حِیَات ابدی

Eternal Life

Published in Nur-i-Afshan May 11, 1894

حیات ابدی یہ ہے کہ وہ تجھے  اکیلا  سچّا خدا اور یسوع مسیح کو  جسے  تو نے  بھیجا ہے۔ جانیں۔ یوحنا ۱۷۔ ۳۔

حیات ابدی یہ ہے کہ وہ تجھے اکیلا سچّا خدا اور یسوع مسیح کو جسے تو نے بھیجا ہے۔ جانیں۔ یوحنا ۱۷۔ ۳۔ دارین میں حیات ابدی ایک ایسی چیز ہے جس کےبرابر کو ئی دینی و دنیوی نعمت ہو نہیں سکتی ۔ مگر افسوس ہے۔ کہ مغلوب المعصیت انسان اُس کے تلاش و حصول میں یا تو بالکل غافل و بے پروا پایا جاتا ہے۔ یا اگر اس کی کچھ خواہش ہے بھی تو اُن وسایل اور طریقوں سے اُس کو حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ جو محض انسانی ایجاد ہیں۔ انسانی روح کا یہ تقاضا کہ وہ حیات ابدی کو حاصل کو حاصل کرے۔ باوجود دنیوی آرایشوں میں مبتلا ہو جانے کے بالکل معدوم نہیں ہوا۔ بلکہ اِنسان کے ہر ایک خیال و قول و فعل سے ظاہر ہوتا کہ وہ حیات ابدی کا آرزو مند و محتاج ہے۔ یہ ایک ایسی عجیب شے ہے کہ اگرچہ دنیا پرستوں کے نزدیک قابل مضحکہ اور صرف ایک خیال بے حقیقت ہے۔ مگر طالبان حق کے نزدیک دین و دنیا میں اور کو ئی شے اُس سے زیادہ مبارک۔ جلالی اور خوشی بخش نہیں ہے ۔ اسی لئے مرنے والے بنی آدم حیات ابدی حاصل کرنے کے لئے جہاں تک اُن کی دسترس ہے انواع کوششیں کرتے ہیں ۔ مگر نہیں جانتے کہ وہ ’’حیات ابدی یہ ہے‘‘۔ جیسا کہ دنیا کے مرشد کامل نے فرمایا کہ ’’ وہ تجھکو اکیلا سچّا خدا اور یسوع مسیح کو جسے تو نے بھیجا ہے جانیں۔‘‘ اگر کو ئی انسان جو گناہ میں مردہ ہے اور اس دنیا میں گویا زندہ درگور ہے۔ حیات ابدی کا طالب ہو۔ تو وہ صرف اُس کرالم مجسمہ کے قدموں میں آئے۔ جس میں ’’زندگی تھی۔ اور وہ زندگی انسان کا نور تھی ۔ اور تب وہ مسیحی شاعر کے ہم آہنگ ہو کر بدل کہے گا کہ:۔

نہ علم ۔ نہ حکمت۔ نہ ہنُر سے پایا۔ حرفت سے مشُقت سے نیز پایا خم ہو کے جو دیکھا سوئے فردوسفیرہ سیدھا رستہ یسوع کے در سے پایا ۔

ہم کو تعجب معلوم  ہوتا کہ اکثر  ابدی زندگی کے لئے  آبحیات کے طالب  ہو کر مرنے والے ہمجنسوں کے چرن اَمرت۔ اور قدم شریف  کے پانی  سے اپنی سیاسن بجھانا چاہتے ہین۔ اور اُس چشمۂ آبحیات  کے پاس نہیں  آتے۔  جس کی مبارک شان میں مسیحی شاعر نے کہا ہے۔

’’زادی ابر رحمت نے کھڑا ہو کر یہ ہیکل میں۔‘‘

’’کہ آب زندگی دیتا ہوں آئے جس کا جی چاہئے‘‘۔ شاید کو ئی کہہ سکتا  کہ در حالیکہ ۔ مین موّحد ہوں۔

تہیٔسٹ۔ یونیٹیرین ۔ اور محمدی ہوں۔ اور خدا کو اکیلا سچّا خدا جانتا ہوں تو میرے لئے مسیح کے جاننے کی کیا ضرورت ہے۔ ہاں اس قدر جانتا ہوں۔ کہ وہ ایک نبی یا رسول  ایک معنے سے خدا کا بیٹا بھی۔ اور اپنی اُمت کا شفیع ہے۔ لیکن یہ علم نجات بخش نہیں ہو سکتا۔ تاوقتیکہ ہم اُس حقیقت  پر ایمان نہ لائیں۔ جس پر اسی رسول  نے شہادت دہ ہے۔ کہ ’’ہم جانتے ہیں کہ خدا کا بیٹا آیا۔ اور ہمیں یہ سمجھ بخشی۔ کہ اُس کو جو برحق ہے جانیں۔ سو ہم اُس میں جو برحق ہے رہتے  ہیں۔ یعنے اُس کے بیٹے یسوع مسیح  میں۔ خدائے برحق اور یہی حیات ابدی بھی ہے۔ فتامل۔ ۱۔ یوحنا ۵۔ ۲۰۔