ایک اعتراض کا جواب

A Reply to an Objection

Published in Nur-i-Afshan October 31, 1889
By Rev. Nasir

عموماً مسیحی مذہب کے خلاف یہہ اعتراض پیش کیا جاتا ہے کہ چونکہ مسیح گناہونگا کفارہ ہوا۔ اِس لئے مسیحیوں کو گناہ کرنے کی اجازت مل گئی ہے۔ یا  یوں کہیں کہ مسیحی جسقدر گناہ سے  چاہ  کریں مسیح کے کفارہ کے سبب بخشے جائینگے۔ ایسے معترض بیبل کے اُصول  سے ناواقف ہونے کے باعث  غلطی کرتے ہیں واضح  ہو کہ کو ئی  اعتراض مسیحی مذہب کے خلاف  نیا نہیں۔ ابتدائے تواریخ  میں مخالفوں نے وہ وہ سخت اعتراض کئے ہیں کہ آج  کل کے بڑے بڑے  نکتہ چینوں کے خیال میں بھی نہیں  آئے۔ اُس پر بھی اِس  زمانہ کے بعض کوتاوبیں پرُانے مرُدے اُکھاڑنے اور اُنکو نئے لباس پیش کرنے پر اکڑتے ہیں  مسیحی  مذہب کے خلاف چند  سُنے سُنائے اعتراض کر کے جھُلا کے سامنے  اپنی  لیاقت کا نقارہ بجاتے ہیں ۔  مذکورہ  بالا اعتراض  بھی اُنہی قدیم اعتراضوں  میں سے ہے۔ چنانچہ پولوس حواری  شہر روماؔ  کے مسیحیوں کی طرف کی طرف  خط  میں بھی سوال دوسرے  الفاظ  میں یوں ادا کرتا ہے کہ کیا  ہم گناہ  کیا کریں  اِس لئے کہ ہم  شریعت کے اختیار میں نہین بلکہ فضل  کے اختیار  میں ہیں۔  اور اِس اعتراض  کا جواب بھی رسول مذکور نے اُسی باب میں تحریر  کیا ہے۔ جو چاہے  رومیوں  کے نام خط کا چھٹا باب غور  سے پڑھ کر دیکھے۔

اِس اعتراض سے یہہ ثابت ہوتا ہے کہ معترض خود  نہیں سمجھتا کہ کیا اعتراض کر رہا ہے  کیونکہ جو شخص  گناہ کی نجاست سے ناواقف  اور گناہونکی مغفرت  کی نسبت انتظام  ایزدی کا علم نہیں رکھتا وہی اِس قسم کے کلمات زبان پر لاویگا۔  شاید بیجا نہ ہوگا  کہ ایسوں کی خاطر  یہاں چند  الفاظ اُس تعلق کی نسبت لکھے  جاویں جو  مسیحی کا مسیح کے ساتھ  ہوتا ہے۔ لیکن یاد رہے کہ یہہ معاملات  روحانی  عالم سے متعلق ہیں  اور اُن لوگون کی سمجھ میں ہر گز نہیں  آسکتے جو دیدنی اشیاء کے حلقہ کے باہر نگاہ نہیں  دوڑ سکتے  ایسوں کے سامنے روحانی  عالم کی باتیں بیوقوفیاں  ہیں۔

دُنیا میں ہر ایک  اِس  اُصول  کو تسلیم کریگا کہ اچھا  درخت برُے پھل نہین لا سکتا اور نہ بُرا درخت  اچھے پھل لا سکتا ہے یا دوسرے الفاظ  میں  اگر  سر مین ضعیف ہو تو سارا جسم ضعیف ہوگا اِس خیال کو مدنظر  رکھکر  ذرا آگے چلیں ۔ جب آدم اول جو تمام خلقت کا سر تھا خدا کی نافرمانی سے گنہگار  ٹھہر ا تو اُسکے باعث اُسکی نسل اور اُسکے تمام متعلقین پر ایک قسم  کا ضعف طاری ہو گیا۔ زمین آدم کے سبب ملعون  ہو گئی۔ بنی آدم  کا بگاڑ دیکھنے کے لئے  بہت غور  و فکر  کی ضرورت  نہیں یہہ اظہر من الشمس ہے۔ اگر یہہ ممکن ہو کہ  ہم  آدم اوّل سے تعلق  رکھ کر گنہگار ٹھہرے  تو کیا یہہ ناممکن ہے کہ کسی ایسے آدم ثانی  سے متعلق ہو کر جو کامل راستباز ہو ہم راست باز ٹھہریں۔ کیا ناممکن ہے کہ ’’ غرض جَیسا ایک گناہ کے سبب سے وہ فَیصلہ ہُؤا جِس کا نتِیجہ سب آدمِیوں کی سزا کا حُکم تھا وَیسا ہی راست بازی کے ایک کام کے وسِیلہ سے سب آدمِیوں کو وہ نِعمت مِلی جِس سے راست باز ٹھہر کر زِندگی پائیں۔ کیونکہ جِس طرح ایک ہی شخص کی نافرمانی سے بُہت سے لوگ گُنہگار ٹھہرے اُسی طرح ایک کی فرمانبرداری سے بُہت سے لوگ راست باز ٹھہریں گے۔‘‘ ( رومیوں ۵: ۱۸، ۱۹)

جیسا کہ جسمانی عالم میں پیدایش ہے ویسا ہی روحانی  عالم میں بھی ہے۔ جسکو روح القدس  سے سر ِ نو پیدا ہونا کہا گیا ہے جیسا بچہ کا پیدا ہونا کو ئی علم طب کا مسئلہ  نہین بلکہ ایک امر واقعی  ہے۔ ویسا ہی سر نو پیدا ہونا بھی کو ئی علم الہیٰ کا مسئلہ  یا بحث طلب  امر نہیں ہے۔ اِس نو پیدایش سے اِنسان ایک  ایسے بدن کا عضو بن جاتا ہے جس  کا سر مسیح  ہے۔ زندگی کی حرکات اُس میں نمایاں ہوتی ہیں۔  اِس تعلق کو  ہمارے خداوند نے دوسرے  الفاظ  میں انگور کی مثال  سے ادا کیا۔ چنانچہ وہ فرماتا ہے کہ ’’ مَیں انگُور کا درخت ہُوں تُم ڈالِیاں ہو ۔ جو مُجھ میں قائِم رہتا ہے اور مَیں اُس میں وُہی بُہت پَھل لاتا ہے کیونکہ مُجھ سے جُدا ہو کر تُم کُچھ نہیں کر سکتے‘‘۔ غرض  اِنسان مسیح میں  پیوند ہو کر  نئی زندگی حاصل کرتا ہے۔ وہی اس  جو جڑ مین ہے شاخ میں بھی دوران  کرتا ہے۔ اور پھر جیسا کہ شاخ کو میوہ لانے کے لئے کسی قسم کی کوشش  نہیں  کرنی پڑتی بلکہ درخت میں قائم  رہنا ہی شرط ہے۔ ویسا ہی اِنسان  اپنی مرضی کو خدا کی مرضی کے تابع کر کے اور  ایمان سے اُس میں قائم رہکر بہت پھل لاتا ہے۔ پر پھل  وہی ہیں  جنکو  عموماً  نیکیاں  کہتے ہیں۔ اور جنکو پولوس رسول روح کا پھل کہتا ہے۔ چنانچہ  وہ فرماتا ہے کہ ’’روح کا پھل  جو  ہے سو محبتؔ خوؔشی سلامتیؔ  صبر ؔ  خیر ؔ خواہی  نیکی ؔ  ایمانداری ؔ فروتنی  پرہیزگاریؔ ہے۔ ‘‘

حاصل کلام  جوں جوں اِنسان مسیح میں شامل ہوتا جاتا ہے اُسیقدر  اُسکی خواہش  یا خوشی  گناہ میں  نہیں ہو تی۔ مسیح نے نہ فقط  ہمارے گزشتہ گناہونکی  معافی کے لئے کفارہ دیا  ہے بلکہ جو شخص اِیمان کے زریعہ  اپنے تئیں اُسکے تابع  کر دیتا ہے  آیندہ کے لئے گناہ کے اختیار  سے بھی رہائی پاتا ہے۔ چنانچہ لکھا ہے کہ ’’ تم گناہ سے چھوٹکر  راستباز ی  کے غُلام بنے۔‘‘ تم آپ کو گناہ کی نسبت مُردہ پر خدا کی نسبت ہمارے خداوند  یسوع مسیح کے وسیلہ زندہ سمجھو۔‘‘  ’’اور کہ گناہ تمھارے  فانی جسم پر سلطنت نہ کرے۔‘‘  اب اِس صداقت کے سامنے وہ اعتراض کہاں رہا۔ اِس عجیب روشنی کے سامنے  اُسکی  پیچیدگی حل ہو گئی۔

اے ناظریں یہہ مبارک تجربہ میرے اور تمھارے لئے ہے اور خدا اپنی برکتیں  مفت دیتا ہے۔ دیکھو اب قبولیت کا وقت ہے دیکھو اب نجات کا دن ہے۔

راقم ۔۔۔ ناصر  از لاہور