یسوع ناصری کے ماجرے
The Incidence of Jesus Christ
یہ پر مُطلب اور معنی خیز فقرہ جو ہمارے مضمون کا ہیڈنگ ہے۔ انجیل لوقا کے ۲۴/۱۹ میں مرقوم ہے۔ اِلہام یافتہ محرر انجیل اپنے نوشتہ کے دیباچہ میں یوں لکھتا ہے۔ دیکھو لوقا باب اّول چونکہ بہتوں نے کمر باندھی کہ اُن کاموں کا جو فی الواقع ہمارے درمیان انجام ہوئے بیان کریں۔ جس طرح سے اُنہوں نے جو شروع سے خود دیکھنے والے اور کلام کی خدمت کرنے والے تھے۔ ہم سے روایت کی میں نے بھی مناسب جانا کہ سب کو سرے سے صحیح طور پر دریافت کر کے تیرے لئے اے بزرگ تھیوفلس بہ ترتیب لکھوں تاکہ تو اُن باتوں کی حقیقت کو جنکی تو نے تعلیم پائی جانے۔ ۱/۱۔۴ تک مصّنف انجیل کی اس تمہید سے چند امور واضع ہو جاتے ہیں۔ جنکی بابت مضمون پڑھنے سے پیشتر واقفیت حاصل کرنا ناظرین کے واسطے مفید ہو گا۔
امر اوّل یہ ہے کہ جو کچھ اِس انجیل میں زیرک مصنف نے درج کیا ہے وہ سب روایتی طور پر حاصل کیا گیا۔ اور یہ سب کچھ متواتر طور پر سنُا گیا۔ کیونکہ وہ آپ ہی فرماتا ہے۔ کہ اُنہوں نے یعنے بہتوں نے پس جو بات یا روایت تواتر کی حد کو پہنچگئی ہو۔ اُسمیں شک کا امکان باقی نہیں رہتا ۔ جیسا کہ علماء محمدیہ تیرہ سو برس کے طول طویل زمانہ میں نہایت عرقریزی کر رہے ہیں۔ کہ کوئی صورت ایسی پیدا ہو کہ معجزہ شق القمر تواتر سے ثابت کریں۔ کیونکہ یہ امر مخفی نہیں ہے کہ تواتر کا بطلان محال ہے۔ پر شکر خُدا کہ انجیلی واقعات کا تواتر خود انجیل ہی کے لفظوں میں ایسا روشن ہے۔ کہ ہم کو مان لینے کے سوا اور کچھ نہیں سوجھتا۔
امر دوم یہ ہے کہ الہامی مصّنف انجیل نے صرف متواتر روایتوں ہی پر قناعت نہ کی بلکہ بے لوث مورخوں کی مانند خود بھی اُن واقعات کی حقیقت کو دریافت کرتا رہا۔ جب تک اُسے یہ جرُأت ہوئی کہ اپنے قلم حقیقت رقم سے لکھ چھوڑے۔ چنانچہ راِقم موصوف کہتا ہے کہ میں نے بھی مناسب جانا کہ سب کو سرے سے صحیح طور پر دریافت کرے پس جبکہ اِس انجیل کے مضمون کی صحت کا یہ حال ہے تو ہمکو یا کسی اور ناظر کو شک لانیکی کیا مجال ہے۔
امر سوم یہ ہے کہ بعض مصّنفوں کی مانند راقم انجیل کی غرض اِس انجیل کے لکھنے میں اپنے بقائے نام یا دِل کے بہلانے کا مقصد نہیں۔ کیونکہ اکثر کتابوں کی وجہ تصنیف کچھ بھی نہیں ہوتی۔ لیکن یہاں ایک خاص اور نہایت ضروری اور لابُدی صورت رونما ہوئی کہ مصّنف موصوف اپنی انجیل کو ضرور لکھےّ۔ اور جب کوئی کتاب مناسب طور پر عین برآمد مدّعائے خاص کے واسطے تصنیف کیجاتی ہے۔ تو اُس کی صحت اور وقعت پر اشتباہ وارد نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ یہ صورت ثابت بھی اس انجیل کی وجہ تصنیف ہونے کا کامل ثبوت رکھتی ہے۔ جیسا کہ راقم انجیل لکھتا ہے کہ تیرے لئے اے بزرگ تھیوفلس ۔۔۔۔۔ تاکہ تو اُن باتوں کی حقیقت کو جنکی تونے تعلیم پائی جانے۔
امر چہارم یہ ہے کہ وہ کُل واقعات جو اِس انجیل میں مندرج ہیں۔ مصّنف انجیل کے محض دماغ سے پیدا نہیں ہوئے بلکہ ایک شخص مخاطب مسمیّٰ تھیوفلس پیشتر سے اُن کی بابت تعلیم پاچکا تھا۔ اُنہیں کو ترتیب وار لکھنا مناسب معلوم ہوا۔ اور ہم کسی نئی بات پر شک ٍ لاویں تو لاویں مگر پورانی پایہ تصدیق کا مرتبہ رکھتی ہے۔ لہذا یہ کُل واقعات جو انجیل میں ہم پڑھتے ہیں۔ تصدیق شدہ ہیں۔ اور اِس لئے ضروری ہے کہ ہم اُنھیں اپنی زندگی کا دستور العمل ٹھہرائیں۔
یسوع ناصری کے ماجرے
یہ ماجرے سادہ مگر نہایت دلچسپ ہیں۔ جب پڑھے ایک نیا پہلو پڑیگا۔ کسی زبان میں ملاحظہ کیجئے ۔ طبیعت قبول کرنے کو حاضر ہو گی۔ کسی وقت پڑھئے۔ جی لگیگا۔ خوشی سے مطالعہ فرمائیے۔ دل میں سرور پیدا ہو گا۔ غم میں تلاوت کیجئے۔ تسکین ہو گی۔ اُس کے متعلق ہر حرف شنگرف ہے اور ہر لفظ نادر۔ ہر فقرہ دلربا ہے۔ ہر جملہ محّبت پیرا۔ اِس مین یہ خوبی ہے کہ پڑھنے والا کیسا ہی سنگین دل طبیعت کا سخت ہو۔ موم کی طرح پگھل جائے۔ کیسا ہی بدکار۔ ناہنجار ہو۔ نیکی پسند۔ صلح خواہ بنے کیسا ہی گناہ کو چاہتا ہو۔ اُس سے متنفّر ہو سُدھر جائے۔
ہاں یہ وہ مضمون ہے جسے قدرت نے فطرت میں ڈھالا ہے۔ بلکہ اُس سے بھی بڑھکر اعلیٰ و بالا ہے۔ وہ فوق العادت ہے مگر بقدر فہم ۔ ممکن الوقوع ہے۔ اُس کی عجیب زندگی میں چھوٹے بڑے ماجرے اِس ترتیب سے وابستہ اور باہم پیوستہ ہیں۔ کہ ایک کو درمیان سے نکالنا گویا نظام عالم کو درہم برہم کر دینا ہے۔ افسوس بعض اُن ناظرین خوردبین پر جو اپنی نارسائی فکر اور گندئے زہن سے لاچار ہو کر اپنی کو تاہ عقل کو نکتہ چینی کے میدان میں بے لگام گھوڑے کی طرح دوڑاتے ہیں کہتے ہیں کہ مرزا اسد اللہ خان غؔالب ایک دفعہ رات کو انگنائی میں بیٹھے تھے ۔ چاندنی رات تھی۔ تارے جھلکے ہوئے تھے۔ آپ آسمان کو دیکھ کر فرمائے لگے۔ کہ جو کام بے صلاح و مشورہ ہوتا ہے۔ بے ڈھنگا ہوتا ہے۔ خدا نے ستارے آسمان پر کسی سے مشورہ کر کے نہیں بناتے۔ جبھی بکھرے ہوئے ہیں نہ کوئی سلسلہ نہ کوئی زنجیر نہ بیل نہ بوٹہ۔ مگر جو ستاروں اور اُن کی قوّت کشش کے علم کو جانتے ہیں۔ وہ اِس امر کو خوب پہچانتے ہیں۔ اکہ اگر اُن بے شمار چھوٹے بڑے ستاروں میں سے ایک کو بھی اِدھر یا اُدھر کر دیا جائے۔ انتظام کے مطابق کیسی گڑ بڑی پڑ جائے۔ ایک ستارا دوسرے سے فوراً لڑ جائے۔ ہم تم سب فنا ہو جائیں، اُسی طرح یسوع ناصری کے ماجروں میں سے اگر ایک کو بھی اِدھر اُدھر کریں سارا انتظام جو اُس سے متعلق ہے جاتا رہے ۔
یسوع ناصری کے ماجرے
تکلف سے برُی ہے حُسن زاتی
قبائے گُل میں گُل بوٹا کہاں ہے
شروع سے یسوع ناصری کے ماجروں کو پڑھئے پہلی بات جو اُس میں آپ کو ملیگی۔ وہ یہ ہے کہ اُس کے بیان میں سادگی ہے سچ مچ جیسا کوئی بیٹھا ہوا معمولی باتیں کرتا ہے۔ خاص کر اُس کی پیدایش کا حال ملاحظہ فرمایئے۔ اب یسوع مسیح کی پیدایش یوں ہوئی کہ جب اُس کی ماں مریم کی منگنی یوسف کے ساتھ ہوئی تو اُن کے اکھٹے آنے سے پہلے وہ روح القدس سے حاملہ پائی گئی۔ متی ۱/۱۸۔
آؤ اب ہم اور آپ کسی باغ میں چلیں۔ دیکھئے وہ گُلاب کا پُھول کیسا عمُدہ کھِلا ہوا ہے۔ بھینی بھینی خوشبو دماغ کو معطر کرتی ہے۔ نسیِم صبح رفتہ رفتہ اور بتدریج جتنے اُس پھول کے قریب جاؤ۔ بوُئے خوش دماغ میں پہنچاتی ہے۔ اب زرا پُھول کی رنگت اور اُس کی سادگی پر نظر اور دوڑائیے۔ اوّل میں ہلکی پھر گُلابی پھر اور بغور دیکھئے گویا بحر احمر کی تہ میں نگاہ عبور کرتی ہوئی چلی جاتی ہے بظاہر اُسکی پتّیوں پر نہ کوئی نقش ہے نہ کسی طرح کا نگار تو بھی وہ بہار ہے کہ دِل ہی جانتاا ہے۔ نہ آنکھ میں طاقت کہ حد درجہ کی رنگت کو دیکھ سکے اور نہ زبان میں یارا کرشمہ بیان کرے۔ علیٰ ہذا لقیاس
یسوع ناصری کے ماجرے
میں پہلی نظر میں کچھ وقعت نہیں مگر رفتہ رفتہ جتنی بار پڑھو۔ دل کھچتا چلا جاتا ہے۔ کون شخص ہے کہ جو یہ الفاظ سُنے کہ اب یسوع مسیح کی پیدایش یوں ہوئی اور اپنے کانوں کو نہ جھُکاوے۔ تمنے بار ہا بازاروں اور میلوں میں تجربہ کیا اور یقیناً اور بھی واعظ ہمارے بیان کی تصدیق کریں گے کہ جب کبھی مسیح کی پیدایش کا بیان شروع کیا جاتا ہے۔ لوگ کاموشی کی حالت میں متوّجہ ہو کر سنتے ہیں۔ لیکن یہ نہیں کہ وہ اُس کو فوراً تسلیم بھی کر لیتے ہوں سو نہیں بعدہ اعتراض کرنے ہیں اور غیر ممکن کو مارا مارا ایسی ہوتی ہے۔ جیسے غدر مچا ہو۔تو ابھی اَس میں کلام نہیں کہ اُس کی پیدایش کا حال سننُے والوں کو دلونپر ایک حالت جاری کر دیتا ہے۔
یسوع کے ماجرے
میں اکھٹے آنے سے پہلے والا جملہ سادہ تو ہے یعنی نہ اُس میں منطق ہے نہ فلاسفی نہ ریاضی نہ الجبرانہ ایچ پیچ تو بھی سادہ لوحوں کے عجیب خلجان پیدا ہوتا ہے۔ اور بے سوچے سمجھے اُٹھتے ہیں کہ یہ ہو نہیں سکتا۔ غیر ممکن ہے اسمبھنو ہے۔ ہم نےکبھی نہیں سنا اور کبھی نہیں دیکھا کہ ایسے ماجرے دنیا میں کبھی ہوئے ہوں۔ تو بھی ہمارا جواب ایسے لووگوں کے واسطے سادہ عبادت میں یوں ہے کہ
یسوع ناصری کے ماجرے
میں اِس جملہ اکھٹے آنے سے پہلے میں کوئی ایسی انہونی بات نہیں ہے۔ جس پر کوئی آدمی ایسا گھبرا اُٹھے کہ نہیں نہیں کہنے لگے۔ ذرا ٹھہرو۔ دل کو قبضہ میں رکّھو ابھی سمجھے جاتے ہو ۔ فی الحقیقت کھیر تو سیدھی ہے۔ مگر حافظ جی عدم بصارت کے سبب سے اُس کو ہنسیا کی طرح اپنے حق میں ٹیڑھا کئے لیتے ہیں۔ کیونکہ جہاں تک خیال کیا جاتا ہے۔ محال دو ہیں۔ ایک محال عقلی دوم محال عادی۔ مسیح کی پیدایش میں اکھٹے آنے سے پہلے والا جملہ محال عقلی نہیں ہے۔ جبکہ خداوند خدائے قادر مطلق ہے۔ جو دو مرد و عورت سے ایک تیسرا بچہ پیدا کر سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ وہ ایک ہی سے دوسرا بناوے۔ کوئی ہدایت عقل مانع نہیں۔ سلسلہ عالم میں آدم کے سلسلہ کو لوٹ جائیے۔ آخر میں آپ کو ماننا پڑیگا کہ خدا ایسا قادر مطلق ہے کہ بغیر مردو عورت کے پیدا کر سکتا ہے۔ پس یہ واقعہ موجودہ محال عقلی نہیں ہے۔ مگر محال عادی البتہ ہی در آنحالیکہ ابتدائے آفرینش آدم سے اب تک خداوند یسوع ناصری کے اور کوئی شخص ہائیں ہیت کزائے پیدا نہیں ہوا۔ پس عادت سے محال ہوا۔ لیکن دنیا میں بہتیری باتیں ہیں جو عادتاً محال ہیں تو بھی اُسکے وجود سے انکار نہیں ہو سکتا۔
یسوع ناصری کے ماجرے
میں معترضین اس جملہ کا خیال نہیں کرتے۔ وہ روح القدس سے حاملہ پائی گئی۔ متی ۱/۱۸۔ ہم جہانتک حقیقت کو پہنچے ہین اور جو کچھ اب تک دریافت ہوا اُس کے مطابق کوئی نہیں کہ سکتا کہ یسوع مسیھ کی پیدایش میں قانون ایزدی شکست ہو گیا۔ البتہ اجرائے قانون کی حالت میں تبدیلی واقع ہوئی اور وہ بھی دوامی اور استمراری نہیں بلکہ ایک خاص غرض کے پورا کرنے کو ہوا جو کچھ کہ ہوا بحر حال قانون خُتص الامر ہمیں مجبور کرتا ہے۔ کہ ہم یسوع ناصری کی پیدایش فوق العادت کے ماننے میں عُذر نہ کریں ۔ ورنہ قانون الہٓی کی اُس سخت انحراف اور صاف لفظوں میں بغاوت اور سرکشی کے مجرم ہو کر سزا یا ب ہو گے ایک مسیحی مذہب کا سخت بلکہ ہولناک مخالف جس نے مسیحیوں کے حق میں بہ آواز بلند یہ گواہی دی کہ لقد کفر الزی والی آیت جس کا ترجمہ یوں ہے۔ کہ تحقیق وہ لوگ کافر ہیں جو کہتے کہ مسیح وہی خدا ہے۔ اور جہاں تک اُس سے ممکن ہوا۔ مسیحیت کی مخالفت میں کچھ اُٹھا نہیں رکھتا ۔ تو بھی اپنے محاورہ میں مسیح کے حق میں ہمیشہ ابن مریم استعمال کیا اور اس سوال کے جواب میں کہ وہ کس سے پیدا ہوا۔ اور ہو ہ کون ہے۔ یہ کہا کہ تحقیق مسیح عیسیٰ مریم کا بیٹا اللہ کا بھیجا ہوا اور کلام خدا کا اور روح ہے۔ اُس سے لیکن عربی ریفارمر کے بیان میں ایک عجیب اکٹ پھیر ہے۔ جس سے معتقدین قرآن اور اُنھیں سے بھاگے یعنے محمدیوں سے سنُے سنائے۔ اکثر ہندوؤں کو بھی یہ وہم پیدا ہوا کہ اس آیت میں روح سے مراد جبرائیل فرشتہ ہے۔ جس کا خلاصہ بعض نے یہ تراشا کہ گویا خداوند یسوع مسیح جبرائیل فرشتہ سے پیدا ہوا۔ اور اِس بدگمانی سے سورہ مریم کی اِن آیتوں سے نشونما حاصل کی ہو گی۔ پس بھیجا ہم طرف اُس کے روح اپنی کو یعنے فرشتہ کو پِس صورت پکڑی واسطے اُس کی آدمی تندرست کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پس حاملہ ہوگئی ساتھ اُس کے لیکن اصلی آیتوں میں فرشتہ کا لفظ مطلق نہیں۔ ترجمہ میں البتہ لفظ یعنے کے ساتھ درج ہے۔ اصل عربی آیت یوں ہے فَأَرْسَلْنَا إِلَيْهَا رُوحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِيًّا ۔۔۔۔۔۔ فجملتةٰ الخ
البتہ فتمثل بہا میں بشر کا لفظ اُس بدگمانی کا موید معلوم ہوتا ہے۔ لیکن معلوم نہیں ہو سکتا کہ جناب پیغمبر ؐ کو کسِ خدا نے یہ اُلٹی و حی بھیجی جو اُس کے اس کلام کے سخت مخالف ہے۔ جس کا زکر متی اور خاص کر لوقا کی انجیل میں مذکور ہے کہ فرشتے نے مریم سے کہا کہ روح قدس تجھپر اتریگی اور خدا ئے تعالیٰ کی قدرت کا سایہ تجھپر ہوگا اِس سبب سے وہ قدوس بھی جو پیدا ہوگا خدا کا بیٹا کہلائیگا لوقا ۱/۳۵۔ اِس سے صاف معلوم ہو گیا کہ فرشتہ اور ہی اور روح القدس اور ہے یعنے فرشتہ وہ ہے جو کلام کر رہا ہے۔ اور روح القدس وہ ہے جس کی بابت کہا گیا کہ وہ مریم پر نازل ہو گی۔ پس عقل یہ چاہتی ہے کہ جس طرح ہم محمد صاحب کی پیدایش کے بیان میں رامائن اور بھاگھوت کو تلاش نہ کریں گے اور رامچندر کی پیدایش کے بیان میں قرآن اور حدیث کو نہ لیں گے۔ اُسی طرح یسوع ناصری کی پیدایش کے بیان میں قرآن سے متمثک نہ ہونگے۔ چہ جائیکہ در صورت اختلاف صریح اور دروغ فضیح اور جبکہ خود محمدی برارد بجائے ابن مریم کے مسیح کو ابن جبرائیل نہیں کہتے تو کیا ضرور ہے کہ ہم اِن داہی باتوں میں اوقات ضائع کریں۔ البتہ اُس سارے بیان سے یہ تو معلوم ہو گیا کہ یسوع مسیح کی پیدایش میں قانون فطرت بجائے خود بحال رہا۔ وہ آدمی سے پیدا نہیں ہوا مگر روح الہٓی کی قدرت اور وسیلے سے اُس کا جسم انسانی مریم کے شکم میں طیار کیا گیا۔ یعنی مریم روح القدس سے حاملہ ہوئی ۔ جبکہ کنواری تھی اور کسی مرد نے اُسے نہیں چُھوا تھا۔ ہمارے خیال میں معقول سوال اِس مقام پر یہ ہونا ضروری ہے کہ موجودہ قانون پیدایش انسانی کی تبدیلی کی کیا وجہ ہے اور یسوع مسیح بغیر انسانی میل کے کیوں پیدا ہوا۔ ہاں ہم تیار ہیں کہ اِس سوال کا جواب بڑی خوشی کے ساتھ لکھیں اور ناظرین اور نیز سامعین اور خود مخالفین بغوُر سنُیں۔
یسوع ناصری کے ماجرے
میں اگرچہ اس کے طریقہ پیدایش کو بیان کرنے میں اتنی بڑی ضرورت نہ تھی کہ اُس کی موت اور قیامت کے ظاہر کرنے میں اور چاروں انجیلیں بلکہ اعمال اور بعض خطوط مشمولہ عہد جدید ہمارے خیال کی تائید بھی کرتے ہیں۔ یعنی کیا سبب ہے کہ اُس کی پیدایش کا بیان متی اور لوقا صرف دو انجیلوں میں پایا جاتا ہے۔ لیکن اُس کی موت اور پھر جی اُٹھنے کا زکر چاروں انجیل میں بڑی شرح اور تفصیل کے ساتھ ہوتا ہے۔ اِس امر کا ضرور خیال ہے۔ ہم اگے چل کر کسی مقام پر اس کا پورا بیان ہدیہ ناظرین کریں گے۔ مگر اِس وقت اُس کی پیدایش معجزانہ کا سبب بتائیں۔
آدم کو چھوڑو اِس واسطے کہ بغیر ماں اور باپ کے پیداا کرنے کی یہ ضرورت لاحق تھی کہ وہ خود ہی پہلا آدمی تھا۔ اور اُسی سئ نسلاً بعد نسلاً اِنسان پیدا ہونے آئے ہیں۔ البتہ آدم کی جورو جبکہ آدم موجود تھا مگر کوئی عورت نہ تھی خدا نے محض مٹی سے نہیں بلکہ آدم سے اُس کو نکالا۔ وہاں بھی ضرورت تھی۔
یسوع ناصری گنہگاروں کے بچانے کو دنیا میں تشریف آور ہوا۔ اور جس حال میں کہ کُل انسان زاتی اور صفاتی گناہوں میں مبُتلا تھے اور آدم اور اُس کی کُل نسل ایک نجات دہندہ کی محتاج تھی اور یہ امر کسی پر پوشیدہ نہیں کہ گنہگار گنہگار کو نہیں بچا سکتا ہے کیونکہ اندھا اندھے کو راہ دکھا سکتا ہے۔ اِس ضرورت کے رفع کرنیکو قدرت ِ الہٓی نے یہ انتظام کیا کہ اُقنوم ثانی آدم کے سلسلہ سے علیحدہ مجّسم ہو اِنسان بنے اور شریعت کی تکمیل اپنے زمّہ لے اور گناہ کی سزا برداشت کرے۔ ہم خیال کرتے ہیں کہ اِنسان ایک دوسرے کے گناہ کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔ کیونکہ ہر ایک بزات خود گنہگار ہے۔ اِس لئے ضرور ہوا کہ نجات دہندہ کنواری مریم سے ظہور پزیر ہو۔
یسوع ناصری کے ماجرے
ہم کو صاف طور پر آئینہ دکھلاتے ہیں کہ ابتدائے آفرینش سے آجتک پردہ زمین کے کسی حصّے پر سوائے یہودیہ کے بیت الحم ایسا بے گناہ شخص کبھی ظاہر نہیں ہوا ہم زر دشت کے حال سے واقف ہیں۔ کنفوشیس کو جانتے ہیں۔ ہمارے ملک ہندوستان کا بودھ عرب کے پیغمبر بنگال کے راجہ رام موہن رائے اور ہ کے راجہ رامچندر اور متھرا کے کرشن۔ بنی اسرائیل کے موسیٰ داؤد سلیمان سب کی تصویریں نگاِہ روبرو ہیں۔ گویا انکی مورتیں و پتُلیاں بنکر انکھوں میں اس وقت گھوم رہی ہیں۔ مگر بصد افسوس یہ کہنا پڑتا ہے کہ آدھ پسے سرمہ کی مانند آنکھونمیں کھٹکتے ہیں۔پچھلے دِن گزر گئے جب کتابوں کی سخت قِّلت تھی۔ آج وہ دن ہے کہ چھاپہ خانوں نے روپیوں کی کتابیں کوڑیوں کے مول کریں ۔ حق پسند گورنمنٹ نے آزادی عنایت کی ہے۔ مصنف مجاز ہیں کہ اپنے اپنے بزرگان دین کی سوانح عمریاں لکھیں۔ چھپوائیں۔ مشتہر کرائیں۔ یہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی کوئی نظر نہ آیا۔ جنے جلیل کے مچھوؤں کی مانند کسی ایسے شخص کی زندگی دکھائی ہوتی جس سے زندگی کا چشمہ بہتا ہوا ہم روحانی تشنہ کاموں تک پہنچتا۔ تاکہ اُس چشمہ حیات سے سیراب ہو کر پھر شبنم سے پیاس نہ بجھاتے
یسوع ناصری کے ماجرے
بآواز بلند پکارتے ہیں اگر کوئی پیاسا ہو مجھ پاس آوے اور پئے جومجھ پر ایمان لاتا ہے اُس کے بدن سے جیسا کتاب کہتی ہے۔ جیتے پانی کی ندیاں جاری ہونگی۔ ناظرین شاید ہم بھولتے ہوں آپ ہی اُس فہرست میں جس کا زکر اوپر ہوا کسی کو پیش کریں۔ خاص ایسی حالت ناگفتہ بہ میں کہ سماجوں پر سماجیں استہا پت ہوتی ہیں۔ برہم سماج۔ پرارتھنا سماج۔ دیو سماج ۔ آریہ سماج۔ سنائن سماج اور انجمنوں پر انجمیں قایم ہوتی ہیں۔ کانفرنسیں نشست کرتی ہیں۔ اور اس پر بھی پیاس بڑھتی جاتی ہے۔ اس کا کیا سبب ہے۔ حضرت کیا اب تک وہ وقت نہیں آیا کہ اہل ہند مصیبت کے پنجوں سے رہائی پائیں پرانے گورد قدیمی مُرشدان پبچارے گناہ کے مارے ہوؤں کا سر مونڈ چُکے اب صرف گھٹنا مونڈ نا باقی ہے۔ ہائے افسوس کتنا کھو چکے اور پھر بھی نہ سیکھے۔
سورج کو چراغ مت دکھاؤ
آؤ آؤ یسوع ناصری کی تصویر ملاحظہ کرو۔ اُسے اپنے سامنے رکھو۔ اور دیدہ حق مین سے دیکھو کہ کوئی مرد اُس کی مانند دنیا میں نہیں
یسوع ناصری کے ماجرے
میں اس کی بارھویں برس کی داستان بھی عجیب و غریب ہے۔ مگر بیان وہی سادہ بغیر الجھاؤ کے ہاں سہل ممتنع اسکو کہتے ہیں بارہ برس کی بساط کیا ہمارے دیس کے لونڈے لنگوٹی تک درستی سے نہیں باندھ سکتے۔ تعلیم یافتہ مشن دھکیل دھکیل کر مدرسوں میں بھیجتے۔ وہ راستہ میں گولیاں کھیلتے۔ ایک دوسرے سے گالی گفتار بلکہ جوتی پیزار بھی۔ اور یہ نہ جھوٹی امت والے بلکہ خاندانی شرافت کی نشانی۔ اسکول سے ایسے بھاگتے ہیں جیسے غول بیابانی یا افواج شیطانی بچارے راہ گیروں کو اُ لّو بنا کر چھوڑیں ہم مان لیتے ہیں کہ جب بیس برس سے اوپر سر کے۔ تب اُنہیں ہوش آیا۔ اور ایسوں ہی میں سے بعض نکلے جو مختلف اقوام میں لیڈر کہلائے۔