Palm Tree Fruit

محمدُئیوں کے نا پائیدار خیالات

راقم۔۔۔۔۔ کمترین سعید الدین۔


The Ideas of Mohammed are not Sustainable

Syed-u-Din

Published in Nur-i-Afshan Sep 26, 1897


تھوڑے دن کا زکر ہے کہ جب میں بازار کو جا رہا تھا۔ ناگہاں ایک شخص کسی گاؤں کے رہینوالا جس سے میری واقفیت تو چنداں  نہیں تھی۔ملا اور اُس نے مجھے بڑی  محّبت سے بلایا۔ اور کچھ گفتگو کےبعد مجھسے پوچھا کہ میں نے  سُنا ہے کہ  آپنے سادات کے نام کو ڈبا دیا یعنے عیسائی  ہوگئے۔ مینے جواب دیا کہ ہاں بھائی یہ سچ ہے کہ مینے عیسائی دین کو بڑی  سے قبول کر لیا ہے۔ کیونکہ نجات خدا وند مسیح سے ہے۔ اور کسی سے مطلقاً نہیں ہو سکتی  ہے۔  یہ سنکر بولا  کہ افسوس کی بات ہے آپ نے دراصل  بہت  ہی نامناسب کا م کیا ۔ کہ حضرت محمد صاحب  کی آل و اولاد  میں سے ہو کر پھر آخحضرت  کو گویا ردّ  کر دیا۔ مگر آپ یہ سمجھ رکھیں کہ دن قیامت کے آپکا منُہ سیاہ ہو گا اور ابدی سزا کے وارث ہوگے۔ کیونکہ جب عیسیٰ کو صلیب دینے لگے تو خدائے  واحد کی قدرت  کا ملہ سے عیسیٰ کو آسمان پر اُٹھایا  گیا۔ اور عیسیٰ کی عوض  اُسی شکل  کا آدمی مصلوب ہوا۔ اور شیطان سے اہل نصاریٰ کے لئے کل نصیحتیں  جو آجکل اُس دین کی بنیاد ہیں ایجاد  ہوئیں ۔ بھلا یہ ہو سکتا ہے کہ عیسیٰ خدا کا بیٹا ہووے اور وہ گنہگاروں کے لئے قربان ہووے۔ خدا کو بیٹوں کی کچھ ضرورت نہیں  وہ خود خُدا ہے۔  اور عالم الغیب خدا ہے۔ یہ بڑا بھارا شرک ہے کہ عیسائی  لوگ خدا کی واحد و پاک  ذات کو جو لاشریک ہے۔  دھّبا لگاتے ہیں۔ میں سچ کہتا ہوں کہ جب عیسائی لوگ خدا کو ایسا دھّبہ  لگاتے ہیں تو عیسیٰ کو آسمان میں بڑی شرم آتی  ہو گی۔ اور توبہ کر کے حضور  میں کلمۂ استغفار  کا پڑہتا ہوگا۔ اور نہ آجکل اور نہ اس سے پہلے کوئی عیسائیوں میں سے بزرگ  ہو کر مرا ہے۔ کہ جس کی خانقاہ پر خلق اﷲ اُس بزرگ کے زریعہ سے اپنی رفع حاجات  کے واسطے آویں۔ اور فیض پاویں۔ چنانچہ ایسے بزرگ دین محمدی میں ہیں کہ جو صدہا  سال سے اِس جہان فانی سے رحلت کر گئے۔ الا ان کی خانقاہیں آجتک موجود ہیں۔ اور خلق خدا اُن کی خانقوہوں پر جاتی  اور اِن کی رفع حاجات  ہوتیں۔ اور اِگر کوئی اُن بزرگوں کی کانقاہ پر جاوے۔ اور کسی قسم کی بے عزتی کرے تو اُس کو سزا ہوتی۔ اور یہ بھی آپ  سمجھ لیویں کہ محمد صاحب اور خدائے واحد میں کچھ فرق نہیں ہو۔ چنانچہ ایک دفعہ کا زکر ہے کہ جب وحی آخحضرت کے پاس کچھ پیغام آلہی لے کر آیا تو اُس وقت حضرت محمد دستار مبارک باندہ رہے تھے۔ اِس موقعہ پر حضرت نےجبرائیل فرشتہ سے پوچھا کہ جو  احکام  آپ میرے واسطے  لاتےخدا کی حضور سے کس طرح ملتے۔  اُس نے جواب دیا کہ میںایک نور چادر کے باہر بلایا  جاتا ہوں اور جوحکم مجھے ملتا ہے میں آپ کے پاس لاتا ہوں تب حضرت نے کہا کہ آج آپ نے ضرور اُس پردہ کے اندر جانا۔ فرشتہ نی یہ مصرع پڑہکر کہ  ( اگر ایک سرِموئے برتر پرم۔ فروغ تجّلیبسوز د پرم) کہاکہ میری کیا مجال کہ ایک بال سر کے موافق   آگے جاؤں۔ مگر حضرت نے فرشتہ کو برملا پردہ کے اندر جانے کا حکم دیا۔  سو جب وہ مجبور ہوا، تو وہ اُس دن پردہ  کے اندر گیا۔ کیا دیکھتا ہے کہ حضرت وہاں بھی دستیاب مبارک باندہ رہے تھے۔ سو فرشتہ ہکاّ بکاّ رہگیا۔ اورکہنے لھا کہ سبحان اﷲ سچ ہے کہ حضرت سب جگہ آپکا ہی نور و ظہور ہے۔ تب حضرت نے کہا کہ سچ ہے کہ اول   ماخلقﷲ نوری یعنےسب سے پہلے ہمارا ہی نور تھا۔ اور پھر خدا نے  آخحضرت  کے حق میں صاف  فرمایا ہے کہ    لولاک لما خلقت الافلاک (یعنے اے محمد اگر میں ناپیدا کرتا تمکو تو نہ پیدا کرتا زمین و آسمان کو)

اور سنُئے کہ حضرت نے جب وفات پائی تو اصحابوں سے ایک اُس وقت  موجود نہ تھا۔ اُس کی کاطر لاش کو امانتاً زمین میں گاڈ دیا جب وہ اصحاب آیا۔ اور لاش  نکالی گئی۔ تو حضرت کے ہونٹھ  مبارک ہلتے ہوئے پائے تب سب نے غور کیا۔ کہ ہونٹھ کیوں ہلتے ہین اور کیا الفاظ  نکلتے ہیں جب اصحابوں نے غور کیا۔ تو لفظ  امتؔی۔ امتؔی نکل رہا تھا۔ جس کا ترجمہ یہ ہے کہ  ( اے خدا اے خدا  میری اُمت کو بخش) اور یہ کلمہ  تارو ز قیامت حضرت کی زبان سے جاری رہے گا۔  سو آپنے بڑی غلطی کری۔ کہ ایسے حضرت کو چگوڑ کر عیسیٰ کے پیچھے ہو لئے۔ اور خصوصاً گڑھے میں گر گئے۔  آّپ جلدی توبہ کریں غرض  اُس شخص نے برا طول و طویل قصہّ کیا۔ اور اِس اثناء میں بہت آدمی جمع ہو گئے۔ اور میری کوئی نہیں سنُتا تھا۔ جب یہ آدمی تھک گیا۔ تو مینے کہا کہ بھائیو اب اگر  کہو تو میں کچھ عرض  کروں ۔ تب ایک نے کہا کہ اچھا کہو اور وہ خود ہی اگر کوئی کچھ میری بات چیت  میں بولتا  تھا تو کہتا تھا   کہ سن  زرا چپ  رہو اس کی بھی سن لو۔ اُس دقت مینے اُن سے کہا کہ جو محمد صاحب کی بابت آپنے زکر کیا یہ کہاں لکھا ہے زرا مجھے بتلادیں۔ کیونکہ قرآن میں ایسا زکر کہیں نہیں ہے۔ حالانکہ قرآن اہل اسلام کے لئے ایک بھاری بنیاد ہے اور اس پر سارا اس دین والوں کا دارو مدار ہے۔  اور خاص کر قرآن میں لکھا ہے کہ جب خدا نے حضرت کو گنہگار دیکھا تو  سورہ مومن میں اگر آپ دیکھیں تو ساف لکھا  ہے کہ  فاصبروانُ عدﷲ حق واستغفرالزنبک وبسیح بحمد ربک بالعشی والربکار یعنی اے محمد تو صبر کر کہ وعدہ  سچا ہے اور اپنے گناہوں وے معافی مانگ اور صبح و  شام  خدا کا شکر کر۔ پس اس سے معلوم ہوتا ہےکہ جب محمد  کو خدانے گناہوں میں غلطاں و پیچان دیکھا تو فرمایا کہ بس اب صبر  کرو اور میرا وعدہ سچ کر مان کہ میں گنہگاروں سے نفرت کرتو ہوں اور ضرور تو مجھسے معافی  مانگ۔ اور میرے رحم کےلئے  کہ میں تجھے ایسی ناپاکی کی حالت  میں دیکھکر حکم دیتا ہوں  کہ اب  صبر  کر اور معافی  مانگ شکر کر۔ کہ میں نے بجائے  دینے سزا کے تمہیں معافی دینی مناسب  سمجھی سو سچ ہے کہ وہ رحیم  خدا کسی گنہگار  کی حلاکت  نہیں چاہتا  جیسا کہ اِنجیل  متی کے ۱۱: ۲۸ آیت میں ہے کہ خداوند مسیح خود فرماتا ہے ( اے تم لوگو جو تھکے  اور بڑے بوجھ سے دبے ہو سب میرے پاس آؤ کہ میں تمہیں  آرام  دونگا) سو اے بھائیو خداوند مسیح گنہگاروں کیواسطے اس جہان میں انسان بنکے آیا۔  اور ہزاروں طرح کے دُکھ  اور تکلیف اُٹھا کر  آخر کار مصلوب ہوا۔ اور وہ گنہگاروں کو اپنے پاس بڑی محّبت سے بولاتا ہے اور سب پیغمبر  کہتے ہیں کہ خدا کے پاس جاؤ پر مسیح فرماتا ہے کہ میرے پاس آؤ۔ اس لئے کہ وہ خدا ہے۔  اور پھر خداوند  مسیح فرماتا ہے کہ ( میں تمہیں آرام دونگا) اور اور پیغمبر  لوگ کہتے ہیں کہ آؤ  ہم تمہیں بتلاویں گے کہ کہاں سے آرام مل سکتا ہے۔  الا اس پر خدا وند مسیح فرماتا ہے کہ  ( آؤ میں تمہیں آرام  دونگا)۔

اب آپ زرا غور فرماویں کہ یہ کس کی آواز ہے  آیا خدا کی ہے یا کسی مخلوق کی۔ میرے بھائیو ایسی بات کبھی کسی مخلوق نے نہیں کہی۔ کہ تھکی ماندہ روح کو میں آرام  دونگا۔  اور نیز کسی مخلوق کو ایسی بات کہنی صریحاً کفر ہے۔  مگر صرف خدا کو جائیز ہے جو سب پر قادر ہے اور سب پر اختیار  رکھتا ہے۔  سو خداوند مسیح خود خدا ہے اور وہ فرماتا ہے۔ اور سچ ہے کہ ہر ایک قسم کا دُکھ  و تکلیف وغیرہ خدا سے دوری میں ہیں  اور سارا آرام  و خوشی و سکھ خدا کی نزدیکی  میں ہے۔  پس اگر کوئی آدمی  نجات چاہے تو  جو طریقہ خدا  نے مقرر کردیا  ہے اُسی طریقہ سے لے سکتا ہے اور مقررہ طریقہ ضرور آرام ملے گا۔ اور معرفت کے اسرار رکھیں  گے۔ اور خداوند مسیح تمام گنہگاروں کے لئے صلیبی موت سے مرا ہے۔ اور محمد صاحب کو جس  حالت میں خدا معافی مانگنے کے واسطے فرماتا ہے نجات کے لئے کیا اُمید کیجاسکتی ہے۔ اور اُنکی پیروی کرنی بالکل نادانی ہے۔

میرے بھائیو کہیں قرآن میں ایسی آیت نہیں ملتی کہ جس سے گنہگاروں کے لئے تسلّی حاصل ہووے آپنے جیسا قصّہ  مجھے سنُا یا وہ قرآن میں  کہیں  نہیں ہے۔  اس لئے میں جانتا ہوں کہ یہ آپکے لچرو لوچ خیالات ہیں۔ خدا کا شکر آپ لوگوں کے دل کی آنکھیں کھولے اور آپ لوگ خداوند مسیح کے پاس  آؤ  اور خدا تعالیٰ کے حضور پکار کر کہو کہ اے ہمارے باپ آسمانی ہم گنہگاروں پر خداوند  مسیح کی خاطر سے رحم کر۔ اس کے بعد ناراض ہو کر لاحول لاحول  کہتے ہوئے چلے گئے۔ سو سوائے افسوس کے ایسے خیالات کو اگر نابائیدار  نہ سمجھا جاوے تو اور کیا سمجھا جاوے۔