مسیح گنہگاروں کاکفارہ
Christ's Atonement for Sinners
Published in Nur-i-Afshan November 1873
By Rev. Elwood Morris Wherry
(1843–1927)
پرچہ ہائے گزشتہ اخبار میں مسح کی الوہیت اور انسانیت کا بیا ن ہوا ۔ اب اُس کے کفارہ ہونے کا ثبوت پیش کیا جاتا ہے ۔ (ا) نبیوں کی کلام میں مسیح جابجا کفارہ کے طور پر بیا ن ہوا ہے خاص کر یسعیا نبی کی کتاب میں دیکھو ۵۳ باب اور اُسکی ۴۔ ۵۔ ۶۔ ۸۔ آیت اِسمیں یوں بیان ہے یقیناً اُسنے یعنی مسیح نے ہماری مشقتیں اُٹھالیں ۔ اور ہمارے غمونکا بوجھ اپنے اوپر چڑھایا ۔ پر ہم نے اُنکا یہ حال سمجھا کہ وہ خدا کا مارا کؤتا اور ستایا ہوا ہے پر وہ ہمارے گناہونکے سبب گھایل کیا گیا اور ہماری بدکاریونکے سبب کچلا گیا۔ ہماری ہی سلامتی کے لیے اُسپرسیاست ہوئی تاکہ اُسکے مار کھانے سے ہم چنگے ہوویں ہم سب بھیڑوں کی مانند بھٹک گئے اور ہم میں سے ہر ایک اپنی راہ سے پھرا اور خداوند نے ہم سبھوں کی بدکاری اُسپر کادی ایزا دیکے اور اُسپرحکم کر کے دے اُسے لیگئے۔ پر کون اُسکے زمانہ کا بیان کریگا کہ وہ زندونکی زمین سے کاٹ ڈالا گیا میرے گروہ کے گناہونکے سبب اُسپر مار پڑی اُسکی قبر بھی شریرونکے درمیان ٹھہرائی گئی تھی پر اپنے مرنیکے بعد دولتمندو نکے ساتھ وہ ہوا کیونکہ اُس نے کسی طرحکا ظلم نہ کیا اور اُس کے منہ میں کسی طرح کا چھل نہ تھا لیکن خداوند کو پسند آیا کہ اُسے کچلے اُسنے اُسے غمگینکیا جب اُسکی جان گناہ کے لیے گزرانی جاوے تو وہ اپنی نسل کو دیکھیگا اور اُسکی عمر دراز ہو گی۔ اور خدا کی مرضی اُسکے ہاتھ کے وسیلے برآویگی اپنی جان کا دُکھ اُٹھا کے وہ اُسے دیکھیگا اور سیرہو گا ۔ اپنی ہی پہچان میرا صادق بندہ بہتوں کو راستباز ٹھہراویگا کیونکہ وہ اُنکی بدکاریاں اپنے اوپر اُٹھا لیگا۔
اور دانیال نبی ۶ باب میں پیدایش مسیح سے چار سو نوے برس پیشتر یوں کہتا ہے کہ بدّکاری کی بابت کفارہ کیا جاویگا اور مسیح قتل کیا جاویگا پر نہ اپنے لیے ۔
مسیح کے کفارہ ہونیکا زکر انجیل میں بہت جگہ ہے چنانچہ نیچے اِسکی چند آیتیں بیان کی جاتی ہیں افسیوں کا خط ۵ باب ۲ آیت جس میں پولوس رسول یوں لکھتا ہے تم محبت سے چلو جیسا مسیح نے ہم سے محبت کی اور خوشبو کے لیے ہمارے عوض میں اپنے تئیں خدا کے آگے نزر اور قربا ن کیا۔ پہلا قرنتیوں کا خط ۱۵ باب ۳ آیت مسیح ہمارے گناہوں کے واسطے موا۔ پہلا پطرس دوسرا باب ۲۴ آیت ۔ وہ یعنی مسیح آپ ہمارے گناہونکو اپنے بدن پر اُٹھا کے صلیب پر چھڑہ گیا ۔ تاکہ ہم گناہوں کے حق میں مر کے راستبازی میں چلیں۔ اُن کوڑونکے سبب جو اسپر پڑے تم چنگے ہوئے پہلا خط یوّحنا ۲باب ۲ آیت اور وہ یعنی مسیح ہمارے گناہونکا کفارہ ہے پر فقط ہمارے گناہونکا نہیں بلکہ تمام دنیا کے گناہونکا بھی ، ۲قرنتیون کا خط ۵ باب ۲۱ آیت اُسنے یعنی خدا نے اُسکو جو گناہ سے نا واقف تھا ہما رے بدلے گناہ ٹھہرایا تاکہ ہم اُس میں شامل ہو کے آلہی راستبازی ٹھہریں۔ رومیوں کا خط ۵ باب ۱۰ آیت خدا نے اپنے بیٹے کی موت کے سبب ہم سے ہم سے میل کیا ، مکاشفات ۵ باب ۹ آیت تو نے اپنے لہو سے ہمکو ہر ایک فرقہ اور اہل زبان اور امت اور قوم میں سے مول لیا۔
اور خداوند یسوع مسیح خود فرماتا ہے کہ میں اپنی جان اپنی بھیڑوں کے لیے دیتا ہوں باپ مجھے اس لیے پیار کرتا ہے کہ میں اپنی جان دیتا ہوں تاکہ میں اُسے پھیر لوں کوئی شخص اُسے مجھے لیتا پر میں اُسے آپ دیتا ہوں میرا اختیار ہے کہ اُسےدوں ۔ اور میرا اختیار ہے کہ اُسے پھیر لوں یہ حکم میں نے باپ سے پایا ہے ۔ اِسطرح بائیبل میں جابجا زکر ہے کہ مسیح گناہ کا کفارہ ہے۔
میں تعجب کرتا ہوں کہ باوصف اِسکے ملک شاہ صاحب کسطرح سے فرماتے ہیں کہ با ئیبل سے مسیح کا کفارہ ہونا ثابت نہیں ۔ ہر ایک شخص اِن آیتیوں سے معلوم کر سکتا ہے کہ بائیبل سے مسیح کا کفارہ ہونا ثابت ہے اور نیز اِن آیتیوں کی کسی اور طرح تفسیر نہیں ہوسکتی جس سے اِسکے خلاف خیال دوڑ سکے اس لیے مناسب ہے کہ ملک شاہ صاحب اِن پر غور فرماکریہ الزام عیسائیوں پر سے اٹھا لیویں کہ بائیبل سے مسیح کا کفارہ ہونا ثابت نہیں ۔
ملک شاہ صاحب کیواسطےتو اتنی دلایل کافی ہیں لیکن اس لیے کہ لوگوں کو کفارہ کے معنے اور خاصیت معلوم نہیں میں اُسکی نسبت بیان کرتا ہوں اور چند دلایل دیتا ہوں ۔ مسیح کے کفارہ کے معنے اور خاصیت سمجھنےکے لیے پہلے اِن باتوں پر غور کرنا واجب ہے جسکا زکر زیل میں کیا جاتا ہے۔ (۱) سارے انسان گنہگار ہیں کوئی راستباز نہیں ایک بھی نہیں سب گمراہ ہیں کوئی نیکوکار نہیں ایک بھی نہیں ۔اِس کلام میں کل انسان شامل ہیں ازنٰی جعلیٰ فقیر امیر پیر پیغمبر بنی مرسل غرض کہ یہ کلام ہر فرد بشر پر محیط ہے ۔
اور یاد رہے کہ گنہ دو قسم کے ہیں ایک عملی دوسرا خیالی ، عملی گناہ تو ہیں جو ظاہری عمل اور کام و کاج میں ظاہر ہوتے ہیں اور جسکو ہر ایک انسان دیکھ سکتا ہے اور خیالی وہ ہیں جو صرف خیال سے تعلق رکھتے ہیں اور صرف انسان کے دلمیں وسوسہ انداز ہوتے ہیں جیسا کہ لالچ ، غصہّ، طبح خیالات فاسد اور دیگر امورات مزموم معلوم رہے کہ خدا دل اور گردوں کا جا نچنےوالا ہے اور اُسکے ساھمنےخیالی گناہ بھی ویسا ہی ہے جیسا کہ عملی اوریہ دونو اُسکے حضورہم پلہ ہیں اگر اِن معنوں کو انسان مدنظر رکھے تو کسکو اِس سے یا رائے انکار نہیں کہ کوئی شخص گناہ سے بری ہے کیونکہ اگر ظاہر گناہ سےاحتراز بھی کیا جاوے تاہم ایسا کوئی فرد بشر نہیں جو خیالی گناہسے بچ جاوےپس انجیل کا وہ کلام کہ سارے انسان گنہگارہیں عین سچ ہیں۔
(۲)خدا ہمارا خالق مالک اور پر وردگار ہے اُسنے ہمیں بتایا اور پیدا کیا اور جو کچھ ہمارے پاس ہے وہ اُسکا ہے اسی واسطے ہمپر فرض ہے کہ ہم اُسکی بندگی اور فرمانبرداری کریں اور اُسکی تابعداری بجالاویں اور اُس سےدل و جان سے محبت رکھیں اور اُسکی مرضی پورا کرنیکے لیے کوشش کریں اگر ہم یہ فرض ادا نکریں تو ہم اُسکے قصور وار اور گہنگار اور فرض کے قرضدار ٹھہرتے ہیں اور سزا کے لائق ہوتے اسواسطے ہر ایک گنہگار اُسکے حضور فرض اور فرمانبرداری کا دیندار ہے او رسزاکا سزاوار ہے۔
(۳)یہ فرض کا دین انسان تو یہ کے وسیلے سے ادا نہیں کر سکتا ۔ کیونکہ تو یہ ہماری طرف سے خدا کی طرف واجب کو ادا کریں تو پچھلا دیں ساقط نہیں ہوتا تو یہ پچھلی چیزوں پر اثر نہیں کر سکتی یہ صرف آیندہ سے تعلق رکھتی ہے مثلاً ایک قرضدار قرض اُٹھانے سے توبہ کرے اور آیندہ کو نقد سودا لیتا رہتا ہے تو اس سے اُسکا پچھلا قرض جاتا نہیں رہتا ۔
بلکہ قائم رہتا ہے ہاں آئیندہ کو وہ اَس بوجھ سے سبکدوش رہتا ہے ایسا ہی اگر کوئی شخص بیوقوفی سے اپنے کسی عضو کو کاٹ ڈالے اور آئیندہ کو ایسے کام کرنسیے توبہ کرے اور احتیاط عمل میں لاوے تو اِس توبہ کرنیسے وہ اُسکا عضو درست نہیں ہوجاہیگا گو آئیندہ کو اُسکے دوسرے عضو سلامت اور محفوظ رہیں اسی طرح انسان گنہگارجب اپنے گناہوں سے پرہیز اور کنارہ کر کےخدا کیطرف متوجہ ہوتا ہے تو اِس سے اُسکے گناہ سابقہ زایل نہیں ہوجاتے ہاں اُسکی توبہ کا اثر اُسکی آئیندہ زندگی پر ضرور پر پہنچتا ہے اُسکے سابقہ گناہونکی معافی کے لیے کو ئی اور طریق یا کوئی اور وسیلہ ضرور ہے لیکن تو بہ علاج ناکارہ ہے۔
(۴)ایک اور سبب ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ گناہ توبہ سے معاف نہیں ہوسکتا وہ یہ ہے کہ خدا عادل اور منصف ہے اور اُسکی عدالت اُسکے ہر ایک کام میں ظاہر ہوتی ہے عدالت اُسکی زات کا ایک حصّہ ہے اور اُسکے بغیر وہ کچھ نہیں کر سکتا اور ہر ایک امر میں اُسکو ملحوظ رکھتا ہے عدالت اِس امر کی مقتضی ہے کہ ہر ایک گنہگار گنہ کے عوض میں سزاپاوے اور ہر ایک خطا اور غفلت کے عوض میں اُسپر سزا کا فتویٰ کیا جاوے اور وہ کسی شخص کو بری الزمہ نہیں کرتے جب تک کہ وہ فرمانبرداری اور اطاعت ( جو اُسپر واجب ہے) خدا کی طرف ادا نہویٰ ہووے البتہ یہ ضروری ہے کہ خدا بڑا رحیم ہے اور رحیمی کی صفت اُس میں موجود ہے لیکن یہ رحم اُسکا اُسکے عدل کے ساتھ ملا ہوا اور جب تک اُسکی عدالت کا حق پورا نہو تب تک وہ رحم گنہگار ونکی بخشش اور نجات میں ظاہر نہیں ہوتا ۔ پس پھر کیونکہ تو بے گناہونکی معافی کا وسیلہ ہوسکتی ہے۔
(۵)بصورتہاےمسبوق الدّکر یعنے جبکہ خدا کی بندگی اور پرمانبرداری اور اُسکے احکام اور شریعت کی اطاعت ہم پر فر ض اور واجب ہے اور ہم بالخلقت گنہگاراور معصیت پروردہ ہیں اور کسی صورت سے ہم اُسکے قرض کو ادا نہیں کر سکتے اور توبہ ہماری نجات کا وسیلہ نہیں ہوسکتی اور نہ ہمارے پچھلے گناہونکو معدوم کر سکتی ہے اور اُسکی عدالت ہماری نسبت سزا کا فتویٰ سادر کرتی ہے اور ہمارے لیے کوئی صورت پریت کی نہیں اور ہم نہایت ناامیدی اور پاس کی حالتمیں ہیں تو ضرور تھا کہ کوئی اور طریق جاری نجات کا ہوتا جس سے خدا کا رحم بھی ظاہر ہوتا اور اُسکا عدل بھی قائم اور برقرار رہتا۔
پس خدا نے ایسے بے حد رحم کو کام میں لاکر اپنی لاتعداد حکمت سے ہمارے لیے ایک طریقہ نجات کانکالا جس سےاُس کی عدالت میں بھی کچھ فرق نہیں آیا وہ یہ ہے کہ خداوند یسوع مسیح کو (جو ابن اﷲ تھا) اِس دنیا میں بھیجا اور اُس نے پیراوان مت میں آکر ۳۳ برس تک دنیا میں زندگانی بسر کی اور آخر کو اُس نے گنہگارونکا ضامن بنکے اور اُنکے عوض میں آپ سزا اُٹھا کے خدا کی شریعت کو پورا کیااور سارا حق اُسکی عدالت کا پہنچایا۔ یعنے وہ پوری اور کامل فرمانبرداری جو انسان پر خدا کی طرف واجب تھی یسوع مسیح نے انسان کا ضامن ہو کر پوری کی اور آخرش اُسنے اپنی جان انسان کے عوض میں صلیب پر دی اور آپ بےگناہ ہو کر اُسنے گنہگار ونکی سزا اپنے سر پر اُٹھائی۔
اور یہی امر یعنے (یسوع کا انسان کے عوض میں خدا کی فرمانبرداری اُٹھانا اور گنہ کی سزا کا اپنے اوپر برداشت کرنا) کفارہ کہلاتا ہے جو شخص اِس کفارہ پر ایمان لاتا ہے وہ گناہ کی سزا سے بچ جاتا ہے کیونکہ وہ سزا اور سیاست جو اُسپر واجب تھی مسیح نے اُٹھائی اور جو کچھ شریعت کی اطاعت اُسپر لازم تھی اُسنے پوری کی ۔
اب عدالت بھی برقرار رہی اور اُسکا رحم بھی بظہورآگیا اور انسان نجات کی اُمید ہوگئی یہی ایک طریقہ نجات کاہے جسکا زکر اوپر ہوا اور جو انجیل سے ظاہر ہے۔
اب واضح رائے زرینناظرین ہووے کہ اس طریقہ نجات (یعنےکفارہ پر) وہ اعتراض لازم آتے ہیں ۔
(اول یہ) کہ ایک آدمی کی موت سے کسطرح بہتوں کی معافی ہوسکتی ہے خداوند یسوع مسیح اکیلا گنہگارونکے عوض میں صلیبی موت اُٹھاکر کفارہ ہوااِس ایک کفارہ سے ساری دنیا کی نجات کسطرح ہوسکتی ہے ایک آدمی کے عوض میں ایک ہی بچ سکتا ہے نہ کہ کلُ دنیا۔
اسکا جواب یہ کہ خداوند یسوع مسیح عام انسانوں کے موافق انسان نہیں تھا بلکہ اُسمیں الوہیت تھی
(یعنے زات و صفات خدا)موجود تھی اور اِس الوہیت کے سبب جو کچھ کام و کاج اُسنے جائے انسانی میں کیا اُسمیں الوہیت کا اثر پہنچا اور اُسکے درجہ اور صفت نے اُسمیں تاثیر کیا اس لیے جب مسیح نے انسان کے عوض میں فرمانبرداری اور موت اٹھائی تب اُسکے اسکام میں بھی درجہ الوہیت کا پہنچا ۔ اسلیے مسیح کی راستبازی بیحد راستبازی تھی اُسکی موت کا اثر بھی بیحد ہی وہ پورا اور کامل اور بے نقص اور سب سے بڑھکر انسان تھا یا یہ کہیں کہ وہ ایک بڑی قدر ومنزلت کا انسان تھا اور اُسمیں الوہیت بھی موجود تھی اسلئےاُسکی جان گرامی ساری دنیا کا کفارہ ہوسکتی ہے اور اُسکی ایک جان تمام جہان کے عوض کافی خیال کیجا سکتی ہے بلکہ میری رائے تو یہ ہے کہ اُس کی قیمت اُس سے بڑھکر ہے کیونکہ اُسکا مرتبہ بیحدہے۔
(دوسرا اعتراض ) اِس بیان سے بے انصافی ظاہر ہوتی ہے کہ گناہ اور انسانوں نے کیا اور سزا مسیح نے اُٹھائی ۔ اِس سے خدا کا انصاف قائم نہیں رہتا کہ کرے کوئی اور بھرے کوئی۔
اِسکا پہلا جواب یوں ہے اس سے خدا کی بے انصافی ظاہرنہیں ہوتی کیونکہ مسیح نے اپنی مرضی اور اپنی خوشی سے یہ سزا بعوض گنہگارونکے اپنے اوپر اُٹھائی دیکھو یوحنا ّ کی انجیل جسمیں مسیح خداوند خود فرماتے ہے کہ میں اپنی جان بھیڑوں کےلیے دیتا ہوں میں اپنی خوشی سے اُسے دیتا ہوں کوئی اُسے مجھے نہیں لیتا مجھ کو اختیار ہے کہ میں اُسے دوں یا پھیر لوں وہ آپ انسان پر رحم کھا کر گنہگارونکا ضامن بنا اور اُنکے عوض میں اُس نے خود گنہ کی سزا اپنے سر پر اُٹھای اِس حال میں کیونکر خدبے انصاف ہو سکتا ہے ۔
(۲جواب) یہ ہو سکتا ہے کہ ایک کے عوض میں دوسرا سزا کا سزاوار ہووے دیکھو یہ دنیا کا عام و تیرہ ہی کہ ضامن اپنے اصل مجرم کے عوض میں لاخوز کیا جاتا ہے اور خدا کے انتظام میں تو یہ عام ہے اور اُسکی پروردگاری کے کام میں اکثر دیکھتے ہیں کہ ایک شخص دوسرے کے عوض جس سے اُسکا کچھ تعلق ہوسزا اُٹھاتا ہے دیکھو باپ حرامکاری کرتا ہے اور اُسکی بیماری کا اثر بیٹے پر پہچنتاہے اور وہ آلشک کی بیماری سے مرتا اور جلتا ہے باپ بدکاری میں اپنے جسم کو کمزور کرتا ہے اور اُسکا عزاب اُسکی نسل پر پڑتا ہے ۔
دیکھو گناہ آدم سے بظہور آیا اُسکے عوض میں اُسکی تمام نسل کو بہشت سے محروم رکھاگیا تاہم ہم خدا کو بے انصاف نہیں کہ سکتے یہ سب پروردگار کا انتظام ہیں اُسمیں ہم نقص نہیں نکال سکتے پس جب اِسمیں نقص نہیں نکال سکتے تو ہم پر واجب ہے کہ ہم نجات کے کام میں بھی نقص نہ نکالیں بلکہ ہمیں واجب ہے کہ ہم اُسکو مطابق پروردگار ی کے کاموں کے قبول کر لیں ۔