Mango Fruit

درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے


A Tree is known by its Fruit

Published in Nur-i-Afshan March 27, 1896

یہ تو ایک پرُانی مثال  ہے جس  کو ہر ملک کے لوگ بخوبی جانتے اور اپنی روزمرہ کی گفتگو میں استعمال کرتے ہیں۔ مگر  یہ چھوٹا  جملہ  بہت  ہی معنی ہے۔ پھل اور درخت میں ایک خاص تعلق  اور ایک خاص زندگی اور ایک خاص  رشتہ  پایا جاتا ہے بلکہ یہ دونوں دو نہیں ایک ہی تن ہیں۔ درخت مثل ایک گونگے و بہرے و نابینا  کے ہے  جو طاقت گویائی و بینائی و سماعت سے بالکل ہی محروم ہے گو جان رکھتا ہے پر بے زبانی کی وجہ سے مثل مردہ بے حس و حرکت ہے۔  صرف پھل ہی سے اُس کے سارے اوصاف ظاہر ہو جاتے ہیں۔ علم باٹنی کے علمانے درخت  کے بارہ میں بہت سی تصانیف  لکھیں  ہیں اُن کا یہ قول مقولہ اور تجر بہ  ہے کہ درخت کے درمیان نر و مادہ ہوتے ہیں اور جس کو سائٹیفک  اور تجربوں  سے ثابت  کر کے دکھلایا ہے۔ مثلاً  وہ پھولوں اور پھلوں  کی پیدایش کا سبب یہ بتلاتے ہیں کہ بعض پھول و پھل کے درخت  میں ایک  نر و مادہ  ہوتا ہے پس کسی موافق ہونا  یا کسی مکھی  یا اور چھوٹے جانور کی نشت برخاست کی  وجہ سے جو ایک درخت  پر بیٹھکر  پھر دوسرے درخت  پر جا بیٹھتا ہے یا ایک سمت  کی ہوا  دوسری  جانب کو رجوع ہوتی ہے پس اس طرح  یہ باہمی اتحاد اُن کی بہم پیوستگی  اور چغت قرار پکڑنے کے لئے ایک کافی وجہ ہوجاتی ہے۔ اس قدرتی زریعہ سے صد ہا قسم کے پھل وپھول  خوشبو و خوش  زایقہ  پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ مراکو  صاحب  جو کمیسڑی  اور باٹنی کا ایک فاضل اجل شخص  تھا وہ بیان کرتا ہے کہ آدم جنس کی افراد  کے مطابق درختوں کے مخصوص  نام نہیں جانتا تھا پر جب اُس  نے اُس کا پھل کھایا  اور اُسکے مزے و خوش  و بد زایقہ سے واقف ہوا تو اُس کا نام اسم باسمیٰ  سکھا ۔ 

زیل کی مثالوں  سے یہ  امر بآ سانی  حل ہو سکتا ہے  مثلاً گلاؔب  جس کے معنی پھول  اور پانی ہے۔ موتیا جس کے پھول  مثل نوتی کےہوتے ہیں اور کھٹا  اور میٹھا ننیبو جو بوجہ شیرین اور تراش  زایقہ  کے نامزد کئے گئے۔ وہ اس کی ایجادیوں  بیان کرتے ہیں کہ جب قادر مطلق  خدا  نے سب اشیا اور  درختوں کو پیدا کر کے آدم  کے سپرد  کیا تو سب جنس اپنے اپنے انواع  میں منقسم  تھے لیکن  جب آدم فعل بدکا مرتکب  ہو کر درخت  ممنوعہ کے پھل کو  کھایا  تو اُس  پھل کی خوشی  ذایقی  نے اُس کی زبان کو پھل اور درخت کے نام کو نامزد کرنے کے  لئے تحریک  کیا۔  کلام پاک کی  شہادت  سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ  آدم  پھل کے زایقہ  کی وجہ نیک و بد کا پہچاننے والا ہوا کیونکہ جب خدا نے اُس کو باغ عدن میں رکھا تو اُسے فرما دیا تھا کہ  تو باغ کے ہر درخت سے پھل کھایا کر لیکن جب شیطان نےاُسے  اپنی  چالاکیوں  میں پھنسا لیا تو درخت و پھل  کی شناخت  و خوبیاں بھی اُسے بتلادیں دیکھو پیدایش  ۳۔ ۶ آیت۔ تب سانپ نے کہا کہ خداا جانتا ہے کہ جس دن تم نیک و بد کے جاننے والے ہو گے۔ اور عورت نے جوں دیکھا کہ درخت کا پھل کھانے میں اچھا  اور دیکھنے میں خوشنما اور عقل بخشنے  میں  خوب ہے تو اُس کے پھل میں سے لیا اور کھایا  اور اپنے شوہر  کو بھی دیا اور اُس نے بھی کھایا  تب دونوں کی آنکھیں  کُھل گئیں اور یہ مثل  مشہور  ہوئی کہ درخت اپنے پھل سے پہچانا  جاتا ہے ۔ اور تب اُن کی آنکھیں کُھل گئیں اور اُن کو معلوم ہوا کہ ہم ننگے ہیں تب یہ پر معنی جملہ اُن  کے حسب  حال  نظریہ  کہ آدم اپنے پھلوں سے پہچانا گیا۔  اور وہ خدا کا نافرمانبردار  ٹھہرا اور اُس  میں تلخ و ترش پھل  نمودار ہوئے اور خدا کی لعنت  کی وجہ سے آدم  اور اُس کی تمام  اولاد  و کل  مخلوقات  لعنتی  ہوئی  اور خدا اور انسان  جو پیشتر  ایک جان  دو قالب ہو رہےتھے اب  دوئی کی وجہ سے دو نظر آنے لگے یعنی حاکم  و محکوم  اور عابد  و معبود  و رعیت  و بادشاہ۔  بڑھتے بڑھتے  انسان  و حیوان۔ جاندار و بیجان۔ درخت و نباتات پھل و پھول  صدہا اقسام  میں منقسم ہو گئے ۔ یہا نتک  کہ اس زمانہ میں بھی  بہت ایسے  درخت  جنگلوں میں موجود ہیں کہ جن  کو انسان  مطلق نہیں جانتا  اور  نہ اُس  کےنام و  مزاے سے واقف  ہے اور وہ درخت  گمنام کہلاتا ہے۔

اب ہم آدمزاد کی موجودہ  اقسام کا شمار مفصلہ زیل کرتے ہیں ۔ ہندو۔ محمدی ۔ یہودی۔ چینی ۔ پارسی وغیرہ اور پھر اقسام  دراقسام  ہو گئی ہیں۔ جن کا شمار لاکھوں لاکھ تک پہنچ  سکتا ہے اور ان کی خوبیاں اور زایقہ طرح طرح کا ہو گیا چنانچہ اُنہیں میں سے ایک قسم کے لوگ جو نافرمانی  کے پھل  کے زایقہ سے آگاہ تھے خداوند مسیح کے پاس آکر مثل  سانپ کے اُسے اپنی چالاکیوں  کی دام میں چند سوالوں کے زریعہ پھنسانے چاہا جن کا مفصل زکر  لوقا ۶ باب میں مندرج  ہے۔  یعنی فریسی و فقیہ  جنہوں نے اپنے دل کےبُرے  خزانہ  سے بری چیزیں نکالکر اُس کے سامنے یہ سوالات پیش کئے۔ کہ تیرے شاگرد  وہ کام کیوں وہ کام کرتا ہے جو سبت کے دن کرنا روا نہیں پس اس کے جواب میں  دلوں اور گردوں  کے جانچنے  والے مالک نے اُن کے خیالات کو دریافت کر کے یہ جواب دیا کہ درخت  اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے۔ اور پھر اسی باب  ۴۳ سے ۴۵۔ آیت تک اُن  تمام سوالوں کی پوری تفسیر درج ہے جس کو ہم ہدیۂ ناظرین کرتے ہیں کیونکہ  اچھے درخت  میں بُرا پھل نہیں لگتا اور نہ برُے  درخت  میں اچھا پھل۔ پس ہر ایک درخت اپنے پھل سے پہچانا  جاتا ہے۔ اچھا آدمی اپنے دل کے اچھے  خزانے سے اچھی چیزیں  نکالتا ہے اور برُا آدمی  اپنے برُے دل کے خزانہ  سے برُی چیزیں باہر  لاتا ہے  کیونکہ جو دل میں بھرا ہے وہی منُہ پر آتا ہے ۔ پس سائلوں نے اپنے سوال  کا جواب با صواب پا کر  دل ہی دل میں قایل و شرمندہ  ہونے لگے اور فوراً منہ چھپا کر غائب ہوگئے اسی طرح موجودہ زمانہ میں مذکورہ  بالا سائیلوں کی مانند چند  تلخ مزاج و تراش  مزاج  اشخاص  مسیح کے شاگردوں کو متفرق  سوالات سے آزماتے اور صدہا عیب و الزام  لگاتے بس صرف یہی جواب اُن کے   قائل کرنیکے لئے کافی ہو گا کہ درخت  اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے۔ اور برُا آدمی  اپنے دل کے خزانہ  سے کیونکر اچھی چیزیں نکال سکتا ہے اگر اس سے بھی تشفی نہو تو وہ مثل فریسیوں و فقیہوں کے جن کی اقسام میں وہ شامل ہیں خود مسیح کے پاس آکر  اپنے دلی خیالات  اُس پر ظاہر کریں  وہ  نہایت ہی لایق اور عمدہ جواب اُن کو دیگا جیسا کہ نافرمانی  کے بدلہ  میں آدم کو  خدا نے یہ لعنت منسوب کی کہ ترے کاموں کا اجر تجھے کانٹا اور اونٹ کٹارا حصہ ملیگا ویسا ہی تم جو  آدم  کی اولاد  اور کدا کے فرمانبردار  فرزند پو مسیح کیطرف سے تمہیں یہ جواب دیا جاتا ہے کہ اے ریاکار  پہلے اُس کا نڈی کو اپنی آنکھ سے نکال تب اُس تنکے کوجو تیرے بھائی کی آنکھ میں ہے کیونکہ  کانٹوں کے درخت سے تو انجیر توڑ سکتا اور بہت کٹیا سے انگور ۔ اچھی طرح دیکھ اور غور کر کہ درخت  اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے اور اپنے دل کے خزانہ کی خوب ہوشیاری کر کہ عاقبت کا انجام اسی سے ہے۔