بائبل  الہامی کتاب ہے

Inspiration of the Bible

Published in Nur-i-Afshan February 07, 1889

’’ بائبل اور وید‘‘ کے عنوان سے ایڈٹیر  دھرم  جیون  صاحب نے ایک مختصر سا آرٹیکل لکھا ہے۔ جسمیں یہہ ظاہر کیا ہےکہ ’’ بیبل  کی چھیاسٹھ  کتابیں  مختلف  اشخاص  کے ہاتھ سے مختلف زمانہ  میں لکھی گئیں۔ اور انکی تحریر کا  عرصہ  پندرہ سو برس کا تھا۔ وید اور گرنتھ  کا بھی یہی حال  ہے۔ آگے چلکر لکھتے ہیں  کہ ’’ یہی وجہ ہے کہ اُنمیں سے ہر  ایک کے اندر جو جو باتیں  درج ہیں۔ اُنمیں  اکثر  آپسمیں  بڑا اختلاف ہے۔ او ر اُنکی  تحریر میں ایسی  باتیں کثرت سے ملتی  ہیں۔ کہ  جو ایک دوسرے  کی تردید کرتی ہیں۔ مگر افسوس جو لوگ اُنمیں  خدا کا کلام  مانکر قبول کرتے ہیں ۔ وہ اپنے عقیدہ کے قائم رکھنے کی غرض  سے انکی ترویدوں اور لغویات کو اپنے پہلے ہم عقیدہ  شخصوں  یا اپنی تودیلوں کے زریعہ ٹھیک  بنانیکی کو شش کرتے ہیں۔‘‘ ۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔

ہمیں گرنتھ  اور وید  سے کیا غرض  ہے۔ ہمارا  مدعا صرف بائبل کی  صداقت کا اظہار  ہے۔ اور ایسےخود مختار اور فرضی  لمہوں کی تحریر  و تقریر  کو صداقت  سے جانچنا  غرض ہے۔ بائبل پر کچھ نیا نہیں وہی پرُانا  مردہ  اُکھیڑا ہے۔  اگر کوئی  عام آدمی یہہ اعتراض کرتا تو  چنداں  تو جہہ کی ضرورت  نہ تھی۔ مگر جسحال  کہ معترض الہام  کا مدعی  اور پیغمبر ی کا  دعویدار  ہے۔  تو مناسب ہے کہ اُسکے اس فخر  کو  توڑا جائے۔  صداقت سے بطالت  کو رد  کرنا  چاہئے ۔  نہ معلوم  کیا  سو چکر  پنڈت  صاحب  ( ایڈیٹر  دھرم جیون) نے یہہ فضول اعتراض  دھر گھسیٹا۔ اس سے ایک بات تو معلوم  ہوتی ہے کہ وہ  تاہنوز  بائبل  کے الہام  اور اُسکی حقانی  تحریر  اور مدعا  سے واقف نہیں۔

اگر چہ بائیبل  مختلف  اشخاص  کے ہاتھ سے  مختلف زمانوں  میں لکھی  گئی۔  تنبیہ یا د رہے کہ مصنف  اُسکا  صرف ایک  شخص ہے۔ اور وہ خدا ہے۔ یہہ لوگ تو کاتب تھے۔  مگر تصنیف روح القدس  کی ہے۔ چنانچہ پطرس  حواری  اپنے ایک خط  میں  تحریر  فرماتے ہیں۔ کہ ’’ خدا کے مقدس لوگ روح القدس کے  بلوائے بولتے تھے۔ ‘‘ اس بنا پر وہ تمام تحریر بے نقص اور خطا سے میرا  ہے۔ اور اآپکا اعتراض  فضول ۔ کیونکہ نہ تو  انمیں  کو کو ئی نقص  ہے۔ اور نہ ایک دوسرے کی تروید کرتے ہیں۔ خیر اسکا جواب تو ہم  آپکو بعد میں دینگے۔ اول  نوشتجات  بائبل  کے الہامی  ہونیکو ثابت  کر لیں۔ آپ  گھبرا کر جلدی نہ کریں ۔ آپ ہماری تمام تحریر کو ختم  ہو لینے دیں۔  ایسا نہ کریں۔ جیسا دوستانہ  گفتگو  کے معاملہ  میں کیا  تھا۔ کہ ہماری تحریر ختم ہونے بھی نہ پائی  کہ آپ  دخل  درمعقولات کے مصداق ہوئے۔ آپ اور تمام  ناظرین  زرا  صبر اور تحمل اور غور سے اسکو  پڑھیں  بعدہ اپنی رائے کے اظہار کے مختار ہیں۔

تو چل تو سن  خاسۂ وہ زباں
کہ ہو ویگا الہام حق بیاں

الہام کی تعریف 

اولاً  الہام  کی تعریف  نو شتوں سے معلوم کر سکتے ہیں۔ یعنے اُنکی نصیحت  آمیز  بیانوں  اور ظہور  عجب  ہے۔ کئی  ایک عام  اصول ہیں ۔ جو بیبل میں پوشیدہ  ہو رہے  ہیں۔ لیکن اُنکی ساری تعلیموں میں اختیار  کئے جاتے ہیں ۔ اور اسلئے اُسکے  ترجمہ  اور تعبیر میں بھی اختیار کرنی  چاہئے۔  مثلاً

اولؔ خدا سب  چیزونکا  تعلم  سبب نہیں ہے۔  اور نہ بے جنم قوت ہے۔ نہ  جملہ جہان  کے انتظام  اخلاقیہ  کا محص  ایک نام ہے اور نہ کوئی  سبب اتفاقی  ہیں۔ لیکن روح ہے اور عالم  اور فہم اور اختیار ی فاعل ہے۔  اور ہماری روحونکی  کل صعنت  غیر متناہی طور پر اُسمیں موجود ہیں۔

دومؔ کہ وہ دنیا  کا خالق اور دنیا سے جدا ہے۔ اُس سے پیشتر موجود  اور اُس سے آزاد ہے۔ پر نہ وہ دنیا کی روح ہے اور نہ زندگی۔ لیکن  اُسکا خالق و مالک و محافظ ہے۔ اور نیز حاکم ہے۔

سومؔ کہ روھ ہو کر وہ ہر جگہ  حاضر  ناظر اور ہر جگہ کارکن  ہے۔ اپنی سب مخلوقات کی محافظت  اور اُنکے کل کاموں پر حکموانی کرتا ہوں۔

چہارم جسحال میں وہ عالم ظاہری  و باطنی پر قانون مقرری کے مطابق اسباب  ثانی  کے زریعہ  سے عمل  و اثر کرتا ہے۔  تو وہ  آزاد ہے۔ کہ فوراً  یا بغیر  ایسے اسباب  درمیانی  کے کام کرے۔ اور اکثر  کرتا  بھی ہے۔ جیسے پیدایش  اور سرِ نو پیدا  ہونا  اور معجزات اُسکی مثال ہیں۔

پنجم یہہ کہ بائبل میں الہام یا افشا کے  فوق العادت  مندرج  ہیں۔ بالفعل سوال یہہ نہین  کہ بائبل  وہ نہیں  جو وپ ہونے کا دعوےٰ کرتی ہے۔ لیکن یہہ کہ وہ اُس  زور اور تاثیر  کے اصل  اور نتیجوں کی بابت جنکے زریعہ سے لکھی گئی۔ کیا سکھلاتی ہے۔ اُس مضمون پر کلیسیا کی تعلیم جواب ہے اور ہمیشہ سے رہی ہے یہہ ہے۔ کہ الہام بعض مخصوص آدمیوں کے دلونپر روح القدس کی تاثیر تھی۔

جس سے  وے خدا کے عضو  ہو کر اُسکی مرضی  کے صحیح اطہار کرنیکے  قابل ہوئے۔ وے اِس طرح خدا  کے عضو  تھے۔ کہ جو  کچھ  وہ کہتے تھے خدا کا قول تھا۔

الہام فوق العادت ہے

الہام کی تعریف میں کئی نکات شامل ہیں

اوّل الہام ایک  تاثیر فوق العادت ہے۔  اور ایک جہت سے یہ موجودہ  انتطام  الہیٰ یا نیچر (  فطرت) سے جدا ہے۔ جو ہر جگہ  حرکت  اور تاثیر کرتا ہے۔ اور  بحیت  دیگر روح کی فیض بخش  تاثیر دنسے  جدا ہے۔ نوشتوں اور اِنسان کے ملاحظہ عام کے رو سے یہی اُن نتیجوں  سے  جو خدا کی اثر نمائی  سے بزریعہ  اسباب ثانی کے باقاعدہ  حاصل  ہوتے ہین اور اُنمیں  جو  بیو  سیلہ بغیر  اسباب ثانی کے میانگی کے صادر ہوتے ہیں ۔ امتیاز کرنی چاہئے۔ ایک قسم کے نتائج  موافق طبعی  آئین کے ہیں۔ اوردوسرے فوق العادت۔ الہام قسم موخر کے متعلق ہیں۔

بائیبل بھی اُنمیں صحیح  تضادت  کرتی ہے۔ پس الہام اور تنویر روحانی  کو باہم مخلوط  کرنا لازم نہیں۔

اوّل اُنکے مقصد  مین باہم اختلاف  ہے۔ یعنے مفعول  میں الہام کے مفعول چند مخصوص  اشخاص ہیں۔  اور تنویر روحانی کے مفعول تمام حقیقی ایماندار ہیں۔

دویم۔ اُنکے مدعا میں فرق ہے۔ اول  کا مدعا یہی ہے۔  کہ بعض آدمیوں کو بے نقص اور تحقق  اُستاد بناوے ۔ اور دوسرے کا مدعا یہی ہے۔ کہ اِنسان  کو پاک کرے۔ اور البتہ اُنکے نتائج بھی  متفرق ہونگے۔  الہام میں تاثیر تہمید  نہ ہیں ہے مثلاً بلعام  کو الہام  ہوا۔ ساؤل نبیوں میں سے تھا۔ کمیفاس نے ایک پیشنگوئی کی  جو از خود نہ کہی تھی۔  (یوحنا  ۱۱ ، ۵۱) اُس دِن بُہتیرے مُجھ سے کہیں گے اَے خُداوند اَے خُداوند!کیا ہم نے تیرے نام سے نبُوّت نہیں کی اور تیرے نام سے بدرُوحوں کو نہیں نِکالا اور تیرے نام سے بُہت سے مُعجِزے نہیں دِکھائے؟۔اُس وقت مَیں اُن سے صاف کہہ دُوں گا کہ میری کبھی تُم سے واقفِیّت نہ تھی ۔ اَے بدکارو میرے پاس سے چلے جاو۔ متی  ۷: ۲۲۔

اِس جگہ ہمکو افسوس  سے یہہ کہنا پڑتا  ہے کہ دیو دھرلی  صاحبان  اور شخصی  الہام کے پیرو اُنمیں  تفاوت  نہیں کرتے۔ وہ ٹنویر روحانی  اور الہام کو یکجہتی سمجھتے ہیں۔  یہہ اُنکی بڑی بھاری  غلطی ہے۔ 

نقاوت  درمیان وحی و الہام

ثانیاً  تعریف مزکورہ بالاجی اور الھام کی تضاوت کو شام کرتی ہے۔ اوّل اُنکے مقصد  میں فرق ہے ۔ افشأ عرفان  وحی کا مقصد  ہے اور تعلیم دینے میں محافظت و بر قراری صحت مدعائے الہام ہے۔

دویم اُنکے نتایج مین فرق ہے۔ وحی کا نتیجہ  یہہ تھا۔ کہ پانیوالے  کو زی  علم  نباوے۔ اور الہام کا نتیجہ یہہ تھا کہ تعلیم دینے میں اُسے غلطی  سے مھفوظ رکھے۔ ایک ہی شخص ایک ہی وقت  میں اِن دونوں نعمتوں کا  تصرف کرتا ہے۔ یعنے روح اکثر عرفان بھی بخشتی  اور اُس کے زبانی یا تحریری  اظہار پر  ضبط  و ربط رکھتی تھی۔  مصنف مزامیر وا نبیاء اور رسل کے ساتھ بیشک ایسا ہی ہوا۔  پھر ایک وقت وحی پہنچایا جاتا تھا  اور بعدازآں  روح  کی ہدایت سے لکھا جاتا تھا۔ حضرت پولوس فرماتے  ہیں کہ  انجیل کا علم  اُسے اِنسان سے نہیں مگر یسوع کے وحی سے حاصل ہوا ۔ اور یہہ علم اُ نے گاہ بگاہ  وعظ اور خطوط میں بیان کیا ۔ اکثر حالات میں یہہ نعمتیں  علیحدہ کیجاتی  تھیں۔ مقدس کاتبوں میں سے اگر چہ  بہتیرونکو الہام ہوا۔ تاہم وحی حاصل نہوا۔ عہد عتیق کی کتب تواریخ کے مصنفونکا۔ غالباً یہی حال تھا  لو کا اُن واقعات کا علم جو اُسنے درج کی ہیں۔ وحی کی طرف منسوب نہیں کرتا۔  مگر یہہ کہتا ہے کہ میں نے  اُنسے پایا جو شروع  سے خود  دیکھنے والے اور کلام کے خادم  تھے۔ اعمال، لوقا، یہہ ہمارے مطلب کے لئے مفید نہیں کہ موسیٰ نے اُن  واقعات  کا علم جو کتاب پیدایش میں مندرج ہیں کہانے حاصل کیا۔ آیا قدیمن شہادتوں  سے روائیت یا وحی  سے اگر مقدس  راوی سید اعظم  کفأستاً کہتے تھے۔ تو وحی ظاہراً  کے دعویٰ کی ضرورت  نہیں ہے ہمارے لئے یہی کافی ہے کہ  وے بے خطا  اور یقینی اُستاد ٹھہرائے گئے۔

اہل الہام  عضوئے خدا تھے

ثالثاً۔ کلیسیا کی تعلیم الہام میں یہہ نکتہ  بھی شامل ہے کہ مقدس  راوی خدا کے عضو تھے۔ ایسا کہ جو کچھ اُنہوں نے سکھلایا گویا  خدا نے سکھلایا۔  یاد  رہے کہ جب خدا اپنے کسی مخلوق کو اپنا وسیلہ یا آزار استعمال کرتا ہے۔ تو اُنکی طبعی  حالت کے موافق مستعمل  کرتا ہے۔  فرشتوں کو فرشتوں سا اور انسان سا عناصر کو عناصر سا  اِنسان آزاد  فاعل ہیں اور اِسی حالتمیں خدا کے عضو ٹھہرتے  ہیں۔ مقدس راوی غیر  نالحق نہیں  بنائے جاتے تھے۔ ارواح  انبیا ء نیسوں کی تابع تھیں۔ ۱ قرنت ۱۴: ۳۷۔

  جسطرح بعض عارفوں نے کہا ہے۔ ویسا ہی متقد میں بھی کہا کرتے تھے۔ کہ مقدس راوی روح  کے ہاتھ میں مثل قلم کے تھے۔ یا مثل بربط کے جسے جو آزاد اُسے آتی نکالتی تھی۔ یہہ تشبیہن صرف ایک نکتہ کی توضیح  کے لئے  مقصود ہوئیں۔ یعنے وہ کلمات جو مقدس  زدپول نے لکھے یا کہے کلمہ خدا تھے۔ کلیسیا نے یہہ کلُ کا الہام کبھی نہ مانا۔ مقدس راوی محض کل نہ تھے۔  اُنکا  علم  طبعی موقوف  نہ کیا گیا نہ اُنکے  قواعد راکیہ  برطرف  ہوگئیں۔  پاک لوگ روح القدس کے بلوائے بولتے تھے۔ انسان تھے نہ کہ اوزاربے  علم  زندہ قلب  ارواج زی قیاس اور زی رضا  تھے۔ جنہیں روح نے عضو بنایا علاوہ ازیں چونکہ الہام  قوت  بشری کے توقف کو شامل نہین کرتا ۔ لہذا اُس شخص  کی عقلی علامت امتیازی  کے استعمال بے ابرام میں دخل  نہیں دیتا۔ اگر  منطقی  تھا تو اُس نے مثل پولوس  کے  مدلل تقرر کی۔  اگر مسائل تھا تو اُس  مثل یوحنا کے لکھا۔ اگر کوئی عبرانی  معلم ہوا تو وہ عبرانی بولتا تھا ۔ اگر  کوئی  یونانی تو وہ یونانی  باتلا تھا۔  اگر عالم  تھا ۔ تو  موافق  علماء گفتگو کرتا تھا۔ راویان مقدس  نے اپنی خصوصیت  اپنی اپنی تصنیفات پر ایسی  صاف منقش کی ہے۔ کہ گویاوے کسی تاثیر  نادر کی تقید ہی میں نہ تھے۔ بیبل کے اظہار  نادری مین سے یہہ ایک ہی  جو ناظریں پر بھی آشکارا ہے۔

الہام کی اصل ہی میں یہہ بات  موضوع ۔ کہ خدا نے انسانی زبان میں کلام  کیا۔ اور کہ انسان کو اُسکے خاص  وصف کے موافق اپنا عضو کر کے استعمال  کرتا ہے۔ جب  وہ  بچّوں کے منُہہ سے تعریف  کرواتا  ہے تو  ضرور ہے کہ وہ بچوں کی طرح بولیں۔ ورنہ اس زبرحکمی کا تمام زور  و لطف  جاتا رہتا ہے۔ اِس اعتقاد  کی  کو ئی دلیل  نہیں کہ مقدس روایوں  کو الہام کی حالت میں روح کی تاثیر کااظہار ایماندار ونمیں  اُسکی تاثیر تقدس  کی نسبت زیادہ تر علم ہوا کرتا تھا جسطرح  ایماندار اپنے تئیں  کسی کام کا کرنیوالا معلوم ہوتا ہے۔ اور حقیقتاً اپنی زات سے کام کرتا ہے۔ ویسے ہی الہامی کاتب اپنے خیالوں کی بہرپوری  سے لکھتے  تھے۔ اور ایسی زبان اور محاورات استعمال کئے جو اُنکی طبیعت کے موافق  اور مناسب معلوم ہوئے۔ باوجود ہ اِسکے وے روح کے بلوائے بولتے تھے اور اُنکی باتیں روح کی باتیں نہیں۔

درثبوت تعلیم مذکورہ بالا

یہہ تعریف الہام کے نوشتوں  کےموافق ہے۔ اور کہ اہل الہام  اسوجہ سے  خدا کے عضو  تھے۔ اور کہ اَنکا  کلام  انسان کلام  نہ تھا۔ لیکن کلام خدا تھا۔ وجوہات  زیل سے  ثابت ہے۔

اولاً اس لفظ کے معنو نسے ثابت ہے۔ البتہ یہہ قابل تسلیم  ہے۔ کہ الفاظ  کواُنکے  تواریخی  معنونسے سمجھنا  چاہئے اگر ظاہر ہو سکے کہ زمانہ رسل میں لوگ لفظ ( )  اور اُسکے  ہمجنس الفاظ  کو کیا  معنے لگاتے تھے۔ تو وہی معنے ادا کرنے کے لئے  رسولوں نے بھی  استعمال کیا۔ تمام اقوال  کا یہہ اعتقاد  رہا ہے کہ خدا انسان کے دل  پر نہ صرف دخل اور ضبط  و ربط  رکھتا ہے۔  بلکہ یہہ جو اُس نے بعض اوقات  خاص  شخصوں  پر ایسا تصرف  رکھا۔ کہ نُنکو اپنی مرضی  کے اظہار کا عضو  بنایا ایسے  شخصوں کو  یونانی  (تھیو فورائے)  ( اسپیشل کریکٹر)  یعنے حامل خدا کہتے تھے۔  یا  ( اِن تھیوس) (اسپیشل کریکٹر)  یعنے جسمین  خالی  رہتا ہے سپٹو ا جنسٹ میں لفظ ( پنوماٹو فوراس )  ( اسپیشل  کر یکٹر)  اسی معنے سے مستعمل  ہوا ہے۔  یو سیفس  کی انٹی  کٹی  کتاب چوتھی دفعہ  ہانچ میں یہہ معنے اِس فقرہ سے بیان ہوئے ہیں۔  (ٹوتھیو ۔ (اسپیشل کریکڑ)  پنیو ماٹے کے کی نے  موناس)  ( اسپیشل کریکٹر)  کلمات رسول پطرس  اسکے موافق ہیں۔ ( اسپیشل کریکٹر)  ( ہیو پو نپیوماٹاس فیروی  نائے) ( اسپیشل کریکٹر)  ۲ پطرس ۱ ۔ ۱  اور روح کی اِس تاثیر  سے جو کچھ  لکھا جاتا ہے ۔ گرانے  تھیو پناس ٹاس}  (اسپیشل کریکٹر) یعنے الہامی نوشتہ کہلاتا ہے۔ تمطاوس ۳ ۔ ۱۶ گر یگری نسا  کا متی  ۴۱۔ ۴۳ ۔ ہمارے  خداوند کی اِن باتوں اِن باتوں کا کہ پھر کس طرح  داؤد روح سے اُسے خداوند کہتا ہے  حوالہ دیکر  کہتا ہے۔’’ کہ اسلئے مقدسونمیں سے وے  جو روح کی قدرت سے خدا سے معمور ہیں الہامی ہیں۔ اور اسلئے سارا نوشتہ  (تھیونپوس  نلس )  (اسپیشل  کریکٹر)  یعنے الہامی کہلاتا ہے۔ کیونکہ تعلیم خدا کے الہام سے  ہے۔‘‘پس الہام کے معنے مقرر ہوئے۔ تمام متقدمین کے قول کے موافق  وہ شخص الہامی  تھا۔ جو اپنے اقوال  کی نسبت عضوئے  خدا تھا ایسا کہ اُسکی  کلام اُس  خدا  کی کلام تھی جسکا وہ عضو تھا۔

ثانیاً  لفظ نبی اسی پر دلالت  کرتا ہے۔ مقدس  راوی  نوشتون کو شریعت اور انبیا ء پر تقسیم کرتے ہیں۔ جس  حالت میں توریت موسیٰ نے لکھی اور موسیٰ  نبیونمیں سب سے بڑا  تھا۔ تو اس سے یہی  نتیجہ  نکلتا ہے۔ کہ عہد عتیق  کی کتابیں  نبیؤں  نے لکھیں۔ پس اگر نوشتوں  کے رؤ سے ہم بیّ کے  معنے دریافت  کر سکیں۔ تو اِسوجہ سے اُنکی  تضیفات کی خاصیّت اور اُنکا  واجبی اختیار بھی دریافت کر سکینگے ۔ اب نبی نوشتوں  کے رو سے عرض  بیگی ہے یعنے دوسرے کی طرف سے اور  اُسکےاختیار  سے بولنے والا۔ ایسا کہ وہ شخص جسکے لئے وہ کہتا ہے۔ عرض  بیگی کے قول کی صداقت  کا جواب وہ ہے۔ خروج  ۷۔ ۱۔ پِھر خُداوند نے مُوسیٰ سے کہا دیکھ مَیں نے تُجھے فِرعو ن کے لِئے گویا خُدا ٹھہرایا اور تیرا بھائی ہارُو ن تیرا پَیغمبرہو گا یعنے عرض بیگی ہوگا۔  ۴ ۔ ۱۵ ۔ ۱۶ ۔ سو تُو اُسے سب کُچھ بتانا اور یہ سب باتیں اُسے سِکھانا اور مَیں تیری اور اُس کی زُبان کا ذِمّہ لیتا ہُوں اور تُم کو سِکھاتا رہُوں گا کہ تُم کیا کیا کرو۔ اور وہ تیری طرف سے لوگوں سے باتیں کرے گا اور وہ تیرا مُنہ بنے گا اور تُو اُس کے لِئے گویا خُدا ہو گا۔ اور تُو اِس لاٹھی کو اپنے ہاتھ میں لِئے جا اور اِسی سے اِن مُعجزِوں کو دِکھانا۔ دیکھو یر میاہ ۔ ۳۶۔ ۱۷ ۔ ۱۸ ۔ اس سے ساف طاہر ہے کہ نبی گیا ہے۔ وہ دھن خدا ہے۔ وہ جسکے  وسیلہ  سے خدا لوگونسے  کلام کرتا ہے۔ ایسا کہ جو کچھ بنی کہتا ہے گویا خدا کہتا ہے۔ جب کسی نبی کا تقدس کیا  جاتا  تھا۔ تو اُس  موقعہ پر یہہ کہا جاتا  تھا کہ دیکھ میں نے  اپنی باتیں تیرے منُہ میں ڈالدیں  ۔  یر میاہ ۱۔ ۹۔ یسعیاہ  ۵۱۔ ۱۶ ۔ اور  کہ ازروئے  نوشتگان  نبی کے یہی معنے ہیں۔ اُن مرُوج محاورات  سے اور بھی اظہر  جو اُسکی  رسالت  اور فرائیض  کے متعلق  ہیں۔  وہ کدا کا قاصد تھا۔ اور کدا کے نام سے کلام کرتا تھا۔ یہہ کلمات کہ ’’خداوند  یوں فرماتا ہے ۔ ہمیشہ اُسکے منُہ  میں تھے۔ پھر یہہ کہ کلام  ’’ خداوند اِس اور اُس  نبی پر اُترا۔ روح نازل ہوئی خدا کی  ’’ قدرت  یا ہاتھ ، اُس پر تھا۔ یہہ سب اِس بات پر  دلالت  کرتے ہیں کہ نبی خدا کا عضو  تھا جو کچھ وہ کہتا تھا۔  خدا کے نام اور اختیار سے کہتا تھا۔

پطرس رسول بھی عین اُسکے موافق  سکھلاتا ہے کہ نبوت کی بات آدمی کی خواہش  سے کبھی نہیں ہوئی۔ بلکہ کدا کے مقدس لوگ روھ القدس کے بلوائے بولتے تھے۔  سلسلہ کے لئے دیکھو نور افشاں ۱۴۔ فروری سن ۱۸۸۹ء

فرمودہ انبیاء فرمودۂ خدا تھا

ثالثاً اِس بات کا کہ مقدس راوی عضوء  کدا تھے یہہ دوسرا قطعی ثبوت  ہے۔ کہ جو کچھ اُنہوں نے کہا وہ فرمودۂ  روح کہا گیا ہے۔ مسیح خداوند نے خود فرمایا کہ داؤد  روح  سے مسیح  کو خداوند کہتا ہے۔ متی ۲۲۔ ۲۳۔ زبور  ۹۵ میں داؤد ؔ  کہتا ہے  کہ اگر تم آجکے دن اُسکی  آواز  سُنو تو اپنے  سخت نہ کرو۔ لیکن رسول  کہتا ہے  کہ  یہہ روح القدس کی  باتیں  ہین۔ عبرانی  ۳۔ ۷ ۔  پھر  خط مذکور  ۱۰۔ ۱۵۔ میں رسول  ممدوح کہتا ہے۔  اور روح القدس  بھی  ہمارے  لئے گواہی  دیتی ہے۔ کیونکہ جب اُسنے کہا  تھا۔ کہ یہہ وہ عہد ہے ۔ جومیں اِندنوں  کے بعد  تم سے باندھونگا۔  خداوند  فرماتا ہے۔  اور یوں  یرمیاہ  کی بات  کو  ۳۱ ۔ ۳۳  روح القدس  کی بات کہتا ہے۔ اعمال ۴ ۔ ۲۵  میں  تیں  مجمع  رُسل  یکدل  ہو کر کہا ۔ تُو نے رُوحُ القُدس کے وسِیلہ سے ہمارے باپ اپنے خادِم داؤُد کی زُبانی فرمایا کہ قَوموں نے کیوں دُھوم مچائی؟ اور اُمّتوں نے کیوں باطِل خیال کِئے؟۔ اعمال  ۲۸۔ ۲۶ حضرت پولوس  نے یہودیوں سے کہا۔ کہ روح القد س نے معرفت یسعیاہ  نبی ہمارے باپ دادوں  سے خوب کہا۔ اِس طور سے مسیح  اور اُسکے رسول  ہمیشہ  نوشتوں  کیطرف  اشارہ کرتے ہیں  اور بلاشبہ ظاہر کرتےہیں  کہ اُنہیں  یقین تھا اور سکھاتے بھی تھے ک فرمودہ رادیان  فرمودہ روح القدس۔

عہد عتیق کے مصنفوں کے الہام کے بیان میں

ثبوت مذکورہ بالا  خاص کو عہد عتیق کی کتابوں پر موثر ہے مگر کو ئی مسیحی  عہد عتیق  کے الہما جدید کے الہام پر فصلیت  نہیں دیتا۔ اگر انتظام سابقہ  کے نوشتے خدا کے الہام  دلے کلے۔ تو وہ تضیفات اُنسے کہیں زیادہ  ہیں۔  جو روح کی معرفت لکھی  گئیں۔ الہام رُسل وجوہ زیل سے ثابت ہے۔

اولاً ۔اس بات سے کہ مسیح نے اُنسے روح  روح القدس کا وعدہ  کیا۔ جو اُنہیں سب باتیں یاد دلاوے۔  اور تعلیم دینے میں اُنہیں  صحیح  اور  بیخطا  ٹھہراوے۔ اُسنے کہا کہ تم نہیں  پر میرے  باپ کی روح  تم میں بولتی ہے۔ وہ جو تمہاری سُنتا ہے میری سنتا ہے۔ اُسنے انہیں عہدہ اتالیق پر مقرر ہونے سے منع کیا۔ تاوقتیکہ  عالم بالا سے قوت پاویں۔

ثانیاً۔  پنتکوست  کے دن یہہ وعدہ پورا ہوا۔ تب جیسی بڑی آندھی چلے رسولوں پر روح نازل ہوئی۔ اور وے روح القدس سے بھر گئے۔ اور جیسے رعح نے اُنہیں بولنے کی قدرت بخشی  بولنے لگے۔ اِس گھڑی سے وے نئے انسان ہو گئے۔  اُنکے نئے خیالات  نئی  روھ اور نئی قوت و اختیار ہوگئے۔  یہہ تبدیلی یکایک  وقوع  میں آئی۔ یہہ اظہار بیتدریج  اور سراسر  فوق العادت تھا۔ جسطرح جب خدا  نے کہا کہ روشنی ہو اور روشنی ہو گئی۔ اِس سے زیادہ  تر نامعقول  کچھ نہیں  ہو سکتا۔ کہ متعصب  دلوں سے رسولوں کی روشن رائے اور کشادہ دلی کی ناگہانی تبدیلی  کو محض اسباب زاتی کو منسوب کریں۔ اُنکے یہودی تعصبات نے نیں بر س تک مسیح کی نصیحت  اور تاثیر کی مخالفت کی۔ لیکن جب عالم بالا سے اُنپر روح نازل ہو ئی  تب وے  یلکخت مطیع ہو گئے۔

چالثاً۔ پنتکوست کے دن کے بعد رسولوں  نے خدا کے بے نقص عضو  ہونیکا دعویٰ کیا۔ اور اسبات کے مقتفی ہوئے کہ لوگ تسلیم کریں کہ جو کچھ وے سکھلاتے  تھے کلام خدا تھا نہ کلام انسان۔ ا۔ تسلونیقی  ۲۔ ۱۳ ۔ اُنہوں نے بیان کیا جسطرح پولوس کرتا کہ وہ باتیں جو اُنہوں  نے لکھیں احکام خدا تھے۔ ۱۔ قرینت ۱۴ ۔ ۳۸۔ اُنہون نے انسان کی نجات کا مدار اُن تعلیمات  کے  اعتقاد پر رکھا۔ جو اُنہوں  نے سکھلائیں ۔ پولوس آسمانی فرشتہ کو بھی لعنتی کہتا ہے۔ جو  سوائے اس انجیل کے جو اُسنے سکھلائی سکھلاوے۔ گلاتی ۱۔ ۸۔ یوحنا حواری کہتا ہے کہ جو کو ئی  اُس {پنڈت صاحب مگر آپکا الہام حق ہے تو کسیطرح انجیل کے الہام سے مخالف نہیں ہونا چاہئے۔ }۔ گواہی  کو  جو اُسنے مسیح کی بابت دی قبول نہیں کرتا خدا کو جھوٹا  ٹھہراتا ہے۔ کیونکہ یوحنا  کی  گواہی  خدا کی  گواہی ہے۔ ۱۔ یوحنا  ۵۔ ۱۰۔  وہ جو خدا کو پہنچانتا ہے ہماری سنُتا ہے۔ جو خدا  سے نہیں ہماری  نہیں سنُتا ہے ۴۔ ۶۔ بیحطائی اور صحت کا یہہ دعویٰ  اور اُنکی تعلیم کے  الہیٰ  اختیار کا یہہ استحقاق تمام بائبل کی خاصّیت ہے۔ کل راوی ہر مقام میں اپنے اختیار کے انکاری ہیں۔ وے اپنی تعلیم پر اپنے علم و حکمت  کے اختیار  سے فرض ایمانیہ کا مدار  نہیں رکھتے۔ اپنی تعلیم کی صداقت عقل کے موافق  قرار دیکر اُسے وجہ  ایمان  کی بیان  نہیں  کرتے۔ وے قاصد اور گواہ اور عضو ہو کر بولتے تھے۔ وے کہتے ہیں کہ اُنکا فرمودہ خدا کا فرمودہ ہے۔ اور اسلئے اُسکے اختیار  پر اُسے تسلیم کرنا اور ماننا  چاہئے۔

گواہی حضرت پولوس رسول

قرنتیوں نے پولوس کی وعظ  پر اعتراض کیا۔ اسلئے کہ اُسنے اُن  تعلیمات کا جو سکھلاتا تھا۔ عقلی اور فیلسوفی ثبوت نہ دیا۔  اور کہ اُسکی زبان  اور طریقہ گفتگو علم  فصا حت  کے قاعدون کے موافق نہ تھیں۔ وہ اِن اعتراضوں کا یون جواب دیتا ہے۔ 

اولاً۔ وہ تعلیم جو اُسنے سکھلائی ۔ حقائق عقلیہ نہ تھیں۔ نہ حکمت انسانی سے ایجاد ہوئیں۔ مگر وحی رباّنی  کے مضامیں تھے جو جچھ خدا نے سچ کہہ بتلایا۔ اُسنے  صرف وہی سکھلایا۔

ثانیاً۔ اِن حقیقتوں  کے ظاہر کرنے میں وہ صرف روح انیردیکا  عضو تھا۔ ۱۔ قرنت ۲۔ ۸ تا  ۱۳ ۔ میں اِس بات  کا صاف اور مختصر  طور سے بیان کرتا ہے۔ وہ باتیں یعنے انجیل جو اُسنے سکھلائی  جسے وہ خدا کی حکمت اور روح کی باتیں کہتا ہے۔ انسان کے دل میں کبھی نہ آئی۔ خدا نے یہہ حقیقتیں  اپنی روح کے وسیلہ  ظاہر کیں۔ کیونکہ روح میں ایسے علم کا چشمہ  مکتفی ہے۔ آدمیوں میں کون آدمی کا حال جانتا ہے۔ مگر آدمی کی روح جو  اُسمیں؟ ۔ ۱۔ قرنت ۲۔ ۱۱۔ اسیطرح خدا کی روح کےسوائے خدا کا  ھال کو ئی نہیں جانتا۔ دوسرا اعتراض جو اُسکی زبان اور طریقہ  اظہار کی نسبت ہے۔ اُسکئ بابت وہ کہتا ہے۔ کہ’’ روح کی یہہ باتیں جو اسطرح ظاہر ہوئیں۔