اَسباب اِتحاد

Reason of Unity

Published in Nur-i-Afshan April 20, 1894
By Allama Akbar Masih

)۹( شمع دان کے لئے )۷: ۲۰،۲۱(

مسیح خداوند کی بابت بہت سی غیر انجیلی روایات  میں سے ایک یہ بھی ہے۔ جو مجھکو  بہت پیاری  معلوم ہوتی ہے۔ یاد نہیں کہ اِس کا زکر کہاں ہے۔ کہتے ہیں کہ راستہ پر ایک ُکتا مرا پڑا تھا۔ راہگیر  بچک کر نکل جاتے اور طرح طرح  سے اُسپر  اَپنی  مغفرت ظاہر کرتے تھے۔ کو ئی تو اُس کی ٹیڑھی دُم  پر لطیفہ کہتا تھا۔ کو ئی اُس  کے بوچے کانوں پر ہنستا تھا۔ کو ئی اُس کی آواز  پر اور کو ئی اُس کے  عین  سڑک  پر مرنے پر کہتا تھا ۔ کہ وہ کتُے کی موُت  مرا۔اِس اثنا میں ایک مرد خدا کا گزر ہوا۔ کتُے کو دیکھکر۔ اور لوگوں کے لطائف  و ظرائف سُنکر  بولا۔ دیکھو تو اُس کے دانتوں  پر موتی کی سی آب ہے لوگ دیکھنے لگے۔ یہ کون شخص  تھا۔ کیونکہ وہ  اِتنا کہکر چل دیا  نہ آخر کسی  نے سوچا کر کہا۔ یہ ضرور  یسُوع ناصری تھا۔ کیونکہ اَیسی حقیر شے میں ایسی خوبی دریافت کرنا اُسی کاکام  تھا۔

عموماً لوگوں کی یہ عادت میں داخل ہو گیا ہے۔ کہ عیبوں پر زیادہ زور دیتے ہیں۔ اور ہنروں سے چشم پوشی کرتے ہیں۔ اور یوں مخالفت بڑھتی ہے۔  پر اگر برخلاف  اِس کے عیبوں سے چشم پوشی  کی جائے اور ہنروں پر نظر ڈالی  جائے۔ تو دوستی و موافقت  باہمی ضرور بڑھ جائے۔ ہم اَپنے عیسائی بھائیوں  کے درمیان  بھی دیکھتے ہیں ۔ کہ وہ سینکڑوں فرقوں میں منقسم ہیں۔ فرقوں میں منقسم ہونا کوئی عیب نہیں۔ بلکہ طبیعت کی آزادی و خود  مختاری کے لئے لازمی ہے۔ ہر شخص کا فرض ہے  ہے کہ اَپنے  ضمیر کو بے لوث رکھے۔  اور جس شے کو مناسب  وحق و خُدا کی مرضی کے موافق  جانتا ہے۔اُسکو قبول کرے۔ مگر فرقوں پر ہونے کے لئے باہمی مخالفت کوئی لازمی بات نہیں۔ ہم مخالف ہو کر بھی موافق  ہو سکتے ہیں۔ اختلاف کے ساتھ ایک دوسرے کو اتفاق کا دہنا  ہاتھ دیسکتے ہیں۔ ہمارے اختلاف بڑے ہیں۔ اور بہت ہیں مگر اتفاق اُن سے زیادہ ہیں۔ اور اہم ترین ہیں۔ اگر  ہم ہمیشہ اختلافات  کی طرف اپنی نظر نہ رکھیں۔ بلکہ زیادہ تر اِتفاق  کو دیکھیں۔ تو  آپس میں ہم خدمت ہو جانا ہمارے لئے کو ئی مشکل امر نہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ دنُیا کے فرزند نوُر  کے فرزندوں سے زیادہ  عقلمند ہوتے ہیں۔ فریسی و صدوقی  باہم  سخت اختلافات رکھتے تھے۔ مگر وہ بھی جب کسی مخالف مشترک کا سامہنا  کرتے تھے۔ تو مل جاتے اور اُن باتوں کو دیکھتے تھے۔ جن میں اُن کا اِتفاق تھا۔ چنانچہ  اُنہوں نے اکثر  ایسے پہلو سے ملکر ہمارے خداوند کی مخالفت کی افسوس کہ ہم سانپوں  سے ہو شیاری نہیں سیکھتے۔ اور ایسا نہیں کر سکتے اور اگر کر سکتے ہیں تو کرتے نہیں۔ عیسائیوں کا ہر فرقہ  چاہتا ہے کہ خداوند کی خدمت کرے۔ انجیل کی بشارت دے۔ مگر الگ الگ  ۔ مل جُل  کے کام نہیں کرتے۔ ملنا اُن کا شاز و نادر  ہوتا ہے ۔ کیا خوب ہوتا کہ ہم سب لوگ مل جاتے اور غور سے دیکھتے کہ کون  کونسے کام ہیں۔ جنکو ہم سب مل کے ایک  ساتھ کر سکتے ہیں۔ اُنہیں کو کریں۔تین لڑی رسیّ مشُکل سے ٹوٹتی ہے۔ مختلف مسیحی فرقوں کے شریک  اکثر سمجھتے ہیں کہ ہم نے مسیحیّ فضل کا اِجارہ لےلیا ہے۔ جو لوگ ہمارے بیچ میں ہیں اور ہماری طرح خیال کرتے ہیں۔ وہی سچےّ عیسائی ہو سکتے ہیں۔ اور ہماری طرح خیال کرتے ہیں۔ عہی سّچے  ہو سکتے ہیں۔ اُن کو مقصود اکثر یہ ہوتا ہے کہ وہ  مسیحی فضل کو ٹیسٹ کرالیں اور عیسوی نعمتوں کو اپنے تنگفرقہ کے نام رجسٹری کرالیتا اور عام اشتہار دیدیں۔ کہ اگر کو ئی قسم کا مسیحی فضل  جوہمارے یہاں سے نہ حاصل  ہوا ہو کہیں ملے تو وہ جعلی و مصنوعی ہے۔ اِس میں تعّصب کی بو آئی ہے۔ تنگ خیالی  کے آثار نظر آتے ہیں۔ اِس قسم کی روح کو مسیح نے خود  مزمت  کی ہے ۔ مسیح کے شاگردوں میں بھی کسی وقت  یہ روح تھی۔ اُنہوں نے شکایت اَپنے اُستاد سے کی۔  اے خداوند ہم نے ایک کو دیکھا کہ وہ تیرے نام سے دیووں کو نکالتا ہے۔ مگر ہمارے ساتھ نہیں چلتا۔ ہم نے اُسکو منع کیا  تھا  مگر وہُ  نہیں مانا۔  تیرے نام سے دیووں کو نکالتا ہے۔ یعنی تیرا نام بھی  لیتا ہے۔ اور تیرے نام کی تاثیر بھی اُس میں موجود ہے۔ حتّی کہ معجزےبھی کرتا ہے۔ یعنی پھل لاتا ہے۔ مگر ہمارے ساتھ نہیں چلتا۔ ہم نے اَپنا  ایک فرقہ مقرر کر لیا ہے۔ اور ہم یوُں اور دوں سوچا کرتے ہیں۔ اور اُس کے اظہار کے لئے فلان و فلان الفاظ  معُیّن کر لے آئیں  پر وہ ہمارے ساتھ نہیں چلتا۔ صرف تیرے نام سے کام کرتا ہے۔ یعنی ہم فرقہ والے ہیں۔ وہ فرقہ والا نہیں۔ ہم نے اُسے کام کرنے سے اور تیرا نام لینے سے اِس لئے منع نہیں کیا ۔ کہ ہم تیرے نام یا اُس کے کام سے ناراض ہیں۔ بلکہ ہم یہ نہیں چاہتے۔ کہ تیرا نام اور تیرا کام ہمارے  فرقہ کے باہر لیا جاو ے ہم تیرے  نام اور تیرے  کام کو پیٹنٹ  کرانا چاہتے ہیں۔ پر وہ کب مانتا  تھا۔ اُسنے غالباً یہی کہا ہو گا۔ کہ مجھے مسیح کے نام سے اور اُس کے کام سے غرض ہے۔ فرقہ سے غرض  نہیں۔ مین بے فرقہ والا ہوں نہ مانو گا۔ مسیح نے بھی اُسی  کی طرفداری کی۔ اور فرمایا اُسے منع مت کرو۔ تم اَپنے فرقہ میں ہو بنے رہو۔ اُسے جہاں ہے بنا رہنے  دو۔ پر تم اور وہ ہمخدمت  ہو جاؤ۔ ضرور نہیں کہ جو تمہارے فرقہ میں نہو وہ میرا  مخالف ہو۔ اور اُس کی مزاحمت  کی جاوے۔ مسیح کے اِس فتوی پر ہم لوگ کچھ کم غور کرتے ہیں۔  حالانکہ یہی بڑی ضروری بات ہے۔ کو ئی سردار کاہن بننا چاہتا ہے۔ کو ئی لاوی۔ کوئی فریسی ۔ کو ئی  یہودی۔ کو ئی یونانی۔ مسیح چاہتا ہے کہ سب نیک سامری بن جاویں۔ ہندوستان مین بہت سے مقُدّسون کے ناموں پر گرجوں کی تقدیس کی گئی ہے۔ لاویوں کے گرجے بہت ہیں۔  کاہنوں کے بہت  مگر کہیں کو ئی گرجا مقٔدّس  سامری کے نام کا  نظر نہیں آتا۔ جہاں خراجگیر دیس نکالے جلاوطن سامری  آکر عبادت کریں۔ اے کاشکہ ہمارے نوجوان مرے کتُے کی دُم کی کم مزمت کرتے۔ اور اُس کے دانتوں  کی آب کو دیکھتے۔ اُس کی برُی آواز پرَ  کم خیال کرتے۔ اور اُس کی وفاداری  پر دھیان کرتے۔ اور کم دیکھتے کہ فلاں شخص ہمارے ساتھ نہیں چلتا۔ اور دیکھتے کہ کیونکر  وہ مسیح کے نام سے دیؤوں کو نکالتا ہے۔ لادیانہ نظر کو سامریانہ نظر سے بدل ڈالتے اور گرے ہوئے کو اُٹھانے  کے لئے سب ملکرہاتھ دیتے۔ جن باتوں میں تم دوسروں سے مختلف  ہو۔ اگر اپنے اختلافات ضروری سمجھتے ہو۔ تو اُن کو پکڑے رہو۔ مگر باہم ہمخدمت  ہونے کے لئے دیکھو کن باتوں میں تم  متفق ہو۔  اگر کو ئی اِسپر غور  کریگا تو اِتفاق  و اتحاد کی ہزاروں باتیں  پاویگا اور اُسکو اپنا اختلاف ذرا سا دکھلائی پڑیگا۔

راقم ۔۔۔۔۔۔۔۔ اکبر مسیح