اعمال ۱۔ ۱۴

The Book of Acts

Chapter 1, verse 14

Published in Nur-i-Afshan April 20, 1894
By Allama Golakh Nath

یہ سب عورتوں اور یسوع کی ماں مریم  اور اُس کے بھائیوں کے ساتھ یکدل  ہو کے دعا اور منت کر رہے تھے۔ یہ ایک تواریخی  وقوعہ  ہے ۔ جو کہ اعمال کی کتاب  میں مندرج ہے۔ وہ یہ ظاہر کرتا ہے۔ کہ اُن شاگردوں نے جو روز و شب  مسیح  کے ساتھ  رہے۔  مسیحی  ترقی میں ایک  بڑی  بھاری  منزل ڈکر لی تھی۔ اور اِن کا اُس  وقت اکھٹے  ہونا۔ نہ صرف  اکھٹے  ہونا۔ بلکہ دعا اور سنت کے لئے یکدل  ہونا  ایک وقوعہ ہے۔ جو قابل غور ہے۔ اوول جب وہ مسیح کے مقلد ہوئے اُن کی یہ حالت  نہ تھی۔ آپکو دعا مانگنے  تک نہ آتا تھا۔ بلکہ ایک دفعہ خداوند کے پاس آئے۔ اور اُس سے درخواست  کی کہ ہمکو دُعا مانگنا  سکھا۔  اُن میں کمزوریاں  پائی  جاتی تھیں۔  بلکہ  بسا اوقات فیمابین  نفاق بھی ہوتا رہا۔  لہذا یہ نئی صورت اُن کی صاف ظاہرکرتی ہے۔ کہ وہ بہت کچھ مسیحی  ترقی کر گئے تھے۔ یہاں پر یہ سوال  لازم آتا ہے۔  کہ وہ کون سی شرایط تھیں جن کو اُنہوں نے پورا کیا۔ اور اِس لئے اب اُس  مرتبہ  تک پہنچے۔ کہ خداوند کے نئےظہور یعنی روح  پاک کو حاصل کریں؟

(الف)  اِبتداً اِن  کی طبیعت  کا میلان دین کی طرف تھا۔ یعنے وہ متلاشی دین تھے۔ جب ہندوستان کے لوگوں کی طرف دیکھا جاتا ہے۔ ایسے  بہت کم لوگ نظر آتے ہیں جو متلاشی دین ہیں۔  بلکہ بہتوں کی زندگی  بے فکری  اور نیا دلری میں صرف ہوتی ہے۔ مگر اُن شاگردوں  کی طبیعت  شروع ہی سے مذہب کی طرف  مایل و  راغب تھی۔ چنانچہ جب مسیح نے اُن کو ہدایت کی۔ تو اُنہوں نے بخوشی تمام اُس کے کلام کو سُنا بلکہ درخواست  کی۔ کہ اے ربیّ تو کہاں رہتا ہے ؟ مسیح نے کہا آؤ۔ اور دیکھو اور جب  فیلبوس نے بھی نتھانیل سے مسیح کی نسبت زکر کیا۔ اور وہ حیران ہوا کہ کیا ناصرہؔ سے کوئی عمدہ چیش نکل سکتی ہے۔  تو  فیلبو نے کہا  آ اور دیکھ ۔ وہ آیا اور دیکھا اور ایمان لایا۔ اُس وقت سے اُنہوں نے سب کچھ ترک کر کے مسیح کی پیروی کی۔ اور اُس سے تعلیم  پاتے رہے۔ ہمارے ہندوستان  کے لوگوں کی یہ حالت ہے۔ کہ تعصب  سے بہر ہوئے۔ اور تعلیم سے یہی کنارہ کش ہوتے ہیں۔ مگر وہ شاگرد جوں جوں مسیح سے آشنا ہوتے گئے۔ اور اُس کی قدرت و معجزات  کو دیکھا کئے۔ تو وہ مسیح کو اپنا ربّی اور اُستاد کہنے لگے۔ اور  آیندہ ترقی کرتے ہوئے اس کی اطاعت کو قبول کیا حتی  کہ جب مسیح حکم دیا۔ کہ وہ تمام گردو نواح میں جا کر منادی کریں تو ا وہ اس کے حکم  کو بطوع خاطر بجا لائے۔ اور توبہ و استغفار  کی منادی جا بجا کی۔ اور پہر جب مسیح نے اُن سے خدا کی بادشاہت  کا زکر آغاز کیا۔ اور نیز اُس بشارت کا بھی۔ کہ اُس بادشاہت  میں تمہارا بھی ایک بڑا حصّہ ہے۔ تو وہ اس بات پر  اعتقاد لائے۔ کہ تو زندہ خدا کا بیٹا  ہے؟

( ب) صورت ترقی کی یہ تھی۔ کہ اُنہوں نے اپنے آپ کو دنیا سے علیحدہ کر لیا تھا، چنانچہ  مسیح کی جلیلی  خدمتگزاری کے وقت اس کے شاگردوں نے بہ نسبت  سابقہ خدمت  گزاری کے جو اُس سے یہودیہ میں سرزد ہوئی تھی۔  اب زیادہ تر مسیحی کے ساتھ رفاقت اختیار کی۔ چنانچہ وہ  اُن کے ساتھ کھانے  اور پینے  میں شامل  ہوتے تھے۔ اور اکثر ایک  ہی  گھر میں قیام  کرتے تھے۔ یہاں تک کہ ان کا اُنس و پیار  مسیح کے ساتھ اس قدر بڑ ہگیا۔  کہ ایک موقع پر پطرس نے علانیہ  کہا ۔ کہ’’ دیکھ اے خداوند  ہم نے تیری  پیروی کرنے میں سب کچھ  ترک کر دیا۔‘‘ بے شک یہی بڑی بات تھی۔ اول ہی اول مسیح نے اُن کو کہا۔ میرے پیچھے آؤ۔ لیکن اب جبکہ  مسیح  سے اُن کی زیادہ آشنائی ہوئی۔ اور اُس کی بے بہا قدر کو پہچانا۔ تو بے اختیار اُن کے منہ سے یہ کلام نکلا۔ کہ دیکھ اے خداوند ہمنے تیری پیروی  کرنے میں سب کچھ ترک  کر دیا۔ اور مسیح نے اس کلام کی قدر کی اور کہا مین تم سے سچ کہتا ہوں۔ کہ جس نے گھر۔ ماں باپ۔ میری خاطر چھوڑا  اُس کا  سو(۱۰۰) گنا اِس جہان اور اُس جہان میں پائیگا۔  اُنہوں نے اپنے تئیں بخاطر مسیح دنیا سے علیحدہ کر لیا تھا  چنانچہ پولوس رسول یہی کرنتھس کی کلیسا کو خط ۲ باب ۶۔  ۱۷، ۱۸ آیات مین اس بات کی ہدایت  کر کے۔  کہ تم بے ایمانوں کے ساتھ نالایق جوئے مین مت جُتے جاؤ۔ کہ راستی اور ناراستی  میں کونسا سا جھا ہے۔ اور روشنی کو تاریکی سے کونسا  میل ہے۔ اور مسیح کو بعل کے ساتھ کونسی موافقت ہے۔ یوں کہتا ہے۔ اس واسطے تم اُن کے درمیان سے نکل آؤ۔ اور جُدا رہو۔ اور ناپاک کو مت چُھو۔ اور میں تم کو قبول کروں گا۔ اور میں تمہارا باپ ہوں گا۔ اور  تم میرے بیٹے اور بیٹیاں۔

الگرض کہ مسیح کے شاگرد ختنوں کے روحانی مطلب  کو پہنچ گئے تھے۔ کیونکہ اُنہوں نےاپنے تئیں  دنیا کے جوئے  سے ہٹا لیا تھا۔ بنی اسرائیل جب بیابان میں تھے۔ وہ ختنے  و فسح  کی رسم کو  جو موسوی شریعت  کے موافق  اُن کے لئے ضروری  تھی۔ چالیس بر س تک ان کی ادائیگی سے باز  رہے۔ غرضکہ وہ بغاوت  کی حالت میں تھے۔  اور اُن کی  روحانی ھالت نہایت ہی ابتر تھی۔ مگر شاگردوں نے ختنے  کے روحانی مطلب کو بخوبی ادا کیا۔  اس وقت سے جبکہ اُنہوں نے مسیح کی خاطر دنیا کو ترک کیا۔

( ج ) سورت ترقی کی یہ تھی۔ کہ وہ مسیح کے ساتھ فسح کی آخری  رسم میں شریک ہوئے۔ جس میں اُنہوں نے یہ ظاہر کیا۔ کہ وہ گزشتہ علامتاً رسم شریعت  موسوی کو پورا کر کے مسیح  میں شامل ہونے کو تھے۔ یعنی اُس کی موت میں۔ چنانچہ مسیح کے مصلوب ہونے کے بعد جب وہ اُن پر ظاہر ہوا۔ اور نوشتوں کو اُن  پر منکشف  کیا۔ کہ اس کا مراورنا جی اُٹھنا لازمی تھا تو وہ فی الفور اس پر ایمان لائے۔ اور لکھا ہے کہ اُن کی آنکھیں منور ہو گئیں۔ اور مسیح کو جانا۔ کیا وہ مسیح کو پہلے نہیں جانتے تھے۔ کیا اُس کے ساتھ کھاتے پیتے اُٹھتے بیٹھتے نہ تھے؟ کیا اس کے بڑے بڑے  کاموں کو نہین دیکھا تھا؟ کیا اس کو زندہ خدا کا  نہیں کہا؟ بے شک ۔تاہم  وہ مسیح کی موت سے ابتک نا آشنا  تھے؟  لیکن اب وہ مسیح کی صلیبی موت سے آگاہ ہوئے۔ اور اُس کی فدا کاری پر ایمان لائے۔

( د) صورت ترقی کی یہ تھی۔  کہ وہ مسیح کے صعود فرمانے کے بعد  اس بات سے بخوبی آگاہ ہو گئے تھے۔کہ ہم اپنے نہین بلکہ خاص مسیح کے ہیں۔ یعنی مسیح کے لہو کے خریدے ہوئے ہیں۔  اب وہ بالکل تبدیل ہو گئے تھے۔ چنانچہ  اعمال کے پہلے  باب سے ظاہر  ہوتا ہے۔ کہ کس قدر اُنہوں  اپنا تعلق خداوند مسیح کے ساتھ کر لیا تھا۔ جب اُنہوں  نے دو شخصوں کو انتخاب  کیا۔ کہ  ان میں سے ایک ان کے ساتھ رسولوں میں شامل ہوتو اُنہوں  نے اس کا  انتخاب  خداوند پر چھوڑا۔ اور کہا ہے کہ  اُنہوں نے دعا کی۔ مسیح کے ساتھ اپنا تعلق پہچان کر ان کی طبیعت  دعا کرنے کی عادی ہو گئی تھی ہر ایک بات میں خداوند سے استفسار کرتے تھے۔  مسیح کی حین حیات میں  وہ اُن کے لئے جلال و فخر  کا باعث  تھا ۔ اور مسیح کی فتحیابی ان کی کوشی کا باعث۔ مسیحہی سب کچھ اُن کے لئے تھا۔  غم و اضطرار کے وقت  اور امتحان  و آزمایش کے وقت۔ اور خوشی و  خوری میں بھی ۔ مسیح  ہی سب کچھ ان کے لئے تھا۔ مگر مسیح کی وفات کے وقت سب پر عالم مایوسی چھا گیا تھا۔  اور وہ اس حالت ِ یاس  میں ایک دوسرے کے ساتھ غمگساری کرتے۔ اور غمخواری  میں شریک ہوتے تھے۔ ایک گروہ ان میں سے ایک کوٹہری  میں اکھٹا تھا۔ اور وہ اُن میں سے عماؔؤس کی طرف  باہم باتیں کرتے ہوئے جاتے تھے۔ اور اُن کے دل  مغموم تھے۔ مگر مسیح  کے جی اُٹھنے پر اُن کی اُمیدیں بر آئیں۔ اور مسیح کے صعود فرما  نے پر جیسا کہ لوقا کی انجیل میں مسطور ہے۔ وہ یروشلم کو واپس ہوئے اور اُن کے دل خوشی سے معمور تھے۔ یہ بات غور طلب ہے۔ کہ اولاً جب مسیح نے اپنے شاگردوں  سے اپنی جدائی کا زکر کیا۔ اور کہا۔ کہ کس زلت و رسوائی  کے ساتھ  لوگ اُسکو صلیب دینگے۔ تو وہ ناراض ہوئے بلکہ پطرس نے مسیح کو علیحدہ  کر کے سنا دیا۔ کہ اے خداوند ایسی بات تیرے  حق میں ہر گز نہ ہوعے ۔ اور جب مسیح پکڑوایا گیا۔ تو سب اسکو چھوڑ کر بھاگ گئے۔ لیکن اُس وقت جب مسیح اُن کی آنکھوں سے زیتون کے پہاڑ  پر سے غائب ہو گیا۔ تو وہ  یروشلم  کو واپس  آئے۔ مگر غم و مایوسی کی حالت میں نہیں۔ بلکہ اْن کی دل  خوشی سے  معمور تھے۔ گویا اب اُنہوں نے اس اطمینان  کو حاصل  کر لیا تھا۔ جس کا مسیح نے مصلوب ہونے سے پیشتر  زکر کیا تھا۔ یوحّنا ۱۴ باب ۔ پس جبکہ  وہ یروشلم  کو واپس آئے۔ تو ان کی آرزو ایک ہی تھی۔ اور اُن کی غرض  بھی ایک۔ ان کے دل تیار ہوگئے تھے۔  اور جب اُنہوں نے دعا کی تو  یکدل  و یکزبان  ہو کر کی۔ بلکہ لکھا ہے ۔ کہ دعا میں لگے رہے۔ اُس دن جبکہ وہ یروشلم  میں واپس آئے اور پنتیکوست کے دن تک یعنی بارہ دن کے عرصہ تک برابر دعا میں مصروف  رہے۔ اگر پوچھا جائے۔ کہ وہ یکدل ہو کے کس طرح دعا مانگ سکے۔ اور اس فعل میں کیا بھید تھا۔ تو اُس کا جواب یہ ہے ۔ اور اس فعل میں کیا بھید تھا۔ تو اُس کا جواب یہ ہے۔ کہ ہر ایک اُن میں فرداً اور مجموعاً ۔ متوجہ الی اﷲ تھا۔ اور جبکہ خدا کے ساتھ ایک تھے  تو آپس میں بھی یکدل ہو سکے۔

نتیجہ ۔ اتحاد قوت کا باعث ہے۔ اور باہمی اتحاد میں  تر خداوند  ہماری سُنتا ہے۔ چنانچہ  رسول بھی اس بات کا بار بار زکر کرتا ہے کہ محبت میں گھٹے  رہو۔ پلاطوس کی دارالعدالت  میں مسیح کے دشمن یک آواز بولے۔ کہ اسکو صلیب دو۔ اسکو  صلیب دو۔ حتی کہ پلاطوس نے ان ی سن لی۔ اسٹیفانس جب اپنی تقریر یہودی بزرگوں کے سامنے کر چکا۔  تو لکھا ہے کہ وہ کٹ گئے۔ اور دانت پیستے تھے۔  ایک دل ہو کر اُس پر لپکے۔  کاش کہ ہمارے دل بھی باہمی محبت میں ایسے ہی بستہ  و پیوستہ ہو جائیں۔ اور  مسیح کو اپنا منجی اور مالک تسلیم کر کے روح کی بارش کے لئے یکدل ہو کر دعا کریں۔ کیونکہ وہ وعدہ آجکے دن ہمارا ہے۔ اور ہم اُس وعدے کے مستحق ہو سکتے  ہیں۔ چنانچہ اعمال ۲۔ ۲۹ آیت میں مرقوم ہے۔ کیونکہ یہ وعدہ  تمہارے اور تمہارے  لڑکوں کے واسطے ہے اور سب ے لئے جو دور ہیں جتنوں کو ہمارا خداوند  خدا بلاوے۔

راقم۔۔۔۔ احقر العباد گو لکناتھ