Red & White Flower

حق و َباطَل کی شناخت

کھوج کھوج کر ڈھونڈو گے تب جھوٹھ  سچ کو جانو گے

Identification of the Truth and False
Bible or Quran


Published in Nur-i-Afshan May 15, 1896


فصل اَوّل درز کر آفرِینش

توریت

توریت میں زکر آفرینش آدم اس طرح سے لکھا ہے

ابتدا میں خدا نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اور جملہ موجودات کو پیدا کر کے آفرینش کے چھٹے دن آدم کو زمین کی خاک سے اﷲ نے اپنی سورت پر بنایا  اور اُس کے نتھنوں  میں زندگی کا دم پھونکا  اور ساتویں دن کو سبت مقرر کیا اور عدن کے پورب طرف باغ لگا کر آدم کو اُس میں رکھا اور آدم کی پسلی  سے حواّ کو پیدا کیا اور درخت  ممنوعہ  کے کھانے   سے منع کیا۔  پھر شیطان نے بشکل سانپ حّوا  کو بہکایا  چطاطچہ درخت ممنوعہ  حوّا نے خود کھایا اور آدم کو کھلایا جبکہ آدم کو درخت  ممنوعہ کے کھانے سے نیئک و بد کی شناخت ہوگئ تو سمجھا کہ میں ننگا ہوں  پھر درختوں کی پتیوں  سے اپنا اور اپنی  بیوی حوّا کا جسم چھپایا  پھر اﷲ نے دونوں  کے واسطے طمڑے کے کرتے بنائے اور پہنائے اور درخت  ممنوعہ کے کھانے   کے قصور میں دونوں بہشت سے نکالے گئے اور شیطان ملعون ہوا۔

قرآن

سورہ اعراف آیت ۱۱۔

وَلَقَدْ خَلَقْنَاكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَاكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ لَمْ يَكُن مِّنَ السَّاجِدِينَ

 اور ہم ہی نے تم کو (ابتدا میں مٹی سے) پیدا کیا پھر تمہاری صورت شکل بنائی پھر فرشتوں کو حکم دیا آدم کے آگے سجدہ کرو تو (سب نے) سجدہ کیا لیکن ابلیس کہ وہ سجدہ کرنے والوں میں (شامل) نہ ہوا ۔

سورہ حجر رکوع ۳۔ ۲۶۔ ۲۹۔ آیت

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ وَالْجَانَّ خَلَقْنَاهُ مِن قَبْلُ مِن نَّارِ السَّمُومِ

 اور ہم نے انسان کو کھنکھناتے سڑے ہوئے گارے سے پیدا کیا ہے اور جنوں کو اس سے بھی پہلے بےدھوئیں کی آگ سے پیدا کیا تھا۔

سورہ عمران رکوع  ۱۶۱۔ ۵۸  آیت

إِنَّ مَثَلَ عِيسَىٰ عِندَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ عیسیٰ کا حال خدا کے نزدیک آدم کا سا ہے کہ اس نے (پہلے) مٹی سے ان کا قالب بنایا پھر فرمایا کہ (انسان) ہو جا تو وہ (انسان) ہو گئے ۔

اور سورہ حج رکوع ۱آیت ۴

يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَإِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِن مُّضْغَةٍ مُّخَلَّقَةٍ وَغَيْرِ مُخَلَّقَةٍ لِّنُبَيِّنَ لَكُمْ  وَنُقِرُّ فِي الْأَرْحَامِ مَا نَشَاءُ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوا أَشُدَّكُمْ  وَمِنكُم مَّن يُتَوَفَّىٰ وَمِنكُم مَّن يُرَدُّ إِلَىٰ أَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْلَا يَعْلَمَ مِن بَعْدِ عِلْمٍ شَيْئًا  وَتَرَى الْأَرْضَ هَامِدَةً فَإِذَا أَنزَلْنَا عَلَيْهَا الْمَاءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ وَأَنبَتَتْ مِن كُلِّ زَوْجٍ بَهِيجٍ

لوگو اگر تم کو مرنے کے بعد جی اُٹھنے میں کچھ شک ہو تو ہم نے تم کو (پہلی بار بھی تو) پیدا کیا تھا (یعنی ابتدا میں) مٹی سے پھر اس سے نطفہ بنا کر۔ پھر اس سے خون کا لوتھڑا بنا کر۔ پھر اس سے بوٹی بنا کر جس کی بناوٹ کامل بھی ہوتی ہے اور ناقص بھی تاکہ تم پر (اپنی خالقیت) ظاہر کردیں۔ اور ہم جس کو چاہتے ہیں ایک میعاد مقرر تک پیٹ میں ٹھہرائے رکھتے ہیں پھر تم کو بچہ بنا کر نکالتے ہیں۔ پھر تم جوانی کو پہنچتے ہو۔ اور بعض (قبل از پیری مرجاتے ہیں اور بعض شیخ فالی ہوجاتے اور بڑھاپے کی) نہایت خراب عمر کی طرف لوٹائے جاتے ہیں کہ بہت کچھ جاننے کے بعد بالکل بےعلم ہوجاتے ہیں۔ اور (اے دیکھنے والے) تو دیکھتا ہے (کہ ایک وقت میں) زمین خشک (پڑی ہوتی ہے) پھر جب ہم اس پر مینہ برساتے ہیں تو شاداب ہوجاتی اور ابھرنے لگتی ہے اور طرح طرح کی بارونق چیزیں اُگاتی ہے

اور سورہ مومنون رکوع ۱۔   ۱۲، ۱۴ آیت۔

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن سُلَالَةٍ مِّن طِينٍ ثُمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَةً فِي قَرَارٍ مَّكِينٍ ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ أَنشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ ۚ فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ

اور ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصے سے پیدا کیا ہے پھر اس کو ایک مضبوط (اور محفوظ) جگہ میں نطفہ بنا کر رکھا پھر نطفے کا لوتھڑا بنایا۔ پھر لوتھڑے کی بوٹی بنائی پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں پھر ہڈیوں پر گوشت (پوست) چڑھایا۔ پھر اس کو نئی صورت میں بنا دیا۔ تو خدا جو سب سے بہتر بنانے والا بڑا بابرکت ہے ۔

سورہ سجدہ رکوع۱۔ آیت ۶

الَّذِي أَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ خَلَقَهُ  وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنسَانِ مِن طِينٍ

جس نے ہر چیز کو بہت اچھی طرح بنایا (یعنی) اس کو پیدا کیا۔ اور انسان کی پیدائش کو مٹی سے شروع کیا

سورہ رحمن رکوع ۱۔ ۱۳ آیت

خَلَقَ الْإِنسَانَ مِن صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ

اسی نے انسان کو ٹھیکرے کی طرح کھنکھناتی مٹی سے بنایا ۔

سورہ قیامت رکوع۔ ۲۔ ۳۷، ۳۹

أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِّن مَّنِيٍّ يُمْنَىٰ ثُمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوَّىٰ فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنثَىٰ

کیا وہ منی کا جو رحم میں ڈالی جاتی ہے ایک قطرہ نہ تھا؟ پھر لوتھڑا ہوا پھر (خدا نے) اس کو بنایا پھر (اس کے اعضا کو) درست کیا پھر اس کی دو قسمیں بنائیں (ایک) مرد اور (ایک) عورت ۔

سورہ دھرَ رکوع ۱۔ آیت ۲

إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن نُّطْفَةٍ

ہم نے انسان کو نطفہٴ مخلوط سے پیدا کیا

سورہ عبس ، ۱۹ ۔ آیت

مِنْ أَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهُ مِن نُّطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ

اُسے (خدا نے) کس چیز سے بنایا؟ نطفے سے بنایا پھر اس کا اندازہ مقرر کیا

سورہجررکوع ۲آیت ۱۸

وَالْأَرْضَ مَدَدْنَاهَا وَأَلْقَيْنَا فِيهَا رَوَاسِيَ وَأَنبَتْنَا فِيهَا مِن كُلِّ شَيْءٍ مَّوْزُونٍ

اور زمین کو بھی ہم ہی نے پھیلایا اور اس پر پہاڑ (بنا کر) رکھ دیئے اور اس میں ہر ایک سنجیدہ چیز اُگائی

سورہ سجدہ رکوع ۳۔

اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ

خدا ہی تو ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو اور جو چیزیں ان دونوں میں ہیں سب کو چھ دن میں پیدا کیا

سورہ بقر رکوع ۴۔ ۳۰ آیت

وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً  قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَن يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ  قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ

اور (وہ وقت یاد کرنے کے قابل ہے) جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں (اپنا) نائب بنانے والا ہوں۔ انہوں نے کہا۔ کیا تُو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت وخون کرتا پھرے اور ہم تیری تعریف کے ساتھ تسبیح وتقدیس کرتے رہتے ہیں۔ (خدا نے) فرمایا میں وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے ۔

حدیث

میں لکھا ہے کہ فرشتوں نے کل آدم کو گوندھا  اور خشک کیا کہ مثل کھیر مل کے ہوگئی تھی اور ہو ا چلنے سے بچتی تھی اُس سے آدم کو بنایا اور پھر لکھا ہے کہ تمام روئے زمین کی شور و شیرین مٹی سے آدم بنایا گیا  اور  چالیس برس  آدم کے گارےمین ہوا و حرص خمیر کی گئی  اور حیات القلوب جلد اوّل میں لکھا ہے کہ امام زاو عبداﷲبن سلام نے محمد سےپو چھا کہ آدم تمام خاکوں سے بنایا گیا  یا ایک خاک سے جواب  ملا کہ اگر آدم ایک ہے ہی خاک سے بنایا جاتا تو تمام آدمی ایک صورت کے ہوتے اور شناخت نہ ہوتی عبداﷲ نے کہا کہ اس کی کوئی مثال ہے فرمایا کہ مثال آدم کی خاک ہے  کیونکہ خاک میں سفید و سرخ  و نیمرنگ و خود رنگ ہیں اور کسی جگہ کی خاک سخت اور کہیں کی نرم ہوتی ہے اسی وجہ سے آدمی سب رنگ کے اور سخت و نرم مزاج ہوتے ہیں۔ اور حوّا آدم  کی ہڈی سےبنائی گئی اور امام جعفر سے منقول ہے کہ یہ بات غلط ہے کہ حوا آدم کی ہڈّی سے بنائی گئی بلکہ آدم بنانے کے بعد جو مٹی بچی تھی اُس سے  حّوا بنائی گئی اور حدیث سے واضح ہے کہ گل آدم جب بہشت  میں پڑی تھی اُس وقت شیطان مٹی کو لات مار کر کہتا تھا کہ اگر اﷲ  مجھسے اس کو سجدہ کروائیگا تو ہر گز ہر گز نہیں کرونگا۔ اور امیر المومنین یعنے علی سے منقول ہے کہ جس وقت اﷲ نے نور محمد سے ایک گوہر بنایا ۱ پھر اُس کے دو ٹکڑے کئے ایک ٹکڑا آب شرین ہو گیا اور دوسرا عرش بن گیا اور عرش کو پالی پر قایم  کیا اور پانی کے دہوئیں سے آسمان  بنایا  اور پانی کی جھاگوں سے رنین بنائی اور پھر ایک فرشتہپیدا کیا اُس نے زمین کو اُٹھا لیا اور پھر اﷲ نے ایک  بڑا پتھر  بنایا اُس پر فرشتہ کھڑا ہوا  اور پھر گاؤ زمین کو بنایا اور سنگ گران کواُس کی پشت پر قایم کیا اور پھر ایک بڑی مچھلی بنائی اُس کی پشت  پر گاؤ زمین کو کھڑا کیا۔

مضامین متزکرہ صدر سے یہامر ناظرین کو کامل طور سے واضح  ہو گا کہ قرآن توریت کا  مخالف ہے مگر بھائی  محمد ی یقیناً اس کا یہی ضواب دیں گے کہ وجہ اختلاف یہ ہے کہ توریت تحریف کر دی گئی ہے۔ مگر پھر قرآن  توریت  کو تصدیق کرتا ہے دیکھو  سورہ یونسؔ  رکوع ۱۰۔ ۹۵ ۔ آیت میں وہی قرآن کہتا ہے  کہ جو توریت  کو نہیں مانتا وہ اﷲ  کی باتیں جُٹھلاتا ہے اور توریت محمد کے وقت میں معتبر اور سند ٹھہرائی گئی اور پھر  سورہ  ہودؔ  رکوع ۲۔ میں لکھا  ہے کہ توریت  کے منکر دوزخی ہو ح گے اور پھر سورہ عمران رکوع ۱۔ میں لکھا ہے کہ توریت و انجیل کلام اﷲ ہیں اور پھر سورہ توبہ رکوع ۱۴ میں لکھا ہے کہ توریت  سّچی ہے اور پھر سورہ عمران  رکوع ۹۔ ۸۳ آیت کا یہ مضمون  ہے کہ کہہ اے محمد  کہ ہم ایمان لائے اﷲ پر اور جو اُترا ابراہیم پر و اسماعیل و اسحاق  و یعقوب  اور اُس کی اولاد پر اور جو   ملا موسیٰ و عیسیٰ کو اور سب نبیوں کو اپنے  رب سے اور ہم جدا  نہیں کرتے  اُن میں سے ایک کو فقط ۔ اب ناظرین و محمدصاحب غور فرمائیں کہ ایک موقعہ پر قرآن  توریت و انجیل کو تصدیق  کرتا ہے۔ اگر حساب دعوی  محّبان دین محمدی توریت و انجیل مرّف  ہو گئیں یا آنکہ منسوخ ہو گئیں تھیں تو پھر  قرآن  اُن کو کیوں تصدیق کرتا ہے اور پھر سنّت وغیرہ کیوں جایز ہے۔ پس واضح ہو کے زمانہ محمد تک توریت و انجیل  صحیح  اور درست تہیں۔ تو اب  محمدی بھائی  بتلائیں کہ کتب مقدسہ محرف ہوئیں آیا قبل از عہد محمدی یا آنکہ خاص زمانہ محمد صاحب میں اگر قبل از زمانہ محمد  یا آنکہ اُن کے دعوے نبوت کے وقت محّرف  ہو گئیں تھیں۔ تو پھرقرآن  کیوں تصدیق  کرتا ہے اور اگر بعد محمد تحریف  کی گئیں  تو کب اور کس نے ایسا کیا  اور کیا کیا مضامین  تبدیل ہوئے ؟    اور زمانہ محمد میں ہزار ہا نسخہ توریت و انجیل کے ملک بملک موجود تھے تو کب ممکن  ہے کہ تمام  کتب سماوی ایک مقام پر جمع ہوں اور تحریف کر دی جائیں کیا کتب  سماوی کعبہ کے بت خانہ میں تھیں جو تحریف کر دی گئیں اور جو کوئی بھی نسخہ صحیح نہیں رہا۔ اس بات کو سوائے  محباّن دین محمدی کے کوئی نادان سے نادان  شبہ بھی نہیں  کر سکتا  کہ کتب مقدسہ تحریف کر دی گئیں۔ علاوہ ازیں سورہ یوسف رکوع ۱۱۔ میں قرآن  دعویدار ہے کہ قرآن  پہلی کتابوں کے موافق  ہے جو کچھ بنائی ہوئی بات نہیں ہے فقط  قرآن   و توریت کی مطابقت کا حال تو ناظرین  پر واضح ہو گیا اور حیکہ قرآن  توریت کے خلاف ہے   تو بموجب  اس آیت کے کیوں قرآن بنایا ہوا نہیں ہے۔ اب نفس قرآن  میں عرض کیا جاتا ہے دیکھو قرآنی جو اوپر لکھی گئیں ہیں ایک دوسرے کے مخالف  ہیں یعنے کہیں یہ زکر  ہے کہ آدم کی جان لون کی آگ سے بنائی۔ اور کہیں لکھا ہے کہ آدم میں اﷲ نے اپنی ایک  پھونکی  اور پھر لکھا  ہے کہ  زمین  کو پھیلایا اور اُس پہاڑ  کی میخ ٹھونکی  دوسری جگہ یہ زکر ہے۔ کہ اﷲ نے آسمان و زمین اور جو کچھ اُس کے بیچ میں ہے چھ دن میں بنایا اور پھر لکھا ہے کہ  سات آسمان دو دن میں بنائے اور پھر  سورہ نساؔء رکوع ۱۱ میں لکھا ہے کہ کیا غور نہیں کرتے قرآن کو اگر یہ ہوتا سوائے اﷲ کے کسی اور کا تو پاتے اُس میں تفاوت کا حال واضح طور سے لکھا گیا ہے ۔ پس ظاہری ہے کہ کلام  اﷲنہیں بلکہ محمد کا بنایا  ہوا ہے اور ثبوت قرآن  کی بطلان کا یہ ہے جو روایات اور حدیث  اوپر لکھی گئیں ہیں وہ بھی قرآن  کے خلاف ہیں۔ دیکھو جس آدم  کو اﷲ اشرف  المخلوقات  پیدا کیا اور جس کے واسطے قرآن میں زکر  ہے کہ اﷲ نے  آدم کو فرشتوں سےسجدہ کروایااُس کی تمہاری اماموں اور راویوں نے کیسی مٹی خراب کی ہے کہ شیطان  اُس کے منہ میں گھس کے مقصد  کے راستے سے نکلا کرتا تھا اور اﷲ نے اُس کو تمام شورِ زمین کی خاک سے بنایا اور آفرینش سے قبل ہی اچھی اور برُی اُس کی سرشت میں قایمکر دی  ور مخفی نہ رہے کہ توریت و انجیل کو قرآن  کی شہادت اور تصدیق کی کچھ ضرورت نہین ہے کیونہ اگر قرآن  کلام اﷲ ہوتا تو ضرور تھا کہ اُس کی تصدیق  لازمی ہوتی جیسا کہ جملہ انبیائے بنی  اسرائیل   نے توریت  کو تصدیق کیا اور جملہ صحف  انبیا توریت کے موافق  ہیں چنانچہ برائے  نمونہ مختصراً عرض کیا  جاتا ہے دیکھو کتاب پیدایش کے ۱۵ باب کے ۱۲، ۱۳ آیت میں اﷲ نے ابراھیم کو خبر دی تھی کہ تیری  اولاد ایک ملک میں جواُن  کانہیں  ہے پردیسی  ہو گی اور وہاں کے لوگوں کی غلام بنے گی اور ساڑھے  ۴ سو برس وہ لوگ اُس کو تکلیف دیں گے۔ لیکن  میں اُس قوم کی جو کے وہ غلام بنیں گے عدالت کروں گا اور بعد اُس کے بڑی دولت  لے کے وہاں سے نکلیگی   چنانچہ یہ اولاد ابراھیم کی یعقوب اور یوسف تھیجو مصر میں غلام  بنی اور یہ خبر موسیٰ کی تھی کہ اُس نے بنی سرائیل  کو مصر کی غلامی  سے آزاد کیا اور پھر حضرت داؤد نے مسیح کے ظہور کی خبر دی ہے اور مسیح  نےاکثر مقام  پر توریت کو تصدیق کیا ہے چنانچہ انجیل  یوحنا کے ۵ باب کی ۳۱ آیت می مسیح یہود سے فرماتا ہے کہ  دیکھو  توریت   کو کیونکہ تم سمجھتے ہو کہ اُس مں تمہارے واسطے ہمیشہ کی زندگی ہے۔ وہ ہی میری گو گولی دیتی ہے اور پھراُسی باب ۴۶آیت میں مسیح یہودیوں سے فرماتا ہے کہ اگر تم موسیٰ  پر ایمان لاتے تو مجھپر  بھی ایمان لاتے کیونکہ اسنے میری  گواہی دی ہے فقط  پس اِس صورت میں محمدیوں  کا دعویٰ کے  تحریف ایسا ہے جیسے کہ لولاک  لما خلقت الافلاک۔  کے معنی یعنے اس عبارت میں کہیں بھی محمد کا زکر نہیں پایا جاتا ہے مگر محمدی  صاحب  تو کھینچ کھانچ کے اِس کے معنے یہ کہتےہیں کہ اگر   نہ  پیدا کیاکرنا زمین و آسمان کو اے محباّن دین محمدیدیکھو تم کو ابھی تک قرآن کی بھی صحت نہیں ہوئی چنانچہ سورہ ناسوزلزلہ کی پیشانی  ایسی لکھی کہ مکہ یا مدینہ میں نازل  ہوئی پس یہ صحت  نہیںہے کہ مکہ میں نازل  ہوئی یا خاص  مدینہ میں تو پھر تم یہ کیونکر کہ سکتے ہو کہ سب قرآن  صحیح اور کلام اﷲ ہے اور پھر جس طرح پر قرآن  فراہم  ہوا ہے تم کو خوب معلوم ہے میں نظر طوالت قلم انداز کرتا ہوں  اور بعد اجتماع  قرآن جو قرأت میں اختلافات پیدا ہوئے اور اس وقت بھی موجود ہیں اُس کو تحریف  کیوں نہیں سمجھتے ہو اور پھر حدیث و روایات  کے اختلاف جو قرآن  کے خلاف بیان ہوئے ہیں اُن کی صحت کرو دیکھو آدم کے بہشت سے نکلنے کا حال حدیث و روایات میں بطور کہانی کے لکھا ہے کہ اول شیطان نے مور سے کہا کہ تو بہشت میں جا کے آدم کے سامنے ناچ اور اُس کو محو تماشا کرتاکہ میں آہستہ آہستہ بہشت کی دیوار  پر پہنچوں  اور پھر سانپ سے کہا کہ اپنے منہ میں بٹھا کے مجھکو بہشت  کی دیوار پر پہنچا چنانچہ اسی طرح سے شیطان  بہشت کی دیوار پر پہنچا اور وہاں سے آدم و حوّا کو بہکایا اور درخت ممنوعہ کے کھانے کی ترغیب دی حّوا کو  اﷲ نے جدہ میں اور شیطان کو جنگل مسان قریب بصرہ  اور سانپ اصفہان میں اور آدم ہندوستان میں اور مور کسی اور جگہ نکالے اے بھائیوں یہ داستان اور قصہ تمہارے  راویاں مختلف بیان کے سوائے محبان دین محمدی اہل کتاب  کیونکر صحیح خیال کر سکتے ہیں۔ 

تالمود اور قرآن

ہم نے لکھا تھا کہ پیدایش کے بارےمیں محمد صاحب نے بہت کچھ یہودیوں کی حدیث  سے لیا ہے۔ نوح  اور طوفان کے بارہ میں بھی وہی بات سچ ہے۔ اگرچہ بڑے بڑے واقعات مثلاًنوح راستی کا منّاد تھا۔  اُسنے  ایک کشتی بنائی۔ وہ اور اُسکا خاندان بچ گیا توریت سے لئے معلوم ہوتے ہوں مگر نوح کا عام  بیان جو قرآن میں درج ہے یہودی اُستادوں  کی حدیثوں  میں دئے ہوئے بیان سے زیادہ مشابہ ہے بہ نسبت  اُس بیان کے جو بائبل  میں درجہے۔ مثلاً نوح کی گفتگو لوگوں کے ساتھ اور وہ الفاظ جو لوگوں  نے تمسخر  کے طور پر کہے سورہ ۱۱: ۲۷۔ ۴۲ وہی ہیں جو تالمود میں ہیں سن ہیڈرن ۱۰۸۔

قرآن  کا یہ بیان  کہ لوگوں کو اُبلے ہوئے پانی سے سزا دیگئی سورہ ۱۱: ۴۲ اور سورہ ۲۳: ۲۷ قدیم یہودیوں کی تحریروں سے لیا گیا ہے  روش ہوشعنا ۱۶: ۲ اور سن ہیڈرن ۱۰ؔ۸۔

ایسی باتیں بہت غور  طالب ہیں اور اُن پر چاہے کتناہپی زور دیا جاوے تو بھی زیادہ نہیں ہے۔ ان سے بخوبی چابت ہے کہ قرآن کا دعویٰ کلام آلہی ہونیکا  باکل  بے بنیاد ہے۔  یہ صرف ایک مجمع ہے اَن بیانات  کا جو بائبل ؔ تالمودؔ سابینؔ تضیفوں اور جھوٹی انجیلوں سے جمعکیا گیا ہے۔ یہ بیانات ایسی صورت میں پیش کئے گئےہیں جن سے کہ پولیٹکل  اور دینی اصلاح  کرنیوالے وقتاً فوقتاً اپنا کام نکال سکیں ۔ کیونکہ ہم محمد کو ایسا ہی سمجھتے ہیں۔ قرآن کا الہامی کتاب ہونیکا دعویٰ باستثنا ء اُن الہامی الفاظ بائبل کے جو سہ بعینہ ٹھیک ٹھیک  نقل کرتا ہے بلحاظ اسبات کے کہ قرآن  کے خاص مضامین اُن  پچھلی  کتابوں سےلئے ہوئے ہیں۔ ایک لحظ بھر کے واسطے بھی تسلیم نہین کیا جا سکتا۔ 

ہم حدیثوں  کی احمقانہ کہانیوں پر جو آجکل  ہمارے   اخبار میں نقل ہوتی ہیں توجہ دلاتے ہیں۔ ہمکو ہنسی آتی ہے اور ہم ضرور ہنستے اگر ہمکو نہ یاد ہوتا کہ اگرچہ  تعلیم یافتہ محمدیوں کا حدیث پر بھروسہ کم ہے اور اُس کی تمام باتیں ماننے پر تیار نہیں ہوتے تو بھی عوام الناس کے نزدیک حدیثوں کے بیانات قریب قریب  الہام ہی  سمجھے جاتے ہیں اور اُن کا پورا پورا  بھروسہ اِن احمقانہ کہانیوں پر  ہے۔ یہ دیکھکر ہماری ہنسی گورے رحم  کے ساتھ بدل جاتی ہے۔  اور ہم چلاّ  اُٹھتے ہیں کہ جھوٹے نبی کی اُمت پر سے دین باطل کا  تاریک  بادل  کیسے دور ہوگا  تاکہ وہ راستی کے آفتاب  کو دیکھ  سکیں بہت لوگون پر سے بادل مٹتا جاتا ہے اور شگافوں میں سے روشنی  کی  جھلک پڑنے لگی ہے خدا کرے کہ دین باطل کے بادل جلد دور ہو جاویں۔

فصل دوم(۲) ۔ درزکر طُوفاَن نوح

توریت

توریت میں طوفان نوح کا یہ زکر ہے کہ نوح کے تین بیٹے  حامؔ۔ سامؔ۔ یافتؔ اور اُن کی بیویاں اور نوح  اور نوح  کی بیوی اور ہر قسم کے جانوروں کا ایک ایک جوڑا کشتی میں سوارہوئے اور بفضلہ طوفان سے محفوظ رہے اور بعد طوفان حام سے کنعان پیدا ہوا اور کنعان نوح کا پوتا تھا۔ 

قرآن

زکر طوفان نوح جو قرآن  میں ہے۔ سورہ مومنونؔ رکوع ۲۔  پھر ہمنے حکم بھیجا نوح کو کہ ایک کشتی ہمارے آنکھوں کے سامنے بنا اور جب اُبلے تنور تو ڈال لے اس میں  ہر قسم یعنے ہر چیز کا جوڑا  دوہرا  اور اپنے گھرکے لوگ اور سورہ ہود۔ رکوع ۴۔ اور جب جوش مارا تنور نے کہا ہم نے نوح سے لادلے  اُس میں ہر قسم کا جوڑا دو ہرا اور اپنے گھر کے لوگ اور پھر  پکارا نوح نے اپنےبیٹے کو  وہ ہو رہا تھا ڈوبنے والوں میں پھر وہ  نہ مانا اور ڈوب  گیا  سورہ انبیا رکوع ۶۔ نوح کی سب قوم طوفان میں ڈوب گئی۔

حدیث

حیات القلوب  جلد اوّل  میں بسند حسن حضرت صادق سے منقول  ہے کہ نوح نے ۲۲ بر س میں  کشتی  بنائی اور دو فرشتے کشتی بنانے میں نوح کی مدد کرتے تھے اور کشتی  میں نوح  کے ساتھ ۸۰ آدمی اور بھی سوار ہوئے تھے اور خدا نے نوح کو وہی بھیجی تھی کہ اپنی عورت  اور بیٹے ہو کشتی میں سوار نہ کرنا اور امام زادہ عبدالعظیم  لکھتا ہے کہ نوح  کی عورت کشتی میں سوار تھی اور محمد باقر لکھتا ہے یہ بات غلط ہے کہ نوح  کا بیٹا طوفان میں ڈوب گیا اور قصص الانبیا  میں لکھا  ہے کہ جو بیٹا نوح کا طوفان میں ڈوبا اُس کا نام کنعان تھا اور گدھے کی دم پکڑ کے شیطان بھی کشتی میں سوار ہو گیا تھا نوح  نے شیطان کو کشتی میں سوار ہونے  سے منع کیا تھا مگر شیطان  نہین مانا اور کشتی میں جا بیٹھا تھا اور ۸ یا ۱۰ یا ۲۰ آدمی اور بھی نوح کے ساتھ کشتی میں سوار ہوئے تھے اور آدم  کی نعش کا صندوق قبر سے نکال کے نوح نے  کشتی میں رکھ لیا تھا اور دو گوہر نورانی آسمانی  سے کشتی میں آئے تھے وہ چاند و سورج کا کام دئے تھے۔

اور جبکہ کشتی میں غلاظت بہت ہو گئی اور  بدبو آنے لگی تو نوح کو وحی آئی کہ ہاتھی کی دم پکڑچنانچہ نوح نے  ہاتھی کی دم پکڑی تو اُس میں سے ایک ۲ سور اور سورنی نکلے اور تمام غلاظت کشتی کی کھا گئے  اور کشتی میں یہ حکم تھا  کہ کوئی  جانور  اپنے مادہ سے جغت  نہو  مگر چوہا نہ  مانا اور اپنی مادہ سے جغت ہو گیا تو بہت سے چوہے پیدا ہو گئے اور کشتی میں سوراخ کرنے لگے تو خدا نے نوح سے کہا کہ شیر کے سر پر ہاتھ رکھ  چنانچہ نوح نے شیر کے ماتھے پر ہاتھ رکھا تو فوراً بلّیاں یعنے گرُبہ پیدا ہوگئیں اور سب چوہوں کو کھا  گئیں۔

اور پھر قصص الانبیا میں لکھا ہے کہ عوج آدم ۳ کا نواسہ تھا عوج نے نوح سے کہا کہ مجھکو بھی کشتی میں سوار کر لے مگر نوح نے انکار کیا اور تمام دنیا طوفان میں غرق ہو گئی  اور مر گئی مگر عوج نہ مرا  اور معالم میں لکھا ہے کہ طوفان کا پانی پہاڑوں سے چالیس   گز بلند  ہو گیا تھا مگر عوج ایسا لمبا تھا کہ طوفان کا پانی اُس کے زانوں تک نہین پہنچا تھا اُس قد ۳۳۳۳ گز سے زیادہ تھا ور بادل اُس کی کمر تک  آتے تھے اور سورج میں مچھلی کباب کر کے کھاتا اور تہ زمین سے مچھلی  ہاتھ سے پکڑ لیتا تھا صرف یہ ہی طوفان سے بچا تھا  اور موسیٰ نے اُس کو مارا تھا  اور اُس کی والدہ ایسی موٹی تھی کہ ایک جریب زمین میں بیٹھا کرتی تھی اور اُس کے ہاتھ کی انگلی تین تین گز کی تھی اور دو دو ناخن  مثل و نراتی کے تھے اور جس وقت اُس کو موسیٰ نے مارا تو اُس کی ۳۶۰۰ برس کی تھی۔

اب نہایت  ادب سے محباّن دین محمدی کی خدمت میں عرض  کی جاتی ہے دیکھو توریت  سے واضح ہے کہ نوح اور اُس کی بیوی اور حامؔ سامؔ یافتؔ تین بیٹے اور اُن کی بیویاں کشتی میں سوار ہوئیں اور بفضلہ محفوظ رہیں اور قرآن لکھتا ہے کہ نوح کا ایک بیٹا طوفان میں غارت ہو گیا اِس ہی وجہ سے تم کہتے ہو کہ توریت تحریف کر دی گئی مگر تم کو قسم ہے سورج اور چاند اور چڑھتے  دن اور کالی رات کی اور دوڑتے گھوڑوں کی یہ وہ قسمیں ہیں سخت جو تمہارے قرآن میں نے اللہ نے کھائی ہیں تم سچ  کہو کہ واقعی نوح کا ایک بیٹا طوفان میں غرق ہوگیا تھا ا س کا نام کنعان تھا مگر یہ بھی یاد رہے کہ اوپر محمد باقر نے لکھا ہے کہ یہ بات غلط ہے کہ نوح کا بیٹا طوفان میں غرق ہوگیا تھا دیکھو محمد باقر امام زادہ اور محمدی مذہب ہے وہ ہی قرآن کو غلط بتلاتا ہے اور پھر قرآن کہتا ہے کہ نوح کی بیوی کشتی  میں سوار ہوئی تھی مگر حضرت صادق کہتے ہیں کہ اللہ نے نوح کو منع کردیا تھا کہ وہ اپنی عورت کو کشتی میں سوار نہ کرے یہ حضرت بھی قرآن کو  جھوٹا بتلاتے ہیں ۔ ایک امام کہتاہے کہ نوح کے ساتھ دو آدمی کشتی میں سوار تھے ۔ دوسرا لکھتا ہے نہیں آٹھ یا دس یا بیس آدمی تھے اور تیسرا کہتاہے کہ سوائے نوح کے اور کوئی طوفا ن سے جانبر نہیں ہوا اور صدہا مبالغہ لکھتے ہیں اب تم خود ہی انصاف کرو کہ قرآن سچا ہے یا یہ امام زآدہ اور فرض بھی کیا جائے کہ اگر نوح  کا کوئی بیٹا طوفان میں ڈوب جاتا تو یہود کو کیا ضروت تھی جو اسبات کو پوشیدہ کرتے توریت میں صاف لکھا ہے ک کنعان نوح کا پوتا تھا فقط اور ملک کنعان اُس کے نام سے بعد طوفان آباد کیا گیا اور کنعان کا نسب نامہ اس وقت توریت میں موجود ہے فقط یہ امیر تواظہر من الشمس  ہے کہ قرآن توریت کے خلاف ہے اور روایات وحدیث قرآن کے مخالف ہیں اور ایک اور مقام پر قرآن توریت کے خلاف بیان کرتاہے اور دوسرے موقعہ پر وہی قرآن توریت کو تصدیق کرتا ہے جیسا سورہ نساء رکوع سات میں لکھا ہے کہ اے کتاب والو ایمان لاؤ اُس پر جو ہم نے نازل کیا سچ بتاتا تمہارے پاس  ہے۔ اور پھر سورہ احقاف  رکوع دس میں کہتا ہے کہ اس سے پہلے کتاب موسیٰ کی  راہ بتانے والی اوریہ کتاب اُس کو سچا کرتی عربی زبان میں اور پھر سورہ مائدہ رکوع سات میں ہم نے اُتاری توریت اُس میں روشنی ہے اور ہدایت اور پیچھے بھیجا عیسیٰ مریم کے بیٹے کو اوراُس کو دی ہم نے انجیل جس میں ہدایت ہے اور روشنی اوراُتاری ہم نے کتاب تحقیق سچا کرتی سب اگلی کتابوں کو اور سب میں شامل ہے اور پھر اسی سورہ رکوع چھ میں " اے محمد کس طرح تجھ کو منصف کریں گے اُن کے پاس توریت ہے جس میں حکم ہے اللہ کا فقط ۔ پس واضح ہے کہ اہل کتاب محمد کو پیغمبر نہیں مانیں گے کیونکہ اُن کے پاس کلام اللہ یعنی  توریت موجود ہے فقط ۔ پھر دیکھو سورہ عمران رکوع نو کی آیت کا یہ مضمون ہے اورجب لیا اللہ نے اقرار نبیوں کا کہ جو کچھ میں نے تم کو دیا کتاب اور حکمت اور پھر آئے تمہارے پاس کوئی رسول کہ سچ بتائیں تمہارے پاس والے کو توا ُس پر ایمان لاؤ گے اوراُس کی مدد کروگے فرمایا کہ تم نے اقرار کیا اور اس شرط پر لیا میرا ذمہ۔ بولے ہم نے اقرار کیا  فرمایا توشاہد رہیو اور میں بھی تمہارے ساتھ شاہد ہوں فقط دیکھ اور پھر لکھا ہے کہ اے محمد تجھ کو اہل کتاب کیونکر منصف کریں گے اُن کے پاس توریت ہے اور اس آیت سے معلوم  ہوتاہے کہ نبیوں سے اقرار ہوچکا تھا۔ اے مسلمانوں تم ہی انصاف کروگے قرآن کی کونسی آیت صحیح ہے اگر کوئی شخص  تم سے ایک مرتبہ کوئی بات کہے اورپھر اُس کے خلاف کچھ اور کہے تو تم اُس کو قطعی دروغ گو کہتے ہو اور صاف طرح پر کہدیتے ہو کہ تمہارے قول وفعل کا اعتبار نہیں ہے اور یہ ہی حالت قرآن کی ہے کہ ایک آیت دوسری کے خلاف ہے توپھر قرآن کیوں جھوٹا نہیں ہے اوراُس کو تم کلام اللہ سمجھتے ہو تو اللہ پر الزام وارد ہوتا ہے کہ وہ مثل انسانوں کی کبھی کچھ اور کبھی کچھ کہتا ہے۔ پس قرآن ہی سے واضح ہے کہ کلام اللہ نہیں بلکہ کلام محمد ہے اور دعویٰ نبوت بھی غلط اور بموجب  سورہ انعام رکوع گیارہ اور آیت 94 آیت کے جس کا یہ مضمون ہے کہ اُس سے ظالم کون جو باندھے اللہ پر جھوٹ یا کہے مجھ کو وحی آئی اور اس کو وحی کچھ نہیں آئی اور جو کہے میں اتارتاہوں برابر اس کے جو اللہ نے اتارا ہے فقط یہ مضمون خاص ذات محمد سے تعلق رکھتا ہے کہ رات کو ایک مضمون  اپنی طبعیت سے گھڑا اور  صبح ظاہر کیا مجھ کو وحی آئی اور اللہ پر جھوٹ باندھا۔ پیارے مسلمانوں تم خود ہی انصاف کرو کہ جملہ صحف انبیاء  بنی اسرائیل  موافق ومتفق ہیں مگر ایک قرآن اُن سب کے خلاف ہے دوسری روایات وحدیث  بھی قرآن کے خلاف ہے توپھر وہ کونسی  صورت ہے جوقرآن کو کلام  اللہ  کہتے ہو کیا صرف اُس اُمید پر کہ تم کو بہشت میں شیرو شہد کی نہریں اور حوریں ملیں گی۔ اے پیارو خوب یاد رکھو کہ بہشت کچھ سرائے یا ہوٹل نہیں ہے جہاں ایسے ناپاک خیالات آسکیں۔

تالمود اور قرآن
اِبرَاھیمِ کی متعلق

محمد نے ابراہیم کو نبیوں میں سے سب سے افضل سمجھا۔  اور قرآن  میں طول طویل حال لکھا۔  جیسا کہ سب جانتے ہیں چند باتیں  جو بائبل  میں ملتی ہیں قُرآن میں بیان کیگئی ہیں مثلاً فرشتوں کا ابراہیم  کے پاس اِنسان کی شکل میں آنا بیٹے کی قربانی اور سدوم کے نیست ہونے کا حکم دینا مگر یہاں ہمکو خصوصاً اُن باتوں  سے مطلب ہے جو تالمود سے لیگئی ہیں۔ باستثنا اِس بیان کے جو سورة البقر ۱۱۸۔ ۱۲۶ تک درج ہے۔  جہاں کہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ابراہیم اور اسمعیٰل نے کعبہ کو بتایا اور یہ ایک ایسا بیان ہے کہ جس کی تاریخی بنیاد بالکل نہیں ہے اور نیز اس بیان کے جو سورہ عمران  میں ۵۸ْ ۶ تک لکھا ہے کہ ابراہیم نہ یہودی تھا نہ مسیحی قریب قریب  ہر ایک بات یہودی حدیثوں سے نقل کی ہے ۴ ۔  مثلاً (۱) وہ طریقہ جس سے  واحد خدا کا علم حاصل کیا سورہ انعام ۷۴۔ ۸۲ (۲) اپنے  باپ اور اپنے اہل وطن  کو اپنے دین پر لانے کی کوشش سورہ مریم  ۴۲۔ ۵۱ اور سورہ انبیا ۵۲۔ ۵۸ ( ۳) اِس کا بتوں کو توڑ ڈالنا۔ سورہ انبیا ۳۹۔ ۶۶ ( ۴) لوگوں کا غصّہ ہونا  اور اُس کو جلانے  کی کوشش کرنا سورہ انبیا ۶۷۔ ۶۸ (۵) اُس کا  معجزہ  کے طور پر رہائی پانا سورہ انبیا ۶۹۔ ۷۰۔

اِن تمام مسبوق  الزکر باتوں کی اصل  تفسیر کتاب  پیدائش ،وسو،  مڈراش  راباّہ پارہ ۱۷ میں ملِتی  ہے۔ ہم نے اِن باتونکا انگریزی ترجمہ دیکھا ہے اور حقیقتاً  قرآن بالکل یہودیوں کے بیانات کو نقل کرنا ہے۔ ابراہیم کے متعلق محمد نے تاریخ کو بہت غلط لکھا اِس کی کئی مثالیں ہیں ( ۱ ) سورہ ہود ۷۱ میں ہے کہ سرہ پیشتر اس کے کہ فرشتوں نے اصحاق کے پیدا ہونے کی  خبر  دی  ہنسی۔ کیونکہ اُس کا ہنسنا  اِسی خبر پانے  کا نتیجہ تھا کیونکہ  لفظ اصحاق کے معنے ہنسنا ہے۔  ( ۲ ) سورہ صفات ۱۰۱ میں لکھا ہے کہ اصحاق کے پیدا ہونے سے پہلے ابراہیم  کو  ایک بیٹے کی قربانی کا حکم  ہوا تھا۔ مگر یہ تواریخ کے بر خلاف ہے کیونکہ فقط اصحاق  کے بارہ میں حکم  ہوا۔ اِس کادوسرا بیان بیشک ہو سکتا ہے۔  لیکن دونوں طرح سے قرُآن  کا بیان  دست نہیں رہتا۔ ہم نے اوپر تسلیم کیا ہے کہ بیٹے کی مراد اسمعیٰل  سے ہے  اور اگر اسمعیٰل  سے نہین ہے تو قرآن کا بیان الٹا ہے کیونکہ اِس کے مطابق جب یہ حکم ہوا تھا تو اُسوقت  اصحاق پیدا بھی  نہیں ہوا تھا لیکن وہاں  کا لفظ  یا بنیاہ ہے جس میں  تصغیر پائی جاتی ہے اور جس کے معنے چھوٹا بیتا ہیں  اور چھوٹا بیٹا اصحاق تھا اور اس طرحسے  ثابت ہوتا ہے کہ اسمعیٰل  کو قربان کرنے کا حکم  بھی نہیں ہوا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض محمدی علما کہتے ہیں  کہاسمعیٰل کے حق میں یہ  حکم ہوا اور بعض کہتے ہیں کہ نہیں ہوا مگر اصحاق کے حق میں خیراتنا معلوم  ہے کہ یہاں جھوٹی تاریخ یا اُلٹا بیان ہے۔  

فصل سوم ۔ در زکر ابراھیم

توریت

توریت میں ابراہیم کازکر اِسطرح  سے لکھا ہے کہ ابراہیم تارح کا بیٹا  تھا  اور سرہ ابراہیم  کی بیوی جبکہ ایک عرصہ  تک سرہ کے اولاد نہیں ہوئی اُسنے  اپنی لونڈی  ہاجرہ ابراہیم کو دی اُس سے اسمعیٰل پیدا ہوا اور پھر بالہام ربانی سرہ  سے اصحاق  پیدا ہوا اور وعدہ کا فرزند ہوا اور قربانگاہ پر چھڑھایا گیا اور اسمعیٰل  کی نسبت سرہ ابراہیم سے کہا کہ لوندی ہاجرہ اور اُسکے  بیٹے  کو نکالدے کیونکہ یہ لونڈیکا بیٹا میرے بیٹے اصحاق کےساتھ وارث  نہ ہوگا ۔ سرہ کی یہ بات ابراہیم کو ناگوار گزری تو خداوند  نے ابراہیم  سے کہا کہ سرہ ٹھیک کہتی ہے کیونکہ تیری نسل اصحاق  سے ہوگی۔ چنانچہ ابراہیم نے ہاجرہ اوراسمعیٰل  کو نکالدیا اور ہاجرہ نے بیرسبع کے جنگل میں جا کر گریہ  زاری کی تو فرشتہ نے ہاجرہ سے کہاکہ دلگیر  نہ ہو اِس لڑکے  کو   بڑی قوم  بناؤنگا اور اُس کے  ہاتھ  سب آدمیوں  کے خلاف  ہونگے اور یہ و حسنی ہوگا۔ چنانچہ اسماعیل  بیابان میں رہا اور تیرا نداز بنا اور ہاجرہ نےایک مصری عورت  اسماعیل کے واسطے لی اور اُس سے بارہ سردار  پیدا ہوئے  جنکے نام توریت میں لکھے ہیں۔ 

  قرآن

سورہ انعام رکوع ۹۔ ۷۵ آیت  اور جب کہا ابراہیم نے اپنے باپ  آزر  سے تو  پکڑتا ہے بتوں کو خدا۔ سورہ بقر رکوع ۱۵ آیت ۱۲۵۔ جب ٹھہرایا ہم نے  یہ گھر  کعبہ اجتماع کی جگہ لوگونکی اور پناہ  اورکھڑا   رکھو جہان کھڑا ہوا ابراہیم نماز کی جگہ وغیرہ اور پھر سورہ بقر آیت  ۱۲۷۔ اور جب اُٹھانے لگا ابراہیم بنیاد اُس گھر کی اور اسماعیل وغیرہ اور پھر سورہ بقر آیت ۱۳۰۔ اور کون نہ پسند کرے دین ابراہیم کا مگر جو بے وقوف  ہے اپنے جی سے فقط  اور پھر سورہ بقر رکوع ۱۷ آیت ۱۴۲۔ اب کہینگے  بےوقوف  لوگ کا ہے کو پھر گئے مسلمان اپنے قبلہ سے جسپر تھے اور پھر سورہ بقر آیت ۱۴۴۔ اور وہ قبلہ جو ہمنے ٹھہرایا جس پر تو تھا نہیں فقط اور پھر سورہ بقر آیت  ۱۴۵۔ اور ہم دیکھتے  ہیں پھر پھر  جاتا تیرا مُنہ  آسمان  میں سو البتہ  پھر ینگے جس  قبلہ  کیطرف   توراضی  ہے اور پھر سورہ بقر آیت ۱۴۶ اور اگر تو لاوے کتاب والوں پاس ساری نشانیاں نہ چلینگے تیرے قبلہ پر اور نا تو مانے اُنکا قبلہ اور  نا  اُن میں کوئی مانتا ہے دوسرے کا قبلہ اور پھر سورہ بقر آیت ۱۴۷ اور جنکو ہم نے دی ہے کتاب پہنچانتے ہیں یہ بات جیسا پہچانتے ہیں اپنے بتوں کو فقط  اور پھر سورہ صفات رکوع ۳ میں ابراہیم نے خواب دیکھا کہ اسماعیل  کو قربانی کرتا ہوں چنانچہ اسماعیل کو قربانی  کیا اور سورہ  انبیا رکوع  ۵ میں ابراہیم  نے اپنے باپ کے بتوں کو توڑ ڈالا اور اس قصور  میں ابراہیم کو آگ  میں ڈالا  اور وہ آگ برف ہو گئی وغیرہ فقط اور سورہ توبہ رکوع ۵ میں آزر بت پرست کو یہودی  اﷲ کا بیٹا کہتے ہیں۔

حدیث

تفسیر مدارک اور معراج و کنز سے واضح ہے کہ بیت المعمور ایک مسجد زمرد دیا قوت کی  بی ہوئی آسمان چہارم پر ہے اور وہکعبہ کے مقابل ہے اگر کوئی چیز  اس پر سے گرے تو کعبہ کی چھت پر آتی  اور طوفان موح کے وقت  سے پیشتر یہ مسجد زمین کعبہ  پر تھی طوفان کے وقت آسمان  چہارم پر چلی گئی اور بیت المقدس  ملک  شام میں ایک مسجد ہے اُسکی بُنیاد   داؤد نے ڈالی اور سلیمان نے اُسکوتیار کیا  اوت یہ اکثر  انبیا کا قبلہ تھا  اور حیات  القلوب  میں امام محمد باقر سے منقول ہے کہ بیت المعمور  اﷲ نے آسمان  چہارم  پر فرشتوں کی توبہ کے واسطے بنائی اور کعبہ اﷲ نے اہل زمین کی توبہ کیواسطے  بنایا اور ثعلمی سے روایت ہے کہ سلیمان  ایک مرتبہ کعبہ کیطرف  گئے تو دیکھا کہ اُس میں بہت سے بُت رکھے ہیں تو کعبہ سلیمان  کے سامنے  بہت رویا۔ سلیمان نے دریافت کیا کہ کیوں روتا ہے؟ کعبہ نےکہا کہ اِسیقدر  انبیا گزرے  مگر مجھ میں کسی نے نماز نہیں پڑھی۔ اور کتاب بحار الانوار سے واضح ہے کہ ابراہیم کے باپ نام تارخ تھا اور غلط  بیان کیا گیا ہے اور حیات القلوب میں حضرت صادق  سے منقول ہے کہ اصحاق کو  قربانی کیا تھا اور دوُسری  حدیث سے بگئ واضح ہے کہ اصحاق قربان  ہوا تھا۔ فقط

اب ہم ابراہیم کی پیدایش کا زکر سنو ۔ حسین امام جعفر سے منقول ہے کہ آزر نے نمرود بادشاہ سے کہا کہ ایک لڑکا پیدا ہوگا وہ تیرا دُشمن  ہو گا۔ اسوجہ سے نمرود  نے حکم دیا  کہ کوئی مرد اپنی عورت سے ہمبستر نہ ہو  مگر آزر اُسی روز اپنی  بیوی سے ہمبستر ہوا اور اُسکے ابراہیم پیٹ میں آگیا ۔ پھر آزر کی عورت نے ابراہیم  کو ایک غار میں جا کے جنا اور کپڑے میں لپیٹ کے غار میں بٹھلایا اور ۱۳ برس  ابراہیم غار میں رہا اور جب غار  سے نکلا تو چاند  و سورج و زہرہ  کو خدا سمجھا فقط اور حدیث سے واضح ہے کہ ابراہیم آزر کے گھر میں پیدا ہوا تھا جبکہ آزرنے چاہا کہ نمرود کے پاس لیجاوے  تو اُسکی مانے غار میں پھینکدیا اور ۱۳ برس تک بقدرت  جیتا رہا فقط دوُسری حدیث  یہ ہے کہ  آزر اور اُسکی جو رو نمرود بادشاہ کے ڈر سے بھاگے گئے  تھے راستہ میں ابراہیم پیدا ہو گیا اور اُسیوقت  جوان ہو گیا اور اپنے کپڑے اور لکڑی لیکر چلدیا یا فقط غرضکہ صد تماشہ بازی گروں کے سے لکھے ہیں۔ میں نے بہت سی کتابیں  محمُدی  مزہب کی دیکھی ہیں ہر شخص نے اپنے اپنے طور  پر یہ بیان مختلف لکھا ہے اور قرآن کے خلاف۔

اب یہ کہنا کہ قرآن توریت  کے خلاف بیان کرتا ہے  کچھ ضرورت نہین کیونکہ اور بیانات میں توکہیں کہیں  قرآن  نے توریت سے موافقت کی ہے مگر چونکہ محمد صاحب  ابراہیم کے بیٹے بنے ہیں لہذا ابراہیم کا زکر  تو مطلقاً  توریت کے خلاف  بیان کیا ہے۔ پس ہمکو قرُآن  ہی میں گفتگو کرنا چاہئے  دیکھو قرآن  سے واضح  ہے کہ ابراہیم آزر بُت پرست کا بیٹا تھا  اور کتاب بحار الانوار سے واضح ہے کہ ابراہیم کے باپ کا نام تارخ  تھا  اگرچہ توریت میں ابراہیم کے باپ کا نام تارح ہے۔ روای  صاحب  نے صرف ایک نقطہکا فرق کیا  فقط قرآن سے ظاہر ہے کہ ابراہیم  نے نماز کعبہ میں پرھیتھی اسکے خلاف ثعلمی کہتا ہے کہ کبھی کوئی نبی کعبہ  میں نہیں گیا اور کعبہ میں بت تھے فقط یہ بالکل سچ ہے پھر قرآن  کہتا ہے کہ  کعبہ ابراہیم اور اسمعیٰل  نے تعمیر کیا اُسکے خلاف  تفسیر مدارک  و معراج وکئیر سے واضح  ہے کہ قبل از طوفان نوح کعبہ یعنے مسجد کعبہ  زمین کعبہ پر تھی مگر طوفان کے وقت آسمان چہارم پر چلی گئی اُسکو بیت المعمور کہتے ہیں ۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ محمد نے دین ِ ابراہیم  کا پسند کیا تھا  اِس کا صلہ دیا گیا  ہے کہ ابراہیم کو آزر بُت پرست کا بیٹا قرار دیا اِس کی وجہ یہ ہے کہ محمد کے تمام آباو اجداد  بت پرست تھے  اِ س لئے  واجب ہوا کہ ابراہیم کے باپ کو بھی بُت پرست قرار دیں  تاکہ محمد کا سقم ہٹ جائے دوسری  یہ ہے جملہ  انبیا نسل ابراہیم  سے ہوئے ہیں تو کسی کو یہ اعتراض  نہ رہے  کہ محمد ہی باپ و دادا بُت پرست تھے بلکہ جملہ انبیا کے مورث اعلے یعنے ابراہیم  کا باپ بھی  بُت پرست  تھا فقط  قرآن  سے ثابت ہے کہ اﷲ نے اوّل قبلہ کو سجود گاہ قرار دیا تھا چنانچہ محمدی و نیز  محمد قبلہ کیطرف  سجدہ کرتے تھے جسکی  وجی  بخاری  یہ بیان کرتا ہے کہ قبلہ کو سجدہ  محمد نے صرف  تفریح قلوب یہود کیواسطے کیا تھا  یہ غلط  ہے۔ کیونکہ یہ مضمون  قرآن کے خلاف ہے جسکا زیل میں زکر ہوتا ہے اور جبکہ محمد کو تفریح  قلوب یہود منظور تھی انتہا۔ یہ کہ یہود کی خاطر سے خلاف  کلام  اﷲ قبلہ کو سجدہ کیا تو پھر نبوت کیسے مانی جاتی ہے۔  سورہ بقر آیت ۱۴۴ سے واضح  ہے کہ محمد صاحب  کے خدا نے قبلہ کو سجود گاہ قرار دیا تھا۔ اور سورہ بقر آیت ۱۴۵ سے صاف ظاہر ہے کہ محمد قبلہ سے راضی نہیں تھا  نہیں تھا  اور خلاف  قرآن  کعبہ کو جو اُن  کے آباو اجداد کا موروثی تبخانہ تھا   اُس  کی طرف رجوع تھے اور اول قبلہ کو سجود گاہ قرار دینے کی خاص وجہ یہ تھی کہ بُت پر ستان عرب و نیز  محمد کے  چچا محمد کو کعبہ میں نہیں آنے دیتے تھے۔ اور جبکہ محمدی نماز کے وقت  ازان کہتے تھے تو  کعبہ کے پااجاری ازان کے خلاف سنگھبجاتے تھے چنانچہ مندروںمیں سنگھ  بجانے کی رسم جب سے ہی جاری ہوئی ہے۔ اور جبکہ عرب کو محمد نے بزور شمشیر  فتح  کر لیا تو فوراً  کعبہ کو سجدہ گاہ قرار دیدیا۔  چنانچہ سورہ بقر ۱۴۶ ۔ آیت سے بخوبی ثابت ہوتا ہے کہ کعبہ  صرف  محمدی کا قبلہ تھا۔ دیکھو قرآن کہتا  ہے کہ اہل  کتاب  تیرے قبلہ کو ہر گز  نہیں مانینگے  کیونکہ  ابراہیم  کا  بنایا ہواِ نہیں ہے بلکہ تیرے آباو اجداد کا بتخانہ ہے  اور اہل کتاب اِس امر  کوخوب جانتے ہیں اور قرآن  سے واضح  ہے کہ ابراہیم نے اسمعیٰل کو قربانی کیا اور حیات القلوب میں حضرت صادق  و روضتہ الاحباب و تفسیر بیضاوی اور نیز حدیث سے ظاہری  کہ اصحاق کو قربانی کیا تھا۔  اور یہ امر بھی تمہارے مفسرونکا مسلمہ ہی کہ قبلہ سلیمان کا تعمیر کیا ہواہے اور اُس میں یہودی اور اکثر نصاریٰ بھی جاتے ہیں اور کعبہ میں بجز محمدیوں کے کوئی نہیں جاتا تو کیا اس میں بھی کوئی  تحریف  ہوئی ہے۔  اے محمدی بھائیو قرض  کر لیا جائے کہ یہود  نے توریت  تحریف  ہی کر دی اور یہ ہی وجہ ہے کہ توریت  و قرآن  میں اختلاف  ہے تو پھر تمہاری حدیث و روایات کیوں قرآن کے خلاف ہیں کیا یہاں بھی یہود و نصاریٰ نے تحریف کی ہے۔ اے  پیارو توریت و انجیل  تو تحریف نہیں ہوئی اور نہ ہو سکتی ہیں بلکہ تمہارا قرآن  ہی غلط ہے اور جبکہ اصل  ہی میں  غلطی ہے تو پھر روایات  و حدیث  کیونکر  درست ہو سکتی ہیں۔ اے نصاریٰ بھائیو  دیکھو محّبان دین محمدی  کا ادب کہ کعبہ کی چھت کو ادباً  نہیں  دیکھتے کیونکہ اُسکو ابراہیم نے اینٹ و پتھر سے بنایا ہے اور آسمان  و ستارہ جو خاص خدا نے اپنی قدرت  کاملہ  سے پیدا کئے ہیں اُسکے دیکھنے اُسکے نیچے افعال  بد کرنے میں  زرا بھی تکلف نہیں کرتے اِسکی وجہ یہ ہے کہ آسمان  صانع قدرت نے بنایا ہے اور اُس میں کوئی  بھی نقص نہیں ہے اور کعبہ کی چھت میں تمام بتونکی  تصاویر ہیں اور اُن کو محمد کے آباو اجداد پوجتے تھے لہذللبحاظ بزرگی آباو اجداد محمد  صاحب  کے اُن کو دیکھنا  گناہ ہے اور دیکھو قرآن  کہتا ہے کہ یہودی آزر بت پر ست کو اﷲ کا بیٹا کہتے ہیں۔ حالانکہ توریت میں کہیں آزر کا نام بھی  نہیں ہے۔ پس صریح ظاہر ہے کہ قرآن  جھوٹھا ہے اور کلام اﷲ نہیں بلکہ کلام محمد ہئ اور یہ تو بہت ہی صاف بات ہے کہ محمد سے تقریباً چار  ہزار  برس پیشتر ابراہیم  کا زمانہ  تھا تو اُسوقت تمہارے مورخ کہاں تھے جو تمکو صحیح حالات معلوم ہوتے۔ ظاہر ہے کہ محمد   صاحب  کو یہود ونصاریٰ برہ تمسخر  توریت  و انجیل کے بعض مقام صحیح اور اکثر بنظر  صحت نبوّت محمد غلط  بتلا دیا کرتے تھے اور محمد بیچارے اُمی تھےاُسی بنیاد پر آیات قرآنی  نازل کر لیتے  تھے چنانچہ اُسکا زکر قرآن میں بھی ہے اور نیز حیات القلوب سے بھی واضح ہے کہ اکثر تمہارے امام اور محدث  یہود و نصاریٰ سے دریافت کیا کرتے تھے جیسا وہ بیان کرتے اور کچھ اپنی طرفسے  لا کے کتابوں میں لکھدیتے تھے فقط  اور پھر قرآن  سورہ یونس رکوع ۹ میں یہ لکھا ہے کہ ہم نے  حکم بھیجا موسیٰ کوکہ اپنا گھر قبلہ کیطرف بناٍ  ؤ اور نماز پڑھو فقط۔ اے محباّن دین محمدی دیکھو یہ آیت سورہ بقر  آیت۱۲۵ کے خلاف ہے اُس میں یہ لکھا ہے کہ جب ٹھہرایا ہمنے یہ گھر کعبہ اجتماع کی جگہ  لوگونکی اور پناہ  اور کھڑا رکھو جہاں کھڑا ہوا ابراہیم  نماز کی جگہ فقط اِس آیت سے واضح ہے کہ  ابراہیم  کے زمانہ میں کعبہ عبادت گاہ قرار پایا اور ابراہیم نے اُس میں نمازی پڑھی تھی اور سورہ یونس  سے ظاہر  ہے کہ موُسیٰ کے وقت میں کعبہ نہین تھا اِسلئے موسیٰ کو کہا گیا کہ قبلہ کیطرف  گھر بنا کے نماز پڑھ اور یہ امر تمہارے محدثوں کا مسلمہ ہے کہ قبلہ سلیمان کا بنایا ہوا ہے اور سلیمان صدہا سال بعد موسیٰ کے پیغمبر ہوئے تو اُسوقت  قبلہ کہاں تھا اور جبکہ کعبہ قبل از زمانہ موسیٰ بموجب قرآن موجود تھا تو پھر موسیٰ کو قبلہ کیطرف  گھر بنانے  کاکیوں حکم دیا گیا کیامحمد صاحب کے اﷲ کو یہ یاد نہیں  تھا کہ ابراہیم  کو کعبہ میں نماز وغیرہ   ادا کرنے  کا حکم ہمنے دیا ہے اور قبلہ جسکا موسیٰ کے وقت میں وجود بھی نہیں تھا اُسکی طرف گھر بنا کے نماز پرھنے کا حکم  دیدیا۔ اے پیارے بھائیو یہ تو تمہارے قرآن  کی آیات کا مضمون ہے کیاا سکو بھی یہود و نصاریٰ کی تحریک فرماؤ گے۔

علاوہ ازیں دیکھو  سورہ بقر  ۳۳ میں یہ لکھا ہے کہ جب  باہر ہوا تالوت یعنے ساؤل  فوجیں لیکر کہا اﷲ تجھکو آزماتا ہے ایک نہر سے پھر جسنے پانی پیا اُسکا وہ میرا نہیں اور جسے نہ چکھا وہ میرا ہے مگر جو کوئی باہر لے ایک چلو اپنے ہاتھ سے پھر پی گئے اُسکا پانی وغیرہ  فقط۔ اے برادران  دین محمدی دیکھو توریت یہاں محمد صاحب  نے پھر غلطی  کی ہے یہ زکر جدعون  کا ہے مگر اُس میں بھی اختلاف ہے۔ اﷲنے جدعون کے مددگاروں کی آزمائیش نہر پر کہ تھی اور محمد نے اِزکر کو تالوت کے زکر میں شامل کردیا حالانکہ تاتوت کو کبھی بھی یہ اتفاق  نہیں ہوا تھا  اور  جدعون ساؤل  سے بہت پیشتر گزرا ہے اور جدعون کے بعد آکر رُوت اور روت کے بعد سموئیل اور سموئیل کےآخر زمانہ میں تاتوت یعنی ساؤل تھا۔ 

یہودیوں کی احادیث  اور قرآن

متعلق یوسف

قرآن اور توریت کے بیانات میں  یوسف  کے متعلق اکثرفرق اِس سبب سے نظر آتے ہیں کہمحمد نے یہودیوں  کی کہانیوں سےبہت کچھ نقل کیا ہے زیل میں ہم اُن خاص باتوں  کو درج کرتے ہیں۔  جو کہ محمد نے بعینہ یہودیوں کی احادیث سے نقل کی ہیں ہمکو یقین  ہے کہ  اُن کو دیکھنے سے ناظرین بخوبی پہچان لینگے کہ محمد کہانتک  نقل کرتا تھا  (۱ )  سوز یوسف میں لکھا ہے کہ اگر یوسف اپنے خاندان کا خاص نشان  نہ دیکھتا تو گناہ کرتا   

ولَقَد ھَمّتَ بہ وَھَمّهِ بھاَ لولا اَنَّ ابرُ ھان رَبهّ الخ زیل کی کہانی سے ثابتہوتا ہے کہ یہ نقل کی ہوئی بات ہے۔ کہانی یوں ہے  منقول از ربّی جو چانہ+ دونوں نے گناہ کرنے  کا ارادہ کیا۔ زیخا نے یوسف کے کپڑے کو پکڑ کر  کہا میرے ساتھ ہمبستر ہو۔ یوسف کوکھٹرکی کے قریب   باپ یہ کہتے دکھائی دیا کہ یوسف یوسف  !!! تیرے بھائیوں کے نام  افود کے  پتھروں پر کندہ کئے جائینگے نیز تیرا نام بھی  کیا تو چاہتا ہے   کہ وہ مٹ جاوے۔ دیکھو سوتا۳۶: ۲۔

ایک محمدی مفسر اسی آیت کی تفسیر میں اِسی کہانی کا زکر کرتا ہے۔ ( ۲) سورہ یوسف ۳۰۔ ۳۲ مشہور بیان ہے کہ زلیخا نے مصر کی عورتوں کو ضیافت  میں بُلایا  اور سب کو ایک ایک چھری دی پھر یوسف کو بُلایا اور جب  اُنہوں نے یوسف کو دیکھا متحیرحسن ہو کر اپنے ہاتھ کو کاٹنے لگیں۔ یہ کہانی ایک بہت پرانی  کتاب بنا، جلکوت مڈراش  ۱۴۰ سے بعینہ کی گئی ہے۔  (۳) سورہ یوسف ۲۶۔ ۲۹ لکھا ہے کہ  یوسف کا کپڑا پھاڑا گیا۔ چونکہ پیچھے کی طرفسے  چھٹا  مجرم نہ  گروانا گیا۔ یہ کہانی حرف بحرف  اسی کتاب یعنی جلکوت مڈراش سے نقل کی ہے۔  دیگر  بیانات ہم اسوقت نہیں لکھتے ہیں لیکن اِتنے ہی سے بخوبی  ثابت ہوتا ہے کہ  قرآن کہاں تک پرُانی  کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ ہم اِس مضمون سے ایک دو نتیجے  استخراج کرتے ہیں۔ 

اوّل۔ ہمارے حق  و باطل کے مضمون پر جو اِس ہفتہ درج ہوا ہے ۔ ناظرین کی توجہ اسبات پر دلاتے ہیں کہ خود  قرآن ہی میں آیتونکا با  ہم اختلاف  موجود ہے یعنے ایک دفعہ  زلیخا یوسف   کو مجرم ٹھہراتی ہے اور دوسری دفعہ یوسف کو عورتوں میں  بلا کر زبان ِ حال سے اپنا جرم عشق ظاہر کرتی ہے۔ 

دوم۔ قرآن سورہ یوسفمیں یوسف پر ناحق الزام  لگانا ہے۔ جبکہ کہتا ہے کہ  اُسپر شوق  غالب ہوا مگر نشان دیکھکر بازآیا ۔ سچ تویہ ہے کہ خود محمد اور محمدیوں کے لئے جو کہ نہ صرف دنیا میں بلکہ بہشت میں بھی کثرت  شہوت رانی کو  جائز سمجھتے ہیں۔ یہ سمجھنا مشکل ہے کہ بغیر خاص معجزہ کے  یوسف   کسطرح قایم  رہ سکتا تھا۔ ہم بھی اسبات کو تسلیم کرتے ہیں کہ بغیر خدا کے فضل کے انسان ایسے مؤقعہ پر ضابطہ  نہیں رہ سکتا تو بھی ہماری یہ شکایت ہے  کہ یوسف کی اخلاقی کمزوری کو مبالغہ کے ساتھ بیان  کیا ہے۔ البتہ اِس  مبالغہ کا یہ تو برخستہ عذر ہو سکتاہے کہ یہ تمام باتیں بے کم  دست کا یہودیونکی ۔

در زکر یوُسف

توریت

یوسف کے بھائی اُس سے ناخوش  تھے ایک مرتبہ اُس کے بھائی  وادی  سکیم میں  گلہ چراتے تھے یعقوب  نے یوسف سے کہا کہ اپنے بھائیوں کی خبر لا چنانچہ یوسف  گیا تو بھائیوں  کو وہاں نہ پایااور یوسف کو ایک شخص  ملا اُسنے  دریافت کیا کہ  کیا  دیکھنا ہے یوسف نے کہا کہ اپنے بھائیوں کو تلاش کرتا ہوں اُس نے جواب دیا کہ وادی دو تین میں ہیں  جبکہ یوسف  اپنے بھائیوں  کے پاس آیا تو بھائیوں  نے یوسف کو  دیکھ کے  کہا یہ صاحب  خواب آتا ہے اُس کو مار ڈالو  یا کوئے میں ڈالدو اُس کے باپ سے کہدینگے کہ اُسکو درندہ لے گیا ہے۔   چنانچہ یوسف کی بوقلمون قبا اُتاری  اور یوُسف کو کوئیں میں ڈالدیا   اور اُس چاہ میں پانی  نہیں تھا  تھوڑی دیر بعد  دیکھا  کہ اسمعٰیلیوں کا قافلہ گرم مصالحہ اور روغن  ملبان لیکر مصر  کو جاتا ہے یھودا یوسف کے بھائی  نے کہا کہ یوسف  کو بیچ ڈالو چنانچہ بھائیوں نے یوسف کو چاہ سے نکال کے بعیوص  ۲۰؎ اسماعیلیوں کے ہاتھ بیث ڈالا  اور یوسف کی قبا یعقوب کو گھر جا کے  دی اور کہا یوُسف کو بھیڑیا لے گیا ۔ یعقوب نے بہت  گریہ و زاری کی اور اسٰمعیلیوں نے مصر میں جا کے  یوسف کو  فوطیفار  نامی جو فرعون کا ایک امیر تھا اُس کے ہاتھ بیچ ڈالا  اُس نے یوسف کو اپنے گھر کا مختار  کر دیا چونکہ یوسف نہایت خوبصورت  اور نور پیکر  تھا لہذا فوطیفار کی عورت یوسف کو چاہنے لگی ایک روز  یوسف گھر میں  گیا اور اُسوقت وہاں کوئی موجود نہ تھا فوطیفار  کی عورت  نے یوسف  کا پیراہن  پکڑ کے  خواہش  ظاہر کی تو  یوُسفنے اِنکار کیا اور پیراہن چھوڑا کر گھر سے باہر بھاگ گیا۔  جبکہ عورت ناکامیاب  ہوئی تو چلاّ  کے گھر کے آدمیوں سے کہا کہ یوسف نے مجھُ  سے گستاخی کی اور جبکہ میں نے غُل  کیا تو اپنا پیراہن چھوڑا کے بھاگ گیا اور جب اُس کا شوہر گھر میں آیا تو عورت  نے اُس سے یوسف کی شکایت کی۔ پھر اُسکو غُصّہ  آیا اور یوسف کو پکڑ کے شاہی قید خانہ میں بھیجدیا۔ اور پھر یوسف نے فرعون  کے خواب کی تعبیر کی اور اُسکا  مختار  ہو گیا فقط۔  

قرآن 

دیکھو سورہ  یوسف ۱، ۲ رکوع یوسف کےبھائیوں نے  اپنے باپ سےکہا کہ یوسف کو ہمارے ساتھ بھیجدے اُسنے کہامجھ کو ڈر ہے کہ اس کو کوئی درندہ نہ لیجاوےبھائیوں نےکہا کہ اُسکےہم زمہ دار ہیں پھر یوسف کو لیچلے  تو باہم مشورہ کیاکہ یوسف کو کوئیں میں ڈالیں۔  چنانچہ کنوئیں میں ڈالدیا اور شام کو گھر پر آکے کہا کہ یوسف کو بھیڑیا لے گیا اور یوسف کے کرتے میں خون لگا کےیعقوب کو دیا اور ایک قافلہ آیا اُسکے پنسارے نے کوئیںمیں ڈول ڈالا تو یوسف نے ڈول پکڑ لیا پنسارے نے ڈول  کھینچ لیا اور جب یوسف  کو دیکھا تو بہت  خوش ہوا اور کئی پالیوں میں فروخت  کر دیا اور اِسی سورہ ۳ رکوع  مین اور جس شخص نے یوسف کو خریدا تھا مصر میں اپنی عورت سے کہا کہ اسکو آبرو سے  رکھ شایدٔ اُسکو ہم بیٹا بنائیں۔ پھر عورت نے یوسف کو پھُسلایا اور  دروازہ  بند کرکے بولی کہ شتاب شتاب کر  یوسف نےکہا خدا کی پناہ  عزیز  میرا مالک ہےمیں ایسا نہیں کرونگا توعورت  نے دروازہ بند کیا اور پھر دونوں دروازہ کی طرف دوڑے  عورت نی چیر ڈالا اُسکا کرُتہ پیچھے سے اور دروازہ  پر دونوں عورت کے خاوند  سے مل گئے عورت نے کہا  اور کچھ سزا نہیں ایسے شخص کی جو چاہے تیرے  گھر میں برُائی  مگر قید  میں پڑے یوسف نےکہا اس عورت نے خواہش کیتھی ایک شخص  نے عورت کے گھروالوں  میں سے کہا کہ اگر یوسف کا کرُتہ  آگے سے پھٹا ہے تو عورت سچی ہے اور اگر اُسکا  کرُتہ  پیچھے سے پھٹا ہے تو یوسف سچا ہے اور عورت  جھوٹی ہے۔ جب عزیز نے دیکھا کہ یوسف کاکرُتہ پیچھے  سے پھٹا ہے تو عورت سے کہا تو جھوٹی ہے اور یوسف سے کہا کہ تو جانے دے  اور عورت سے کہاکہ تویوسف سے اپناگناہ بخشوا پھر شہر کی عورتوں نے کہا  کہ عزیز   کی عورت اپنے غلام پر مرتی ہے تو پھر عزیز  ی کی عورت  نے سب شہر کو عورتوں کو مجلس میں بُلوایا اور سب سے کے ہاتھوںمیں ایک ایک چُھری دی اور یوسف سے کہا  کہ نکل آ۔  جبکہ یوسف نکلا تو سب عورتوں نے اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے۔ پھر عزیز کی  عورت نے کہا کہ یہ وہ ہی ہے جس کا تم نے الزام لگایا کہ غلام نے اُس کی خواہش پوُری نہیں کی اور میں پھر کہتی  ہوں کہ اگر وہ میرا کہنا نہ کریگا تو قید میں پڑیگا۔ پھر یوں یوسف نے قید قبول  کی اور عورت  کا کہنا نہیں کیا۔ اور پھر اُن ہاتھ  کئی  تعریف  عورتوں نے بادشاہ کے سامنے یوسف کی پارسائی کی  تعریف کی اور  عزیز کی عورت نے اپنا قصور تسلیم کیا۔

حدیث

اول شیخ سعدی کہتا ہے۔
زمصرش  بوئے پیراہن شمیدی
چراور چاہ کنعاش نی دیدی

 اور قصص الانبیا میں لکھا ہے کہ  جنگل میں اوّل بھائیوں نے یوسف کو خوب مارا اور پھر ایک چاہ میں جو بیت المقدس کے قریب ہے باندھکر  ڈالدیا  وہ کنوُا ۷۰ گز گہرا تھا۔ تھوڑی دوُد تک رسی لٹکائی  پھر اُسے کا ٹکر  نیچے گرا دیا تو فوراً جبرائیل فرشتہ نے نصف  کنوئیں میں آکے تھام لیا  اور آہستہ آہستہ لیجا کر پتّھر  پر بٹھا دیا اور بہشت سے کھانا پانی  لا کر دیا کرتا تھا۔پھریوسف کا کرُتہ لیکر بھائی گھر پہنُچے اور یعقوب  سے کہا یوسف کو بھیڑیا لے گیا یعقوب نے کہا تم جھوٹے ہو اگر بھیڑیا یوسف کو لیجاتا تو اُسکا کرُتہ  چاک ہوتاا تم نے یوسف کے ساتھ فریب کیا ہے اچھا اُس بھیڑئیے  کو حاضر کو جس نے یوسف کو کھایا ہے  یوسف  کے بھائی جنگل سے ایک بھیڑ یا پکڑ لائے۔ بھیڑیئے نےکہا میں نے یوسف کو نہیں کھایا۔ پیغمبر وں کا بدن جانوروں کو کھانا حرام ہے اور یوسف ایک رات دِن یا تین رات دِن یا ساتھ رات دِن کنوئیں میں رہا۔ اور جبکہ قافلہ  والے یوسف کو مصر میں نے جاتے تھے توراستہ میں یوسف شتر پر سے کود کر اپنی ماں کی قبر پر رونے کو جاتا تھا تو قافلہ والوں نے اُس کو پکڑکر خوب طمانچہ مارے اور مصر میں جا کر عزیز مصر کے ہاتھ یوسف کو فروخت کیا اور اُس کی قیمت  یہ قرار پائی تھی۔  مشرؔفی دس لاکھ۔ شتر نجیؔ ہزار۔ موتؔیوں کے ہار ایکسو۔ روؔپہلے پاندان ہزار۔ شمامہؔ غبرزار۔ خطاؔئی غلام ہزار۔ کافورؔ ہزار من۔ ہتھیؔاروں کے دستہ ہزار ۔روُمی ؔ اطس کی پاشاک ہزار اور بحرالمواج میں لکھا ہے کہ یہ قیمت اور دولت دے کے یوسف مالک پر خفا ہوا اور کہا کہ نبی زادہ  ہوں مجھے فروخت  نہ کر بلکہ مفت عزیز کو بخشدے  مالک نے کہا اچھا میں کچھ نہیں لیتا مگر میرے اولاد نہیں ہے تو دعا کر کہ اولاد ہو۔ چنانچہ یوسف نے دُعا کی تو اُس کی عورت حاملہ ہوئی اور ہر حمل میں دو دو بیٹے پیدا ہوئے  یا اُسکی لونڈیاں  تھیں اُن کے دو دو بیٹے پیدا ہوئے اور پھر زلیخا نے ایک بُت خانہ  بنایا اور بُڑھیا سے جوان موئی اور یوسف کے ساتھ شادی کی۔ اور زلیخا یوسف   کے عشق میں تمام مصر کی گلیوں میں مثل دیوانوں کے پھرتی تھی وغیرہ اور حیات القلوب  میں  بردایت امام حضرت صادق لکھا ے کہ  جسوقت عزیز کی عورت نے یوسف سے حرام کرانا چاہا تو یوسف کو اُسکا باپ یعقوب  اُس مکان میں نظر آیا اور یوسف  سےیہ کہا کہ خبردار زنا مت کرنا۔ الغرض ہزار ہا  قصہ ایسے لکھے ہیں جس کا جی چاہے حیات القلوب اور قصص الانبیا میں    دیکھ لے میں بنظر طوالت اسی پر  ختم کرتا ہوں۔

اے محبان دین محمدی توریت اور قرآن   میں جو اختلاف ہے اُس کو جواب تو یقیناً تم یہ ہی دو گے کہ یہود منے توریت  کو بدل دیا ہے مگر زرا اپنے جی میں انصاف کرو کہ اگر یہود توریت کو بدلتے تو صرف  محمد کے حقمیں جو ہوتا اُسی کو بدلتے یوسف جو صدہا سال پیشتر محمد سے ہوا ہے اور اُس کے بعد موسیٰ و  جدعونؔ  رما روتؔ کا زکر اور پھر سموایل  تالوب یعنے ساؤل و  داؤدو  سلیؔمان و یوحناؔ و مسیحؔ وغیرہ گزرے اور اُس کے بعد محمد صاحب  نے دعویٰ نبوت کیا۔تو اُس وقت یہ قرآن اور یہ مضمون مندرجہ قرآن  کہاں تھا جو توریت میں تحریف ہوتی۔ اور یہ بھی واضح  رہے کہ اسی توریت کو محمد نے اپنے زمانہ میں صدہا مقام پر اپنی قرآن  میں تصدیق کیا ہے جیس کہ اوپر زکر ہو چکاُ ہے تو پھر کب توریت منحرف ہوئی اور اس تحریف کی بحث میں ڈاکڑ وزیر  خان  اور نیز تمہارے علما نے یہ بحث  کیہے کہ تحریف  الفاظ کا بدل ڈالنا  وہ باعتبار  لفظ  ہے یا با عتبار معنے۔ دوسرے یہ کہ وہ عمداً ہویا   سہواً یا معنی الفاظ کو خلاف بیان کرنا وغیرہ۔ اِس مقام پر تو یہ معاملہ نہیں؟  قرآن کا تمام مضمون توریت کے خلاف ہے تو یہاں تحریف کیسی ہے۔ لہذا بحث تحریف تمہاری ہٹ دھرمی ہے کیونکہ تحریف  کا کوئی ثبوت  تمہاری طرفسے  نہین پیش ہوا اب ہم منفس  قرآن کا زکر کرتے ہیں۔ دیکھو ایک مقام  پر  قرآن  سے واضح ہے کہ جب عورت اور یوسف دونوں اُس کے شوہر سے دروازہ پر مل گئے توعورت نے یوسف کی شکایت کی اور  دوسریجگہ اسی قرآن سے واضح ہے کہ عزیز کی عورت نے مصر کی عورتوں کومجلس میں بلایا اور جلسہ عام میں یہ کہا کہ اگر یوسف میری خواہش  پوری نہ کریگا تو قید میں پڑیگا تو اُسوقت عورت کے شوہر کو زرا بھی شرم نہ آئی  اور اپنی بدچلن عورت کی خواہش پر یوسف کو قید کیا اور جسوقت یوسف قید سے بادشاہ کے پاس پُہنچا تو عزیز کی عورت نے اپنا ناپاک  خیال جو یوسف کی طرف تھا ظاہر کیا اس سے کیا غرض تھی اور یہ امر تو مسلمہ ہے کہ تمام عورتیں مصر اور زلیخا کا شوہر  زلیخا کی ناپاک کواہش میں شامل  تھے۔ دوُسرے قرآن میں یہ لکھا ہے کہ عزیز نےاپنی عورت سے کہا کہ یوسف سے اپناگناہ بخشوا تو کیا  مصریوں  میں جو عورت خواہش حرام ظاہرکرے اور اُسکا انشا ہو جائے تو یہ رسم  باطریقہ ہے کہ خاوند  عورت سے کہے تو معافی چاہ۔

محمد صاحب نے  تو قرآن  میں عزیز مصر اور اُس کی جوروی کو زلیل کیا تھا اور یوسف کو صاف رکھا تھا۔ مگر راوی  صاحب  نے یوسف کی بھی خبر لی کہ زلیخا سے بُت کانہ بنوا کراﷲ سے ایسی مدد  دلیوائی کہ زلیخا کو ضعیف سے جوان بنا کے یوُسف سے شادی کرائی۔ تو اے ناظرین اصول دین محمدی پر  غور کرنا چاہئے اور  پھر قرآن اور قصص کا مقابلہ کرنیسے ظاہر ہے کہ قرآنسے روایات  وغیرہ وغیرہ غلط ثابت ہوتے ہیں اور حدیث و روایات سے قرآن کا بطلان ہوتا ہے۔ اور پھر لطف یہ ہے محمدی صاحب دونوں کو سچا جانتے ہیں۔ اب محمدی صاحب فرمائیں کہ توریت اور قرآن میں جو اختلاف ہے اُس کی تو یہ وجہ ہے کہ توریت منحرف ہوگئی لیکن قرآن و حدیث وغیرہ کیوں قرآن کے  خلاف ہین کیا یہاں بھی یہود اور نساریٰ نے  دست اندازی کی ہے اور یہ تو بتلا و کہ جسوقت یوسف عزیز کے مکان میں گیا اور عورت نے اُس پر الزام لگایا تو سوائے عورت اور یوسف کے اور کوئی  اُس مکان میں نہیں تھا ۔ چنانچہ یہ امر تمہارے  قرآن سے بھی چابت ہے تو پھر حضرت صادق کو یہ کیسے معلوم  ہوا کہ یوسف کا باپ یعقوب اُس گھر میں یوسف کو نظر آیا۔ اور عورت نے بُت پر کپڑا  ڈالدیا تھا۔ 


۱. محمدی کہتے ہیں کہ نور محمد سے ایک گوہر بنایا اُس سے زمین و آسمان بنائے۔ ہندو کہتے ہیں انڈے  میں برہما نے پرمیشر کا جپ کیا اور انڈا دو ٹکڑے ہوا۔ نصف سے آسمان  اور نصف سے زمین بنائی گئی۔  اب ناظرین غور فرماویں کہ محمد اور ہنود میں کیا فرق ہے چونکہ تمام عرب بت پرست تھے اس وجہ سے ہنود کے مسئلہ کو محمد پر سادق کرلیا ہے

۲. اے ناظرینجس وقت تمام مخلوقات کو اﷲ نے پیدا کیا تھا تو یہ دو جانور یعنے خوک اور گرُبہ پیدا نہیں ہوئے تھے حسب ضرورت اﷲ نے اُنکوکشتی میں پیدا کیا اور چونکہ محمدی مذہب میں فیل حرام  ہے اور سور اُس سے پیدا کیا گیا لہذا وہ بھی حرام کر دیا گیا اور اعلیٰ ہذا القیاس شیر بھی حرام  ہے تو بلیّ بھی حرام ہوئی مگر حنفی مذہب  بلی کو حلال کہتے ہیں یہ بھی ایک مثلہ ہے

۳. اے ناظرین تفصیل توراوی صاحب نے خوب لکھی مگر دو بات راوی صاحب بھول گئے اوّل یہ کہ عوج کی تاریخ تولید نہیں لکھی گئی دوسرے یہ کہ تعداد قد ک قدیم  کر دی فقط۔اے برادران دین محمدی تمہارے لوی تو ہنود سے بھی بڑھ گئے مگر ہاںایسا ہونا چاہئے کیونکہ محمد کے  آباو اجداد بھی تو وہی بت پرست تھے تو  خلقی بات کیونکر جا سکتی ہے اگر کوئی محمدایضا ہمارا بیان غلط یا مبالغہ تصور کریں تو اپنی کتابیں جنکاہم نے ذکر کیا ہے خود پڑھ لیں۔

۴. غالباً یہ بات ہے کہ فقیر سے توریت سے مطابق معلوم ہوتے ہین حقیقت  براہ راست توریت سے نہیں لئے گئے  ہیں بلکہ بزریعہ تالمود کے اُس سے اخز کئے ہیں۔ بائبل  کے بہت تھوڑے فقرے ہیں جو ٹھیک ٹھیک قرآن  میں اقتباس کئے گئے ہیں۔ اِس سے چابت ہوتا ہے کہ محمد توریت نہیں جانتا تھا لیکن توریت کے بیانات  یہودیوں  کی حدیث یعنے تالمود کے زریعے  سے معلوم کئے۔