راستی وصداقت

Justice and Righteousness

Published in Nur-i-Afshan July 1873
By Rev. Elwood Morris Wherry
(1843–1927)

Scales & Gavel of Justice

راستی اور صداقت اگر عارضی طور پر بھی استعمال کیجا ویں تو فائدہ سے خالی نہیں خواہ وہ فایدہ بھی عارضی ہی کیوں نہ ہوں۔ مگر جب یہ اوصاف ایک شخص میں اصالتاً موجود ہیں تو پھر  اُنکے فواید بےشک لا انتہا ہیں کیونکہ جو چیز ظاہرداری میں یہ کچھ  قدر رکھتی ہے تو کیونکر وہ فی نفس الا ونوز اعلی نورنہو گی۔ مگر انسانی طبیعت ظاہرداری کیطرف بہت راغب نظر آتی ۔ وہ ظاہر میں اپنے آپ کو ایسا دکھلانا مانگتا ہے جو حقیقت میں ویسا نہیں ہے۔ اور  بھی خیال اُسکا گویا اسبات پر دال ہے کہ وہ  اِن صفتوں کا اپنے میں اصالتاً موجود ہونا اچھا سمجھتا ہے جنسے اب صرف تقلیداً موصوف بہانہ  کرتا ہے۔ اگر خالصاً نیک اورصاف کا حصول ایک محال امر ہے۔ مگر تقلیداً تلبیس کا قائم رکھنا اور اُسکا پردہ فاش نہ ہونے دینا بھی ویسا ہی محال بلکہ محال تر ہے۔ مثلاً ایک شخص اپنے آپ کو ایک نیک صفت کے موصوف بنانےمیں کوشش کرتا ۔ اور وہ صفت نے الاصل اُسکی زات میں موجود نہیں تو یہ فریب یا  نقص اُسکا ایک نہ ایک دن ضرور پکڑا جائیگا اور جب ایک دفعہ پکڑا گیا تو اُسکی ساری محنت جو اس بہانہ یا تلبیس کے قائم رکھنے میں صرف ہو چکی ہے۔ایک ہی دفعہ ضائع ہوجائے گی۔ غازہِ یا سفیدا چہرہ کی سارضی خوبصورتی ہیں اور خواہ  کیسی ہی ہنر مندی سے لگائےجاویں مگر خوردہ بین آنکھ  اُن کو اصلی شکل سے نہایت آسانی کے ساتھ   تمیز کر سکتی ہے۔ اور  اگریہ نا بھی ہو تو اصلی مادہ خو د کبھی نہ کبھی اپنا آپ دکھلائے بغیر نہیں رہے گا ۔ اور جب ایسا ہوا تو پھر  تلبیس اور مکاری اُس کی ایک نشان بن جائینگی۔ پس جو شخص کہ اپنی صورت نیک بنا کر دکھلانا ضروریس سمجھتاہے اُس کے لیے ضروری ہے کہ نیک سیرتی یا اصلی خوب حاصل کرے اور شاید تب اُسکی نیکی ہر ایک نظر میں قابل اطیمنان ہوگی۔ راستی اپنےثبوت کےلیے بیرونی شہادت کی ضرورت نہیں رکھتی کیو نکہ اُس کی زاتی روشنی خود ایک ثبوت ناطق ہے۔ اور وہ اپنےپیرو کا اعتبار نہ صرف ہر  زد بشر  کی ضمیر میں قائم کرتی ہے بلکہ پروردگار عالم کے حضور میں بھی جو ہر ایک دل کے جانچنے والا ہے۔پس بہر حال اصلی راستبازی بہانہ یا فریب کی عارضی سچائی پر کامل سبقت رکھتی ہے۔ یہ اُس سے کئی درجہ بڑھکر صاف اور آسان تر ہے۔ اور دنیوی معاملات کے لیے نہایت محفوظ سرُک۔ نہ اُس میں کچھ تکلیف نہ وقت نہ کسی قسم اُلجھاؤ نہ تشویش۔ نہ اندیشہ اور نہ خوف ۔ منزل مقصود کے واسطے بھی ایک قریب تر راستہ اور  صراط المتقیم ہے۔مکاّری اور فریب کے حیلے کبھی استور نہیں ہوتے بلکہ استعمال کرنے سے دمبدم کمزور   اور مسلوب التاثیر  ہوتے جاتے ہیں ۔  بخلاف سچیّ راستبازی کے جو بر تاؤ سے زیادہ قوی اور مضبوط ہوتی جاتی ہے۔ اپنے عامل کے لوگو تمیں آبرو سوار قائم کرتی ہے اُسکا اعتبار برھاتی ہے اور دنیا کے معاملات سے اُسکو خطر خواہ مستفید کرتی ہے۔ فریبی یا گندم نماء آدمیکو ہمیشہ ہوشیار اور اپنے آپ میں خبردار رہنا پڑتا ہے اور یہ فکر اُسکی جانے کبھی علیحدہ نہیں ہوتا کہ کسی نوع اُسکے اپنے دعوے کا مخالف نہ ہونا پاوے۔ کیونکہ وہ چور  ہے اور چوری کے قماش استعمال لاتا ہےگویا وہ ظاہر میں ایسا کام کر رہا ہےجسکا اثر اُسکی زات میں مطلق نہیں پایا جاتا اور اِس واسطے اپنی طبیعت کو  رُکاوٹ میں رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ چور کی داڑھی میں تنکا ۔حالانکہ راستباز و سادق القول کا معاملہ دنیا میں نہایت آسانی سے چلتا ہے ۔ وہ طبیعت کا پیرو ہے اور اِس واسطے اپنے اقوال یا افعال میں کس طرح کی بناوٹ یا فکر کی دقت میں نہیں پڑتا   کیونکہ اُسکو کسی معاملہ میں جو وہ کر چکا ہے نہ پیشگی بہانہ سازی کی  حاجت ۔ اور زمانہ بعد پشیمانی کی ضرورت ہے۔ ریاکار اور فریبی کو بہت چیزوں کا اندیشہ رہتا ہے اور اسیواسطے اُسکی زندگی پریشانی اور تکلیف کا مجموعہ بن جاتی ہے ۔ جھوٹے آدمی کہ ہمیشہ حافظہ کی ضرورت رہتی ہے۔ اِس خوف سے کہ کہیں بیان میں اختلاف ہنو جاوےاور وہ اکثر ہو جاتا ہے۔اور ایک جھو ٹ کے پختہ کرنیکے واسطے اور بہت سے جھوٹ کے مسالح لگا نیکی ضرور حاجت پڑتی ہے۔ مگر راستباز آدمیکو ایسی امداد کی کی کبھی درکار نہیں ہوتی۔ راستی بزاتہ ایک مختصر شے ہے اور معاملات کی زود اختتام کا ایک نادر آلہ ہے ۔ یہ طول طویل تحقیقات کی تکلیف سے بچاتی ہے۔ اور ایک سیدھی ہموار سڑک کیطرح اپنے مسافر کو بآسانی و جلدی تمام منزل مقصود پر  پہنچاُ دیتی ہے۔ غرض جْھوت اور بہانہ بازی کے اگر کوئی فایدہ بھی برآمد  ہو تو وہ فایدہ ناپایدار ہے اور اُسکا نقص دائمی۔ یہ انسان کو ہمیشہ کی شک اور بد گمانی میں ڈال دیتا ہے جسکا داغ اوپر سے صاف ہونا نا ممکن ہے۔  اگر انسان نے دنیا میں ایک ہی دن کا معاملہ رکھنا ہوا اور پھر بس تو کچھ مضایقہ نہیں پر جبکہ اُسکی اِس میں رہایش کئی روز اور کئی شب کی ہے ۔ اور جب تک ہے اپنے اعتبار اور دیانت داریکا فایدہ اُٹھتا ہے۔ تو اُس کے لیے ضروری ہے کہ تمام اپنے افعال اور اقوال میں راستی اور صداقت کو استعمال کرے کیونکہ سواے  اِن اوصاف کےاور کوئی صفت انسان کی انجام تک قائم نہیں رہتی۔