مذہب کا اصل کام کیا ہے

What is the Purpose of Religion?

Published in Nur-i-Afshan March 20, 1884
By. Rev. Elwood Morris Wherry
(1843–1927)

جیسا ہم لوگ مذہب کے نام سے کچھ کام کرتے یا کرنا چاہتے ہیں ویسا ہی مذہب خود ہمارے لیے کچھ کام کرتا ہے اور جہاں جانبین کے کام برابر ہو جائیں وہاں کہا جائیگا کہ مذہب کی تکمیل ہوئی۔

عام لوگوں کے خیالات مذہب کی نسبت  صرف اُنہیں کاموں پر منحصر پائے جاتے ہیں جو وہ مذہب کے نام سے کرتے ہیں  اور اور بس۔ وہ مذہب کی بیرونی علامات کی پابندی ضروری سمجھتے ہیں یعنے ایک مزہب کا جامہ پہن لینا مثلاً  چوٹی اور جنئیو کا قائم رکھنا ختنہ اور شرعی موچھوں کا لحاظ رکھنا اصطباغی لینا وغیرہ وغیرہ ۔  وہ سمجھتے ہیں کہ پوجا پاٹ اور زبدوریاض کرنا دان پُن  قربانی اور زکوۃ کا دینا وعظ و تعلیم اور عبادت میں اپنے  آپ کو  مصروف رکھنا حج اور تیرتھہ کے لیے دور دراز سفر کرنا ہی مذہب ہے لیکن میں کہتا ہوں کہ یہہ مذہب کے کام  نہیں ہیں۔ بہت لوگ تاریک الدنیا ہو کر گوشہ نشین یا بن مانس بن جاتے ہیں اور زبان  سے اﷲ اﷲ یا رام رام جپنا اور جسم کو طرح طرح کی تکلیفوں میں ڈالنا مذہب کا کام سمجھتے ہیں  لیکن  یہہ مذہب نہیں ہے ۔ بہت سے مسلمان صوفی ترک تعین اور بمہ اوست کی قیل و قال  اور ہند و گیانی محض گیان کے چرچا کو مذہب سمجھتے ہوئے ہیں لیکن یہہ اُسی قسم کی گفتگو ہے جو فلاسفی یا منطقی مباحثوں میں کام دیتی ہے اور جس میں ہار جیت کا درجہ مدنظر رہتا ہے پر وہ مذہب  نہیں ہے۔ بہت لوگ دن یا سال کے مقررہ وقتوں کی عبادت کا نام مذہب  رکھتے ہیں گویا مذہب کو ایک شغل سمجھتے ہیں جو خاص وقتوں  میں کام دیتا  ہے اور باقی اوقات میں تہہ کر کے دھردیا جاتا ہے۔ بہت لوگ نیچر کی آڑ  میں چھپکر علاوہ پابندیوں  سے آزادی حاصل کر لیتے ہیں اور محض اُنہیں باتوں کو مانتے ہیں جنکو  اُنکی عقل نیچر سے محدود کر سکتی ہے اور اِسی کا نام مذہب رکھتے ہین لیکن یہہ  مذہب نہیں ہے۔ بعض واعظوں کی پرُتا ثیر کلام اور بعض مصنفوں  کی اثر انگیز تحریر ہماری آنکھوں سے آنسو بہا دیتی ہے  اور گناہوں کی خرابی اور زلت اِس درجہ تک دکھاتی ہے کہ ہم ایک دم کے لیے بالکل ڈر جاتے اور دل میں کوشش کرتے ہیں کہ گناہ سے توبہ کریں اور پھر کبھی اُسکے گرد نہ بھٹکیں لیکن یہہ بس نہیں ہے  یہہ سب وہی کام ہیں  جو ہم مذہب کے لیے کرتے ہیں اور اِنمیں وہ شامل نہیں ہیں جو مذہب  ہمارے  لیے  کرتا ہے اور گو ہمارے وہ کام ایک طرح  سے مذہبی کام ہیں کیونکہ مذہب کی پابندی میں سرزد ہوتے ہیں    تاہم ہمارے کئے ہوئے اور مذہب کے کئے  ہوئے کاموں میں بڑا   فرق ہے۔ مذہب کے لیے آپ  کام کرنا اور مذہب  کو اپنے  اوپر کام کرتا ہوا پانا دو  مختلف  خبریں ہیں ہمارے کام کرنیکے ساتھ ضرور  ہے کہ مذہب بھی ہمپر اپنا  کام کرے اور ہماری روحوں میں تبدیلی پیدا کت دے۔

المختصر مذہب ہماری عقل یا ہمارے جسم کا کام نہیں ہے خدا کی بابت خالی  خولی سوچ رکھنا مذہب نہیں ہے اُسکے حوضور چڑھا وا چڑھا نا  خواہ ہاتھ سے ہو خواہ منہہ سے مذہب نہیں ہے نفس کُشی اور ترک علا ئق  اور اپنے آپ میں زید دریافت کی عادت ڈالنا بھی مذہب  نہین ہے البتہ یہہ سب باتیں مذہب میں شریک ہو سکتی   ہیں اور مذہب کے کام  کا نتیجہ کہی جا سکتی ہیں۔ اِلا مذہب نہیں ہیں پس جب یہی  تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر مذہب کا کام کیا ہے۔

مذہب انسان کی اخلاقی ضروریات کو پورا کرتا ہے اور اپنی  تاثیر سے اُسکو ایسا بنا دیتا ہے کہ ویسا اور طرحسے  بننا محال ہر اور یہہ سچ ہے کیونکہ مذہب ایک آسمانی طاقت ہے اور آسمانی طاقت کے بغیر انسان خود اپنی کوششوں سے خدا کی نظر میں جچنے کے قابل نہیں ٹھہر سکتا لیکن انسانی ضروریات ایک اور قسم کی بھی ہیں جو اکثر اُسکے دل میں کھٹکتی  ہیں اور وہ بھی  مذہب کی امداد کے سوا اور کسی چیز سے پوری نہیں ہو سکتیں۔

ہم اپنی طبیعت میں دو مختلف خواہشیں  دیکھتے ہیں جو اپنے ہونے میں دو نو زبردست ہیں ایک نیک کام کر نیکی اور دوسری بدی کرنیکی اور اکثر بدی کو خواہش کو نیکی پر غالب پاتے ہیں اور یہی خیال ہمکو ایک خدشہ میں ڈالتا  اور اعتراج پیدا کرتا ہے کہ کیا یہہ دونو متضاد و صفتیں قدرتی ہیں اور اگر قدرتی ہیں تو ایسا کیوں ہوا یہہ تو کسیطرح خیال نہیں کیا جا سکتا کہ ناز اﷲ خدا، ناپاک  یا بے منصف ہے کیونکہ ہم طبعی طور پر اُسکو غائیت و نیک غائیت پاک غائیت  بیان کرنیوالا اور قادر مطلق مانتے ہیں اور ایسے خوفناک  خیال  کر دلمیں مشکل  سے جگہ دسیکتے ہین کہ وہ اپنی  مخلوقات  کی کشھ پرواہ نہیں کرتا اور عمداً   اُسکو نفسانی جوشوں کے رحم پر چھوڑتا ہی نہیں ہم بذاتہ  یقین کرتے ہیں کہ خدا جیسا قادر مطلق ہے ویسا ہی مطلق پاک اور مطلق پیار  ہے وہ ہرگز نہیں چاہتا کہ اُسکی مخلوقات ہلاکت کے راستہ میں چلے یا سیدھے راہ سے بھٹکے پس جب یہہ یقین ہے تو پھر ہماری موجودہ  اندروانی حالت کا تذبذب کیوں ہے۔ اب اِس تزبزب کے سٹانے میں نہ ہماری عقل کچھ کام کر سکتی ہے اور نہ ہمارا کا نشنس کچھ امداد  دبسکتا  ہے اور آخرش ہمکو مذہب کیطرف رجوع ہونا پڑتا ہے کیونکہ اِسکا علاج محض مذہب کے ہاتھ میں ہے وہی  اُسکی تردید کر سکتا ہے اور وہی اپنی تاثیر سے اِس کھٹکٹہ کو دل سے صاف نکال سکتا ہے۔

پھر جب ہم چارونطرف اِس وسیع دُنیا کو دیکھتے ہیں تو اُس میں بےشمار ترتیبیاں پا کر ایک اور نئے تذبزب  میں پڑ جاتے ہیں۔

ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں جیسے نیک لوگ ہیں ویسے  یہہ بھی ہیں لیکن نیک  ہمیشہ اپنے ارادوں میں کامیاب نہیں دیکھے جاتے ہیں حالانکہ بدجن کو ہم خراب جانتے ہین اکثر با مراد اور بااقبال نظر آتے ہیں۔ نیک آدمی جن سے بنیا کو نیک فائدے پونچتے یا  پہونچنے  والے ہیں بہت سے جوان عمر  میں مرتے اور اپنی جو روبچنے وغیرہ کو اپنے رشتہ داروں یا غیروں کے رحم پر چھوڑ کر چل بستے ہیں حالانکہ ایک شریر آدمی جو لوگوں کو نقصان پہونچا کر خوش ہوتا ہے اپنی پوری عمر تک جیتا اور تمام بیرونی حالتوں میں محفوظ نظر آتا ہے اور یہہ صرف ایک جگہ یا ایک خاص وقت کا اتفاق نہیں  ہے بلکہ ہر جگہ اور ہر وقت برابر دیکھا جاتا ہے ۔ پس اگر کوئی نیک اور  قادر مطلق خدا موجود ہے جو ہمیشہ نیک آدمیونکو بیمار کرتا اور بدی سے تنضّر ہے تو بہت سے نیک آدمی تا مرگ کیوں نا خوش اور خراب آدمی عمر بھر خوش رہتے ہیں۔ ہماری عقل ایسے سوال کے جواب کی اشد ضرورت رکھتی ہے کیونکہ بغیر ملنے شافی جواب کے وہ دنیا کے مالک کل پر کامل بھروسہ نہیں رکھ سکتی۔

   ہماری عقل جب اسطرحکے  اندرونی اور بیرونی مخصوص  میں پڑجاتی ہے اور دیکھتی ہے کہ نیک اور بد سبکا انجام موت ہے جس کے نام سے ہر ایک زندہ مخلوق کانپتی ہے تو اِسکی وجہ دریافت کرنا چاہتی ہے وہ سوال کرتی  ہے کہ نیک خدا اپنی مخلوقات کو بدی کے پھندے میں کیوں پھنسنے دیتا ہے اگر  وہ اُسکا  نیک ہونا پسند کرتا ہے تو کیوں  اُسکو بالکل نیک نہیں پیدا کرتا ۔ گو  بعض لوگ رفتہ برفتہ اِسی دنیا میں نیک بنجاتے ہیں مگر بہت سے مصیبت اور تکلیف کے بعد  پھر اگر وہ نیکوں کا دوست ہے تو تکلیف میں کیونکر دیکھ سکتا ہے۔ یہہ تو نہیں ہو سکتا بعض حُباّل کا قول ہے کہ دنیا محض ایک کھیل ہے جسکو بڑے کھلاڑی نے محض اپنے دل بہلانے کیواسطے پھیلا رکھا ہے نہیں بیشک اِسمیں کوئی اعلیٰ مطلب مدنظر ہے جو ہمارے اور اک سے باہر ہی اور ضرور اِس میں کوئی نہ کوئی بھاری سر مستنر ہے جس کا افشا ہم پر اذخود نہیں ہو سکتا اور  نہ ہم خالق کی محبت اور اسکی مطلق قدرت پر آسانی سے کیونکر یقین کر سکتے ۔

المختصر  کیا وجہ ہے کہ جب وہ خود نیک ہے اور ہم سے نیکی چاہتا ہے اور ہم کو نیک بنا سکتا ہے اور پھر نہیں بناتا۔ ہمکو تمام برائیوں سے محفوظ رکھنا چاہتا اور رکھ سکتا ہے اور پھر نہیں رکھتا ۔ خود بدی سے نفرت کرتا ہے اور پھر روکنے کی قدرت رکھتا ہے اور پھر نہیں روکتا۔ اِن سوالوں کا جواب مذہب کے متعلق ہے اور سچاّ مزہب ہے اِن  سبھونکو حل کر تا ہے اور ہماری تسکین کر سکتا ہے اور اگر نہ کرے تو پھر اُسکے ہونیکا فائدہ ہی کیا ہے۔

مذہب کا اصل کام انسان کی اخلاقی اور عقلی ضروریات کا پورا کرنا ہے اور اب اس آرٹیکل میں صرف اِس امر کے بتلانیکی کوشش کرینگے کہ سچے مذہب کی پہچان کیا ہے۔

اگر ہم تہذ یب اخلاق   کی کل باتوں کا جو دیکھنےمیں بھلی اور عقل کے کوش کرنے والی ہیں لب لباب لیکر اپنے لیے ایک دستور العمل بنادیں اور اُسکو مذہب ٍ قرار دیں تو یہہ بس نہیں ہو گا یا اپنے چار ونطرف نظر دوڑا دیں اور جو باتیں ہمارے مذاق کے پسند ہوں یا ہمارے خیالات  کو تحریک دسیکتی ہوں کچھ یہاں اور کچھ عہاں سے انتخاب کر کے اُسکا نام  مذہب رکھیں تو یہہ بھی کافی نہیں ہے جبکہ ہمارے لیے اصلی اور موثر طاقت کی ضرورت ہے جو  ہمپر  اپنا اثر ڈالے  اور اپنی  تاثیر سے ہم میں ایسا  نتیجہ پیدا کرے جسکی عظمت  اور فضیلت ہم اپنے پچھلے پرچوں میں بیان کر چکے ہیں۔ یہہ سچ ہے کہ دنیا میں بعض مذاہب ایسے  موجود ہیں لیکن جبکہ  ُکل ضروریات پر حاوی نہیں ہیں اِس واسطے تسکین کے قابل نہیں ہیں۔ ہم مذہب کو الۂی طاقت  مانتے ہیں جو محض خدا ہمارے خالق  کی جانب سے ہمکو اُسکی مرضی کے مطابق بنانے کے لیے تحریک پاتی ہے اور جو مذہب اُسکی جانب سے آتا ہے وہی حقیقت  میں اِس صنعت سے موصوف پایا جائیگا وہی بزاتہ قوی اور مضبوط ہوگا  اور وہی اصل میں سچا مذہب اور ہماری طبیعت  کی ُکل ضروریات اور خواہشوں کو پارا کر سکیگا اور جب اُسکا منجانب اﷲ ہونا صاف اور معقول  شہادتوں  سے چابت ہو گا تو وہی اعتقاد اور اعتماد کے قابل ہوگا اور نہ انسان اُس مذہب سے کبھی تسکین نہیں پا سکتا جو اِدھر اُدھر ی  کتربیونت  سے تیار کیا گیا ہو کیونکہ اُس میں نہ زاتی وحدانیت ہے اور  نہ موثر طاقت۔

ہم درکت میں مضبوطی لچک اور خوبصورتی تینوں صفتیں مشترکہ پاتے ہیں  اور یہہ باعث سے ہی کہ خدا نے خود اُسکو اپنی قدرت  کامل سے اُگایا  ہے اور وہ ایک ہی جڑہ سے بڑھکر اپنے پورے قد و قاست اور طاقت کو پہونچ گیا ہے لیکن اگر ہم خاص اپنی صفت سے ایک درخت  بناویں جو اصل میں پیپل کا درخت  ہو اور اُسپر جامن کا چھلکا چڑھا  کر آم کی پتیاں اور اُنپر نیم کی پتیاں جمادیں اور  شگوفوں کی جگہ گلاب کے پھول اور پھل کی جگہ سیب لگاویں تو وہ کسی کام کا نہیں ہوگا کیونکہاُس میں نہ طاقت ہو گی نہ استعمال  کا فائدہ اور نہ خوبصورتی ۔ پس مذہب بھی ایک زندہ  درخت خاص  خدا کی پیدایش کا ہونا  چاہیے جس میں انسانی ضروریات کے لحاظ  سختامی لچک اور خوبصورتی برابر پائی جاویں  اور جڑہ کی مضبوطی بھی تاکہ اُس درخت کو آندھیوں کے طوفان  سے جو اکثر اُسکے گرد اُمنڈے  رہتے ہیں محفوظ  رکھ سکے۔ انسان کی نفسانی شہوتوں  کے جوش اُسکی مغروری  اُسکی   خودی  اُسکی  خود غرضی اُسکے شکوک سب کے سب مذہب کے لیے خوفناک طوفان  ہیں اور محض وہی مذہب جسکی جڑہ مضبوط ہوگی  اپسکے مقابلہ میں قائیم رہ سکیگا اور دوسرا نہیں۔

جب یہہ حالت ہے تو پھر  ایک ایسے مذہب پر جو اپنی سچائی کے ثبوت کی کلی اطمینان نہیں دلا سکتا بھروسہ کرنا گویا ساب سے آپ تلاش کرنا ہے اور اسیواسطے انسان کا حق بلکہ اُسکا فرض ہے کہ مذہب کی جڑہ یعنی اصلیت کی خوب تحقیق  کرے اور دیکھے کہ وہ خطرہ کے وقت مضبوط رہ سکتا ہے یا نہیں اور نیز یہہ کہ وہ میرے  حق میں کیا کہہ رہا ہے۔ اگر ہماری موجودہ حالت بمقابلہ گزشتہ حالت کے اِس نسبت  کسیقدر بہتر ہوگئے  ہیں یاد یکھتے ہیں کہ اپنے نفس امادہ کے مفسد جوشوں کو بہ نسبت سابق کچھ زیادہ  مطیع نہیں کر سکتے یا اپنے کمزور کنگال اور مصیبت ذدہ ہمجنسونکی ہمدردی کا خیال پہلے سے بڑھکر نہیں رکھ سکتے یا خودی اور خودغرضی ہماری طبیعت سے آگے کی نسبت کچھ کم نہیں ہوئے تو یہہ امر دو شقوں سے خالی نہوگا  یا تو ہمارا مذہب جھوٹا ہے اور اپنے کاموں میں سچایہ کی تاثیر مطلق نہیں دکھلا سکتا اور باہم دیدہ و دانستہ اپنی  ضعیف الاعتقادی اور  شوراپشتی سے اُسکو تاثیر اپنے دلپر جمنے نہیں دیتے ۔ پس دونوں حالتوں میں ہمیں خدا سے دعا مانگنی چاہیے کہ وہ ہمکو کامل روشنی اور کامل طاقت بخشے تاکہ ہم اُسکا  سچا راستہ دیکھنے اور اُسپر تازیت ثابت قدم رہنے پر قادر ہوجاویں اور اپنے آپ کو ایسا بناویں  جیسا وہ ہمارا بننا پسند کرتا ہے۔