی خاطر اُسنے بڑی محنت کی بلکہ تکلیف اور ایذا بھی اُٹھائی ۔ گوُ میری طرف سے اُسکی  محّبت میں اکثر کمی و بیشی ہوتی پر وہ ہر حالت میںغیر مبتدل رہا۔ حالانکہ میں نے اپنی  رفتار  گوفتار  سے بارہا اُسکے نام کی  تحقیر  کی یا اُسکی محّبت کو خیال میں نہ رکھا تاہم اُسکی اُلفت میں کچھ فرق نہ آیا۔ جب میرا دل بیہودہ  { عضونامہ یہہ تھا کہ کوئی شخص  جسقدر روپیہ  دیتا اُسکے گزشتہ آئیندہ  گناہ معاف ہوتے تھے اور وہ عضو نامہ خریدار  کے نام پر کاغذ  میں لکھا  ہوا تھا۔}

باتوں پر فریفتہ  ہوا تو  اُسنے پھر مجھے لُبھایا  یا میرےساتھ اُس نے حد سے زیادہ تحمل و بردباری کی۔ جب میں آپ کو معاف نہ کر سکا تب بھی اُس نے میری  ناشکری کو معاف کیا۔ جب کبھی میں اپنی بیوقوفی پر سو چکے اپنے ہی  سے سخت  بیذار  ہوا  تب اپس نے مجھ پر ترس کھایا۔ شرم کے مارے جب میں  اپنی نادانی کا زرہ بھی عزر نہ کر سکا  وہ مہربانی سے اُس سے درگزر کر کے آگے موافق اپنی محبت مجھ پر طاہر کرنے سے باز نہ آیا۔ ہاں البتہ اُس نے میری خوشامد  تو کبھی نہیں کی مجھ میں جو جو عیب یا  قصور ہیں جن کا زکر تک کرنے سے میرے  اور دوست و جان پہچان  شرماتے ہیں وہ اُس نے مجھ پر  صاف ظاہر کئے مگر ایسی محّبت  کے ساتھ اور اِسقدر خفیتاً کہ میں اُس سے ناراض ہر گز  نہ ہو سکا۔ جب میرے دل پر غم  کا بھاری بوجھ پڑا تھا تب اُسنے آکے ہر ایک آنسو کو پونچھ لیا  اُسنے بار بار میرے دل کے رنج  کو ایسا رفع کر دیا کہ میں نے  گویا اُس سے نئی زندگی پائی۔ پس چونکہ میرے دوست نے یہہ سب کچھ بلکہ اُس سے بھی کہیں زیادہ مجھ پر احسان  کیا ہے تو خیال کرو کہ کچھ  تعجب  ہے کہ میں اُسکو  پیار کرتا اور تم کو بھی  اُس سے ملایا  چاہتا ہوں؟ زرہ اُس  پر غور کیجیو۔ وہ بہت  دولتمند ہے۔ اپنے عزیزوں کے لئے جو چاہا سو کر سکتا ہے۔  وہ بے طرفدار بھی  ہے جیسا امیروں  کو ویسا غریبوں  کو بھی  پیار کرتا  ہے بوڑھے اور بچے علم دار اور بے علم بڑے  اور چھوٹے  سب  کے سب  اُس  کا فیض  پانے کے قابل  ہیں  بلکہ  بلکہ اُسکی رحم دلی اِس  قدر ہے کہ جو محتاج  اور لاچار اُس سے مدد مانگتے ہیں  اُنکو وہ زیادہ  خوشی  سے قبول کر لیتا ہے۔خواہ تم نے آگے اُسکی کیسی ہی حقارت کی پر جب  عاجزی  سے اُسکی  طرف رجوع کر کے معافی مانگو گے تو وہ تمہارے  قصوروں کو  یال میں نہ لاویگا۔  علاوہ ازیں میرا یہہ دوست گو مجھ پر بہت  مہربان  ہوا پر آئیندہ کے واسطے بھی اُسنے  عجیب طرح کی نعمتیں دینے کا وعدہ کیا ہے اور چونکہ وہ ہمیشہ صادق القول  اور وفادار رہا اِس لئے یقین کامل کہ وہ اِ ن  وعدوں کو  پورا  بھی کریگا۔ شاید تم پوچھو  گے کہ یہہ دوست کون ہے۔ اپس کا نام عمانوؔایل ہے۔ خدا ئے  مجسم ۔ پھر وہ جیسیؔ یعنے نجات  دہندہ بھی کہلاتا ہے اور جیسا وہ میرا  دوست  ہے ویسا ہی تمہارا بھی  ہے۔ تم کو خستہ ھال  دیکھکے  اُسنے تم پر ترس کھایا اور جب تم ہنوز  اُس سے دشمنی  رکھتے تھے اُس نے  تمکو شریعت کی لعنت سے جس کو تم نے  عدول کیا  تھا چُھڑانے  کے لئے آپ ہی لعنت سے جس کو کہ تم نے عدول کیاتھا چُھڑانے  کے لئے آپ ہی لعنت  بنکے اپنی جان دی۔ ہاں اپس نے جو راستباز تھا ناراستوں کے لئے دُکھ اُٹھایا اور اُسکے بعد مرُدوں میں سے جی اُٹھا تاکہ اپنے دوستوں کو موت سے زندگی پانے کی  راہ دکھاوے ۔ تب  وہ آسمان پر بھی چڑ ھکے اُس ابدی خوشی و  نیکبختی  کےمکان میں جہان کہ  ہم کمبخت  گنہگار  ہر گز  پہنچنے کے لایق نہ تھے خدا باپ کے پاس ہمارے لئے  شفاعت کرتا ہے وہاں سے وہ اپنی روھ پاک کو ہمارے دلوں پر نازل  کر کے ہم کو اُس غیر محدود  وقار رلایزال  خدا سے ملا لیتا ہے۔ اُسکے وسیلہ سے ہم بیدھڑک  مالک کے حضور  آکے  میں آکے  اپنی درخواست  پیش کر کے مستحق ہوتے ہیں۔  اُسکے روبرو  اگر ہم  اپنے دل کے  رنج و غم  کا بیان کریں  تو یقیناً  وہ اپنی  ہمدردی  سے ہم کو اطمینان  بخشیگا۔ آسمانی دار کے تخت  پر بیٹھکر وہ ہم پر نظر کر کے بڑی ملائمیت سے پُکار کر کہتا ہے اے تم جو تھکے اور بڑے بوجھ سے دبے ہو سب میرے پاس آؤ  کہ میں تمہیں آرام دونگا جو  پیاسا ہے آوے اور جو چاہے آب حیات مفت لے۔ اُسکے پاس تھکے ہوؤں کے لئے آرام غمزدوں  کے لئے خوشی  خاکساروں  کے لئے معافی فکر مندوں  کے لئے راحت  ناپاکوں کے لئے پاکیزگی ہے اور یہہ سب نعمےیں میرا دوست مفت اُنکو  جو اُس سے مانگیں  دیگا۔ علاوہ اِسکے وہ  اپنے عزیزوں  کے لئے  آسمان پر جگہ تیار کرنے کو گیا ہے۔ اُسکے باپ کے گھر میں بہت سے مکان ہیں۔ جنکو ابدی جمال سے اُس نے آرستہ  کیا ہے۔ وہاں کی سڑکیں  خالص سونے کی شفاف  بلور کی مانند ہیں۔  اِ س میں خدا کا جلال بہت اور اُس  کا نور بڑے بیش قیمت جواہر کی مانند ہے۔ وہ سُورج  اور چاند  کا محتاج  نہین کہ وے اُسکو  روشن کریں۔ کیونکہ خدا کے جلال نے اُسے روشن کر رکھا ہے۔ وہاں نہ رات نہ کسی قسم کی تاریکی  یا ظلمت ہو گی اور نہ کو ئی چیز  جو ناپاک  یا نفرتی اور جھوٹھ ہے اُسمیں  کسی طرح  در آویگی ۔ جب یہہ مکاں  تیار ہوگا۔  تب ہمارا یہہ دوست بڑے جلال کے ساتھ  آسمان  سے اُتر  کر اس زمین پر پھر آویگا تاکہ اپنے عزیزوں  کو اپنے ساتھ  لیکے وہاں پر پُہنچاوے۔ تب وہ ہم کو اگر ہم مسیح میں ہو کے  سو گئے ہوں قبر میں سے اُٹھا کے ایک غیر فانی بدن  دیگا۔  ہاں وہ تاب و تجلیّ کے جامہ سے ہمیں ملّبس کر کے موت کے بند سے تا ابد چُھٹکارا بخشیگا اور  اگر ہماری زندگی اسوقت ہنوز قائم ہو جب وہ آویگا تو بھی ہمارے اِس خاکی  جسم کو  ایک دم  ایک پل  میں بدل  کے نوری بناویگا تاکہ  ہم اِس خوش روح میراث میں جسکو  کہ اُس نے اب  ہمارے لئے تیار کیا ہے داخل  ہوں۔ اے عزیزو میں بڑی آرزو سے چاہتا ہوں کہ تم بھی اِن نعمتوں  کے حّصہ دار بنو۔ اِس عالیشان مکان  کو کسی قدر تنگ نہ سمجھو کیونکہ وہاں سب کے لئے  گنجائیش ہے۔ آب حیات کے چشمہ سے پینے اور زندگی کے درخت کے سایہ میں ابد آلاباد آرام کرنے کی سبھوں کو اجازت ہے خدا کے  سب نبی اور رسول  بلکہ اُسکے جسے پاک بندے دُنیا  کے شروع سے گزرےہیں تم کو وہاں ملینگے۔ اُنکی صحبت میں رہو گے اور اُنکے ساتھ خوشی مناؤ گے۔  جو وہاں پُہنچےخدا کے تخت کے آگے ہو نگے اور اُسکی ہیکل میں رات دن اُسکی بندگی کرینگے اور وہ جو تخت  پر بیٹھا ہے اُنکے درمیان  سکونت کریگا۔ وہ پھر بھوکے نہ ہونگے اور نہ پیاسے اور وے نہ دھوپ اور نہ کوئی گرمی اُٹھائینگے کیونکہ عیسیٰ اُنکی گلّہ بانی  کریگا اور اُنہیں  پانیوں کے زندہ سوتوں  پاس پُہنچائیگا اور  خدا اُنکی  آنکھوں  سے ہر ایک  آنسو پونچھیگا  ۔ اور پھر موت نہ ہوگی اور نہ غم  اور نہ  نالہ  کیونکہ اگلی چیزیں  گزر  گئیں ( مکاشفات  ۷ باب  ۱۵ ۔ ۱۷ ۔ آیت اور ۲۱۔ ۴) ۔ کیا تم عیسیٰ کو اپنا  دوست  نہ سمجھو گے کیا تم اپنے تئیں  اُسکے ہاتھ نہ سونپوگے کیا تم اپنے  فکر کا سارا بوجھ اُس پر نہ ڈالو گے  اُسکی محبّت کی خاطر اگر ضرورت ہو کیا تم اپنے اور سب دوستوں کو نہ چھوڑو گے ۔کیا تم اُسی پر اپنا کل بھروسہ نہ رکھو گے  جانکندنی  میں دوسرے دوست تمہاری مدد کرنے سے سب لاچار ہونگے اُنکو تمہیں اکیلا چھوڑنا پڑیگا  لیکن یہ دوست  موت کے دریا میں بھی تمہارے ساتھ  رہیگا اور اُسکے پار تک تمہیں پُہنچائیگا۔ بلکہ عدالت تک دن جب خدا کے قہر کی آگ دُنیا پر بھڑکیگی کسوقت بھی صرف وہ  ہی تمکو اپنی  پناہ میں لیکرسارے خوف سے بچائیگا۔ پس عزیزو  کیا تم میرے  اِس  دوست کو پیار نہ کروگے کیا تم اُسکو اپنا دل نہ دو گے یقین جانو کہ وہ نہایت  مہربان  و رحیم ہے۔ اسکے دلمیں کینہیا بغض زرہ بھی نہین ہر چند تم نے آج  تک اُسکی الفت کو ناچیز تو جانا پر اب بھی اگر شکستہ دل ہو کے اُسکی طرف رجوع کرو  تو وہ کمال  خوشی سے تم کو قبول کریگا۔ جن شخصوں نے اُسکو صلیب  پر کھینچا اُنکے لئے اُس نے دُعا کی کہ اے باپ تو اُنکا  گناہ معاف کر۔ جب اپنے شاگردون  کو نجات کی بشارت دینے کو بھیجا تو اُسنے کہا کہ یروشلم  سے جہاں کہ وہ رد کیا گیا اور صلیب پر  بڑی ایذا کے ساتھ مارا گیا تھا۔ شروع کر کے ساری قوموں میں توبہ اور گناہوں کی معافی کی منادی اُسکے نام سے کیجائے ہاں اپنے بیحد پیار سے اُس نے اپنے  دشمنوں کے بدلے دُکھ  اُٹھایا  اور اُنکے گناہوں  کا بوجھ اُٹھا کر صلیب پر چڑھا۔ اب بڑی ملائمت  سے اُنکو  بُلا کر کہتا ہے کہ دیکھ میں دروازے پر کھرا ہوں اور کھٹکھتا ہوں  اگر کوئی میری آواز سُنے  اور دروازہ  کھولے میں اُسکے پاس اندر آؤنگا۔ (مکاشفات ۳۔ ۲۰) اے پڑھنے والو کیا تم اپنے دلکے دروازے کھولکے اب اُسکو اندر آنے  نہ دوگے۔  درحقیقت دوئم پر بھی اپنی  محبت  ظاہر کیا چاہتے ہے پر ایک بات کو بخوبی یاد رکھو کہ اگر تمہارا یہ منشا ہو کہ اُسکے دوستوں میں ہم بھی شمار کئے جائیں تو ضرور ہے کہ تم اُسکی فرمانبرداری کرو۔ چنانچہ اُس کا قول  ہے کہ کوئی شخص  اُس سے زیادہ محّبت نہیں کرتا کہ  اپنی جان اپنے دوستوں کے لئے وہ جوکچھ  کہ میں تمہیں فرمایا اگر تم کرو  تو میرے دوست ہو۔ بعد اِسکے میں تمہیں خادم نہ کہونگا کیونکہ خادم  نہیں جانتا کہ اُس کا خداوند  کیا کرتا ہے بلکہ میں نے تمہیں دوست کہا ہے کہ  سب باتیں جو میں نے اپنے باپ  سے سُنی  ہیں  میں تمہیں بتلائیں۔( یوحناّ ۱۵۔ ۱۳۔ ۱۵)

راقم این