عیسائی مذہب سے دنیا کی دُشمنی

اِس فرقہ کی بابت ہم کو معلوم ہے کہ سب کہیں اُسے  بُرا کہتے ہیں ۔
اعمال  ۲۸  باب  ۲۲  آیت

جمیل سنگھ

(۱۸۴۳–۱۹۲7)

Christianity and its Rival

Published in Nur-i-Afshan September 17, 1885
By Jameel Singh
(1843–1927)

ابتداء  دنیا سے جب سے کہ آدم  زاد زمیں پر آباد ہوئے مذہب عیسوی  سے دنیا کی دُشمنی  ثابت ہے۔ جتنے نبی اُس نجات دہندہ  بانیٔ مذہب عیسوی خداوند یسوعمسیح کی خبر دینیوالے خدا کی طرف سے بھیجے گئے اُن  سے خلقت نے دشمنی کی۔ اور جب وقت معیّن پر  یہہ نجات دہندہ  جامہ انسانی مین ظاہر ہوا دُنیا  نے اپس سے ازحد دشمنی  کی۔ اور جب وہ اپنا کام جسکے واسطے وہ مجسم ہوا تھا  کر چکا  تھا  اور آسمان پر صعود  فرما گیا تھا اُسکے حواری  اُسکے بعد  مثرد ہ ٔ نجات بخش کو عالم میں سُنانے لگے تو اُن  سے بھی دیسی ہی  دشمنی کی۔  شروع میں جب پولوس  رسول  بڑی سرگرمی کے ساتھ انجیل کی بشارت دیتا تھا اور قوی  دلیلوں  سے یہودیوں کو قائل کرتا تھا کہ یسوع وہی مسیح ہے جسکو تم نے  کاٹھہ پر لٹکا کے مار ڈالا اُسی کو خدا نے مرُدوں میں سے اُٹھا  میں سے اُٹھایا  کہ زندوں  اور مرُدوں کا انصاف  کر نیوالا  ہو۔ اور اُسی سبب سے  سب عام و خاص  سب رسولوں سے اور شاگردوں سے عداوت  کرتے تھے اور جیوں جیوں اِس مذہب کی شہرت ہوتی جاتی تھی تیوں تیوں  لوگوں کی دشمنی زیادہ  بڑھتی  جاتی تھی۔ اور اُن کو عدالتوں میں بھی اِسی سبب سے کھینچ کر لے جاتے تھے۔ تب یہودی سرداروں نے سُنکر  کہا کہ اِس فرقہ کی بابت ہمکو معلوم  ہو کہ  سب کہیں اُسے بُرا کہتے ہیں ۔ یہہ وہ لوگ تھے جنہوں نے خود وہ سب معجزے اور کراماتیں جو خداوند یسوع  نے اُنکے  بیچ کئے تھے دیکھے تھے۔ اور پھر  بھی اُسے بُرا کہتے تھے اور جان بوجھ ک اُسکی مخالفت کرتے تھے۔ اسمین تین سوالات لازم آتے  ہین اولاً  کہ کون  عیسائی مذہب کے دشمن ہیں۔ ثانیاً۔ عیسائی مذہب میں کیا بات ہے جسکے سبب سے لوگ دشمن  بن جاتے ہیں۔ ثالثا  ً  ۔ کیوں ایسے مذہب سے جسمیں  نجات  کا سب سے افضل طریقہ ملتا ہے۔

اولاً۔ کون عیسائی  مذہب  کے دشمن ہیں۔ دنیا اُسکی دشمن ہے۔ دنیا کے قومیں اور بادشاہ  اُسکے دشمن ہیں۔  داؤد  کے زبور میں لکھا ہے۔ قومین کس لئے جوش میں ہیں اور لوگ باطل  خیال کرتے  زمین  کے بادشاہ سامھنا کرتے ہیں اور سردار آپس میں  خداوند کے اور اُسکے مسیح  کے مخالف منصوبے باندھتے ہیں ۔ الخ ۲ زبور ۱، ۲، ۳۔ آیتیں ۔ تواریخ سے بھی  چابت ہے کہ قوموں اور اُنکے بادشاہوں نے  اس مذہب  کے درہم برہم کرنے کے لئے  کیسے کیسے منصوبے باندھے  ہیں اور کیسی  بڑی بڑی  سازشیں  کی ہیں قوموں نے ملک اپنے بادشاہوں  کو اس بات کی مخالفت  میں اُٹھایا ہے۔ اور بادشاہوں نے اُسکے  برخلاف  فرماں  جاری کءے ہیں اور شاہی زمانوں  سے اُسکے نیست کرنے  کے بجد درپے ہوءے ہیں ۔ نیر جیسے ظالم  بادشاہ نے اُسکی مخالفت  میں کوئی  تدبیر  فردگزاشت نہ کی۔ مگر ایسے سب مخالفوں  کی کوششیں  ناکامیاب  نکلیں اور عیسائی مذہب کا دنیا کے بڑے بڑے بادشاہ ایک بال بھی بنیکا نہ کر سکے۔ اب تک یہہ دشمنی  فرد نہیں ہوئی بلکہ بر ابر  چلی جاتی ہے تمام  دنیا  کی قوموں نے اس مزہب سے دشمنی کی  ہے۔ اِس ملک  ہندوستان  میں کتنی  قومیں آباد  ہیں اور آپسمیں  ہر ایک قوم تھوڑا بہت  ملاپ رکھتی ہے اور سب اتفاق  سے اپنے گھروں میں آباد ہیں مگر کیا کو ئی  ایسی قوم  ہے جو عیسائی مذہب سے اتفاق  رکھتی ہے اور میل ملاپ  رکھتی ہے  ایک بھی نہیں۔ پر اسکے سوا سب قومیں  اِس مذہب کی یہانتک  ضد میں ہیں  کہ اگر کو ئی  ایسا موقع حکومت کی ہل چل کا پڑ جاتا ہے تو دل عیسایوں کو برباد کرنے اور قتل  کرنے کے لئے متفق ہوتے ہین  جیسا کہ سن ۱۸۵۷ ء کے غدر  میں فی الحال دیکھنے میں آیا تھا بے چارے  عیسائی ناحق  سیکڑوں مارے گئے اور غدر میں کسی قوم  کو ایسی  تکلیف نہ تھی  جتنی کہ عیسایوں کو تھی بلکہ سب قومیں ایسے وقت کو غنیمت جان کر عیسایوں کا خون پینے پر مستعد  ہوجانے کو تیار معلوم  ہوتی ہیں کیا  بیچارے عیسایوں کا حکومت  میں کچھ  دخل تھا جو اُن  بے کسوں  کو نا حق  قتل کیا لیکن صرف یہہ سب کچھ عیسائی مذہب کے سبب سے ہوا ۔ اِس سے ثابت ہوتا ہے کہ عیسائی  مزہب سے سب قوموں  کو از حد دشمنی ہو۔

(۲)عیسائی مذہب کے دشمن اس دنیا کے عالم فاضل لوگ ہیں۔ بڑی بڑی کتابیں اس مذہب  کی مخالفت میں چھاپی جاتی ہین اور برابر  بحث و مباحثے ہوتے رہتے ہیں۔ تواریخوں میں بھی پچھلے وقتوں کے  مورخوں نے عیسائی  مذہب کے دشمن تھے اپنی دشمنی ظاہر  کی ہے اور آجکل بھی یہہ ہی حال ہے مگر مخالفوں  کامنُہہ خدا کے فضل سے بر ابر  بند ہوتا چلا آیا  اور خدا کے کلام کی دو دھاری  تلوار اُنکے سب اختلاف کو قلم کرتی آئی ہے اور خواہ مخالف  عالم ہوں یا جاہل  سب شرمندہ کئے جاتے ہیں یہہ بات اس مذہب کی صداقت کی بڑی  بھاری دلیل ہے۔

(۳)ادنٰی اور اعلیٰ امیر و فقیر اور اونچ نیچ سب عیسائی مذہب کے دشمن ہیں۔ ادنیٰ سے ادنیٰ عیسائی مذہب  کو بڑا کہتا ہے اور خواہ مخواہ اپنی نفرت اس سے ظاہر کرتا ہے ۔ اعلیٰ لوگ کہتے ہیں کہ عیسائیونمیں  کوئی  شریف نہیں ہوتا۔ سب ادنی  ٰ لو گ ہوتے اسواسطے ہم کو یہہ مذہب  پسند نہیں۔ ایسا کہنا تو بالکل بے انصافی  کی بات ہے کیا  ایک قوم  میں سب آدمی شریف ہی ہوتے ہین اور کیا سب ہی ادنیٰ ہں  اور کیا سب امیر ہوتے  ہیں  اور غریب  نہیں ہوتے  اگرچہ  عیسائی مذہب میں غریب  و کم قدر  لوگ ہیں تو کیا  اُسمیں شریف  و امیر لوگ  مطلق ہی نہیں  ایسے آدمیوں کو چاہئے کہ دنیا میں جا کر  عیسائی قوموں کو  دیکھیں  اور عیسائیوں سے واقفیت حاصل کریں تب اُن کو اُنکے کہنے کا جھوٹھ سچ معلوم ہو جاویگا۔  امیر لوگ کہتے ہیں  کہ کیا ہم عیسائی  بنکر  فقیر بن جاویں  اور فقیر لوگ  کہتے ہیں کہ ہمکو بھیک مانگکر  کھانا اچھا  ہے  مگر عیسائی  ہونا اس سے بھی  برُا ہے۔ اونچ یعنے وہ لوگ  جو اپنی زات کو اونچا گنتے ہیں  کہتے ہیں کہ عیسائی مذہب سب سے نیچ قوم  اِن ہے  جب اُنسے  سبب پوچھا جاتا ہے تو کہتے ہیں  نیچ  قوم  اِن میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اور جب ہم کہتے ہیں مسلمانوں  میں بھی نیچ لوگ  شامل ہو جاتے ہیں اور تم اُن  کے ساتھ ایسا سلوک  نہیں کرتے  تو اُسکا جواب کچھ نہیں  دیتے۔ نیچ لوگ اِسکو اپنے سے بھی نیچ سمجھتے ہیں حالانکہ  وہ خود  اپنے کاموں اور مذہب کے برُے وہمات سے درحقیقت  سب سے  نیچے گرے  ہیں پھر بھی  عیسائی مذہب کو اپنے سے بھی بُرا سمجھتے  ہیں ۔ اگرچہ  سادہ لوحوں میں سے کچھ تھوڑے اپنے  چھوٹھے وہمات کو  چھوڑ  کے نجات کی خواہش  میں  عیسائی مذہب کو اختیار  کر لیتے ہیں مگر اکثر  نہیں۔

غرض کہ عیسائی مذہب کو ہر کہیں سب لوگ بُرا کہتے  ہیں نہ کہ ایک  ملک میں بلکہ سب ملکوں میں نہ ایک قوم بلکہ  سب قومیں اُسکو  بُرا  کہتی  ہیں۔ مگر دیکھو اسمیں کیا بھید الہیٰ ہے کہ مو سوائے اتنی مخالفت اور دشمنی کے پھر بھی ہر ایک مذہب  اور ملت اور قوم میں سے لوگ نکل نکل کر اُسمیں  شامل ہوتے جاتے ہین اور دنیا کو ناچیز  گن کر  اور اُسکی شرمندگی اور ندامت کو برداشت  کر کے اپنی  روح کو قیمتی  جانکر اپنی روحوں کے بانی اور شفیع کے پاس بے دھڑک  چلے آتے ہیں۔

ثانیاً۔ عیسائی مذہب میں کیا بات ہے جس کے سبب سے لوگ دشمن بن جاتے ہیں۔

سب تو بہت ہیں  لیکن طول کے خوف  سے مختصراًبیان کرتا ہوں۔ (۱)خداوند  یسوع مسیح جو اس دنیا کا نجات  دہندہ  ہے دنیا  کی سخت دشمنی اُس سے ہے۔  جب خداوند یسوع مسیح  اس دنیا میں آیا  اور مجسم ہو کر وگود میں ظاہر ہوا  اُسوقت  ایک بوڑھے بنی نے جسکا  نام شمعون  تھا کہا تھا  کہ یہہ (خداوند یسوع مسیح)اسرائیل  میں بہتوں  کے گرنے اور اُٹھنے کے لئے اور خلاف کہنے کے لئے  نشان کے واسطے رکھا ہوا ہے۔ لوقا ۲ ۔ باب ۳۴ ۔ آیت ۔ جب وہ اس دنیا میں تھا  دنیا اُسکو بُرا کہتی تھی۔ اُسکی قوم یہود نے اُسکو برُا  کہتی تھی۔ اُسکی قوم یہود  نے اُسکو برُا کہا۔ تمام قوموں نےاُسکی تحقیر کی اور کرتی  ہیں اُنہوں نے اُسکے وجود کی حقارت  کی کہ اُسمیں کچھ خوبصورتی  نہ تھی یسعیاہ ۵۳۔ باب ۲، ۳ آیتیں ۔ انہوں نے اُسکی تعلیم کو جھوٹھ  اور فریب کہا۔ یوحنا ۷ باب ۱۲ ۔ آیت  اُنہوں نے اُسکے معجزوں کو بعل زبول  دیوں کے سردار کی طرف سے بتایا۔ متی ۱۲۔ باب ۲۴ آیت۔ اور آجکل بھی ایسا ہی ہوتا ہے کہ  جب خداوند یسوع مسیح کا نام ہی سنُایا  جاتا ہے اور اُسکی عمدہ نصیحت  و تعلیم لوگون کو سنائی جاتی ہے تو  لوگ جھگڑنے اور تکرار  کرنے کو اُٹھ  کھڑے  ہوتے ہیں۔ اور بُرا بھلا کہنے لگتے ہیں۔

(۲)خدا کے کلام کئ سبب لوگ دشمن بن جاتے ہیں۔ جب پہلے انجیل سنائی گئی اور حواری اُسکی  منادی کرتے تھے تو لوگ اُسکو بہت برُا  جانتے تھے اور اُنکو برُا  کہتے تھے جیسا کہ اعمال  کی کتاب سے معلوم ہوتا ہے۔ مگر اتنی بھیڑ دیکھکے یہودی ڈاہ  سے بھر  گئے اور خلاف کہتے اور کفر بکتے ہوئے  پولس کی باتوں سے مخالفت کی۔ اعمال ۱۳۔ باب ۴۵ آیت ۔ اب بھی ایسا ہی ہوتا ہے بلکہ روزمرہ دیکھنے میں آتا  ہے کہ  جب انجیل کی منادی ہوتی ہے  اُس جگہ کو ئی نہ کوئی مخالف کھڑا ہو جاتا ہے بغیر  برُا کہنے کے ہرگزرہ  نہیں سکتا ۔ اگر کوئی قصہ کہانی کی برُی باتیں سنُائی  جاویں  سب بڑی خاموشی  سے اور دل لگا کر سنینگے  مگر جب انجیل کی عمدہ خوش خبری  سُنائی  جاتی ہے  وہین  بحث و تکرار  کر کے شور مچانے لگتے  ہیں نہ خود  سُنتے ہیں  اور نہ اوروں کو سنُنے دیتے ہیں ۔ اور بعض بعض  ایسے بھی ہیں  کہ انجیل  کی سب باتیں سُن لیتے ہیں اور اچھی طرح قبول بھی کر لیتے ہیں  مگر جب اُنکو یہہ سنایا جاتا ہے کہ یسوع مسیح پر ایمان لاؤ  تو نجات ابد ی پاؤ گے  اُسیوقت  بڑے غصہ سے بھر جاتے  ہیں  اور کہتے ہین کہ اور تو تمہاری سب باتیں سچی  مگر یسوع مسیح کی بابت جو کہتے ہو خلاف  ہے۔ اور اکثر تو اُسے سُناّ  بھی نہیں چاہتے۔

(۳)۔ اس مذہب کی پیرعی کر نیوالوں سے فوراً لوگ دشمنی کرنے لگتے  ۔ اسمیں خداوند یسوع مسیح کی وہ پیشین گوئی  جو متی کی انجیل  کے ۵ باب کی ۔ ۱۱، ۱۲ آیتونمیں  لکھی ہے پوری  ہوتی ہے مبارک ہو تم  جب میرے واسطے تمہیں لعن طعن کریں  اور ہر طرح کی بری باتیں تمہارے حقمیں کہیں۔ اگر ایک قوم میں ایک شخص بڑا  شریر اور لوگوں کو دُکھ  دینیوالا ہے لوگ  چنداں اُس سے ناراض نہیں ہوتے جتنا کہ وے  اُس سے  اُسوقت  ناراض ہوتے  ہیں جب کہ وہ عیسائی ہوجوتا ہے چاہے وہ شخص  عیسائی  ہو کر  اپنی شرارت کو چھوڑ  کر ایک  بھلا آدمی ہی بن جاوے۔ لیکن وے اس بات کو پسند کرینگے کہ وہ شخص چاہے ایسا ہی شریر بنا رے مگر عیسائی  نہ رہے۔ عیسائی ہونے سے انکار کرے چاہے اُنکا کیسا ہی نقصان  کیوں نہ ہو۔

(۴)۔ عیسائی نام ہی دنیا کی دشمنی کا سبب  ہے اتنی قومیں  دنیا میں ہیں اور دیکھنے میں آتا ہے کہ اُن میں آپس میں کوئی ضد نہیں  اور دشمنی  پائی  نہیں جاتی خواہ اُنکے مذہب میں آسمان و زمین  کا فرق  ہے مگر عیسائی کا نام سنُتے ہی اچھا نہیں۔ خداوند یسوع مسیح کی بات  بالکل درست  نکلتی  ہے اور  حرف بحرف پوری  ہوئی جو اُسنے اپنے شاگردوں  سے فرمائی تھی۔ میرے نام ہی کے سبب سے لوگ تم سے دشمنی  رکھینگے۔

ثالثاً۔  کیوں ایسے مذہب سے جس میں نجات کا سب سے افضل طریقہ  ملتا ہے اور جو اور سب  جھوٹے مذاہب کو خاطر خواہ باطل  ہی ثابت  کرتا ہے دنیا  ایسی دشمنی  رکھتی ہے۔ خداوند یسوع مسیح  میں بھی کوئی ایسی بات نہ پائی گئی ۔ جس سے قوم یہود اُسکو  ملزم  ٹھہراتی  اور حاکم  اُسپر  فتویٰ  لگاتے پر  تو بھی یہود  اور اُنکے  سردار  مخالفت  میں  چلاّ کے پکارتے  تھے کہ اُسے  صلیب دے صلیب  دے  اور اِس طرح  بغیر کسی قصور  کے اپس بے قصور کو حاکم  بے اِنصاف  نے مصلوب  کرنیکا حکم صادر فرمایا۔  اسیطرح  اُسکے بعد بھی  یہہ ہی حال چلا آیا  ہے خواہ مخواہ  اُس  مذہب کو سب جگہ میں لوگ  بُرا کہتے ہیں اور اُسکے پیرؤں  کو ناحق  بدنامکرتے  ہیں۔ اور تمام دنیا گویا  اُنکو انگشت  نما  بناتی ہے۔  اب ہم  اسبات  کو سوچیں  کہ اسکا کیا سبب ہے۔

(۱)۔ اس مذہب کے دشمن اسکے مخالف ہیں ۔ کیونکہ وے اُس  سے بالکل واقف نہیں ۔ ایک بات کی لاعلمی  میں جو کام کیا جاتا ہے زیادہ خوفناک  دشمنی والا  ہوتا  ہے  بہ نسبت اُسکے جو دنیا و دانستہ جاننے  کی حالت میں کیا جاتا ہے۔  کبھی کبھی ناواقف  ہونے کی  حالت میں انسان  بڑا جرم کر بیٹھتا  ہے جو اگر اس سے واقف  ہوتا ہو  تو  ایسا ہر گز  نہ کرتا ۔ خدا وند یسوع مسیح سے دنیا نے اسواسطے  دشمنی  کی  دنیا نے اپسے نہ جانا  یوحنا ۱۔ باب ۱۰ آیت۔ اگر  وے اُسکی فضیلت  کو جانتے اور اُسکی تعلیم  کی عمدگی اور قدر  سے واقف ہوتے اور دنیا میں اُسکے آنے اور بڑے بھاری کام کے انجام  دینے سے آگاہ  ہوتے تو وے جلال کے خدا وند  کو مصلوب  نہ کرتے دیکھو ۱ قرنتیون  کا ۲۔ باب ۸۔ آیت ۔

(۲)۔ دنیا کے لوگ اسواسطے  اُس سے دشمنی  رکھتے  ہیں  کہ وے اسکو  پسند نہیں  کرتے۔ اور پسند نہ کرنیکا  سبب صرف  یہہ ہے  کہ یہہ  اُنکی  برُی  مرضی کے موافق  اُنکی  خوشیوں کو پورا کرنے سے  روکتا ہے۔ اور وے جانتے ہیں کہ یہہ  مذہب  دنیا کی  ہواؤہوس  کے مارنے اور مغلوب کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اور انسان کواُسکی  مرضی پر چلنے سے روکتا  ہے اور خدا  مرضی کو مقدم ٹھہراتا  ہے۔ اُنکا مزاج  جسمانی  ہے اور روحانی  باتیں اُنکے  دلکو نہیں  سُہاتیں۔ اسلئے  کہ جسمانی مزاج کا دشمن ہے کیونکہ  خدا  کی شریعت  کے تابع  نہیں اور نہ  ہوسکتا  ہے۔ اِسواسطے  دنیا اُس  سے دشمنی رکھتی ہے اور دنیا اندھیرے کو زیادہ  پسند  کرتی ہے اور نور کے پاس  نہیں آنا  چاہتی  ایسا نہ ہو کہ  اپسکے کام جو برُے ہیں ظاہر ہو جاویں۔

(۳)۔ دنیا اس مذہب کے برخلاف بولتی ہے کیونکہ  یہہ مذہب  دنیا کے برخلاف  گواہی  دے رہا ہے۔ فریسی لوگ یسوع مسیح سے کیوں  ناراض ہو گئے  اسلئے  کہ وہ انکو تمثیلوں  میں ایسی  نصیحت  دیتا  تھا جنکا مطلب اُنکے  برخلاف  تھا۔ کیوں دنیا اُسکی دشمن  تھی جو دنیا کو ایسا  پیار کرتا تھا کہ اُس نے دنیا کے واسطے  اپنی شان و شوکت  آسمانی چھوڑ دی اور دنیا میں جب تھا اُسکے مریضوں  کو  تندرست کرتا تھا اور ہر قسم  کی بیماریوں کو قدرت سے دور کرتا تھا۔ صرف اسلئے  کہ وہ گواہی دیتا تھا کہ دنیا کے کام برُے ہیں۔ خداوند یسوع مسیح  نے خود کہا کہ دنیا تم سے عداوت نہیں سکتی پر مجھ  سے عداوت کرتی ہے کیونکہ  میں اُسپر گواہی  دیتا ہوں کہ اُسکے  کام برُے  ہیں۔ یوحنا  ۷ ۔ باب ۷ ۔ آیت۔ یوسف کے بھائیوں نے یوسف سے کیوں دشمنی  کی صرف اسواسطے  کہ وہ  اُنکے  برخلاف اُنکے برُے  کاموں کی گواہی دیتا تھا دیکھو پیدائیش  ۳۷۔ باب ۱۲ ۔ آیت ۔  اب ہندوستان میں یہہ مذہب برُا  سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہہ ہندوستان کے برخلاف  گواہی دے رہا ہے یہہ اُسکے مذہبوں کو جھوٹھا  ثابت کر رہا ہے اور اُسکے جھوٹھے بھروسوں کو توڑ رہا ہے اور یہہ اُس کی دیویوں  کو ہاتھ  کی کاریگری اور دیوتوں کو محض خیالی ثابت  کر کے انکی پر ستش  کو عبث ثابت کر ہےرہا ہے اور یہہ ہندوستان کی واہی تباہی رسموں  کو بے بنُیاد  ثابت کر رہا ہے اور ہر طرح  کی وہم پر ستی کو رد کر رہا ہے اور یہہ سب کارردائی  عیسائی مذہب ہندوستانکے بالکل برخلاف ہے اور پر عیسائی مذہب ہندوستان کے بڑے بڑے قدیمی تیر تھوں کو اور  دھاموں کو جا کر یوحنا جو ہند و لوگ قدیم سے  کرتے  آئے منع کرتا ہے  غرض ایسے  پوجا  پاٹھ کو ناقص ثابت کر کے ایک سچے خدا کی پر ستش بتاتا ہے  جو اُن سب سے فرق ہے اسلئے ہندوستان اِس مذہب کو برُا کہتا ہے۔ عیسائی مذہب تمام مذہبوں  کو باطل  ثابت کر کے اپنی  سچائی کا اشتہار تمام دنیا کی قوموں کو دے رہا ہے اسی واسطے سب مذہب والے اُسکے  جانی دشمن ہوتے ہیں۔

کاش کہ دُنیا اس مذہب کے نجات بخش عقیدوں سے واقف ہوا اور اُسکی تسلی بخش تعلیم  کو دلمیں جگہ دے اور رو ح  القدس کو  بھیتر آنے دے جو دل کے دروازے پر کھٹکھٹا تا ہوتا کہ وہ  دلکے اندھیرے  کو دور کر کے  جلال والی روشنی کے زندگی بخش جلال کا دیدار کراوے جو خود خداوند  یسوع مسیح ہوتا کہ اُسی  ہی پر جو نجات کے لئے اکیلا نام بخشا ہوا ہے ایمان لاکے کل دنیا نجات ابدی پاوے ۔

الراقم جمیل سنگھ از کھنہ