Open Bible

 

بائبل شریف  اُس کی شہادت۔ خصوصیات و تاثیرات

تاثیرات کلام اﷲ


The Bible and its Uniqueness

Published in Nur-i-Afshan February 09, 1897


سولھویں  صدی  میں کلیسیا کی ایک بڑی  جماعت  نے برّاعظم یورپ مین تجدید اصول مذہب عیسوی کی وجہ سے اپنی  آزدگی از سرِ  نو حاصل  کی اور ہنوز اُسے قائم رکھتے ہیں۔ میں اِس خاص جماعت یعنے مسیحی کی نسبت پوچھتا  ہوں کہ اُس کی بناوٹ اور محافظت کی کیا وجہ ہے اِس کی وجہ بائبل ہے یہ فی  الواقع  کہا جا سکتا ہے کہ کلیسیا کی بنیاد اور پہلی ترقی بائبل  کی وجہ سے نہیں ہے۔ کیونکہ جب رسولوں اور اُس کے ساتھیوں نے پہلے پہل  انجیل  کی منادی  کی تو کوئی نوشتہ نئے عہد نامہ کا نہیں لکھا گیا  تھا۔ لیکن اِس دلیل سے میری بحث پر کچھ اثر نہیں ہوتا کیونکہ  نوشتوں میں جیسا مینے پہلے  بتایا وہ کلُ باتیں  پائی  جاتی ہیں جن کو مسیحی مانتے ہیں۔  فی الحقیقت  اُن کے کاتب اولاً انجیل کی منادی کرنے والے تھے اور اُنہوں  نے صرف وہی لکھا جو پیشتر سکھایا تھا اِسی مذہب کے شروع منادی کے نتیجے  کو بائبل  کی تاثیروں میں سے کم نہیں  سمجھنا  چاہئے کیونکہ اکثر  یہ منادی بمہ معجزوں کے کی گئی تھی جو صرف مانند  اُن علامتوں اور عجیب  باتوں  کے موسیٰ کے آئین  کے جاری ہونے کے وقت  لوگوں کو یقین دلانے کے واسطے زریعے  تھے کہ وہ باتیں جو زبانی  سکھلائی گئیں وہی تھیں۔ جنہیں خدا نے سکھلانے  والوں  کو حکم  دیا  تھا  اور جو اب نئے عہد نامہ میں درج ہیں کیونکہ کلیسیا کی محافظت  بعد رومیوں  کی سلطنت کی بربادی کے اور اُس کا بعد مین یورپ کی سب قوموں سے معلوم کرئے جانا کوئی کافی وجہ بجز اِس تعلیم  کے بائبل  سے لی نہیں دیجا سکتی ہے۔ کتاب بائبل  کو شاید ہی کوئی جانتا تھا لیکن اِس کی سچائی جو کسی نہ کسی طور پر لوگوں کے دلوں اور زہنوں میں پہنچتی  اُنکو عیسائی بنا کر کلیسیامیں  لانے کا زریعہ  ہوئی یہ بھی زیادہ تر عیاں ہے کہ  اسول کی تجدید بائبل کی تاثیر تھی لوگ  جن کے زریعہ سے یہ عمل میں آئی اپنے میں کوئی عجیب قوت رکھنے کا دعویٰ نہیں کرتے تھے۔ بائبل  کی  ایک  جلد جو اِس وقت بالکل نامعلوم تھی  ایک درویش  نے ایک جرمن  کی خانقاہ میں پائی  اور جسّے  یکایک مانند توریت کی جلد کے جو ہیکل میں روسیا کی  سلطنت میں پائی گئی تھی انقلاب مذہبی نہ صرف ملک جرمن میں بلکہ یورپ کے برّاعظم کے ایک بڑے حصّہ میں ظاہر ہوئی اس طور پر اب جیسے لوتھر اور اُسکے مدد گاروں نے کیا بائبل کی صاف اور ظاہری  تاثیر تھی انگلستان  میں بھی جو  ویکلفؔ صاحب  جس نےاِس کتاب کو اپنی مادری زبان میں ایک صدی سے پیشتر جو بعد میں دوبارہ ہنری ہشتم  کے وقت میں ترجمہ ہو کر پھیلائی گئی ظاہر کیا جس سے تجدید مذہب عیسوی کی بنیاد پڑ کر ششم ایڈورڈ  کے زمانہ  میں عمل میں آئی یہ تاثیر بائبل  یعنی کلیسیا کی بنیاد اور  اُس کی روز افزوں ترقی اس کی بنا کا رومیوں کےمل میں پڑنا ۔ اُس کا اِس سلطنت کی بربادی کے بعد قائم رہنا اسکا وحشیوں اور یورپ کیکل قوموں سے مقبول ہونا اور یورپ کے ایک بڑے  مغربی حصّہ کی حالت کا بہتر  ہو جانا آشکارہ  واقعات تاریخ کے صفحوں پر موجود ہیں لیکن ہم اِن  تاثیرات کے اعلیٰ مراتب  کی قدر نہ کریں گے تا وقیتکہ  اُن کی ملکی اور  آپس  کے تبدلات  جو اُن کے متعلق ہیں دیکھ نہ لیں پس اب میں تمسے ایک التماس  کرتا ہوں کہ لوگوں کی حالت کو قدیم زمانونکی کل بڑی بڑی سلطنتوں سے لیکر قسطنطین کے زمانہ تک اور زمانہ حال میں چین اور ہند کے غیر  اقوام راجاؤں کی حالت خراب از خراب  مسیحی سلطنت کے لوگوں سے مقابلہ کرو اِس مقابلہ سےبائبل  کی تاثیرات یعنی ظلم کا  کم ہو جانا  ذائی آزادگی کا بڑہجانا اور خانگی خوشی کا زیادہ عمل میں لانا اور زیادہ تر آپس میں خلطہ و ملط رکھنا جو ہر ایک عیسائی قوم کی خاصیت ہے چابت ہوتی ہے اور اگر یہ اِن ملکوں میں ہو جہانکہ یہ کتاب بہت کم لوگوں کو معلوم ہے اور اس کی تاثیر بہت کم لوگوں کو معلوم ہوئی ہے تو کتنی زیادہ یہ اِن ملکوں میں معلوم ہو سکتی ہے۔ جہانکہ یہ کتاب مذہبی پرستش کیواسطے جماعتوں میں سنائی جاتی ہے اور اُن کی خلوت کے مکانوں میں ہر ایک درجے کے آدمی سے جو اس واقف ہونا چاہتے ہیں پڑھی جاتی ہے۔ اِس کی ضرورت نہیں کہ میں ملکی حقوق خلقی خوبی اور آپس کی برکتیں اور سامان آسایش مان جن کے واسطے ہمارے محترم  آباو اجداد کا ملک مشہور ہے مفصّل  بیان کروں ھالانکہ اِس قدر برائیاں جو ان سے پیدا ہوتی ہیں برٹن کلاں اور سرکار انگلشیہ کے  بہتیرے صوبوں میں پائی جاتی ہیں تاہم کوئی انکار نہیں کر سکتا  کہ اِن میں غالباً ُآزدگی ؔ  آزادانہؔ خیالات منصف ؔ مزاجی سچاؔئی سخاؔوت فرائضؔ کا مدِّنظر  رکھنا  اور خانگی ؔ خوشیاں پائی جاتی ہیں اور کس وجہ سے ہم اِن سب باتو کے ممنون و مقروض ہیں کیا  اینگلو سیکسن یا نور من قوم کی وجہ سے نہیں۔ کیونکہ عربی  فارسی ترکی اور اموری قومیں قدرتاً انگریزوں کی مانند جسم اور حوصلہ میں یکساں ہیں تو پھر کیا کسی قانون ترقی پزیر کے سبب سے جو آدم زاد کی تاریخ  میں پایا جاتا ہے نہیں کیونکہ کوئی ایسا  قانون  مانا نہین جاتا تو پھر کونسی شہادت ترقی کی اور عقلی یا خلقی ہمارے پاس سلطنت کے منتقل ہونے بابلون سے فارس کو فارس سے یونان اور یونان سے ایشیا کو چک کی ہے۔ کونسی ترقی ہممشرقی راجاؤں کے سلسلہ میں یا مسلمانوں کی بادشاہت یونان یا ایشیا کوچک میں دیکھتے ہیں۔ دنیا کی تواریخ ایسے قانون کو قیاس کے برخلاف  ثابت  کرتی ہے تنہا عقلی  جواب ہماری اعلیٰ حالت کا یہ ہے کہ ہم بائبل کے زریعے سے یہاں تک ترقی کر چکے ہیں کہ اس کے سبب سے سلطنت انگلشیہ انگریزی قوم مشہور ہے۔ تس پر بھی ہم بائبل کی تاثیرات ہے جو اِنسان کے ضمیر اور دل اور مخصوص  لوگوں کی زندگی پر  ہوئی ہے میں ایمان کے معاملات کے  بارے میں نہیں بلکہ اُن واقعات کی بابت جن کی نسبت  کوئی بحث  نہیں ہو سکتی بیان کرتا ہوں اور یہ یاد دلاتا ہوں کہ کیونکر بیشمار حالتوں میں بائبل سے بے چین  دلوں کو آرام  ملا اور خستہ  گنہگار کو تسلی ہوئی کہ وہ اُن کی یقینی بات سے خوشی کرے کہ اُس کی بدیاں معاف  ہوئیں اور اُس کے گناہ بخشے  گئے کیونکر زانی  اور شرابی  چور بٹ مار لالچی خود غرض سنگدل بے رحم  اُس کی تعلیم  سے بالکل بدل گئے۔ اور درحقیقت نئی مخلوق بن گئے کیونکہ اُس نے رنجیدہ فاطمہ کو تسلّی اور مصیبت زدہ کو بیماری کے بستر پر خاموش رہنے کی طاقت دی لاچاروں  کے دلوں کو سنبہالا اور قیدی کو توفیق بخشی کہ وہ خوشی سے گائےکیونکہ اُس نے لوگوں کو مجبور کیا کہ وہ  دور دراز سفر کریں  ہر قسم کے خطروں میں اپنے آپ کو ڈالیں ہر قسم گی مصیبت اور تکلیف  اٹھائیں نہایت ہی وحشی لوگوں میں بودو باش اختیار کریں۔

ٹھٹھا ظلم اور موت  کو بھی صرف اِس واسطے برداشت کیا کہ اُنہوں نے اِس کتاب کو اپنے واسطے نہایت ہی بیش قیمت سمجھا اور اُس نے کس طرح سے اور لوگوں کو  جرأت  دی کہ وہ درندوں جانوروں سے پھاڑے جلد یا آگ میں ڈالے جانے کے لئے راضی تھے بہ نسبت اس کے کہ وہ اپنے اعتقاد سے پھر  جاتے یا اس کے کسی حصّہ سے منکر ہوتے کیونکر اُس نے مثلاً لوتھر۔ و یکلف اینری وغیرہ کو جن میں سے بعض تواریخ  میں مشہور ہیں ایمان بہادر بنا لیا کیونکر اُس نے ایمان ایماندار کو موت کے وقت ایک توفیق بخشی کہ وہ اگلے زمانہ کے لوگوں کے موافق کے میں اچھی لڑائی لڑ چکا  میں نے اپنا ارادہ پورا کر لیا میں نے اپنے ایمان کو قائم  رکھا اب میرے واسطے ایک راستبازی کا تاج رکھا ہےجسے خداوند میرا صادق  حاکم مجھے اُس وقت دیگا۔ 

  بائبل کی عجیب خاصیتوں میں سے ایک لاثانی طرز بیان ہے کسی دوسری  کتاب میں ایک مزمذہ اور  سچا خدا خالق  پروردگار اور مالِک دنُیا  کی صفتوں کا بیان یکساں طور پر ظاہر نہیں کیا گیا ہے لیکن بائبل  کی کلُ متفرق  کتابوں میں جس سے وہ مکمل  ہوتی ہے خدا یکساں غیر متغیر آلہی وجود اور ایک روح ہے جسئ کبھی کسی نے نہیں  دیکھا اور نہ دیکھیگا اور جو اپنی طاقت و نیکی و دانائی میں بے پایان اور غیور ہے اور بدی سے چشم پوشی نہیں کرتا  اور جو بلا سزا دئے اپنے آپ کو بے عزت نہیں کرتا۔ لیکن تاہم رحم  اور مہربان  جمول بدی خطا اور امرزگار ۔ منصف اور منجی ہے علاوہ  اسکے  خدا کی اُس خاصیت ہی کا بیان نہیں ہوا ہے بلکہ اس کے فی الواقع سلوک جو اُس نے انسان سے کئے اور اس کے  انصاف  کی سختی اور لااِنتہا  مہربانیوں کا بھی زکر ہے  خدا جو ناراستوں  کے گروہ پر طوفان لایا۔ جس نے سدوم و اُمورا کے شہروں کو راکھ کا ڈھیر کر دیا۔  جس نے سدوم اسرائیلیوں کو حکم دیکا کہ کنعان  کے بت  پرستوں کو نیست و نابود کریں۔ جس نے حالتمس کے آدمیوں  کو خدا کے صندوق کے دیکھنے اور اُس کے چھونے کی وجہ سے مار ڈالا۔ جس نے ہیرودیس کو اپنے آپ کو جلیل القدر سمجھنے کے سبب کیڑوں سے کہلایا یہ وہی خُدا ہے جس کی  بابت ہم بائبل سے سیکھتے ہیں۔ کہ اُس نے دُنیا کو ایسا پیار کیا کہ اپنے بیٹے  کو گناہوں کے کفارہ میں دیا تاکہ عادل  ٹھہرے اور اُنکا جو مسیح  پر ایمان لاتے ہیں شافعی ہو توریت کا خدایشوع قاضیوں  سلاطین تاریخ زبور اور دیگر انبیا کا خدا ہے اور وہی انجیل اور رسولوں کے اعمال  کا بھی خدا ہے وہ نور ہے اور اُس میں کل نیک فضیلتیں پائی جاتی ہیں وہ  جلتی آگ ہے جو ناراست بازوں پر فتوی دیگا۔  وہ محبت ہے اور یہ چاہتا ہے کہ سب آدمی بچ جائیں اور سچائی کوپہچانیں۔ خدا کی یہ کلُ صفتیں اگر چہ  ازروئے عقل خلقی ایک دوسرے سے نزاد کرتی معلوم ہوتی ہیں پر بائبل کے موازنہ کو زیادہ مشہور معروف کرتی ہیں۔ 

جس طرح اظہار آلہی قابل غور اسیطرح اظہارؔ انسانی قابل لحاظ ہے۔ بائبل  کے مطابق خدا نے آدم کو پہلا آدمی اپنی صورت پر زی عقل  نیک پاک خوش مزاج گناہ سے مبّرا اور بلا زوال بنایا لیکن آدم  نے خدا کے حکم کو توڑا۔  پس گناہ  اُس پر اور کل آدمیوں پر قابض ہو گیا اور گناہ سے موت آئی سب آدمیوں پر چھا گئی کیونکہ سب گنہگار ہوئے پس بائبل  آدمی  کو بطور ایک گرے ہوئے مخلوق کے جو گناہ میں پیدا ہوا ایک قہر آلودہ فرزند کی مانند ظاہر کرتی ہے  وہ اُس رحم کے لایق ہے جس کے واسطے خدا نے ایک راستہ گناہ سے چھٹکارہ پانے اور بعد مرنے کے ہمیشہ کی  زندگی میں جی اٹھنے  کے لئے بزریعہ اپنے ملاپ  کے نکال دیا ہے یہ اظہار انسانی جیسا کہ بیان ہوا لاثانی ہے۔  اس کا ثانی اور کہیں نہیں پایا جاتا ہے بائبل کی کتاب میں جس طرح ایک خدا  کازکر ہے ویسا ہی ایک  اِنسان کا خاکہ کھینچا ہے یعنی بگڑا ہوا۔ لیکن صورت الہی کے نقش پر خدا کے سامنے قصور وار تاہم غیر مردود گناہ میں پیدا  ہوا۔ لیکن راستبازی اور حقیقی پاکیزگی میں مبزل ہونے  کے لایق۔ گناہ کے برُے نتائج  برداشت کرتے ہوئے لیکن جب روحانی طور پر از سر نو پیدا  ہوا تو آلہی فضل سے ابد الا باد خدا میں ثنا خوان رہنے کے لایق۔ مذکورہ بالا لفظوں میں بائبل انسان کی تصویر کھینچتی ہے۔

بائبل میں نہ صرف جداگانہ طور پر خدا اور انسان کی لا ثانی تصویر ہے بلکہ اس میں جو سب سے عجیب ہے۔  وہ خدا اور انسان کی تصویر ایک دوسرے سے ملی ہوئی۔ یعنی اُلوہیت اور اِنسانیت ایک ہی اقنوم میں شامل دیکھتے ہیں۔ خدائے مجسم یعنی یسوع مسیح دنُیا کی تاریخ  میں بے مثل ہے کبھی کوئی انسان اس آدمی کے موافق  نہ تھا  کبھی کسی مورّخ شاعر نے اس کی مانند صفت منقش نہیں کی یعنی ایک کامل آدمی کی صفت جو گناہ سے مبرا تھا وہ دنُیا کے بہادروں میں سے نہ تھا نہ ایک زبردست بادشاہ  نہ فتحیاب سپہ سالار نہایک مشہور عالم نہ ایک بڑا سخندان۔ لیکن ایک ایسا انسان  جسے اس کے  ہمقوموں نے حقیر جانا۔ اور رّد کیا اور جس میں وہ خوبصورتی جو وہ ڈھونڈھتے تھے نہ پائی۔ یسوع مسیح میں ہم بالعوض دواجی بیان کے اُس کے خود الفاظ اور کاموں سے اُس کی مصیبت  اور موت اُس کا جی اُٹھنا اور آسمان پر چڑھ جانا دیکھتے ہیں۔ وہ ایسا انسان تھا کہ اگرچہ وہ الہامی اختیار سے کہتا اور کرتا تھا تاہم مفلسی میں رہتا تھا یہاں تک کہ اُس کو  سر رکھنے کے لئے جگہ نہ تھی اور ہر قسم کے لعن طعن  اور بے عزتی برداشت کی اور ایک زلیل موت یعنی بدمعاش کی موت پائی وہ ایسا انسان تھا کبھی چھیڑ چھاڑ سے ناراض نہ ہوا کبھی فطرتی  اِسرار سے گھبرانہ گیا کبھی کسی خطرہ سے نہ ڈرا۔ ایسا انسان جو تمام صحیفوں میں پاکیزگی کا یکساں نمونہ بتا رہا آلہی صداقت کا  معلم یکساں رہا۔  گناہ کو یکساں ملعون کرتا رہا اور  توبہ کرنے والے گنہگاروں  کا یکساں بخشنے والا۔ وہ ایسا انسان تھا کہ کسی خدمتی کام  کے کرنے سے اپنے سے نیچ نہیں سمجھتا تھا باوجودیکہ وہ سردار کاہن اور یہودیوں کی مجلس کے روبرو  اپنے حق میں ابن آدم کے عہدہ کا دعویٰ کرنے اور  آیندہ میں قادر مطلق  کے دائیں طرف بیٹھنے اور بادلوں پر آسمان سے آنیکی پیشین گوئی کرنے میں نہ چوکا پس کسی کی یہ کوشش کرنی کہ بالعوض اس کے کسی دوسرے کو مسیح قرار دیں جو بانی  مذہب  عیسوی اور کل اس کی ممیزہ  صفات سے خالی ہو۔ ایک عام بائبل  کے پڑہنے والے کے نزدیک بھی جہالت اور بیوقوفی کا اظہار ہوگا۔

بائبل کی دوسری خاصیت جس کا اب میں زکر کرتا ہوں  اِس کا سکوت  اُن خاص باتوں کی نسبت ہے جنکی نسبت آدمی  روحانی وجود زات  صفات کے جاننے اور روحکی حالت اور قیام بعد موت  کے دریافت کرنے اور آدمیوں کا ارواح  یا مرُدوں سے گفتگو کرنے کے بہت خواہش مند معلوم ہوتے ہیں اِن معاملات  کی بابت بائبل  میں کچھ بھی نہیں پایا جاتا البتہ ہم اس سے معلوم کرتے ہیں کہ روحیں ہیں یعنی فرشتے جو خدا کی طرف  سے بھیجے جاتے ہیں کہ اُن کے لئے جو وارث  نجات ہین شیاطین کو کچھ عرصہ  کے لئے انسان  پر حاسدانہ اژ کی کوشش کرنے کے لئے اجازت ملتی  لیکن بعد میں ان کو اپنی شرارت کے لئے راست جزا ملیگی ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ مرُدوں  میں سے بعضے مسیح میں سوتے ہیں اور زندگی میں جی اُٹھنے کےواسطے  انتظاری کرتے ہیں اور دوسری ہلاکت میں جی اُٹھنے کے لئے محفوظ کر دئے گئے ہیں بیبل میں صرف اس قدر  دونوں امورات مذکورہ کی نسبت بیان ہے اس میں یہ بیان نہیں ہے کہ آیا  یہ ممکن  ہے کہ مرُدوں  یا ایسی ارواح سے جو خدا سے بطور قاصد ہمارے پاس بھیجے نہیں جاتے۔ گفتگو  ہو سکتی ہے بار بار نہایت زور کے ساتھ ایسا اقدام کرنے سے منع کرتی ہے۔ ہمکو یہ نہیں بتایا گیا  ہے کہ آیا  وہ جو مالوفِ ارواح یا ساحر  سے صلاح  کاا رہونے میں دم بھرتے ہیں دغا باز ہیں یا کسی بھول میں ہیں یا درحقیقت کسی دوسری دنیا کی ارواح سے افشاء راز  پاتے ہیں لیکن یہ صاف  طور  پر بیان کیا گیا ہے کہ ایسا ہر ایک آدمی خدا کے نزدیک  نفرتی ہے اس کل بیان  میں نائبلکی متفرق  کتابوں کے درمیان پوری پوری  مطابقت پائی  جاتی ہے۔ اب میں چند مختلف قسم کی خصوصیات کا زکر کر ونگا۔

منجملہ ان کے ایک بائبل کی پاک وساف  و نیک تعلیم ہے۔ اسکی تردید بعض بعض اوقات اس طرح پر کیجاتی ہے کہ بائبل یہ ظاہر کرتی ہے کہ خدا دیدہ  و دانستہ رسوماتو روایات کو جو ظاہر اً  برُی ہیں مقبول  ٹھہراتا۔ اور ان کاموں کو جو ہر ایک آدمی کی طبیعت کے بر خلاف ہیں حکم یا ترجیح  دیتا  ہے لیکن اگرچہ ہم کافی وجہ اس بارہ میں دینے  کے ناقابل ہیں کہ کیوں خدا نے غلامی یا کثیر الازدواجی یا فحش عورتوں کو گھرمیں ڈال لینے کو منع کیا۔ اور نیز کیوں اسرائیلوں کوضکم دیا کہ کنعان کے باشندوں کو نکالدیں اور کیوں ظاہراً  عیہود کو عجلوں سے اور جیل کا سسرا سے مقتول ہونے میں خوشی ظاہر کی  لیکن ہماری  ناکامیابی  خدا کے اغراض  کےبیان میں اور دیگر  امورات ہیں جو انسانی سلوک  سےمتعلق ہیں بائبل  کی نیک خاصیت  پر اثر  نہیں کرتے۔ بائیبل ہر موقع پر خالص نیکی سکھلاتی  ہے اس کے سبب سے  قدیمی نوشتوں کے احکام  یہ ہیں تو  خون نہ کرنا۔ زنا نہ کرنا۔ چوری نہ کرنا۔ جھوٹھی گواہی  نہ دینا۔ لالچ نہ کرنا۔ اور ایک نبی کے پاس آٹھ سو برس بعد کے یہ ہیں۔ اُس نے تجھے  اے آدم جو کچھ بھلا ہے بتایا اور تجھے خداوند کیا چاہتا ہے۔ مگر یہ کہ تو راستی  کرے اور رحم  سے محبت  رکھے۔ اور خدا کے ساتھ فروتنی سے چلیں اس سے کل اُس کی متفرق کتابوں کی تعلیم  ملتی ہے اور یہ جائے غور ہے کہ اُس کی کسی کتاب میں شروع  سے آخر تک ایکل جملہ بھی  شہوت۔ بے انصافی۔ لالچ۔ یا بد خواہش  کا نہین پایا جاتا ہے سب طرح کی ناراستی فریب دشمنی اور جو کچھ شائستہ  لوگ برُا بتاتے  ہیں بائبل خدا کے لوگوں کو دور  رہنے کو سکھلاتی ہے ۔ اور جو باتیں ٹھیک راست اور واجب ہیں ان کو کرنے کو بتلاتی ہے پس کیا میرا دعویٰ ٹھیک  نہیں ہے کہ بائبل  کی  ایک خاصیت  اِس کی پاک صاف و نیک تعلیم ہے۔

  ماسوا اس کے جوں جوں ہم اس کتاب کو پڑہتے ہیں اسکی تعلیم بتدریج  عالی اوع روحانی  خاصیت کی معلم ہوتی ہے جو کہ تشریح اس امر کی  کریں اس میں شک ہے کہ ہم پر اُنے عہدنامہ کی سابق  کتابوں سے لے کر پچھلی  کتابوں  تک مطالعہ کرنے سے معلوم کرینگے  انبیاء  اور پھر نہایت  صراحت  کے ساتھ پرانے عہد نامے کے بعد نئے عہد نامے کے مطالعہ کرنے سے کہ کیونکر ہمارے  خداوند  اور اس کے رسولوں نے موسیٰ  کی  توریت کی بنیاد قایم کر کے  اس پر اپنی خاص روحانی تعلیم کاڈھانچہ بنا لیا خاص خاص آیتوں کے ھوالے دئیے میں بہت وقت صرف ہو گا لیکن اسی معنے کے امثال  دینے میں  یسعیاہ کے پہلے باب کی دسویں آیت سے بیس (۲۰)  تک حوالہ دیتا ہوں جہاں  نبی بیان کرتا ہے کہ کس قسم کا نماز روزہ خُدا کو پسند ہے اور کس طرح سب کا دن پاک رکھنا چاہئے میں تمکو اپنے إبارک خداوند کی پہاڑی وعظ  اور کل احکام  کا اختیار جو اُس نے خدا اور ہمارے پڑوسیوں کی محبت میں ظاہر کیا۔  یاد دلاتا ہوں  اِس تدبیر کا ازحد حساب پیغمبر  اپنے اظہار جو انسان کی پیدایش کے بارے م،یں ہے اس بتدریج اعلیٰ  نیک  تعلیم سے کہیں زیادہ قابل  لحاظ ہے۔ لیکن میں اِس کا بیان  نہ کرونگا کیونکہ اگر  بیان کروں تو بائبل  میں تسلیم کرنا ہوگا کہ فوق  انسانیت  وجود کا بیان ہے جس سے میں اس موقع پر  در گزر کرنا چاہتا ہوں ۔

بائبل کی نیک تعلیم کا ملاحظہ ہمکو بذاتہی متوجہ کرتا ہے کہ ہم اُس کی متواتر التجا جو جانب انسانی ضمیر اور عقل ہے غور  کریں۔ بائبل ہمیشہ انسان کو اس آئین کے بموجب سکھاتی ہےکہ اُسے مان لینا چاہئے اور راغب ہونا چاہئے نہ کہ اُس کی ایمان اور فرمانبرداری  اطاعت  کرنی  چاہئے ۔ اس کے الفاظ یہ ہیں کہ ہمنے تمہارے سامنے زندگی اور موت برکت اور لعنت رکھدی ہیں پس زندگی کو چُن  لو وہ بدکاروں کو ان کی بیوقوفی کے سبب ملامت کرتی ہے۔  تم اس طرح  پر اے بیوقوف  اور نادان  لوگو خداوند  کو چھوڑ دیتے  ہو وہ خدا کو ایسا بیان کرتی ہے  گویا وہ اپنے لوگوں کی شکایت کرتا ہے کب تک تم اے جو سادہ لوح ہو سادگی کو پسند کروگے۔ اور اے کفر بکنے  والو کفر کو کب تک  پیار کرو گے اور اے بے وقوفوکب تک دانائی سے نفرت رکھو گے میری ملامت پر پھرو۔ اسیطرح پر آنے عہد نامے کے کل انبیاء  تحریر کرتے ہیں اسیطریقہ میں باربار خداوند یہودیوں سے کہتا ہے اگر میں حق کہتا ہوں تومجھ پر ایمان کیوں لاتے۔ اور  نبی طبعال کے لئے ۔ اگر  آپ یہ فرماویں کہ اُنکا کیا علاج تو بہتری کہ آپ خدا سے دریافت کریں شاید وہ کسی شفیع  کا آپ کو پتہ  بتلاوے اور میری  سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ آ  پ کو  پلید  روحوں کی زمہداری کس نے دی۔ میرا خیال ہے کہ آپ  اُن ہی سے دریافت کریں کہ وہ اپنے حق میں کیا سوچتی ہیں۔ ( متی ۸: ۲۹)’’  اور دیکھو اُنہوں نے چلاّ کے کہا کہ اے یسوع خدا کے بیٹے ہمیں تجھ سے کیا کام تو  یہاں آیا کہ  وقت سے پہلے ہمیں دکھ دے‘‘۔ دشمنوں کو  ہر زمانہ میں موقعہ ملا کہ وہ اُنکی نسبت  کلام کفر  نکالیں  بہت حالتوں مین وہ ایسے  تھے کہ ہم ان کے قصوروں کو بہ سبب ان کے معمولی  چال چلن  کے ایسا نہیں سمجھتے کہ وہ ایسے افعال کرنیکے قابل تھے۔ اِبراہیم نے جو بالخصوص  خدا پر اپنا ایمان رکھنے کے لئے مشہور تھا دوبارہ اپنی  بیوی  کو ترغیب  دی کہ وہ اپنے آپ  کو اُس کی ہمشیرہ  ظاہر کرے تاکہ وہ اپنی زندگی کے ایک متصور خطرہ سے بچ جاتے موسیٰ جو اپنی حلیمی کے باعث  مشہور تھا ایک دفعہ  غضبناک  ہو کر  بو لا  اور ایک ایسا بیجا اور نا مناسب کام کیا کہ کدا نے اسے ملک کنعان میں داخل نہو نے دیا ۔ شاہ سلیمان جو سب سے زیادہ عقلمند تھا بت پرستی کی بیوقوفی میں برگشتہ ہو گیا۔ الیاس  جو انبیا میں سب سے بہادر تھا اِسرائیل کے دھمکا نےپر اپنی جان بچانے کے واسطے  بھاگ گیا۔ اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کچھ عرصہ  تک نا اُمیدی کی حالت میں رہا۔ حزقیاہ جو ایک  نیک بادشاہ تھا جب خدا نے اسے چھوڑ دیا تاکہ اُسے آزمائے تو اُس نے اپنے ذاتی غرور اور جھوٹھے فخر کا اِظہار کیا۔ داؤد جو خدا کے اِرادوں  کو جانتا تھا وہ بہ سبب معیوب تقصیر  زنا جاری کے قتل کیا گیا اور پطرس رسول نے جو مسیح کا سب سے زیادہ سرگرم شاگرد تھا اس نے آلہی مالک کا تین مرتبہ انکار کیا یہ خاصیت۔ نہ صرف ایک ہی یا زیادہ کتابوں سےمتعلق ہے بلکہ پوری  جلد سے۔

اس کےراست بیان  کے ساتھ جو خاص کاص اشخاص کے قصور کی نسبت وہ سکوت جلد میں قومی  نیکیوں کی  طرف یا اطراف میں ہے قابل غور ہے۔  بائبل میں اِسرائیلی  لوگ جنہیں خدا نے کاص اپنی قوم چن لیا تھا اور جنہیں اُس نے اپنے فرمان اور حکم  جو اور لوگوں کے پاس نہ تھے عطا کئے۔ روئے زمین کی کل قوموں میں افضل  بیان کئے گئے  ہیں لیکن اس کے ساتھ یہ بھی بیان  ہے کہ وہ حقوق جنہیں وہ استعمال کرتے تھے۔  ان کی راستبازی  کے باعث اُنہین نہ ملے کیونکہ وہ سرکش لو گ تھے  اِسی طرح جب ان کے دلیر انہ کام مثلاً ملک کنعان کی فتحیابی  مدیانیوں کا جدعون اور اُس کے تین سو آدمیوں سے ہلاک ہونا  اور دوسرے کام جو یونانیوں اور رومیوں کے بہادروں سے بڑہکر تھے کا زکر ہوا ہے تو ان کی عظمت نہیں کی گئی ہے بلکہ صرف  خدا ہی کی تعریف ہوتی  ہے تاکہ وہ یہ کہ سکے کہ میری  طاقت یا میرے بازو کی توانائی سے یہ ہوا وہ ہوا۔  اُن کی عظمت  اور تعریف  کی صرف ایک ہی مثال یاد ہے وہ ڈیبو را کے گیت میں زبلون اور نفتالی کی بابت ہے کہ وے اپنی جان کو موت کے  خطرے میں میدان کی بالا جگہوں میں ڈالتے تھے دیگر مورّ خان مثل تھیوسی ڈایئسڈینر اور ٹاسیٹس  نے بلا رعایت خطاؤں اور قصوروں کا بیان کیا اور دوسرے شاعرمثل  جونیل اور جانسن  کے اپنے ہموطنوں کی بدی کا بیا ن کیا۔ لیکن دنُیا نے ایسے مستقل  سکوت کی نسبت جسے ایک سلسلہ مورخوں  اور شاعروں نے قومی اخلاقی کی بابت جن سے وے متعلق تھے  اور جن کے واسطے اُنہوں نے لکھنا اِختیار کیا  کبھی کوئی دوسری مثال نہیں پائی ہے مینے صرف پرانے عہد نامے کے نوشتوں کا حوالہ دیا  ہے لیکن یہ کیفیت نئے عہد نامہ کے نوشتوں سے متعلق ہے  صرف فرق یہ ہے کہ اِن  میں  یہ واقعات ایسے تعجب انگیز نہیں ہیں۔

میں پچھلے واقعہ کے متعلق بائبل کی دوسری خاصیت کا زکر کرتا ہوں کہ جن قومونپر اُس کے مختلف نوشتوں میں اسرائیلیوں پر ان کی بت پرستی  اور دوسری بدکاریوں کے باعث خدا کی بہت سخت سزاؤں کی دہمکیاں ہیں۔ اِنہی نوشتوں میں اکثر اُن وعدوں کا زکر ہے جو وہ اُن کو بسبب ایک قوم ہونیکے آخر میں معاف کرنیکو کہتا ہے اور یہ کہ آیندہ میں اُن کی سر فرازی اور بڑھتی ہو گی ۔بے شمار دہمکیاں اِستثنا اور نیز ہر ایک  پیغمبرانہ کتاب میں اِبتدائے برکتوں کی پیشین گوئی کے ساتھ قریب قریب ہمیشہ  پائی جاتی  ہیں۔ نہ صرف موسیٰ بلکہ یسعیاہ۔ یرمیاہ۔ ہوسیا۔ یوئیل۔ عاموس۔ ابدیا۔ میکا۔ ہباکوک۔ انبیا جو بابلوں کی اسیری  کے ماقبل رہ گئے تھے اور حزقئیل و دانیل جو اس زمانہ میں تھے حاجی اور زکریا اور ملاکی جو اُس ے بعد گزرے کسی نہ کسی طرح یہی ظاہر کرتے ہیں کہ خداوند اُن کا خدا پھر قوم اِسرائیل کو اسیری  سے رہائی  دیگا اور وے اپنے شہروں کو بنائینگے اور بسینگے۔ وے اپنے انگور کے باغ  لگائینگے اور اُن کے میوے کھائینگے۔ وہ اپنی زمین کو آباد کرینگے اور پھر کبھی نکالے  نہ جائینگے۔  پرانہ عہدنامہ کے نوشتوں میں  اس قسم کی بہتیری  مثالیں پائی  جاتی  جو نیز نئے  عہدنامہ سے مطابقت  کرتے ہیں۔ ہم ایک مثال اپنے خداوند کا یروشلم  پر ماتم کرنے کی نسبت پاتے ہیں جیسا کہ اُس نے اس شہر کی  آنے والی  بربادی کی بابت پیشین گوئی  کی  اور کہا میں  تمسے  کہتا ہوں  کہ اب آگے  کو تم مجھکو  ندیکھو  گے جب تک تم نہ کہو  کہ مبارک ہو وہ جو خداوند  کے نام  پر آتا ہے۔  اسطرح  اُس نے خبر دی کہ ایک وقت آئیگا جب یہودی اس کو پھر دیکھینگے اور اس کا استقبال  اپنے  چُھڑانے والے کی مانند کرینگے۔  دوسری  مثال رومیوں کے خط میں ہے جہاں کہ پولوس رسول خدا کے سلوک کا  حوالہ اِسرائیلیوں کے ساتھ دیتا ہے کہ اِسرائیل پر ایک طرح کا اندھاپن  آپڑا ہے اور جبتک غیر قوموں کی بھرپوری نہ ہو یہ رہیگا۔ اِسیطرح تمام اِسرائیلی بچ جائینگے اُن کے ثبوت میں یسعیاہ نبی کے کلام کا حوالہ دیتا ہے کہ چھوڑانیوالا صحیون سے نکلیگا اور بیدینی کو یعقوب  سے دفع کریگا۔

دو اور خصوصیات  ہیں جنکو مین در گزر کرنا نہیں  چاہتا ہوں ایک تو بائبل کی سادہ  طرز گو ناگوں معجزات واقعات  کے بیان کرنے کاجو اس میں مرقوم نہیں ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے  کہ اُسکا ہر ایک تب خدا دنیا وی  بندوبست و اِنتظام کا ایسا متقّین ہو گیا تھا کہ اس کی قور جے کیس عجیب ظہور کو وہ ایک تعجب کی بات نہیں اور نہ مثل  منکرِ  کلام اﷲ  کے حّجت  کے بلکہ صرف  اس طور پر مانگتا تھا۔ کہ وہ ایک زریعہ ہے جسے وہ خاص خاص  موقعوں پر اپنا  اختیار  ظاہر کرنے کے لئے اِستعمال کرتا ہے تاکہ  آدمی اُسکی  مرضی کو پہچان کر ویسا ہی کرے اِس لئے بائبل میں ہم معجزانہ واقعات  کو تاریخی واقعات  سے بالکل علیحدہ  نہیں کر سکتے واقعات ثابت کے مابعد الزکر سے اس قدر ملےِ جُلے  ہیں کہ ایکدوسرے سے جدُا نہیں ہو سکتے پس اگر پہلا مانا جاوے تو دوسرے کو بھی قابل  اعتبار تسلیم کرنا پڑیگا  تعجب کی بات ہے کہ زمانہ حال میں اس کا  اکثر خیال نہیں کیا جاتا ہے۔ 

سب سے آخرئ خاصیت بائبل کی اس کی یکساں طرز آلہی  اختیار کی ہے میرا یہ مطلب  نہیں ہے کہ فی الحقیقت  ہر ایک کتاب کا یا کسی مکمل جز کے سوائے خدا  یوحنا کے مکاشفات  کے کہووہ  خدا کے الہام سے لکھی گئی لیکن اِن سبھوں میں ایسی سدا ہے جو  اگراس  نوع پر لکھی نہ جاتی تو  کاتبوں  پر نقص عاید ہوتا شاید یہ قابل لحاظ  نہیں ہے کہ تاریخی  واقعات ایسے طریقے سے بیان ہونے چائیں کہ جس سے داستان  کی سچائی  محبت  کے قابل نہ  رہے مگر بہت ہی لحاظ کے قابل  ہے کہ  تمامشرحیں جہیں کہیں وے لکھی گئیں اس طور پر مندرج  ہونی چاہئیں  کہ باالعوض غلط رائے ظاہر کرنے کے اس میں ایک ایسی فہم  اور عقل پائی جاتی ہو غلطی کرنے کے ناقابل  ہو۔ علاوہ اس کے  جتنے خواص اور بیان خدا کے بارے میں ہوں  اس کے وعدے  احکام اور دہمکیوں سے ثابت ہونے چاہئیں کہ یا ان سے یہوداہ  کے اِرادے مرضی  اور منشا ظاہر ہوئے ہیں۔ یہ ایک خاصیت  کل پرُانے  عہد نامےکے نوشتوں کی ہے اور ہمارے خداوند  نے اُس کے مطابق اسکی نسبت کہا کہ ان میں یہودی قوم کی نسبت پہلا وسوسا ایمان  لانے  اور بے حیا  فرمانبرداری  کا موجود ہے الہیٰ اِختیار خطوط میں پوشیدہ طور پر ظاہر ہیں۔ ہماگین سدائے عہدنامہ کے نوشتوں میں جگہ جگہ  پائی جاتی ہے۔  اول کے چند خطوط میں جو خاص خاص  کلیسیاؤں  کو لکھی گئیں ہیں اور نوشتوں کا ایک بڑا جز  ہے مصیبت کی ہمدردی  اسے مجبور کرتی ہے کہ انسانی رغبت کی سدا ان لوگوں کے ساتھ جن سے وہ مخاطب  ہے اور جن  کو  وہ  چاہتا ہے رجوع لائیں استعمال کریں اور شاید اِبتدائے مطالع  میں آلہیٰ حکم کے برعکس معلوم ہو گا تا ہمہمیشہ ظاہر ہو گا کہ یہ الہامی اِختیار  مصنف کی ہمدردی  کے بیان میں پوشیدہ طور پر پایا جاتا  ہے اور وہ یعنے پولوس ضعیف  اور یسوع مسیح کا قیدی محنت کرتی ہے اور کود بھولتا نہیں اور نہ یہ چاہتا ہے کہ دوسرے بھول جاویں مانند ایک رسول کے اُسے مسیح میں اور بھی زیادہ دلیر ہونا چاہئے نہ کہ وہ ان باتوں کو حکم کرے جو راست ہیں نیز وہ طریقہ جس میں وہ سفارش کرتا ہے اور حکم ہی دینا ثابت  کرتا ہے کہ وہ کس اِختیار سے لکھتا ہے یہی بائبل کی تعریف  ہے۔ جو کہ گویا ایک مجمع مذہبی نوشتوں سے ایک تاریخی  ڈہانچے میں سازو سامان  سے بنی ہے اور مسیح  کی عام کلیسیا سے مسلم ہو کر اٹھا رہ سو برس میں مجلد ہوئی۔  وہ اِیسی کتاب ہے جو اپنی عجیب  نوعیت  اور جدا جدا حصوں  کے مکمل سازگاری  سے خدا اور انسان کی لاثانی تصنیف سے اور اس سے بھی زیادہ اپنی عجیب بے وصل تصویر  یعنے تصویر خدا بشکل انسان یعنے یسوع  مسیح  سے اور اپنی سکوت کی خاصیت سے جو عالمِ ارواح  کے بارے  میں ہے اور جس کے لوگ واقع کا ہونے میں زیادہ آس مند ہیں۔ اور اپنی یکساں راست اور بتدریج  اعلیٰ خلقی تعلیم سے اپنے متواتر آرزو  اور لعنت  سے آدمیوں کے ضمیر و عقل  سے اپنے سادہ بیان  اور نیک آدمیوں کے بڑے کام سے اپنی قومی نیکیوں کی سب  تعریف یا اطراف سے اپنی آیندہ کی لاچانی قومی بہبودی اور بڑہتی کے  وعدوں  سے اور آخرش اپنے سیدھے سادھے  معجزانہ وقفوں کے بیان کرنے سےاور اپنے آلہی اختیار کی یکساں سدا سے مشہور و معروف ہے میں شاید چند امورات کا بیان فروگزاشت  سرگیاہوں جنکی نسبت تمہارا خیال ہو گا کہ اُن کا بیان کرنا لازم ہو گا لیکن اس قدر نوشتوں کی مجلد کتاب کا عجیب خاصیت  ثابت کرنے کے واسطے  کاف ہے کہ کوئی کتاب اس کے مقابلےمیںنہین ہے اور وہ لاثانی  یکتا کتاب ہے۔ 

اب مجھے صرف کتاب مقدس کی تاثیرات کے بارہ میں کہناباقی رہ گیا ہے جو کہ میرے مضمون کا تیسرا جز ہے وہ دو وعدوں  میں غور کیاجا سکتا ہے اول وے جو کہ صرف پرُانے عہد ناموں کے نوشتون سے پیدا ہوتے  ہیں اور دوم وہ جو پرُانے  اور نئے دونوں عہد ناموں  کے نوشتوں سے ظاہر ہوتے ہیں پیشتر پرُانے عہد نامہ کیطرف میں تمہاری توجہ مبزول کروانی چاہتا ہوں ۔

پُرانے عہدنامے کے نوشتوں کی تااثیر بنی اِسرائیل کے ایک  خاص قوم بن جانے اور اُنکی محافظت یکساں رہنے میں ملک کنعان میں باد ہونے کے وقت سے لیکر یروشلم کی بر بادی تک جو رومیوں نے کی مختصراً بیان کیا جا سکتا ہے۔ چند لمحوں تک اس قوم کی تواریخ وصفت و تاثیر کی  بابت جو دنُیا میں نمود ہوئیں غور کرو۔ یہ تسلیم  کر کے کتاب مقدس کی عام سچائی ثابت ہو گئی ہے ہم اِس سے معلوم  کرتے ہیں کہ بعد مصر چلے جانے کے اور ملک کنعان پر قبضہ  کر لینے کے اُنہوں نے پندرہ  سو برس  تک ہر قسم کے تبدلات  دیکھے بار بار اُن  کے ملک پر حملے ہوئےاور اُجاڑ کر دیا گیا اُن کے شہر برباد ہو گئے اورنہایت سخت ظلم  سے سلوک کئے گئے اور اکثر تھوڑے سے رہ گئے تاہم بار بار دشمنوں کے ہاتھ سے بچائے  گئے اپنی آزادگی حاصل  کی۔ اور سابق کے موافق اور زیادہ اقبالمند ہو نگے۔ داؤد اور سلیمان کےعہد سلطنت  میں کل گردونواح  کی قوموں پر حکمران رہے اور بعد ازاں وہ  دو سلطنتوںاسرائیل اور یہودا  میں منقسم ہو گئے جن میں سے ماقبل الزکر برباد ہو گئے اور باشندگاں اسیریوں سے مقّید  ہو گئے  اور سلطنت بابعد  کو بادشاہ  بنو کہ نظر  فتح کر کے وہااں کے باشندوں کو شہر بابلون میں لے گیا۔ بابت دس فرقوں کے جو سلطنت اِسرائیل میں شامل تھے ان کا آگے بیان نہیں ہے پر دوسرے فرقوں  یہودا اور بنی یامین یا  ان  کا ایک بڑا  شمار بابلوں سے واپس آکر پھر ملک کنعان  میں سے جہاں رومیوں سے قطعی طور پر پراگندہ کئے جانیکے  وقت تک رہے بیان ہے یا مابین  ان کل صدیوں کے اور تبدل حال کے اقبالمندی اور تنگ حالی میں مشُترکہ  اور دو جداگانہ سلطنتوں میں قبل حملہ اسیریوں کہ یہ بارہ فرقے اور باقی دو فرقے  ہمیشہ ایک ہی قوم لیکن دوسری قوموں سے علیٰحدہ اور جدُا رہی۔ لیکن ان کی تعریف کی اس موقع پر اُن کی جدااگانہ خاصیت کیا تھی۔ ایک خاص بات جوان میں دیکھی جاتی ہے یہ ہے کہ کلُ  قوموں میں وہی صرف ایک خدا کی پرستش بطور خالق پروردگار  اور جہان کے مالک کے جو صرف آدمیوں کی پر ستش  اور خدمت کے لایق اور مناسب ہے کرتے تھے باوجودیکہ اُنہوں نے اپنے غیر  قوم پڑوسیوں کی بت پرستی کی رسموں کو کم و بیش عرصہ کے لئے قبول کر لیا تھا تس پر بھی وہ مابین اِن پندرہ  سو سالوں  کے بطور شاہدان  دنیا خدا کی و حدانیت  اور بتوں  کی پر ستش کو بُطلان  سمجھتے رہے۔ پھر پرُانے  عہد نامہ کی تاریخ اور پیغمبرانہ کتابوں  کو ہوشیاری سے ملاُحظہ کرنیسے معلوم ہو گا کہ بنی اِسرئیل  دوسری قوموں سے اپنی اعلیٰ اخلاقی ملکی آزادگی اور آپس کی  خانگی خوشی کے باعث مشہور تھے اکثر جبکہ نبیوں نے اُن کو بہ سبب اُن کی ناراستی بدی۔ لالچ۔ ریاکاری اور رسم کے ملامت کی تو ممکن ہے کہ ہم اُن کو  ایک قوم بن جانے کی نسبت برُا خیال کریں۔ لیکن اگر ہم اِس طریقہ  کو جس میں غیر قوموں کی برُائیوں کا بیان ہے غور کریں۔اور نیز یہ کہ کیونکہ اُن کو برُائیوں سے پرہیز کرنیکی  نصیحت  دیگئی تو ہمکو اعتبار  کرنے کی وجہ معلوم ہو گی۔  کہ وہ  ایسے برُے نہیں تھے جیسا ہم اس سے پہلے اُنہیں قیاس  کرتے تھے اور جو تشبیہ غیر قوموں کی پولوس  رسول نے رومیوں کی کتاب میں دی ہے وہ اُن  سے بالک متعلق نہ تھی اور اس عرصہ دراز تک جس میں وہ غیر ملکی حملوں سے محفوظ رہے۔ اُن  کی آپس کی اور خوانگی خوشی  جنہین ہم اس بیان سے جو سلیمان کے عہد میں ہوا ہے معلوم کر سکتے ہیں ۔ یہ سب ہر ایک صحیح سالم اپنے انگور اور انجیرکے درخت کے نیچے رہتے تھے اور نہ صرف بہ سبب اپنے عالی اخلاق کی وجہ سے ایک  خاص  قوم سمجھے جاتے تھےبلکہ وہ کہیں زیادہ  ممتاز شخصوں کی نیکی کی وجہ سے مشہور تھے۔ کس پرُانی  تواریخ  میں سموئیل اور نحمیاہ کی مانند ھکام یا یہوشفات حزقیاہ اور جوشعیا کی مانند بادشاہ جو اپنےانصاف  اور خوف خدا اور اپنے لوگوں کے فکر کیواسطے جن پر وے حکومت کرتے تھے معروف تھے پاتے ہیں یا مانند  دانئیل اور اُس کے تین ساتھیوں کے جواپنے کو خوفناک  ہلاکت میں بہ نسبت گناہ کرنیکے ڈالنے کو راجی تھے یہ ایسے لوگ جن کی نسبت ہم زبور سے سیکھتے ہیں جو ہز زمانہ میں پائے جاتے تھے اور خدا کے  وفادار بندے تھے اور ہر خطرہ میں اس سے مدد اور غموں  میں تسلی چاہتے تھے اور جن کو قوت دی تھی اور خوشی تعریف اور شکر گزاری کرنے میں بگی دیکھتےہیں  درباب اِسرائیلیوں  کے دُنیا پر  موثر ہونے کے یہ یاد رکھنا چاہئے کہ جب ان کا اگلے زمانہ کی خاص  قوموں یعنی مصریوں اِسیریوں پارسیوں یونانیوں  اور رومیوں  سے متواتر سروکار پڑا  تو یہ ان کے مذہب کی خصوصیات  دے باری باری واقف ہو گئے اور اُن کی قومی اور شخصی  خاصیت  کو جان گئے  دو خاص امثال  ہم دانیل کی کتاب میں انکی  تاثیروں کی جو اُنہوں نے  اس طور پر ڈالیں  بابل کے بادشاہ نبوکدنظر اور میدی اور فارس کے بادشاہ دارا میں پاتے ہیں۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اس میعاد کے درمیان جس میں شاہ نبوکد نظر نے یروشلم  مانند حالت موجودہ کے دُنیا کے کل شائستہ ملکون پر منتشر ہو گئی۔اور جہاں کہیں وہ رہے اُنہوں نے یکساں شہادت اپنے کاص ملک کے عبادتخانے  میں پر ستش کرنے اور دوسری طرف سے الوُہیت کی یگانگت  اور بتُ پرستی  کو بُطلا سمجھتے ہیں  دی ۔ اس  شہادت  کے نتایج کو ہر خاص  ملک میں  دریافت کرنے کا ہمارے پاس کوئی زریعہ نہیں مگر وہ واقعات  جو گاہ بگاہ اعمال کی کتاب میں مندرج ہیں۔ مع دیگر تاریخ گزشتوں کے ثابت کرتے ہیں کہ وہ کم نہ تھے۔ بعد اِختتام ہونے اِس زمانہ کے جس میں زکر کرتارہا ہوں یعنے ہمارے خداوند  یسوع مسیح کے پیدا ہونے کے قریب ایک عام  اُمیداُن  کے درمیان پائی جاتی تھی جیسا کہ  تمکو یا د ہو گا کہ کہا گیا تھا کہ داؤد  کے خاندان  سے ایک پیدا ہو گا جو اُن کابادشاہ  اور مسیح یعنے مسح کیا ہوا خدا کا ہوگا وہ اُن کی قوم کی بزرگی  اور اقبالمندی کو پہلے  کے برابر بلکہ اس سے بھی زیادہ بڑہائیگا لیکن جب وہ یسوع ناصری جس  کے بارے میں مسیحیوں کاایمان ہے کہ وہ اُمین اُس میںپوری پو گئی  انکے پاس آیا تو اُنہوں  نے اس کو رد کیا اور صلیب دینے کے واسطے پکڑ لیا۔ اُسکے بعد ۷۰ برس کے اندر شہر اور ہیکل برباد کر دئے گئے اس وقت سے ابھی تک یعنے کچھ اوپر اَٹھارہ  سو برس سے کہ وے تمام روئے  زمین پر پراگندہ ہیں۔  اور اگرچہ نہ اُن کے پاس کوئی ایسا ملک تھا جسے وہ اپنا کہ سکتے۔ یا کوئی ہیکل جسمیں وہ مزہبی رسومات  کی یادگاری کرتے اور ھالانکہ نہایت سنگدل  کے ساتھ ستائے گئے تاہم اُنہوں نے اپنی  جداگانہ قومی خاصیت قایم رکھی اور دوسرے لوگوں کے درمیان رہ کر بعض اوقات بڑی اقبالمندی  اور بعض اوقات سخت تنگی میں رہتے ۔ہر قسم کے ملک کے بادشاہ قومی  دستور اور خانگی حالت میں مبتلا ہو کر باوجود اُس دشواری کے جس سے بعض اوقات اُن کی باہمی آمد و رفت ناممکن ہو گئی۔  اُنہوں نے اپنی  قومی پہچان قایم رکھی اور سابق کی کل باتیں یاد رکھیں اور علاوہ اس کے جو اس سے زیادہ غور  کے لایق ہے یہ ہے کہ وہ ایک آیندہ  کے نجات دینے والے کی اُمید کرتے  چلے آتے تھے۔  یہ خیال کر کے  کہ اُن کے سب لوگوں کو ایک جگہ اکھٹا کریگا۔ اِس طرح فی الواقع عجیب تواریخ  زمانہ حال سے لے کر زمانہ سابقا کے بہت برسوں  کے مابین جس کی  اُنہوں نے اپنی جداگانہ خاصیتیں  قایم رکھیں معلوم ہو سکتی ہے۔ اور نسبت اُن کے ایمان اور مزہبی رسومات کے اُن کی علیحٰدگی دُنیا  اور قوموں سے اور اُن کا باہمی رشتہ فی الواقع اسی قوم کے لوگ ہیں جو زیرپیشتر یشوع کے جسے صدیوں گزر گئیں  ملک کنعان میں داخل  ہوئے اور اس پر قبضہ  کر لیا  اور اٹھارہ  سو برس ہوئے کہ مسیح پر اُس کے  مرتے دم قہقہا مارتے تھے اور یہ کہتے تھے کہ اگر وہ اسرائیل کا بادشاہ ہے تو اپنے آپ کو صلیب  پر سے اُتار دے تو تب ہم اُسپر  ایمان  لائینگے  پس سوال یہ ہے کہ کس سبب سے اِس قوم کی ابتدائی  بناوٹ اور مابعد  کی لگاتار  حفاظت قایمرہی۔ یقیناً جواب یہ ہے  کہ بائبل کی وجہ سے یعنی  پرُانے عہدناموں کے نوشتوں کے اِن حصوں کی وجہ سے جو سلسلہ دار اُن کی اولاد کے پاس  رہے اُن کی کل عجیب تاریخ کی حتی الامکان  یہ تشریح ہو سکتی ہے کہ ان کا مضبوط اور پختہ اِعتبار ان نوشتوں پر تھا ان کے مذہبی دستورات اور رسومات  کی تاثیر ان کی قربانیوں اور تیہواروں سے جن سے اُن کی جُدا گانہ قومیت قایم رہی اس بیان سے مطابقت کرتی ہے کیونکہ وے  رسومات اور دستورات کل شریعت سے جو نوشتوں کا ایک حصّہ تھا اور پس اُن کی تاثیر ات میں شامل  ہونا چاہئیں قایم کئےگئے تھے اور نہ خدا کی خاص مہربانیاں جو طاہر کی گئیں اور وہ معجزہجو اِسرائیلیوں کے لئے خدا نے وقت بوقت کئے اِس سے غیر متعلق  ہیں کیونکہ ایسے ایسے  خاص  آلہی توصل  قدراً یا معجزاً  سرزد ہوئے  جنسے  نوشتوں کی شرحوں کو عمل میں لائیں نہ کہ  ساقط کر دیں پس مین دوبارہ بیان کرتا ہوں  کہ پرُانے عہد نامہ کی کتاب کی تاثیر بلا تعلق نئے عہد نامہ کے یہ تھی کہ ایک خاص قوم جو کہ اوروں سے بالکل متفرق  تھی اُن کی حفاظت زمانہ موجودگی تک ہوتی رہی اور جوکہ دُنیا میں جب وہ ملک کنعان میں رہتے تھے اِس سچائی کے  تنہا گواہ تھے کہ صرف ایک خدا ہے۔اور اس کے سوا اور کو ئی نہیں جنہوں نے ابتک روُئے زمین پر دوسرے زمانہ  میں بھی جس میں پراگندہ  ہو گئے  اپنی پہچان  قایم  رکھی  اور حالانکہ صرف ایک خدا کی گواہی  دیتے تھے۔ تسپر بھی اُنہوں  نے یسوع ناصری کو اپنا منجی سمجھنےمیں مستقل طور پر انکار کیا اور دوسرے بچانے والے کی اُمید کرتےرہےکہ اِن کو سابق کے ملک میں پھر لیجائیگا اور بطور ان کے بادشاہ کے بادشاہت  کریگااور مین کل بائبل کی تاثیرات کا جو پرُانے اور نئے عہد نامہ سے تعلق ہے بیان کرتا ہوں تاثیرات مذکورہ سے یہ مختصراً بیان کیا جا سکتا  ہےکہ  ایک خاص جماعت جو اور قوموں  سے متفرق ہے یعنی مسیحی کلیسیا  اور اُن کی حفاظت  جو متواتر  کئی  صدیوں سے آجتک  ہوتی رہی متصور ہے اب ہم چند باتیں اِس جماعت کی بابت غور کریں۔  اور  کلیسیا  کی بنیاد  کی بابت  سوچو کہ اَٹھارہ سو برس سے زیادہ ہوئے کیونکر وہ یہودیوں میں سے جو چھوٹی  اور حقیر  قوم تھی نکل آئے  اور ان میں بھی اعلیٰ  درجہ کے اشخاص یا دینی سرداروں  میں سے بلکہ غریبوں اور مجاہلوں میں سےماسوأ اس کے ان کی تیز ترقی  بہت جلدی یہودیااور سامریا  اور قریب قریب کے ملکوں میں پھیل گئی  اورپھر وہاں  سے چند سالوں میں  رومیوں کے ملک میں  پہنچی۔ یہ امر قابل غور ہے کہ اس سے ہرایک  جگہ حاکموں  کا مقابلہ عوام کا ظلم اور بدسلوکی برداشت کرنی پڑی روم کے یکے بعد دیگرے بادشاہوں نے اس کو نیست و نابود کرنا چاہا  پر وہ قایم  رہ کر زیادہ  تر مضبوط  ہوتی گئی حتی کہ اِس نے شاہی مہربانی حاصل کی اور عیسوی دین سے غیر قوموں کا مذہب تبدل  ہو کر وہ رومیوں کی سلطنت  کا مستحکم  مذہب قرار دیا گیا اِسی طرح پر وہ جیساکہ تمکو  یاد ہوگا کہ شاہ جوین کی چند  روز سلطنت  کے سوا بڑہتا گیا پھر رومیوں کی سلطنت کی بربادی کے بارہ میں گور کرو۔ کہ جیونکہ اس اِنقلاب میں جو بعد میں وقوع میں آیا کلیسیا قایم  رہی اور وہ حالات جن پر ہم غور کرینگے جُدا قسم کے  ہیں قبل اِس کےکہ  عیسوی دین  کو شاہ کونسٹن ٹاین  نے روی سلطنت  کا مذہب  قرار دیا بہت سی برُائیاں تعلیم اور دستور کے بارہ مین مرّوج ہو کر کلیسیا میں پھیل گئی تھیں اور زیادہ  تر بعد میں پھیلتی چلی گئیں حتٰی کہ وجہ سے ساتویں صدی میں محمدیوں  کا آغاز  اور اُن کی فتحمند ترقی مشرقی ملکوں میں شرع ہو گئی اور صدی مذکورہ مابعد میں رفتہ رفتہ روم  کے بشپ کا تسلط مغربی ملکوں میں ہو اور بارہ مشرقی کلیسیا کے جو محمد اور اس کے پیرو کاروں سے ہلاک کر دی گئی کچھ اور ان سے زیادہ بیان  نہیں کیا جائیگا  حالانکہ  کسیقدر  بیرحم  ظلم  جو اُن پر پہلے  کئے گئے تھے بچکر  وہ اب تک بگڑی ہوئی اور برُی حالت  میں موجود ہے اور اِسرائیل کے دس فرقوں کے ابھی تک اپنی صادقہ پاکیزگی اور سر فرازی  حاصل  نہین کی لیکن مغربی کلیسیا پر  جیسا کہ پہلے  بنیامین اور یہودا کی بابت ہوا خدا کی مہربانی اور رحمت ظاہر ہو ئی۔