Caesarea Aqueduct

 

Dr. Imad ul-din Lahiz

تہمت لگانا گناہ  ہے۔

علامہ جی ایل ٹھاکر داس

از گوجرانوالہ


Rev. G. L. Thakur Das

Slander is a Sin

Published in Nur-i-Afshan May 08, 1896


کسی کی بد گوئی کرنا کلام اﷲ کی رو سے  گناہ ہے اور سزا کے لایق ہے ۔ شاید ہی کوئی سوسائٹی اس عیب سے خالی ہوگی۔عالموں اور جاہلوں  میں ۔ غریبوں اور امیروں میں۔ خلوت میں اور پبلک  میں  عبادت اور ضیافت  میں اُس کے مرُید ہوتے ہیں۔ اس عیب سے  نہ دنّیا خالی ہے نہ کلیسیا اور یہی زیادہ  افسوس کی بات ہے۔  اس مکروہ اور مضّر عادت کا سبب یہ ہے کہ انسان کی موجودہ فطرت میں ایسے اُصول  ہیں جو اُس کو اِس  گناہ کی طرف مایل کرتے اور ہمیشہ کریں گے اگر ضبط نہ کئے جاویں۔ چنانچہ دنیاوی اور نفسانی چیزوں کی  حرصؔ۔غصُہؔ۔ رشؔک۔ اور کینؔہ  اور خودغرضیؔ  وہ باتیں  ہیں جو اِس گناہ کی طرف زور کے ساتھ مایل کرنے والی ہیں۔ پس تہمت لگانا وہ حیلی بازی ہے جس  کے زریعہ  لالچی اور کینہ وار بد امل  اور بیہودہ لوگ کوشش کرتے ہیں  کہ اپنے ہمسایہ کو گرادیں اور اپنے آپ کو بڑھاویں یعنے دولؔت  میں عزؔت میں مرتبہؔ اور اختیار ؔ ہیں۔  اس لئے خدا کے کلام میں تہمت لگانا منع کیا گیا ہے  اور اُس  کی ہر قسم  کو بُرا کہا گیا ہے اور سزا کے لایق قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ

(۱ ) عوام کو ہدایت ہے کہ ’’ تو کسی کی جھوٹھی  خبر مت اُڑا‘‘۔  (خروج ۲۳:۱)

(۲ ) چھپکے  تہمت لگانے کی یوں  ممانعت ہوئی ہے کہ ’’وہ جو چھپکے اپنے ہمسایہ پر تہمت لگاتا ہے میں اُسے  جان سے مارونگا‘‘۔  (زبور ۱۰۱: ۵)

( ۳) بد گوئی سننے والوں کی بابت یہ لکھا ہے کہ ’’ بہ کردار  آدمی جھوٹھے  لبوں کی سنُتا ہے اور دروغ گو کجرو زبان کا شنوا ہوتا ہے۔‘‘ ( امثال ۱۷: ۴)

( ۴) دینکے ہادیوں کو حکم  ہے کہ لوگوں کو یاد دلاویں کہ’’ کسی کے حق  میں برُا نہ کہیں‘‘۔  ( طیطس۳: ۲)

(۵ ) لتُرا بننا منع کیا گیا ہے ’’ جہاں لتُرا نہیں وہا ں جھگڑا رفع ہوتا ہے۔ ‘‘ (امثال ۲۶: ۲۰)

( ۶)’’ عیب نہ لگاؤ‘‘ ’’اے بھائیو  تم آپس میں ایک دوسرے کی بد گوئی نہ کرو‘‘  (متی۷: ۱۔ یعقوب  ۴: ۱۱)

( ۷) کسی محکمہ میں کسی پر الزام لگانے سے پہلے خلوتی طریق عمل میں لانیکی ہدایت  ہے جیسا کہ متی ۱۸: ۱۵ میں مامور ہے کہ ’’ اگر تیرا بھائی تیرا گناہ کرے جا اور اُسے اکیلے میں سمجھا‘‘۔ ’’ اگر توبہ کرے اُسے معاف کر‘‘ ( لوقا ۱۷: ۳) اس حکم کی تقلید پر قواعد انتظام ؔ کلیسیاؔ کے تیسرے حصّے  کے تیسرے باب میں تاکید  کی گئی ہے کہ پہلے ہدایت بالا کے موافق عمل کرے ورنہ وہ مدعی  نہیں بن سکتا۔

یاد رہے کہ اس  ساری کائنات میں صرف ایک قسم کے لوگ مستثنا ہیں۔  مگر وہ بھی اس لئے مستثنا نہیں ہیں کہ عیب جوئی اور بد گوئی  کیا کریں  اور بس صرف  دوسروں کو بدنام کیا کریں۔ نہیں لیکن اگر کوئی شخص صاحب  اختیار ہو یا نیک دل اور خدا کے فضل ست بھرا ہو ا اور ناجائیز غصّہ  یا بدخواہی یا خود غرضی  یا عداوت کا اُس پر شک نہ ہو سکے  ( ہر ایک اپنے تئیں جانچے کہ وہ ایسا ہے یا نہیں)  تو ایسےشخص علانیہ یا کسی محکمہ میں یا خلوت  میں خطاکار کو اُسکی خطا سے آگاہ کریں۔  ملامت کریں تاکہ اُسے سُدھاریں  اور اوروں  کو خوف  دلاویں۔ ( ۱ تمط ۵: ۲۰)  قدیم زمانہ میں خدا تعالیٰ کے نبی اور مسیح  کے زمانہ میں یوحنا بپتمسہ دینے والا اور خداوند  مسیح کود بھیایسا کرتے تھے اور اپنے پاکدل  کے غصّہ  سے لوگوں کو ملامت کرتے تھے۔ ایسا اب بھی ہو سکتا ہے۔ مگر چونکہ اس اعتدال  سے بڑھ  جانے کا اندیشہ ہے اس لئے  بڑی ہوشیاری درکار ہے۔ اور کسی طرح  جائیز نہیں  ہو سکتا  کہ مزکورہ جایز صورت کو ہم اپنے  دل کے کمینے  اور کینہ ور ارادوں  کو پورا کرنے کا پردہ بناویں۔ اور چونکہ غمازی یا غیبت کی کئی ایک قسمیں ہیں اور اُس  کو عمل میں لانے کے کئی طریق ہیں اور اُن سب سے واقف  ہونا ضروری ہے تاکہ اس بھاری گناہ کے ہر پہلو سےبچے رہیں جو برادرانہ  محبّت اور صلح  کا دشمن  ہے اور جدایاں اور جھگڑے جنتا ہے جیسا سُلیمان کہتا ہے کہ  ’’جہاں لتُرا نہیں وہاں جھگڑا رفع ہوتا ہے‘‘  ( امثال ۲۶: ۲۰ اور ۱۶ : ۲۸)  اس لئے  حتی المقدور غیبت کے ہر پہلو کی تفصیل کرتا ہوں۔ اور جیسی تعلیم میں ایک م حوم  مسیحی فاضل  سے اس امر میں پائی ہے وہ اوروں  کو سکھلاتا ہوں۔

اوّل ۔ غماّزی یاغیبت  کیا ہے؟  کینہؔ یا برُی نیتؔ  یا بے پرواؔئی  یا بیہودہ  ؔ پن  سے اپنے ہمسایئ کے حق میں جھوٹھی یا جھوٹھہ کے برابر بات کہنا تاکہ اُس  کی نیک نامی اور رعافیت  میں نقصان آوے اُس کو تہمت کہتے ہیں۔ اُس کی سب قسمیں مختلف  الفاظ میں بیان کی گئی ہیں۔ یعنے جھوٹھیؔ گواہی دینا  ( خروج ۲۰: ۱۶) جھوٹھا الزام  لگانا ( زبور ۳۵: ۱۱)  لعن طعؔن  کرنا ( مانہ یہودا آیت ۹)  دغابازؔی ( لوقا ۱۹: ۸۔ ۳ : ۱۴)  عیبؔ جوئی یا لتُراپن  ( احبار ۶۹: ۱۶۔ امثال ۲۶: ۲)  کاناؔپھوسی  ( امثال ۱۶: ۲۸۔  ۲قر ۱۲: ۲۰) چغل خوؔری  ( زبور ۱۵: ۳۔ روم ۱: ۳۰) ۔

دوم۔ چونکہ تہمت ہر حال  میں تہمت ہے اور اُسکے مختلف وجوں یا قسموں کے سبب سے ممکن ہے کہ لوگ گمان کریں کہ ہم صرف  باتیں کرتے ہیں حالانکہ دراصل  تہمت لگا رہے ہیں۔ اس لئے اُس کی مختلف  صورتیں بیان کرتا ہوں جن کا تہمت لگانے والوں کو ضرور خیال رکھنا چاہئے۔ چنانچہ

( ۱) ایک قسم تہمت  کی وہ  ہے جو دس (۱۰)  حکموں میں منع کی گئی ہے۔  یعنے تو اپنے پڑوسی پر جھوٹھی  گواہی مت دے۔ یعنے اُس پر ایسی باتیں مت لگا جو کبھی سر زد نہیں ہوئیں۔ اور وہ اُنکا گناہ  گار نہیں۔ نہ صرف عدالتوں میں بلکہ خاص ع عام مجلسوں میں اور  خلوت میں بھی ایسی گواہی زبون ہے۔

( ۲) ایک اور قسم یہ ہے کہ دوسرون پر بدنام کرنے والے خطاب یا نام دھرنے جن سے اُن کی سیرت برُی ظاہر ہو جیسا کہ فریسیوں نے ہمارا  خداوند جو کفرؔ بولنے والا اور جادوؔگر۔ اور کھاؔؤ اور شرابیؔ  اور قیؔصر کے برخلاف کہنے والا  اور لوگوں کو گمراؔہ  کرنے والا کہا تھا۔  یہ قسم تہمت کی عام  ہے اور بہت برُی نہیں سمجھی جاتی ہے لیکن  اگر انصاف  سے دیکھا جائے تو قسم اول سے بھی بدتر معلوم ہوتی ہے۔ کیونکہ یہ دوسرے پر ایسے الزام  دھرتی ہے۔ جواس میں برُی عادت بیان کرنے والے ہین اور ایسی تہمت کو دور  کرنا اُس کے لئے  دشوار ہوتا ہے کہ اس لئے کہ اس میں کسی بات کی نظیر نہیں بتلائی جاتی جس کی بیچارہ  ملزم  سر دست تردید کر سکے  اور جب تک وہ اپنی  چال چلن سے ایسی باتوں کا برعکس  ثابت نہو یہ زبون  نام اُس  پر لگے رہتے ہیں اور الزام  لگانے والے مزے میں رہتے ہیں۔

( ۳) ایک اور قسم یہ  ہے کہ دوسرے شخص کے الفاظ  یا افعال  کی غلط  تعبیر کرنا تاکہ اُس کی نسبت بدگمانی  پیدا کرے۔ ظاہر ہے کہ اکثر  الفاظ دومعنے ہوتے ہین۔ اچھےّ معنے بھی ہو سکتے ہیں اور برُی مراد بھی نکالی جا سکتی ہے۔ یہی حالت افعال کی ہے۔ ایسی حالتوں میں کسی کے الفاظ یا افعال کے غلط معنے کر کے برُی مراد بتلانا  اور اُس کو برُا آدمی  جتانا  نہایت کمینی  قسم کی تہمت دی ہے۔  چنانچہ جب دو آدمیوں نے مسیح پر گواہی دی کہ وہ کہتا ہے کہ اس ہیکل  کو گرادو اور میں تین دن  میں اُس کھڑا کر دوں گا تو یہ اسی باتوں اور کاموں کو سچائی اور انصاف کے ساتھ تعبیر کیا کریں نہ کہ تہمت لگانے کی غرض سے غلط معنی مشہور کریں۔ اور یوں  اُس کو بدنام کریں۔ 

(۴) ایک  اور قسم یہ بھی ہے کہ کسی کے بیان یا عمل کو پورے طور سے پیش نہ کرنا بلکہ اُس میں سچّی  بات کو دبا رکھنا اور ایسے حالات کو چھپانا جو اُس کے بیان  یا عمل  کو صفائی سے واضح کرتے۔ اس صورت میں تہمت لگانے والا خود تو کوئی ظاہر ا جھوٹھہ نہیں بالتا ہے۔  لیکن ایسی حیلہ بازی سے وہ دوسرے  کو بدنام کر سکتا ہے اور کرتا ہے۔  مثلاً اگر کوئی شخص مباحثہ میں یا اعتراض کے طور پر کوئی بات  بالفرض  پیش کرے اور دوسرا اُس کی بابت یہ خبر اڑاوے کہ متکلم  اُس اعتراض کا دل سے قایل ہے اور اُس کو سچ جانتا ہے اور اُس کا مدعی ہے تو ایسی مشہور کرنے والا اُس متکلم  پر سراسر تہمت لگاتا ہے۔ اور پھر فرض کرو کہ زیؔد دھوکھے سے یا ظلم کا ماارا برُے  لوگوں کی مجلس میں جا پڑے تو اگر کوئی شخص زیؔد کی بابت یہ خبر اُڑاوے کہ وہ ارادة ً ایسی  برُی مجلس میں گیا  کیونکہ خراب  آدمی ہے تو یہ اُس بے  قصور کی سخت بدنامی کرنا ہے۔  تہمت لگانے والے نے اُن حالات کو چھپایا جن سے زید  کی بے گناہی صاف  ظاہر تھی۔ اور وہ غماّز اس  بات پر فخر نہیں کر سکتا کہ میں نے کوئی جھوٹھی بات تو مشہور نہیں  کی بلکہ ایک واقعہ کا بیان کیا ہے  یہ عذر بالکل  لچر ہے اور ایک ایک بہانہ ہے۔

( ۵) ایک قسم یہ ہے کہ  کسی شخص کی بابت اوروں کے سامنے حیلہ بازی سے ایسے اشارے بیان کرنا جن میں صاف جھوٹھی  باتیں تو نہین کی جاتی ہیں تو بھی سنُنے والوں کے دلوں میں وہ برُی  رائے پیدا کرنے والے ہوتے ہیں۔ خصوصاً  اُن دلوں مین جو زور اعتقادیؔ یا حسدؔ یا تعؔصّب  یا بے پروائیؔ کے سبب ایسی رائے زنی کی طرف مایل ہو سکتے ہیں۔  ایسے حیلہ آمیز اشارے کئی طرح سے کئے جا سکتے ہیں۔ یعنے فرضی باتیں پیش کرنے سے۔ حیلہ بازی کی تحریک  یا ترغیب سے۔ دھوکھے کے سوالوں سے۔ کسی بات کا یقین دلانے کے لئے  اغلبات پر زور دینے سے۔ مثلاً  تہمت لگانے والا  کہتا ہے کہ کیا اُس  کی ( تہمت زدہ کی) طبیعت ایسی نہیں ہے کہ اُس کو ایسے فعل کے کرنے  پر مایل کرے؟ کیا ایسا یا ویسا کرنے میں اُس کو نفع نہیں تھا؟ کیا وہ فعل کرنے کے لئے اُس کو عمدہ موقع اور بڑی رغبت نہ تھی؟کیا ایسی حالتوں  میں اُس نے پیشتر  بھی ایسا ہی نہیں کیا ہے؟ پس آپ  خود  دریافت کریں اور سمجھیں کہ اُس نے ایسا کیا ہے یا نہیں۔ غماّز کی یہ منطق ہے۔ اور یوں دہ بیگناہوں کی بابت دوسروں کی رائے خراب کرتا ہے۔ اور جس طرح شیطان نے دھوکھا  آمیز  اشاروں اور سوالوں سے حوّا کو اپنے  خالق کے حق میں بدظن کر دیا اور اس سے  گناہ کروایا یا غماّز  بھی ٹھیک اسی طرح کرتے ہیں ظاہراً سفارش کوتے ہوئے معلوم ہوتے ہین مگر مد نظر اُس کی بدنامی اور نقصان  ہوتے ہیں۔ یہ حیلہ تہمت لگانے کا لوگ اکثر برتتے ہیں  کیونکہ بے معلوم کئے موُثر ہو جاتا ہے۔ مگر یہ نہایت مضّر  اور مکروہ قسم کی غیبت ہے۔ 

(۶ ) ایک اور قسم غیبت کی  یہ کہ دوسروں کے چھوٹے چھوٹے قصوروں کو بڑہا کے بیان کرنا اور اُن کو بڑے بھاری جرم جتانا۔ اور کسی خفیف کمزوری کو ایک قبیح بد صورتی  کہنا۔ اور یوں اپنے بھائی کی آنکھ کی  کانڑی کو شتہیر بتلاتا  ہے۔ اور یہ حرکت خداوند  کے حکم کے عین برخلاف ہے۔ ( متی ۷: ۳، ۴، ۵)  اور تعلیم محّبت اُلٹ پلٹ کرنے والی ہے جس کا  ایک جو ہر یہ ہےکہ  ’’وہ سب باتوں کو پی جاتی ہے‘‘۔’’بدگمان نہیں ہے‘‘ ( اقر ۱۳ باب) ۔ غیبت  کی ان مروجہ  قسموں کے علاوہ کئی  ایک خاص طریقے  ہیں جن کے زریعے  سے وہ عمل میں لائی جاتی ہیں۔ چنانچہ۔ 

( ۱ ) سب سے زبون طریق یہ ہے یعنے جھوٹھہ بنانا یا ایجاد کرنا ۔ اور اُس کو مشہور کرنا۔ جیسا کہ داؤد  شریر کی بابت کہتا ہے کہ تو زبان  سے دغا  کا منصوبہ  باندھتا ہے۔ ( زبور ۵۰: ۱۹)  اور جیسا ہمارا خداوند  شیطان کی بابت کہتا ہے کہ وہ جھوٹھا ہے اور جھوٹھ کا بانی ہے۔  ( یوحنا ۸: ۴۴) یہ اِس قسم کی شرارت ہے کہ جہنم  بھی اس سے بڑھکر نہیں کر سکتا۔ اُن لوگوں کا کیا حال جو اپنے ہمسائے پر اس طرح جھوٹھ باندھتے ہیں۔

( ۲) ایک اور طریق یہ ہے کہ دوسروں سے جھوٹھی باتیں سنُنا یا جن کو وہ جانتے اور جان  سکنے کا اچھا موقع رکھتے ہیں کہ جھوٹھی ہیں مگر پھر بھی اُن کو مشہور  کرنا۔ ایسے لوگ غیبت کے گویا بیوپاری ہیں۔  سوداگر ہیں۔  اِدھر سے سنی اُدھر اُڑا دی۔  جھوٹھ کا بانی اور اُس کا ایسا  بیوپاری ایک ہی سے ہیں وہ جو جھوٹھ ایجاد کرتا ہے بڑا ُہنر  مند ہے مگر وہ جو اُس  کو مشہور کرتا اور پَر لگاتا شرارت اور کینہ میں کچھ کم نہیں۔ دیکھو سلیمانؔ کہتا ہے  کہ ’’ بد کردار  آدمی جھوٹھے  لبوں کی سنتا ہے اور دروغگو  کجر و زبان کا شنوا ہوتا  ہے ‘‘ ( امثال ۱۷: ۴) پس جھوٹھ بنانے والا اور اُس کو شہرت دینے والا دونوں کے دونوں یکساں بد کردار اور دروغ گو ہیں ۔  فتامل) اس چال کا  عام رواج ہے اور مشہور  کرنے والا گمان کرتا ہے کہ یہ جایز ہے کہ اوروں سے سنکے مشہور کرے  اگر وہ اپنی شنید کی سند دیسکتا ہے۔ ہاں ہاں وہ کہتا ہے کہ یہ میری اپنی ایجاد نہیں ہے جیسا میں نےسُنا ویسا کہتا ہوں ۔ اگر  جھوٹھ ہو تو اُس کا قصور  ہے۔ جس نے مجھے سنُایا۔ قصور اُس کا ہے  نہ کہ میرا۔ ایسے لوگ یہ خیال نہیں رکھتے کہ اپنے ہمسائے کو بدنام کرنے اور رنج  اور نقصان  پہنچانے کا وہ ہتھیار بنے اور نہیں  سمجھتے کہ ان کے دل میں بھی ویساہی بد اُصول تھا جیسا اُس جھوٹھ کے بانی میں تھا۔  اور نتیجے بھی ویسے ہی بد ہوئے۔  کسی شخص کا یہ منصب نہین ہے کہ ’’عیب جوؤں کی مانند اپنی قوم میں آیاجایا کرے‘‘ ( احبار ۱۹: ۱۶) یہ برُی سوداگری ہے۔ اور زبور ۱۵میں نیک بخت افسان  کی یہ ایک علامت بیان کی گئی ہے کہ ’’وہ اپنے  ہمسائے سے بدی نہیں کرتا اور اپنے پڑوسی  پر عیب  نہیں لگاتا۔ مگر جو کوئی  تہمت لگاتا  ہے بیوقوف ہے۔ ( امثال ۱۰: ۱۸) عقل  اور انصاف  اس بات کی عادات  اور حالات کو جانچے  اور تہمت زدہ کی طرز  زندگی اور اُس کے منصب اور کام اور اصول  پر نگاہ کرے پیشتر اس سے کہ جھوٹھ کے بانی کا ساتھ دیوے اور اپنے ہمسائے  کو نقصان پہنچانے کے لئے اُس کے ساتھ ہم مشورہ  ہووے۔  اگر ایسی احتیاط  سے گوفل رہتا ہے تو وہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ جھوٹھ  کے بانی کے ساتھ اپنے ہمسائے کے برخلاف کینہ اور نقسان رسانی میں شریک ہے اور اس فتوے کے تحت  میں آتا ہے جو زبور ۵۰: ۱۸ میں مرقوم  ہے۔ اور یوں اپنے ہمسائے  پر چھپکے تہمت لگاتا ہے جس کی سزا خداوند تعالیٰ نی یہ فرمائی ہے کہ میں اُسے جان سے ماروں گا۔ ( زبور ۱۰۱: ۵)

( ۳) ایک اور طریق یہ ہے کہ محض خیالوں یا شبہوں کی بنا پر الزام تجویز کرنا۔ یاد رہے کہ شبہوں اور خیالوں  کی کوئی حد نہیں اور جو کوئی اس کھوج نہیں لگا رہے تو ضرور اُس کو کوئی نہ کوئی شُبہ ہاتھ آجاتا ہے۔  ایسے لوگ کو اسبات کی پروا نہیں کہ ایسے کرنا دانشمند  ی ہے اور یاکہ جس کی بابت جستجو میں ہیں وہ بے قصور ہے۔ غرض صرف یہ ہوتی ہے کہ کوئی گمان یا  شبہ نکالیں جسکی بنا پر الزام بناویں۔ اگر ایسی باتیں سنی جاویں  تو کوئی آدمی بھی نیک نام نہیں رہ سکتا ۔ دیکھو متی  ۹: ۴ اور ۱تمط ۶: ۴ میں اس قسم کی عادتوں کا زکر ہے۔ اب جو کوئی اس طور سے اپنے ہمسائے پر دعویٰ جمانےکی کوشش  کرتا ہے وہ تہمت دہی اور رغبت  کا گناہ گار ہے۔ ۲۔ سموئیل ۱۹: ۲۷)  سچائی ؔصاف روشنی میں نظرآسکتی  ہے اور انصافؔ ثبوت چاہتا ہے۔اور محّبت بدگمان نہیں ہوتی۔ ان اُصولوں کو نگاہ رکھو۔

سومؔ۔ اِس سلسلہ میں اس بات کو واضح کرنا  بھی ضروری ہے کہ کسی کو کلام اﷲ کی رو سے یہ  پروانگی نہیں کہ دوسروں کی بابت محض  چغلیاں اور بدگویاں سُنا کرے اور چغل یا غماّز کو بند نہ کرے۔ اور جو کوئی چغلی اپنے تک آنے دیتا اور اُس کو پالتا اور مدد کرتا وہ خود غماّز اور عیب جو ہے۔  جو کوئی بد نیتی سے چالاکی کے ساتھ غیبت کرنے والے کو اُبھارتا اور دلیری دیتا ہے کہ اپنے ہمسائے پر اپنی زبان کو تیز  اُسترے کی مانند  چلائے۔ اور جو کچھ سنتا یقین کرتا جاتا ہے اور خوش ہوتا ہے تو وہ غیبت میں ویسا ہی مجرم ہے جیسا اُس کا چغل مُجر ہے۔ ایک کا گلا اور دوسرے کا کان غیبت کرتے ہیں۔ ایک ایجاد کرتا ہے دوسرا  قبول کرتا ہے۔ دونوں یکساں شریک ہیں۔  ایک غیبت کی ماں ہو دوسرا دائی ہے۔ اگر لوگ بدگویاں  اور چغلیاں نہ سنُیں تو چغل خوروں کے پیٹ ہی میں مرجاویں اور فساد بند ر ہیں۔ جس طرح سے کہ اگر لوگ شراب نہ پئیں تو شراب خانے کود ہی بند پڑ ٍٍٍجائیں۔ اگر لوگ حرامکاری  سے باز رہیں تو کسبیاں گھر گرستی  رٍہیں۔ اسی طرح اگر غیبت کی پرورش نہ کی جاوے توبھوکھی مر جاوے۔  اے غیبت کرنے والو اور اے سنُنے والو سنو کہ سلیمان کیا کہتا ہے۔ ’’بد کر دار  آدمی جھوٹھےلبوں کی سنتا ہے۔ اور دروغ گو کجرو زبان کا شنوا  ہوتا ہے‘‘۔ ( امثال ۱۷: ۴) پس اگر ہم چاہیں کہ ایسی شراکت سے بچیں تو بد گوئی کرنے والوں کی باتوں سے نفرت کریں۔  اور جتاویں کہ ہم چغلی پسند نہیں کرتے۔ پر جب اپنے ہی دل  میں کینہ اور دشمنی اور بد خواہی  اور انصاف  اور محّبت کی بوبھی نہیں تب تو شراکت خود بخود ہو گی اور وہ جو دین کے ہادی ہیں اُنکو رسول پولوس ہدایت کرتا ہے کہ اپنے لوگوں میں  سے بدعادت کو نکالنے کی کوشش کر۔ ’’اُنہیں یا دلا کہ کسی کے حق میں بُرا نہ کہیں۔‘‘ ( طیطس  ۳: ۲) افسوس اُن ہادیوں پر جو غیبت کرنے والوں کو پسند کرتے اور اُن کی مدد کرتے ہیں۔ اور یوں اُن کے ساتھ ملکر بد گوئی کو رواج  دیتے اور جس کا نتیجہ جھگڑے اور فساد ہوتے ہو۔ اور ہادی  اور پیر و اپنے آپ کو مسیح کے نہیں  مگر دنیا کے لوگ ظاہر  کرتے ہیں۔

چھارم۔ یہ بھی معلوم کرو کہ تہمت لگانے والوں کا انجام کیا ہے۔اوؔلاً ۔ چغُلی کرنے والے کو ہر کوئی اپنادشمن  سمجھتا ہے۔ اور خطرناک  دشمن۔ اور اس لئے لوگ اُس سے نفرت  کرنے لگتے ہیں۔ دغاباز  زبان کی بابت  لکھا ہے کہ ’’ خدا ابد تک  تجھے  برباد کرے گا‘‘۔  ( زبور ۵۲: ۴، ۵) ۔ ’’جھوٹھے لبوں سے خداوند کو نفرت ہے‘‘۔ ( امثال ۱۲: ۲۲) تہمت لگانے والا اپنے تئیں آسمان سے خارج کرتا ہے۔ اگر وہ تو بہ کر کے اپنی عادت کو ترک  نہ کرے۔ خداوند فرماتا ہے کہ ’’ وہ چھپکے اپنے ہمسائے  پر تہمت  لگاتا ہے میں اُسے جان  سے ماروں گا‘‘۔ ( زبور ۱۰۱: ۵) انجیل مقدس میں بد گوئی کو دیکھو کن برُائیوں  میں گنا گیا ہے اوع اُس کا نتیجہ کیس خطر ناک بتلایا  گیا ہے۔ ’’میں نے اب تمہیں یہ لکھا ہے کہ اگر کوئی بھائی کہلا کے حرامکار یا لالچی یا بت پرست  یا گالی دینے والا یا شرابی یا لٹُیرا ہو تو اُس  سے صحبت نہ رکھنا‘‘ الخ۔ ( ا قر ۵: ۱۱) اور پھر ۶: ۱۰ میں کہتا ہے کہ ایسے  لوگ  خدا کی بادشاہت کے وارث  نہوں گے۔ پھر مکاشفات ۲۲: ۱۵  میں لکھا ہے ’’ کہ کتُے  اور جادو گر اور حرامکار  اور خونی  اور بت پرست اور جو کوئی  جھوٹھ کو چاہتا اور بولتا ہے سب باہر ہیں‘‘۔ اور خداوند  نے یہ بھی فرمایا تھا  کہ’’  ہر ایک بیہودہ بات  جو کہ  لوگ  کہیں عدالت کے دن اُس  کا حساب دیں گے‘‘۔  ( متی ۱۲: ۳۶) پس وہ گالی یا جھوٹھ یا بیہودہ بات جو تہمت کے طور پر ہمسائے پر لگائی جاتی ہے  تاکہ اُس کی بد نامی ہو اور نج  اور نقصان  ہو اُس  اک انجام ایسا ہولناک ہے۔  تہمت لگانا بھاری گناہ اور محّبت  کے اُصول  کو ضایع کرنے والا ہے اور اس لئے اُسکی ایسی بھاری  سزا  ٹھہرائی گئی ہے۔ کچھ مضایقہ  نہین اگر دنیا میں اور کلیسیا  میں بھی تہمت لگانیوالے ہوں اور اُن کی مزے میں گزران ہوتی ہو لیکن خدا ضرور اپنے حکم کےموافق اُن سے سلوک کرے گا۔

پر اگر یہ منظور  ہو کہ دنیا میں اور کلیسیا میں امن رہے  اور محّبت بڑئے اور ہلاکت  سے بچاؤ  تو چاہئے کہ اپنے ہمسائے  کےحق میں کوئی بات نہ کہیں جو محنت کی راہ سے نہ ہو ۔ کینہ اور خود غرضی اور بد خواہی کے اُصول  چھوڑ کر فقط محّبت  کے اُصول کے پابند ہوویں تو سب دلوں میں چین رہے گا۔ رسول فرماتا ہے کہ ’’ تمہاری سب باتیں محبت کے ساتھ ہوں‘‘ ( اقر ۱۶: ۱۴) اور ہمارے الفاظ اُن سب باتوںؔ کا بہت بڑا حصہ ہیں جوہم اپنے ہمسائے  کی بابت کرتے ہیں۔ اور ان کے زریعہ سے ہم  محّبت کو ظاہر کر سکتے ہیں۔ پس  باتیں جو ہم اُس کی بابت کریں چاہئے کہ ہم ظاہر کریں کہ ہم اُس کی نیک نامی کی حفاظت کرتے ہیں۔ کہ ہم اُس کا فائدہ اور آرام  چاہتے ہیں۔ اگر  ہم اُس کا کچھ قصور  بھی دیکھیں تو اُسے آگاہ کریں ایسا کہ بد گواہی کو اپنے دل میں جگہ نہ دیویں۔ کیونکہ ’’ چاہئے کہ تمہارا کلام ہمیشہ فضل کے ساتھ اور نمکین ہو‘‘۔  ( قلس ۴: ۶) اور ’’ ہر کوئی ہم میں اپنے پڑوسی  کو اُس کی بھلائی کے واسطے خوش کرے تاکہ اُس کی ترقی ہووے‘‘۔ ( روم ۱۵: ۲) سچ ہے کہ ’’ جہاں لتُرا نہیں وہاں جھگڑا رفع ہوتا ہے‘‘۔  ( امثال ۲۶: ۲۰) مگر کان پھوسی کرنے والا دوستوں کو بھی جُدا کر دیتا ہے‘‘۔ ( امثال ۱۶: ۲۸)

پنجم ۔ تہمت  اور محّبت کامقابلہ اور تہمت کرنیوالے کا خاص عزر  اور تہمت زدہ کا خاص نقصان  معلوم ہووے کہ تہمت لگانا سب جھوٹھوں سے برُا ہے۔ کیونکہکینہ یا بطلان  کی راہ سے ہوتا ہے۔ اور جس سے سخت نقصان ہوتا ہے۔ جھوٹھ  بولنے والا ظاہر کرتا ہے۔ کہ اُس کا خدا پر بھروسہ نہیں ہے۔ جو راستی  سے ہر اچھے کام اور ارادے کو انجام دے سکتا ہے۔ اور نہ اُس کو نیک زریعوں پر اعتبار ہے جس سے مطلب  حاصل  سکتا ہے۔ اور یوں تہمت لگانے  والا اکڈا اور انسان دونوں کی طرف دغابازی  کے ساتھ بے ایمان بنتا ہے۔  تہمت لگانا خود ہی دشمنی  کی دلیل ہے۔  اور جب تک دل مین کینہ یا خود غرضی یا دونوں ہی نہوں تو کوئی دوسرے کے ساتھ  ایسی دشمنی نہیں کرتا۔

تہمت لگانے والے نہایت تنُد اور ظالم  دشمن ہیں۔ اور اس لئے نہایت کمینے  اور نالایق ہیں۔ اُن کے ہتھیار ناجائز اور خطرناک ہیں۔ ’’ جن کے دانت برچھیاں اور تیر میں جن کی زبان تیز تلوار ہے‘‘۔  ’’ وے اپنی زبان کو تلوار کی مانند  تیز کرتے ہیں اور کمان کھینچتے ہیں تاکہ کڑوی  باتوں کے تیر چلاویں۔ اور چھپکے کامل آدمی کوڑیں وے ناگہانی تیر لگاتے ہیں‘‘۔ ( زبور ۵۷: ۴ اور ۶۴: ۳، ۴) ۔ یہ کیفیت  ظاہع کرتی ہے کہ تہمت لگانے والا  ہر طرح کی شرارت اور نقصان  کرنے کے لئے  تاریکی کے ہتھیاروں سےمسلح ہے۔ دور سے اور نزدیک سے۔ ظاہرا اور چھپکے چوٹ کرنے کے ہتھیار رکھتا ہے۔ زخم  جو غماّز کے ہتھیاروں سے لگیں زخم کاری ہوتے ہیں لاعلاج ہوتے ہیں ۔ نقصان  جو وہ پہنچاوے اُس کا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ وہ جو غماّز کی باتوں پر کان دھرتے ہیں۔ ان کے دلوں میں صادق آدمی کی بابت شبہے اور برُی رائے کے سیاہ داغ کچھ نہ کچھ بنے رہتے ہیں۔ یہ غماّز ستم گر کی غماّزی کے  نتیجے ہیں۔ غور کرو کہ یہ ساری کارروائی کلُ نیکیوں کی ملکہؔ  یعنے محبؔت کی کارروائی  کے کیسے برخلاف  ہے۔ اور عین ضد میں ہے۔ جس کی ایک خوبی یہ ہے۔ کہ سب کچھ باور کرتی ہے۔ ( ا قر ۱۳: ۷)  یعنے سب کچھ جو ہمسائے کے فائدے اور بھلائی کے لئے ہے۔ بلا کسی لاریب  وجہ کے اُس کی بابت برُائی کا شبہ تک نہیں کرتی تو کجا یہ کہ اُس کی بابت کبھی جھوٹھ ایجاد کرے یا مشہور کرے۔ ایک اور  وصف  محّبت کایہ ہے کہ ’’ محبت  سارے  گناہوں کو ڈھانپ دیتی ہے‘‘۔ ( امثال ۱۰: ۱۲ ۔ اپطرس ۴: ۸)  اور وہ اس طرح سے جیسا سلیمان  پھر کہتا  ہے۔ کہ ’’ وہ جو تصور کو چھپا ڈالتا ہے۔ دوستی کا جو یاں ہے۔ پھر وہ جو ایسی بات دوبارہ زکر  کرتا ہے۔ دوستوں میں جُدائی  کرتا ہے‘‘ ( امثال ۱۷: ۹) جبکہ محبت کی یہ خوبی ہے تو یہ بات  اُس سے کس قدر  بعید ہے کہ جھوٹھ ایجاد کر کے یا مشہور کر کے تہمت لگا وے۔  ایسا کرنا کینہ ہو گا نہ کہ محّبت۔

اب تہمت لگانے والا اگرچہ ایک طرف تو ۔ محُبت کی عدم پیروی  کا قصور وار  ہے اور دوسری  طرف ۔ کینہ دوزی کا گناہگار اور سخت  سزا کے لایق ہے۔ تو  پھر بھی یو ں عذر  کرتا ہے کہ جو کچھ میں کرتا ہوں کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ میں بڑے شور شار کے ساتھ کوئی حرکت نہیں کرتا ہوں۔  لیکن صرف عام لفظ بولتا  ہوں۔ جو گزر جانے والے ہیں اور وہ بھی اپنے ہمسائے  کی عزت کی بابت جو کہ اصل میں کوئی محسوس چیز نہیں ہے۔ یعنے میں نے کوئی  ہڈی نہیں توڑی کسی طرح کا خوف نہیں جمایاصرف  اپنی زبان سے ہوا کو مارا ہے۔ جو ہلتے ہلتے دوسرے کے کان تک جا پہنچی ہے۔ اور ہمسائے  پر اُس کو دھّبہ جاننا صرف ایک  خیالی بات ہے اور اِس طور سے غماّز سمجھتا ہے۔کہ میں نے کچھ نقصان نہیں کیا اور بے قصور ہوں۔

یہ عذر غماّز  کا صرف  بے پروائی کا وجہ سے ہے۔ مثل مشہور ہے۔ ’’ چڑی دی موت۔ نے گنوار داہا سا‘‘۔ وہ  اپنےآپ کو فریب  دیتا ہے انسان فطرت  کے حکم سے نیک نامی کا خواہاں ہے۔ اور نیک نامی کی سب چیزوں سے زیادہ قدر کا خواہاں ہے۔ اور نیک نامی کی سب چیزوں سے زیادہ  قدر کرتا  ہے بلکہ جان جائے تو جائے  لیکن نیک نامی ضایع نہ ہو۔ اب اگر ہم زبردستی  یا حیلہ بازی سےہمسائے کو اُس کی اس بیش قیمت چیز سے محروم کریں۔ تو ہم اُس کا بڑا نقصان  کرتے ہیں۔ چوری کرنا اُس کے اسباب کو زبردستی  یا فریب سے لیجانا۔ اور اُس کو اس سے محروم  کرنا ہے۔ اورایسا ناحق کرنا گناہ ہے۔ مگر تہمت لگانا اس کی نیک نامی کو چُرالیجانا اور اُس کو محروم کرنا ہے۔  اور ایسا کرنا کسی کا حق نہیں ہے اور سخت گناہ ہے۔ چوری برآمد ہو سکتی ہے۔ اور زخم چنگے ہو سکتے ہیں۔ پر اگر نیک نامی مجروح ہو جاوے تو کس یا بسام سے اچھی ہو گی اگر کھوئی جاوے تو کہاں سے برآمد ہو گی۔ اے غماّز  اپنے ستم کو ذرا سوچ اور خدا سے ڈر!!

نیکؔ نامی اپنے آپ میں  کوئی  ادنی سی چیز نہیں ہے۔ بلکہ بڑی مہنگی اور بیش قیمت چیز ہے ۔ سلیمان کہتا ہے  نیک نام  بے قیاس خزانہ سے زیادہ تر پسند کیا جاوے۔  اور احسان۔ روپے سونے سے۔ (امثال ۲۲: ۱) نیک نامی مہنگ مولے عطر سے بہتر ہے۔ ( واعظ ۷: ۱) نیک نامیؔ اپنے نتیجوں  کے باعث  زیاہد  تر بیش قیمت ہے۔ چنانچہ آدمی کی بہتری  اور کاروبار میں کامیابی اور اپنے اور اپنے دوستوں اور ہمسایوں کے ساتھ بھلائی کرنے کی قابلّیت۔ اور اُس کی اپنی سلامتی اور زندگی کے آرام  اور آسائیش بلکہ زندگی بھی اُس پر منحصر ہیں۔ اس لئے جو کوئی کسی کو اُس کی نیک نامی  سے محروم کرتا ہے تو  وہ اپنے ہمسایہ کو ایک دائیمی نقصان پہنچاتا۔  اُس کو لوٹتا بلکہ اُس کا خون کرتا ہے۔ نیک نامیؔ  اکثر انسان کی کلُ  کا اجرا اور اُس کی کل محنت کشی کا پھل ہوتی ہے۔ سو اُس  سے محروم کرنا گویا اُس کی ساری ملکیت  کو لوٹ لینا ہے اور اُسکو ننگا اور عاری کر دینا ہے۔ پس کوئی آدمی جس میں کچھ بھی عقل ہو گی ایسی کمینی  اور ظالمانہ حرکت نہ کرے گا۔  اور اسی لئے سلیمان تہمت لگانے والے کی بابت لکھتاہے کہ’’ وہ جو تہمت کرتا ہے  بے وقوف ہے۔‘‘ ( امثال ۱۰: ۱۸)

راقم ۔۔۔ جی ایل ٹھاکر داس۔۔۔ از گوجرانوالہ