Ceiling of Blue Mosque in Istanbul

تثلیث  کا ثبوت

غلام مسیح

Proof of Trinity


Published in Nur-i-Afshan April 24, 1895
By
Gulam Masih


ناظرین با انصاف آپ خیال کریں گے۔ کہ یہ کیسی سرخی ہے۔ اور کہ اس کا ثبوت  کیا ہے؟  اور ساتھ  ہی خیلا کریں گے کہ یہ کون سا عالم اجل آج پیدا ہو گیا؟  اور کہاں سے یہ چھپا رستم  نکل آیا؟ جسنے اس لاحل مشکل کے حل کرنے کا بیرا اُٹھایا۔ اور اس عقیدہ لاحل کے کھولنے پر کمر باندہ بیٹھا۔

میرا کچھ قصور نہیں۔ معاف فرمائیں زرا غور سے نظر انصاف  کریں کہ اس سوال کا جواب آتا ہے یا نہیں۔

یہ سوال مجھ غلام مسیح پر قصبہ شاہ آباد مسلمانوں کی طرف سے کیا گیا۔  اور بحث کی ٹھہری۔ جب آٹھویں تاریخ ماہ حال کو تمام شہر کے لوگ اکھٹے ہوئے۔ تو ایک مسلمان نے مجھ پر  یہ سوال کیا۔ کہ ثابت  کرو کہ تثلیث درست تعلیم ہے اور بائبل  میں  بھی اس کا ثبوت ہے؟

تب بندے نے چند آیات  یوحنا کی انجیل سے نقل کیں وہ یہ ہیں۔ یوحنا ۱: ۱، ۱: ۱۴،  ۴: ۲۴، ۱۷: ۵۔

یہ ثبوت دیکر ساتھ ہی میں نے یہ دعویٰ کیا۔ کہ چونکہ یہ تعلیم ایک ایسی کتاب  کی ہے۔ جو دعویٰ الہام رکھتی ہے۔ اور یہ  تعلیم اس میں پائی جاتی ہے۔ سو آپ مہربانی سے اس کتاب کو غیر الہامی ثابت کرو۔ تو یہ تعلیم خود بخود غلط ہو جائیگی؟ اور ساتھ ہییہ بھی بتلاؤکہ وہ کونسے اصول عام میںجنکی رو سے ہم اس کتاب کو یا کسی اور کتاب کو الہامی قرار دیویں۔  اور اس کے غیر کو غیر الہامی؟

دوسرا جواب  ہماری طرف سےیہی تھا۔ کہ اگر تثلیث کی تعلیم  درست نہیں ہے۔ تو   وحدانیت  کی تعلیم درست ہو گی؟ لہذا ہمکو وحدانیت کی تعلیم درست کر کے دکھلاؤ؟

سوال ۱: خدا کااسم ذات  کیا  ہے؟ اور خدا کیا ہے؟

سوال۲: چونکہ  آپ خدا کو واحد قرار  دیتے ہیں۔ تو آپ  پر فرض ہے کہ ہمیں دکھلاؤ کہ واحد کو واحد کیوں کر کہتے ہیں؟

الف ۔ جنسیت کی وجہ سے یا  ( ب) عدہیت کی وجہ سے یا ( د) نوعیت کی خیال سے۔

سوال۳: چونکہ آپ خدا کو روح  نہیں مانتے۔ تو بتلاؤ کہ وہ بغیر روح کیونکر زندہ ہو؟ اور کیسے ہو سکتا ہے؟ 

کیونکر زندگی روح میں ہوتی  ہے۔

پر خدا روح نہیں ہے۔

پس خدا زندہ بھی ہے۔

سوال۴؛ جبکہ خداروح نہیں ہے۔ تو اُسکو قادرِمطلق ثابت کرو۔ قدرت زندہ ہستی میں ہوتی  ہے۔ اور زندگی روح سے حاسل ہے۔ لیکن خدا روح نہیں ہے۔

پس خدا قادر مطلق نہیں ہے۔  یا بالکل قادر نہیں۔

سوال۵: جبکہ خدا روح نہیں ہے تو اُس کو عالم الغیب  ثابت کرو۔ کیونکر :ّ

علم روح ہی کو حاصل ہو سکتا ہے۔

خدا روح نہیں ہے۔

پس خدا کوئی نہیں ہے۔

سوال ۶: جبکہ واحد خدا روح نہیں ہے تو اُس کو حاضر و ناضر ثابت کرو۔

حاضر یا ناظر ہونے کی صفت زندہ ہستی میں ہوتی ہے۔ اور زندگی روح ہے۔

لیکن خدائے واحد روح نہیں۔

پس خدائے واحد نہ حاضر  ہے نہ ناظر ہے۔

یہ دو جواب لکھ کر اُن کے مکان پردے آیا۔ جب مسلمانوں نے دونوں  جواب پڑہے۔ تو مجھکو کہلا بھیجا کہ ہم تو صرف زبانی جواب دیں گے۔ تحریری نہیں۔ مینے کہا اگر تحریری جواب نہیں دینے تھے۔ تو بحث کیوں کی؟  جواب مزارو+  آجتک  تو جواب سے لاجواب ہوں۔ اُمید تو ہے کہ قافیہ تنگ ہوگیا ہوگا۔  پر شاید کوئی جواب دیوے۔ تو وقت پر وہ ہدئیہ ناظرین  ہو گا۔

اب چونکہ میرے یہ سوال اور جواب اہل عقل لی نظر سے گزریں گے۔  اس وجہ سے میں اپنی باقی سوال بھی جو توحید کی خاصکر اسلامی توحید کی تردید میں میرے پاس ہین ہدیہ ناظرین کرتا ہوں۔ شاید کوئی سی ان کا جواب دیکر تثلیث کو غلط  ٹھہرادیوے۔

دہوہذا

سوال۷: اگر آپ کا واحد خدا روح نہیں ہے۔ تو وہ رحیم کیونکر ہوگا۔ کیونکہ صفتِ رحم کسی زندہ ہستی  سے علاقہ رکھتی ہے۔ 

اور زندگی روح ہونے پر مبنی ہے۔

پر آپ کا واحد خدا روح سے خالی ہے۔

پس وہ رحم سے بھی بالکل خالی ہے۔ کیونکہ وہ زندہ نہیں ہے۔

سوال۸: جبکہ آپ کا واحد روح سے خالی ہے تو وہ عادل  کیونکر  ہوگا؟ کیونکہ صفت عدل کسی زندہ ہستی کو اپنا  موصوف بنائے گی۔ جو زندہ ہستی ہو گی وہ ضرور روح ہوگی؟  

لیکن آپ کا واحد خدا روح  نہیں ہے۔  پس آپ کا واحد عادل نہیں ہے۔کیونکہ وہ زندہ نہیں ہے۔

سوال ۹: جبکہ آپ کا واحد خدا روح نہیں ہے۔ تو وہ پاک کیونکر ہو گا۔ کیونکہ صفت پاکیزگی کسی کی زندگی کی صفت ہے  زندگی صرف روح ہی سے بحال ہے۔

پر آپ کا واحد خدا  روح نہیں ہے۔ پس وہ پاک بھی نہیں ہے۔ کیونکہ صفت پاکیزگی  زندگی کی ہے۔

سوال۱۰: جبکہ آپ کا واحد خدا روح نہیں ہے۔ تو وہ متکلم  کیونکر ہوگا؟ کیونکر کلام کرنا زندگی کا ثبوت ہے۔ اور زندگی روح کا ثبوت ہے۔

پر خدا روح نہیں ہے۔ پس  آپ کا واحد خدا متکلم بھی نہیں ہے؟

سوال۱۱: جبکہ آپ کا واحد خدا روح نہیں ہے۔ اور کلام بھی نہیں  کر سکتا ہے۔  تو قرآن شریف کو کلام خدا ُ ثابت  کرو+ کیونکہ کلام کرنا صفت زندگی کی ہے۔ اور زندگی خاص روح ہے۔ اور روح میں امتیاز امرو نہی کا ہوتا ہے۔ اور قرآن شریف   امرونہی ہے۔

لیکن آپ کا واحد خدا کلام نہیں کر سکتاہے۔ کیونکہ وہ  روح نہیں ہے۔ اور بغیر روح اُس میں امتیاز نہیں ہے۔

پس قرآن شریف کلام خدا نہیں ہے۔ کیونکہ وہ کلام نہیں کرتا۔ اور کلام بغیر روح اور زندگی محال ہے۔

سوال ۱۲: آپ اپنے واحد خدا کو خالق ثابت کرو۔ کیونکہ خلق کرنا قدرت سے علاقہ رکھتا ہے۔ اور قدرت  زندگی  میں ہے۔ اور زندگی روح ہے۔

لیکن آپ کا واحد خدا خالق بھی نہیں ہے۔ کیونکہ اس میں قدرت نہیں ہے ۔ اور زندگی بھی نہیں ہے۔

اب کوئی اسلامی توحید ماننے والا ہمکو بتائے۔ کہ اِن صاحبان نے کس ہستی کا نام خدا رکھ چھوڑا ہے؟ کیا محض  عام کا نام نہیں؟ جس کی مثل کوئی شے کسی حالت میں ہو نہیں سکتی؟ کیونکہ دنیا میں جو کچھ نظر آتا ہے وہ محض عدم کے خلاف  ہست ہے۔ پھر محض عدم کی مثل کون ہو؟ وہی جو محض عدم ہو۔ ہست کا کوئی جزو نیستی سے کچھ مشابہت نہیں رکھتا؟

پس وہ آپ کا واحد خدا  جو بیثل ہے۔صرف محض عدم نکلا؟ پھر آپ ہمکو جو زندہ خدا کے قاتل ہیں کیونکر عدم کی طرف رجوع دلاتے ہیں؟

پیشتر اپنے واحد خدا کو زندہ واحد خدا چابت کر کے دکھلاؤ تب ہم تثلیث  کو بھی چھوڑیں گے۔  یہ بھی تب تک نہیں جبتک  بائبل  کو غیر الہامی اصول عامہ سے نہ دکھلاویں؟ ورنہ اپنا منُہ ہمیشہ کےلئے ہمارے سامنے مت کھولو۔ کچھ ضرورت نہیں؟

میرا یہ جواب دیکھکر مسلمان دم  بخود  ہو بیٹھے ۔ اب میرے جواب پر نہ تو اعتراض  کرتے ہیں۔ نہ میرے سوالوں کا جواب دیتے ہیں ناحق مجھے منادی نہیں کرنے دینے ہیں۔اور سارا شہر مجھے نکالنے  کی فکر کر رہا ہے۔ جدھر جاتا ہوں شور و غل مچاتے ہیں۔ اور کچھ پیش نہیں جاتی ہے۔

منادی تو بالکل بند ہونے پر ہے۔ کیونکہ جدھرمیں جاتا ہوں۔ دس پندرہ آدمی پیچھے ہو لیتے ہیں کلام کرنے نہیں دیتے۔ جہاں پر میں کھڑا  ہو کر منادی کرتا ہوں۔ وہیں لوگ  کھڑے ہو کر  کرافات بکتے رہتے ہیں۔

ان کا کلام یہی ہے۔ تو نکل جا۔ اور تجھے  نکالکر چھوڑنا ہی اب آپ خیال کریں۔ کہ جھوٹوں کا علاج کیا ہے۔  حکام سے اُمید ہے۔ کہ وہ ہمارے خدا کی ہان زندہ خدا کے جلال ظاہر کرنے کے لئے ہمارے ساتھ ہمدرد ہو کر انتظام کریں گے ورنہ میں تو بے کار گھر  میں دن کاٹتا ہوں۔ کام بالکل بند ہونے پر ہے۔

تثلیث کا تیسرا ثبوت

ناظرین ہم نے اپنے پہلے بیان میں چابت کر دیا کہ تثلیث کی تعلیم  سچّی  تعلیم  ہے کیونکہ وہ خدا کے کلام میں پائی  جاتی ہے۔ اور خدا کا کلام  الہامی اور سچاّ کلام  ہے پس تثلیث کی تعلیم  الہامی اور سچی تعلیم ہے۔

اس کے علاوہ ہم نئ ایک  دوسری دلیل سے چابت کیا  کہ صرف تثلیث ہی کی تعلیم سے ہمکو خدا کی وحدانیت کا ثبوت   ملتا ہے۔ورنہ نہیں۔ اس کے ثبوت میں ہم نے  چند اعتراض صرف  محمدی وحدانیت  پر اسی غرض سے کئے ۔ تاکہ ہم پر ظاہر ہو۔  کہ آیا وحدانیت  ثابت ہے یا نہیں۔ اگر نہیں ۔ تو تثلیث خود بخود ثابت ہے۔ اگر ہے تو اس کا ثبوت کیا؟  لیکن وحدانیت کا ثبوت کوئی محمدی نہ دے سکیگا؟ اس وجہ سے تثلیث کا ثبوت ہمارے اُنہیں دو دلایل سے قایم رہے گا۔

اب چونکہ ان لوگوں کو خدا  کا روح  ہونا اور اُس کا ماننا نہایت دشوار امر ہے۔ لہذا ان کو خدا کے ہونے کا ثبوت دینا دشوار امر ہے۔ جبتک وے خدا کو روح نہ مان لیں۔ تب تک وے لاجواب ہیں؟  اس وجہ سے اب ہم ایک اور ثبوت دیتے ہیں۔  جس کا رد کرنا سوائے خدا کی روح ماننے بغیرہو نہیں سکتا ہے۔ وہ ان کے قرآن شریف سے ہے۔ جس کو وے لوگ خدا کا کلام  کہتے  ہیں۔ لیکن قرآن شریف کا کلام ِ خدا ہونا خدا کے ہونے پر موقوف ہے؟  اور کدا ان کے مذہب کی رو سے جیسا کہ دکھلایا گیا کچھ شے یا حقیقت نہیں۔ پس قرآن شریف کیا ہوگا۔

اس کو بھی فرض کرو۔ کہ کدا کچھ شے ہوگا۔ تو بھی مشکل سوال یہ ہے۔  کہ کیا ثبوت ہے کہ قرآن  شریف اسی خدا کا کلام ہے۔ لیکن اس بات کو ہماری بحث سے کچھ تعلق نہیں۔ قرآن شریف ان کے ہاں کلامِ خدا مانا جاتا ہے۔ کواہ اس کو چابت کر سکیں یا نہ کر سکیں۔ اب دیکھو کہ قرآن  شریف سے خدا کی زاتِ واحد  میں تثلیث  کا کچھ نشان ملتا ہے۔ یا نہیں۔ اگر چہ تثلیث کا ثبوت قرآن کی شہادت پر موقوف نہیں ہے۔  تو بھی مخالفوں کا عاجز کرنا اور اُن کا سکوت اختیار کرنا اور اپنے واحد خدا کا ثبوت  نہ دینا۔ تعلیم تثلیث کو قوت دیتا ہے۔ لہذا ہم ان کو عاجز کرنے کے لئے چند حوالے قرآن سے بھی نقل کر دیتے ہیں۔

اول نساء ۲۳۔ رکوع ا أَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ وَلَا تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ إِلَّا الْحَقَّ ۚ إِنَّمَا الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُولُ اللَّهِ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَىٰ مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِّنْهُ۔

ترجمہ۔ اے اہِل کتاب تم اپنے دین میں حد سے نہ نکلو اور الله کی شان میں سوائے پکی بات کے نہ کہو بے شک مسیح عیسیٰ مریم کا بیٹا الله کا رسول ہے اور الله کا ایک کلمہ ہےجسے الله نے مریم تک پہنچایا اور الله کی طرف سے ایک جان ہے سو الله پر۔

سورہ عمران ۵ رکوع۔ جس وقت کہا فرشتوں نے اے مریم یہ بشارت دیتا ہے تجھ کو  ساتھ اپنے کلمے کے نام اُس کا عیسیٰ مسیح بیٹا بیٹا مریم کا آبرو والا بیچ دنُیا کے اور آخرت کے اور نزدیک کئے گیوں سے؟

اِن ہر دو آیت میں کلمؔۂ خدا۔ اور روؔح خدا اور خؔدا کا  نام صاف طور سے واضح ہے۔ 

اے ناظرین میری بیوقوفی کو غور سے ملاحظہ کرنا۔ کہ میں کہاں تک غلطی پر ہوں۔ یہ بات تو آپ پر روشن ہے کہ عیسائی کلمٔہ خدا کو  اور روح خدا کو اور باپ کو ایک خدا مانتے اور یقین سے اس عقیدے پر مرتے ہیں۔ اور مر رہے ہیں۔ اب اگر حضرت محمد صاحب نے تثلیث کی تعلیم کو فکر کر کے چھوڑا ہے۔  تو ہم کو کوئی مسلمان قرآن سے دکھلاوے۔ کہ زیل کے سوالوں کی قرآن نے تردید کی ہے۔

۱۔ روح ِخدا خدا نہیں ہے؟

۲۔ کہ کلمۂ خدا خدا نہیں ہے؟

۳۔ کہ اگر خدا ہے۔ تو وہ ان دونوں باتوں سے خالی ہے؟

اب یہ صرف ظاہر ہے کہ عیسائیوں کی مقدس کتابوں کی یہی تعلیم ہے۔ کہ خدا کی زاتِ واحد میں کلمٔہ خدا اور روح ِخدا امتیازکئے جاتے ہیں۔

اب اگر حضرت نے اس تعلیم کو رد کیا ہوگا۔ تو اُس کے بگیر کسی اور تعلیم کو پیش کیا ہوگا؟ لیکن یہ بات بخوبی ثابت  ہے کہ حضرت نے کوئی نئی تعلیم قرآن میں تثلیث کی تعلیم  کی تردید میں نہیں پیش  کی۔ اگر کی ہے تو ہمکو کوئی شخص  بتلا دیوے؟

پس حضرت محمد صاحب سے تثلیث کی تعلیم در نہیں ہوئی۔  کیونکہ قرآن میں کہیں نہیں لکھا کہ خدا کا کلمہ خدا  نہیں ہے۔ اور کدا کی روحُ  خدا نہیں ہے۔  اور کہ اگر ہے۔ تو جُھوٹ ہے خدا فلانی شے ہے؟  پس جبکہ اِس پرُانی تعلیم کی تردید پر قرُآن نازل ہوا؟ تو اُسکی تردید کہاں ہے؟  اگر اُس پرُانی تعلیم تثلیث  کی قرآن نے تردید نہیں کی؟ تو پرُانی تعلیم  برابر قایم رہی؟ لیکن تردید نہیں کی پس تثلیث قایم رہی۔

پھر اگر حضرت نے تثلیث  کی تردید  کی تو  کیا باپ  بیٹے اور روُح القدس اِن تینوں اقانیم کی تردید کی یا ایک دو  کی؟  اگر دو کی کی اور ایک کو تسلیم کیا؟ تو بھی حضرت نے وحدانیت کو نئی تعلیم نہ بنایا۔ بلکہ عیسائیوں کے عقیدے کا ایک حصّہ مان لیا۔ اور بس؟  وحدانیت  تو پھر نئی تعلیم  نہ ہوئی؟  صرف حضرت نے یہ سوچا کہ چونکہ یہ مسئلہ فکرمیں تو آتا نہیں۔ اِسلئے بہترہو گا۔ کہ مسیحیوں کے عقیدے کے کل کو مان لو۔ اور جو کچھ ہوگا بیچ میں آجائیگا۔ واہ وحدانیت اگر یہ سچ نہیں تو ہمکوکوئی شخص بتلاوے کہ حضرت نے اِن تین اقانیم کا اِنکار کہاں کیا۔ اور اِن کے انکار کرنے کے بعد حضرت نے خدا کس ہستی  کا نام رکھا۔ اور کہاں رکھا؟  یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ جبتک کوئی مسلمان اِن اقانیم ثلاثہ کی تردید قرآن شریف  سے نہ دکھِلاویگا۔ تب تک عیسائیوں کا عقیدہ قایم باثبوت رہیگا؟ اور دوسرییہ بات اگر اِن اقانیم ثلاثہ کی تردید بھی قرآن  شریف سے دکھلاویگا۔ اور اپنے واحد خدا کو کہ وہ کون ہے؟ یاکیا ہستی ہے؟ نہ بتلاویگا۔ تو تثلیث کا عقیدہ قایم  رہیگا۔

کیونکہ حضرت نے کلمٔہ خدا اور روُح خدا اور خدا کو صاف صاف بیان  توکیا ہے۔ لیکن تردید نہیں کی۔ کوئی عقیدہ ہمکو نہیں بتلایا جکسو ہم خدا خیال کریں۔ بہر حال جبتک قرآن سے کلمہ خُدا یا روُح کدا کے مخلوق ہونیکا ثبوت ہمکو نہ ملجاوے۔ اور توحید کی تعلیم اُسکے مقابل میں قایم نہ کیجاوے اور توحید جبتک کہ عیسائیوں کی توحید کے خلاف ثابت  نہ کیجاوے۔تب تک پاک تثلیث کو چھوڑنا اور ایک خیالی خدا کی پیروی  کرنا ہم لوگونکا احمق پن اور جہالت ہوگا۔ اور نہیں تو اسکے خلاف آپ صاحبان کا۔ جو توحید کے قائل ہیں؟

پھر اگر حضرت نےایک کی تردید کی ہو گی تو دو کو ضرور مانا ہوگا؟  اچھا اب وہ قرآن  کا مقام بتلاؤ جس میں لکھا ہے کہ کلمہ خدا۔  اور روح خدا ایک خدا ہیں؟  یا کلمہ کو چھوڑ کر روح خدا اور خدا ایک ہیں؟ یا کلمٔہ خدا  اور روح  خدا تو مخلوق ہیں؟ لیکن خدا جو اُسکے بغیر ہے وہ فلانی شی ہے؟ وہ ایک ہے۔

ورنہ صاحبانِ من آپ کو کچھ مزاج نہیں کہ آپ  عیسائیوں پر کس قسم کا اعتراض کریں! ۔ کیا آپ اِس پاک عقیدے کو چُھڑوا کر ہمکو دھریہ بنانا چاہتے ہو؟  کیا ہم بھی آپ کیطرح  محض عدم کا نام خدا رکھیں؟ ہمارا خدا ہمسے ایسی خطا کبھی ہونے نہ دیگا؟ جب تک آپ اپنے  انوکھے خدا کا ثبوت نہ دیں؟

اب یہ بات رہی کہ آپ  قرآن سے تثلیث کی تردید کا ثبوت  تلاش کریں۔ قرآن سے تثلیث کی تردید کا ثبوت تب ہی جائز ہوگا جب آپ صاحبان ہمپر قرآن شریف کو کلام خدا چابت کرینگے؟ اور قرآن  شریف کلام خدا تب ہی ثابت ہوگا۔ جبکہ آپ اِن عام اصولونکی رُو سے جنکی وجہ سے ہم کسی کتاب لو الہامی اور کسی کو غیر الہامی قرار دیتے ہیں بیان کریں؟

اور وہ اصول عام تب ہی کام میں آوینگے۔ جبکہ آپ خدا کو  بولنے والا ثابت کریں؟ اور خُداکو بولنے  والا  تب ہی  ثابت کرئینگے جبکہ آپ خدا کو زندہ ہستی ثابت  کریں؟ اور خدا کو زندہ ہستی آپ تب ہی قرار دینگے۔ جبکہ آپ خدا کو روُح مانیں؟  لیکن آپ خدا کو رُوح مان نہیں سکتے۔ کیونکہ آپ کے عقیدے  کی کتاب میں ثابت نہیں۔ پس آپ کو کلام خدا بھی چابت نہیں کر سکیں گے۔ جبکہ وہکلام خدا ثابت نہ ہوگا۔ تو آپ کیطرفسے جو ثبوت پیش کیا جائیگا؟ ہمارے نزدیک قابلِ وقعت نہوگا۔  لہذا میں آپ صاحبان کو اطلاع دیتا ہوں۔ کہ اگر کوئی صاحب  میرے بیان پر قلم اُٹھاے تو سوچ کر اُٹھائے+ ورنہ خجالت اُٹھائیگا۔ کچھ ہاتھ نہ آئیگا۔

والسلام علی المومنین