علمائے اسلام کی توریت کے بارے میں رائے

An Islamic Scholar’s Opinion of the Torah

Published in Nur-i-Afshan October 13, 1887
By Rev. Elwood Morris Wherry
(1843–1927)

(۱)۔ امام محمد اسمعیل بخاری  نے تحریف  کی تفسیر یوں کی ہے کہ تحریف  کے معنے ہین بگاڑ دینے  کے  اور کوئی شخص  نہیں ہے جو بگاڑے اﷲ کی کتابوں سے لفظ کسی  کتاب کا مگر یہودی  اور عیسائی خدا کی  کتاب کو اُسکے اصلے اور سچےّ  معنوں  سے پھیر کر تحریف  کرتے  تھے انتہےٰ یہہ قول اخیر صحیح بخاری میں ہے۔

(۲)۔ شاہ ولی اﷲصاحب  اپنی کتاب  فوز الکبیر میں لکھتے ہیں کہ میرے نزدیک تحقیق یہی ہوا ہے کہ اہلکتاب  توریت اور اور کتب مقدسہ کے ترجمہ میں ( یعنے تفسیر میں) تحریف  کرتے تھے نہ یہہ  کہ اصل  توریت میں اور یہہ قول ابن عباس کا ہے انتہےٰ۔

(۳)۔ امام فخر الدین رازی  اپنی تفسیر کبیر مین  سورۃ مایئدہ آیت  ۱۴ کی تفسیر کرتے  ہیں کہ تحریف سے یا تو غلط  ناویل  مراد ہے بالفظ  کا بدلنا مراد ہے اور ہمنے اوپر بیان کیا کہ پہلی  مراد بہتری  کیونکہ جو کتاب  بار بار  نقل ہو چکی اوسمیں تغیر لفظ کا نہین ہو سکتا انتہےٰ۔

(۴)۔  تفسیر دُر منثور  میں ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے وہب  ابن منُبہ سے روایت کی ہےکہ  توریت و انجیل  جسطرح  کہ اُن  دونوں  کو  اﷲ نے اُتارا تھا اسیطرح  ہیں اُنمیں کو ئی حرف بدلا نہیں گیا لیکن  یہودی بہکاتے تھے  لوگوں کو معنونکے بدلنے  اور غلط  تاوبل کرنے سے اور حالانکہ  کتابیں تہیں وہ جنکو انہوں نے اپنے  آپ لکھا  تھا اور کھتے  تھے کہ وہ اﷲ کیطرف  سے ہیں  اور وہ اﷲ  کیطرف نہ تھیں  مگر جو اﷲ  کیطرف  سے کتابیں تھیں  وہ محفوظ  تھیں تھیں اُنمیں  کچھ بدلنا نہیں ہوا تھا انتہےٰ۔

سورۃ بقررکوع ۹ میں جو یہہ آیت ہے فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتَابَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَٰذَا مِنْ عِندِ اللَّهِ یعنے سو افسوس ہے ان لوگوں پر جو اپنے ہاتھوں سے لکھتے ہیں پھر کہتے ہیں کہ یہ الله کی طرف سے ہے انتہےٰ — بیضاویمینہو و لہلہ ارادبہ ما لتبو لامن التلاویلات انسٰانیہ — یعنے اور اس سے شائد وہ مراد ہے جو تاویلات یعنے تفسیریں اُنہوں نے ( یعنے یہودیوں نے) سزائے زنا کی بابت لکھیں انتہےٰ اسکے سوا ایسی کتاب کو محرفّ نہیں کہہ سکتے کیونکہ وہ تو سرے ہی سے جھونٹھی کتاب ہے اُسے تحریف سے کیا علاقہ لیکن میں کہتا ہوں کہ یہہ علمائے اسلام کا حُسن عقیدت نسبت توریت و انجیل کے ہے ورنہ تحریف لفظی بلکہ اکثر آئتیں کی آئتیں مقدس کتابوں میں لائی جانا معتبر علماء اہلکتاب کے اقوال سے بصحت تمام ثابت ہے جیسا کہ تیسرے اور چوتھے کلیسا مین مرقوم ہو گا باوجود اسکے مسلمانوں کو توریت و انجیل سے واقف ہونا تاکہ اہلکتاب سے مناظرہ کر سکیں اور اُن کتابوں کی عظمت سمجھنا تاکہ ایمان جانا مزہے ضرور ہے اور خاصکر اس واسطے کہ ہمارے پیغمبر کی پیشتر سے خبر دینےوالے خدا پر ستوں میں یہی کتابیں ہیں اسلئے میں نے یہہ سب وجوہ عظمت توریت و انجیل ابتک بیان کروائی خدا میری بہول چوک کو معاف فرمائے اسکے سوا علماء اسلام اگر توریت وغیرہ کو محرّف کہیں تو اسکا نصارے کب یقیں کریں جبتک نصرانی علماء معتبر توریت و انجیل کے تحریف کا اقرا نہ کریں پس یہی اقرار لوح ثانی میں شروع سے موجود ہے اس جگہ مین نے یہہ سب قول مفسرین وغیرہ اُن مسلمانوں کی ترغیب کے واسطے نقل کئے جو سمجھے ہیں کہ توریت و انجیل کو آنکہ سے بھی نہ دیکھنا چاہئے اگرچہ الف لیلہ وغیرہ پڑہنا ناجایز نہیں ہے نعوز باﷲ الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَتْلُونَهُ حَقَّ تِلَاوَتِهِ أُولَٰئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ وَمَن يَكْفُرْ بِهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ والخ وہ لوگ جنہیں ہم نے کتاب دی ہے وہ اسے پڑھتے ہیں جیسا اس کے پڑھنے کا حق ہے وہی لوگ اس پر ایمان لاتے ہیں جور اس سے انکار کرتے ہیں وہی نقصان اٹھانے والے ہیں سورۃ بقر رکوع ۱۴)

اب مثال کے لئے دو ایک مقام کے لئے دو ایک مقام اور بیان کر دن جس سے معلوم ہو گا کہ اہل اسلام کو یہود و نصارے اور دنیا کی سب قوموں سے بحث و مناظرہ کرنا مقتضائے حمیتّ اسلام ہے بلکہ خدا ہی نے مسلمانونکو مناظرہ کا طرز تعلیم کیا ہے کہ یہود و نصارے کے عقاید کی تردید اور اُنکے کتابونکی مضامین سکہلائے چنانچہ قال اﷲ تعالی ٰ حبشانہ۔۔۔۔۔ إِنَّ هَٰذَا لَفِي الصُّحُفِ الْأُولَىٰ صُحُفِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَىٰ۔ بے شک یہی پہلے صحیفوں میں ہے (یعنی) ابراھیم اور موسیٰ کے صحیفوں میں۔ بالتحقیق یہی ہے پہلی کتابونمیں میں ابراہیم او ر موسیٰ کے اب اگر کوئی توریت سے ناواقف ہوتو کیسے کہہ سکے کہ صحفٰ ابراہیم و موسے میں یہی تعلیمیں نجات اور آخرت وغیرہ کی مرقوم ہیں جو قرآن مجید میں ہیں (سورہ اعلےٰ) اسلئے اپنے دعویکے اعتبار کی غرض سے مسلمانونکو توریت و انجیل سے واقف ہونا چاہئے وَإِنَّهُ لَتَنزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ عَلَىٰ قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنذِرِينَ بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُّبِينٍ وَإِنَّهُ لَفِي زُبُرِ الْأَوَّلِينَ أَوَلَمْ يَكُن لَّهُمْ آيَةً أَن يَعْلَمَهُ عُلَمَاءُ بَنِي إِسْرَائِيلَ اور بالتحقیق اور یہ قرآن رب العالمین کا اتارا ہوا ہے اسے امانت دار فرشتہ لے کر آیا ہے تیرے دل پر تاکہ تو ڈرانے والوں میں سے ہو صاف عربی زبان میں اور البتہ اس کی خبر پہلوں کی کتابوں میں بھی ہے کیا ان کے لیے نشانی کافی نہیں کہ اسے بنی اسرائیل کے علماء بھی جانتے ہیں۔ (سورہ شعرا) اب اگر پہلوں کے صحیفوں سے ہم واقف نہوں تو کسطرح یہود و نصارے سے کہہ مسکین کہ یہہ ہے پہلوں کے صحیفوں میں اسکی تفسیر میں بیضادے نے لکھا ہے کہ اُسکا زکر یا سُسکے معنے کتب متقد میں میں کرقوم ہیں اور کتب کو توسب جانتے ہیںکہ توریت و انجیل ہے چنانچہ کشاف میں صاف لکھا ہے کا لتو راہ والا نجیل ۔ إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَىٰ مِن بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ أُولَٰئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ بالتحقیق ۔ بے شک جو لوگ ان کھلی کھلی باتوں اور ہدایت کو جسے ہم نے نازل کر دیا ہے اس کے بعد بھی چھپاتے ہیں کہ ہم نے ان کو لوگوں کے لیے کتاب میں بیان کر دیا یہی لوگ ہیں کہ ان پر الله لعنت کرتا ہے اور لعنت کرنے والے لعنت کرتے ہیں۔ (سورۃ البقر)۔ اس آیت کا شان نزول ابن اسحاق نے روایت سے سیرت ہشامی میں اسطرح پر ہے کہ معاوابن جبل اور سعد ابن معاو اور کارجہ ابن زید نے بعضے یہودی عالموں سے توریت کی سکی بات کا استفسار کیا لیکن یہود اُسکو اُن سے چھپا گئے اور بتلانے انکار کیا پس اﷲ تعالیٰ نے یہہ آیت نازل کی کہ جو لوگ چھپاتے ہیں الخ اور تفسیر حسینی میں ہے ان اﷲ الزین بدرستی کہ آنا اور علمائے یہود کہ سجد یکتموں می پوشند ما انزلنا انچہ فرو فرستاویم من البنیات از سخناں روشن درتوریت والہدے دراہ نمودنی یعنے ہدایت من بعد بنیاہ از پس آنکہ بباں کر دہ ایم ان ہدے للناس برائے بنی اسرائیل نے الکتاب و توریت یعنے ما آشکارا ساختیم وایشان تھی گردنید مزاب دیکھئے کہ مسلمانوں سے یہودیوں نے توریت کو چھپایا تو یہہ بات خدا کو ایسی نا پسند معلوم ہوئی کہ اس شدّت کیساتھ اُنپر لعنت کی یہاں سے ظاہر ہے کہ خدا کو توریت سے مسلمانوں کو واقف کرنا کسقدر منظور تھا کہ اسے چھپانے کے سبب یہودیوں پر ایسی سخت لعنت فرمائی اور پھر اسی سورہ میں حقتعائے فرماتا ہے إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلَ اللَّهُ مِنَ الْكِتَابِ یہاں بھی یہودیوں کو وہی الزام دیا گیا ہے کہ اُنہوں غرض دنیاوی کیواسطے اُن شہادتوں کو جو توریت میں وبن اسلام اور حضرت رسول اﷲ کی بابت نہیں ظاہر نکیا پس اگر مسلمان توریت کے اُن مضمونوں سے واقف ہو جاتے تو یہودیوں کے چھپانے سے پھر نقصان کیا تھا مگر چوں کہ اُس زمانہ میں توریت عربی زبانمیں ترجمہ نہوئیتھی ( دیکھو تواریخ ابو الغاراجو ساتویں صدی ہجری میں تھا) اس سبب سے ان باتونکا اعلان صرف یہودیونپری منحصر تھا اور جبکہ وہ ایسی باتوں کوچھپاتے تھے تو اﷲ حبشا نہ نے اُنکی اس حرکت سے سخت ناراض ہو کر فرمایا کہ أُولَٰئِكَ مَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ إِلَّا النَّارَ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ یعنے وہ آگ کہاوینگے اپنے پیٹ میں اور خدا اُنسے بات نکر یگا قیامت کے دن اور نہ پاک کریگا اُن کو اُنکے واسطے ہوگا سخت عزاب۔ وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُونَهُ فَنَبَذُوهُ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ وَاشْتَرَوْا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا فَبِئْسَ مَا يَشْتَرُونَ ۔ اور جب الله نے اہلِ کتاب سے یہ عہد لیا کہ اسے لوگوں سے ضرور بیان کرو گے اورنہ چھپاؤ گے انہوں نے وہ عہد اپنی پیٹھ کے پیچھے پھینک دیا اور اس کے بدلے میں تھوڑا سا مول خرید کیا سو کیا ہی برا ہے جو وہ خریدتے ہیں( سورہ عمراں)۔ یہاں بھی وہی الزام ہے جو قرآن میں بار بار توریت وغیرہ کے مضامین چھپانے پر یہودیونکو دیا گیا لیکن اگر توریت کے مضامین اُسوقت میں مسلمانوں میں مشتہر ہو گئے ہوتے تو پھر یہودیوں کے چھپانے کی شکایت کا تھی۔ اور اسلام کی فضیلت ظاہر کرنے کے لئے اور کسی تدبیر کی حاجت کیا ہوتی کیونکہ حضرت موسیٰ نے توریت مین بنی اسرائیل سے صاف فرما دیا تھا کہ ایک نبی میری ما نند ہو گا تم اُسکی سنِو لیکن اب وہ دن آیا ہے کہ کتابوں کی کثرت اور ہر زبان میں توریت ترجمہ ہو جانے کے سبب اسلام کی فضیلت اور حضرت رسول اﷲکی خبر توریت و انجیل سے ایسے واضح اور صاف بیان ہوتی ہے جو اس سے پیشتر کبھی نہوئی تھی غرض اِسیطرح الام توریت چھپانے کی بابت یہودیوں کو بار بار دیا گیا ہے دیکھو سورہ انعام وغیرہ واسل مَّنْ أَرْسَلْنَا مَّنْ قَبْلِكَ مَّنْ رْسَلْنَا یعنے پُوچھ اُن رسولوں سے جنہیں ہمنے تجھ سے پہلے بھیجا (دُخرُفُ ) پوچھ اُن رسولوں سے یعنے اُن کی اُمت سے بیضاوی میں لکھا ہے اُنکی اُمّت اور اُنکے علماء دین سے اور کشاف میں ہے کہ یہود و نصارے کی اُمت سے اب خیال کیجئے کہ اُنسے پوچھنا ازروئے توریت و انجیل ہی تھا یا کچھ اِنکی بنائی ہوئی باتوں سے عرض تھی فَإِن كُنتَ فِي شَكٍّ مِّمَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ فَاسْأَلِ الَّذِينَ يَقْرَءُونَ الْكِتَابَ مِن قَبْلِكَ لَقَدْ جَاءَكَ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ یعنے سو اگرتمہیں اس چیز میں شک ہے جو ہم نے تیری طرف اتاری تو ان سے پوچھ لے جو تجھ سے پہلے کتاب پڑھتے ہیں بے شک تیرے پاس تیرے رب سے حق بات آئی ہے سو شک کرنے والوں میں ہرگز نہ ہو (سورہ یونس) چونکہ رسول اﷲ اُمی محض تھے کوئی کتاب نہ پڑھ سکتے تھے اور اگر پڑھ سکتے تو توریت عربی زبان میں نتھی بلکہ عبرانی میں تھی اس سبب سے حکم ہوا کہ پوُچھ ا ُنسے اور جو شخص آپ توریت پڑھ سکتا ہو تو پوچھنے کی بہ نسبت یہ زیادہ بہتر ہے کہ وہ آپ توریت میں دیکہہ لے مگر اب جو لوگ کہ اِن آیتوں سے تو انکار نہیں کر سکتے مگر توریت کے پڑھنے سے گھبراتے ہیں اُنکی مثال ایسی ہے کہ خط کو تو نہیں کہولتے سرف قاصد سے زبانی خبر پوچھتے ہیں یعنے بڑی تسلی کو چھوڑ کر ادنے ٰ تسلی کیطرف دوڑتے ہیں وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَىٰ تِسْعَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ فَاسْأَلْ بَنِي إِسْرَائِيلَ الخ یعنے اور البتہ تحقیق ہم نے موسیٰ کو نو کھلی نشانیاں دی تھیں پھر بھی بنی اسرائیل سےبھی پوچھ لو ( سورہ بنی اسرائیل) اب دیکھئے کہ اِن نشانیوں کا زکر توریت میں بہت تفصیل کے ساتھ ہے اگر کوئی توریت سے خوب واقف نہو تو کیونکر یہہ نو گنو ا سکے کیونکر قرآن مجید میں اسرائیلی کتابونکا حوالہ دیا گیا ہے پس ضرور ہے کہ انہیں کتابون سے ثابت کیا جائے پوچھؔ بنی اسرائیل سے یعنے توریت کے پرہنے والو نسے ورنہ اُنکی زبان باتونکا کیا اعتبار ہو سکتا ہے دوسرے یہہ کہ حضرت موسیٰ اُنہیں لوگوں کے درمیان تھے پس اُنہین کی کتابوں سے اِسکا ثبوت بہت مستحسن ہو اور یہاں بھی وہ ہی بات ہے کہ پوچھ اہلکتاب سے اسیطرح سورہ نحل مین ہے فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ پس پوچھ اہل زکر یعنے اہل کتب آلہیٰ سے اگر نہیں جانتے ہو اور اسیطرح سورہ انبیا ء رکوع میں بھی ہے اگر أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِّنَ الْكِتَابِ يُدْعَوْنَ إِلَىٰ كِتَابِ اللَّهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ يَتَوَلَّىٰ فَرِيقٌ مِّنْهُمْ وَهُم مُّعْرِضُونَ یعنے کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں ایک حصہ کتاب کا ملا وہ الله کی کتاب کی طرف بلائے جاتے ہیں تاکہ وہ کتاب ان میں فیصلہ کرے پھر ایک فرقہ ان میں سے پھر جاتا ہے ایسے حال میں کہ وہ منہ پھیرنے والے ہوتے ہیں (العمران) تفسیر حسینی میں ہے کہ روزے حضرت رسالت جمعے از یہود رابا سلام دعوت کرد نعماں بن ابی اوفی گفت اے محمد بن باتو در حضور علماے دین خود مناظرہ میکم حضرت فرمود کہ ان صحیفے را از توریت کہ مشتمل پر نعت و صفت من اس بیارید ووریں محکمہ انراضم سازند ایشاں ازیں قول ابا نمودہ آیات توریت راحاضر نک وند حقتعاےٰ فرمودہ کہ ایشاں رابتوربت میخو انید ثمہُّ ینولیً۔ پس روے میگر دانند گرُو ہے ازایشان کہ روسا یہودندو ایشاں اعراض کنند گانند از حق انتہےٰ یہاں سے مناظرہ کا قانون صحیح دانشمند ونکوں معلوم ہو جائیکا کہ رسول اﷲ نے یہودیوں سے مناظرہ کے وقت قرآن مجید پیش نہیں کیا کیونکہ وہ اُسے نہین مانتے تھے بلکہ اُنہیں کی کتاب منگوائی اب وہ لوگ جنہیں توریت و انجیل سے واقف کاری نہین ہے کیونکہ کیس دعوے کے ثبوت میں ایسی جرات کر سکتے ہیں اور جو لوگ اس بے پرواہ ہین ثابت ہے کہ اُنہیں دین اسلام اور خدا اور رسول کے نام کی حمایت سے بھی کچھ غرض نہیں ہے اور فعل رسول اﷲ کو بھی پسند نہین کرتے۔