ایک لڑکی کے اعتقاد  سے اُسکے  باپ  کا بچنا

A Girl with Strong Faith

Published in Nur-i-Afshan March 19, 1885
By. Rev. Elwood Morris Wherry
(1843–1927)

کسی کھان میں ہر روز   صبح کو کان کن کام پر لگائے جاتے تھے تو حاضری  پکارنے سے پہلے  وے سب کھان کے منُہہ  پر جمع  ہو ا کرتے تھے اُنمیں  ایک بڑا  قد آور اور مضبوط آدمی ایک چھوٹی سی سات برس  کی لڑکی کا ہاتھ پکڑے ہوئے  ہمیشہ سب کے پیچھے آیا کرتا  تھا۔ اس آدمی کا نام مچلیُ پیرن  تھا اور وہ لڑکی  اُسکی  بیٹی تھی۔ کھان  میں  اُترنے  سے پہلے وہ آدمی اپنی لڑکی کو گود میں لیتا اور بوسہ  دیکر  گود سے اتار دیتا اُسوقت وہ لڑکی   کہتی کہ  اے باپ  شام تک خدا آپکا حافظ ہو اور جب مچلیؔ کھان میں اُترنے کو  پنجرہ میں چڑھ جاتا  تو لڑکی متحیرٍ اور متفکر  ہو کر  اُسکی طرف ٹکٹکی لگائے  رہتی اور بار بار  کہتی کہ اے باپ شام تک خدا  آپکا  حافظ  ہو۔  گھنٹے  کی آواز  سُنکر ( جو کھان  اُتر نے کا نشان تھا) وہ لڑکی اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں  کو  بغل   میں دیتی  اور انگلیوں کو مروڑتی اور جب تک اسے یقین ہوتا  آپیرا باپ اب میری  آواز  نہیں سن سکتا باپ باپ پکارتی رہتی آخر  پکارتی رہتی آخر مدرسہ کو بھاگ  جاتی اور تمام دن وہاں ہی  رہتی  شام کو سب سے پہلے  کھان نے منُہہ  پر آتی جسمیں سے مچلیؔ پیرن بھی سب سے پہلے باہر نکلکر صبح کی طرح اُسکو گود میں  اُٹھا  لیتا اور لڑکی بھی  اُسے باپ باپ پکارتی  ہوئی لپٹ جاتی اُسوقت  خوشی کے جوہر اُسکے رونقدار اور مسکراتے ہوئے چہرے پر نمایاں ہوتے، لوگوں نے اکثر یہہ دو الفاظ  اُسے ایسے عجیب  پیار سے کہتے ہوئے  سنا کہ اُنہوں نے اسیکا نام میڈ مازل  پپًارکھدیا ۔ بیشک کوئی اور نام اس کے لئے اس سے زیادہ مناسب  نہ تھا کیونکہ اسکا باپ اسکے لئے سب میں سب کچھ تھا۔ جب  وہ بہت چھوٹی تھی تب ہی اسکی ماں مر گئی  وہ بچپن  سے باپ کے سوائے کسی اور کی صورت  سے واقف نہ تھی اِس لڑکی  کے واسطے باپ کے بھدٔے بھدٔے  ہاتھ  اور سخت  چہرا مثل  ماں کے نرم ہوگئے  اُسکی  پرورش کےواسطے مرد عورت  اور کھلانے اور بہلانے کو لڑکا  بنگیا۔ وہ اپنے باپ کو بہت پیار کرتی  اور ہر صبح اُسے  غار  میں  کہ جسکی تہہ وہ کسی  طرح نہیں دیکھ سکتی گھستے دیکھ کر بہت ڈرتی ۔ ایک دن خوش مزاج کان کن نے عمیق اور تاریک غار  کو جسمیں اُسکی نظر کچھ کام نہیں  کر سکتی  دیکھکر ڈری اور یا بہت سی چلاّ کر بھاگی۔ اسیوقت  سے  اُسنے خیال  کرنا شروع کیا کہ  میرا باپ ہر روز  اس میں  گھستا  ہے شائد  کسی دن اس میں سے  نہ نکلے ۔ ایک دن جب مچلی نے اپنی عادت کے مطابق اُسکو اپنی گود میں چومہ  دینے کو لیا تو وہ زور سے اپنے  باپ کے گلے  لپٹ  گئی اور ڈرتے اور کانپتے  ہو ئے  نرم  آواز  سے پوچھا  کہ اے باپ کیا اس غار میں  کسیطرح کا خوف  اور خطرہ  تو نہیں ۔ باپ نے کہا  بیشک  کچھ خوف نہیں  اے چھوٹی ڈر پوک لڑکی  پھر لڑکی نے کہا کہ شائد آپ  اُسمیں  مر جاوا۔ تب مچلی نے ہنسکر کہا کہ چپ رہ میں اپنے مرنے سے پہلے  بتا دونگا۔ لڑکی نے کہا تو خیر اے باپ شام  تک  خدا آپکا  حافظ  ہو ( اُسکے لئے باپ کا ہر ایک لفظ  سچی خوشی  کی  خبر تھی) اور کامل تسکین اور اعتبار سے  مدرسے کو بھاگ گئی پر اُس تاریک  و خوفناک  غار کی یاد جسے اُسنے  دیکھا تھا دل سے نہیں بھولتی  تھی صبح  سے شام تک  اُسے یہی فکر اور اندیشہ رہتا کہ شائد  کسی دن اس اندھیرے  غار  سے میرا باپ زندہ نکلے یا نہ  نکلے  آیندہ  کا حال  کو ن  جانتا ہے۔ ایک دن کھان میں آگ لگ گئی خبر یا نے ہی فوراً کھان کے سب کارخانے  خالی ہو گئے  خوف زدہ لوگ سب طرف  سے آنکر اکھٹے  ہوئے  اور یہی ایک عام سدا  سننے میں آتی تھی کہ دیکھئے اپن زندہ مدفوں  ہو وہاں میں سے کتنے زندہ نکلیں  اُسوقت وہ چھوٹی لڑکی مدرسہ میں تھی اُسکو اسبات  کی کچھ خبر نہ تھی ما سوا اسکے اگر کوئی  اپس سے بیان بھی کرتا تو کیا وہ  بیچاری چھوٹی لڑکی سمجھ  سکتی کہ کھان میں کسیطرح  آگ  لگا  کرتی ہے ۔ نہیں ۔  البتہ وہ اپنی عمر کے مطابق اتنا تو سمجھ سکتی کہ موت کیا  چیز ہے۔ بچے بیجان یا زخمی  جسموں کو دیکھکر سمجھ سکتے  کہ اُنکی   کیسی حالت  ہے۔ اُس دن شام کو جب وہ لڑکی  دستور  کے مطابق اپنے باپ  سے ملنے کو آئی  تو کھان   جت منُہہ پر ایسے مردہ اور خون  آلودہ   لاشوں  کا ڈھیر تھا وہ اُنکو  دیکھکر کچھ دیر تک  تو حواس  باختہ رہی  پھر ہوش میں  آکر اُس  نے اُن لوگوں  کو  جو اکثر  اسکو پیار کرتے اور چومہ دیتے تھے پہچانا کہ وے  زندہ  کھان میں اترے تھے  اب کھان سے مردہ نکالے گئے۔ پھر وہ اس خیال  سے کہ شائد  میرا باپ بھی اسیطرح  مردہ نکلے پریشان ہوئی۔ وہ سب لاشوں کو جو لوگوں نے کھان  سے نکالیں اور دوڑ کر دیکھتی اور باپ باپ  پکارتی  پھری اور بہتیرے  لوگ بھی روتے اور باپ باپ پکارتے تھے۔مگر اُسکی مانند کوئی نہ روتا تھا  اوروں کو لوگوں نے پھیلا کر واپس  کیا پر  اُسے کو ئی نہ لوٹ سکا  بلکہ اُنہوں نے اس بیچاری لڑکی کو اجازت دی کہ لاشوں  میں اپنے باپ کو ڈھونڈے وہ بعض وقت  مایوس اور اُداس  ہو کر  کھڑی ہو جاتی  اور سوچتی کہ شائد میں اسکو نہیں پہچانتی کہ جس کو ڈھونڈتی  ہوں۔ آخر اُسکو اپنے  باپ کا قول یاد آیا  تب اُسکو کچھ امید ہو ئی  اور تسلیّ پذیر  ہو کر  اپنے  باپ کو زندوں میں ڈھونڈنے لگی بلکہ اس نے لوگوں  سے بھی کہا کہ میرا باپ دکھائی نہیں دیا۔ ساٹھ (۶۰) کان کنوں  میں سے جو صبح کو کھان میں  کام کرنے کو اُترے تھے  پنتالیس (۴۵) زندہ واپس  آئے اور ۱۴ مردہ  صرف ایک آدمی  کو کھوجنا باقی تھا اور وہ مچلیؔ تھا۔ اُس لڑکی نے لوگوں کو مجبور  کیا  تو اُنہوں نے یہہ ماجرا اُس سے صاف صاف بیان کیا جب وہ سب کچھ سُن  اور سمجھ  چکی تو  تالی بجائی گو یا  کہ لوگوں  نے  اُسکو کہا کہ  تو اپنے باپ کو پھر دیکھیگی ہاں اُسنے سچ مچ یقین کیا کہ میں اپنے  باپ کو  پھر دیکھونگی۔ اتفاقاً اُسے یاد آیا جو اُسکے باپ نے ایک دن صبح کو اسے کہا تھا کہ میں نہ مرنگا جب تک تمھیں  بتلا نہ دوں۔ پس اُسے یقین دلانے کو کہ تیرا باپ زندہ ہے کسی اور بات کی ضرورت نہ تھی بچوںّ کا اعتقاد  مضبوط ہو کرتا ہے انکے دل سے کیس بات کا خیال نکال دینا آسان کا م نہیں۔ دوسرے دن  وہ رات بھر وہیں رہے  لوگوں نے بہت کوشش کہ اسکو سمجھاویں کہ جو کچھ کرنا تھا ہم کر چکے  اور تو اپنے باپ کو پھر نہ دیکھیگی کیونکہ ہم نے اسکو کھان کے سب کمروں اور کونوں میں خوب تلاش کیا پر اپسے نہ پایا  اُس لڑکی نے اپنا سر ہلایا اور رو کر کہا کہ میرے باپ کو ڈھونڈو پر لوگوں نے اسکی بات کا زرا بھی خیال  نہ کیا کیونکہ وے  ۴۰۔ گھنٹوں تک اُسکی تلاش کرنے میں  ہر طرح کی کوشش کر چکے تھے بیشک اسکا گم ہوجاتا ایک عجیب بات تھی اُنہیں  مناسب تھا کہ مچلی کو زندہ یا مردہ تلاش کر نے  پر اُنہوں  نے کیا۔ چیف انجنیر  صاحب نے خود اُسکی تلاش کا حکم دیا اور لوگوں  نے کھان  کا ہر ایک چھوٹے سے چھوٹا کمرہ اور خلوت گاہ خوب تلاش کیا آخر  سب متفق الرائے ہو ئے کہ اب اُسکی تلاش موقوف کریں کیونکہ وہ بیچارہ کان کن کھان کے زور سے ڈگنے اور اُلٹ پلٹ ہونے میں کسی جگہ دب گیا اگر چہ وہ اسکی کیفیت نہیں بیان کر سکتے کہ یہہ کیونکر ہوا جیسا کہ جنگ میں گم گشتہ لوگ مردوں میں شمار کئے جاتے ہیں ۔ ۴۸۔ گھنٹے تک سید مازل پیا بغیر تھکاؤ کے منتظر  رہی جب کوئی آدمی کھان میں سے نکلتا تو وہ اسکو دیکھنے جاتی اور پہچانکر کہ یہہ وہی نہیں جسکو میں ڈھونڈتی ہوں رنج سے پچھاڑ کھا کر گر پڑتی اور ذار ذار روتی۔  لوگوں نے کوشش تو کی  اسکو گھر واپس کریں  پر وہ ایسے زور سے چلائی کہ انہوں نے اُسے وہیں رہنے دیا اور اُنہوں  نے یہہ بھی  دریافت کیا کہ کمزوری اسپر غلبہ کرتی جاتی ہے۔ اُس کمزور کو ایسے رنج مین کہان سے طاقت ملتی تھی؟ یہہ سوال خدا سے پوچھنا  چاہئے  کیونکہ یہہ اُنکے بھید میں تیرے دن بھی وہ لڑکی کھان کے دروازہ پر رہی تب  چیف انجنیر  صاحبنے کہا کہ اب ہم اُسکا  جھگڑا  ختم  کروینگے اور اُس پا س جا کر  کہا کہ ہوش میں  آکیا تو اپنے باپ کو ڈھونڈتی ہے افسوس  وہ بیچارہ تو مر گیا لڑکی نے کہا کہ نہیں اور لفظ  نہیں  پر ایسا زاور دیا کہ  اگر وہ مرتا تو پہلے مجھے بتا دیتا۔ وہ بیچاری لڑکی انجنیر صاحب  پر کُڑ کُڑائی  تو اُسنے حکم  دیا کہ اسکو یہاں سے لیجاؤ پر وہ لڑکی مایوسی  سے روتی ہوئی انجنیر  صاحب سے لپٹ گئی اور کہا کہ میرا باپ  نہیں مرا  میں کھان میں اُتروں  گی اور اُسے ڈھونڈونگی۔ پر اُنہوں نے  لڑکی کو وہاں سے  مدرسے لیجا کر ایک سخت نگہبان کے سپرد کیا تاکہ  حفاظت سے رکھے ایک گھنٹہ کے بعد وہ پھر کھان پر پہنچی  اور انجنیر صاحب  کے پاؤں  پکڑ  کے پھر اسیطرح  کہا کہ میں  کھان  میں اُتر  کر اُسے تلاش کروں گی  انجنیر صاحب چونکہ  رحم دل آدمی تھا اُسپر  ترس کھا کر کہا کہ شائد وہ اپنی آنکھوں سے دیکھیگی تو یقین کرے گی کیونکہ اگر اُسکے رنج کا جوش  دیر تک اسی طرح رہا تو مر جا ئیگی  اور اُسے گود میں لیکر پنجرے  میں چڑھ بیٹھا اور اُتارنے والے  کو حکم دیکر  وے کھان میں اُتر گئے۔ آٹھ برس کی لڑکی اور اس تاریک غار میں اُترنا کہ جسکی یاد ہی سے ڈرتی  تھی۔ دیکھو وہ اپنے باپ کو کیسا پیار کرتی تھی جب اُسنے آپ کو اندھیرے میں پایا تو کانپی اور جانا کہ  کہ اُسکے  نیچے فراخ غار ہے جہاں سے بھاری ہوا نکلتی اور اُسکا  دم گھونٹتی  ہے انجنیر صاحب نے دریافت کیا کہ وہ گھبرا کر مجھ سے لپٹی جاتی ہے اور دو قطرے  آنسہو بھی  اسکے کاندھے پر گرے۔  جب کھان کی تہ پر پہنچ  گئے تو لڑکی نے اُسکو  چھوڑ دیا زمین  پر کود کر باپ باپ پکارتی  ہوئی چلی۔ دو گھنٹو ں  تک وہ کھان کے کمروں میں اپنے جان پہچانوں سے پوچھتی اور کھان کی دیواروں کے شگافوں میں دیکھتی اور باپ باپ پکارتی پھری  انجنیر صاحب  جو مشکل سے اُسکے ساتھ گیا تھا اُسے وہی بات بیس (۲۰)  بار سمجھاتے سمجھاتے تھک گیا تھا کہ کھان میں کیونکر اور کہاں آگ لگی اور لاشوں  کی تلاش  کرنےمیں کسقدر کوشش کی گئی پر وہ لڑکی بار بار اپنے باپ کی بابت پوچھتی اور کہتی تھی کہ وہ زندہ ہے اُسے ڈھونڈھو ۔ وہ وہیں رہتی جیسا کہ کھان کے منُہہ پر تین دن تک رہی اگر زبردستی اُسے باہر  نکالتے۔ انجنیر صاحب نے اسکو مدرسے واپس پہنچانے کا حکم دیا اور یہہ بھی کہا کہ اگر وہ کھان پر پھر آوے تو اُسے کھان میں مت اُترنے دو تمام تدبیریں اپسکے واسطے بڑی احتیاط سے کی گئیں۔ دوسرے دن انجنیر صاحب  اس لڑکی سے بیفکر ہو کر کھان میں لوگوں کا کام دیکھتا پھرتا تھا تو کیا دیکھتا ہے کہ میڈ  مازل پپا اُسکے کوٹ  کا  دامن پکڑ  کر کھینچتی ہے۔ وہ مدرسہ سے پھر بھاگ آئی ۔ لوگوں نے اُسکو کھان کے منُہہ پر سے ہٹایا اور جب اُسے  معلوم ہوا کہ کو ئی  اُسکی  خاطر حکم عدولی  نہیں کرنا  چاہتا تو  کوئی نکالنے کی ایک خالی  گاڑی  میں  چھپکے گھس بیٹھی اور یوں کھان میں اتر گئی اُسنے جاتے ہی یہہ سب ماجرہ انجنیر صاحب  سے بیان کر کے معافی حاصل  کی اور پانچ منٹ کے بعد اُسنے اُنپے باپ کی تلاش کرنا شروع کیا پہلے دن  کیطرح کامل امید سے اُسنے کھان کی سب دیواروں  کو دیکھا ۔ بغیر  مایوسی اور تھکاؤ کے اُس نے ایک ایک جگہ کو بیس (۲۰)  بار دیکھا بیچارے  کان کن رحم دلی سے اُسکی طرف دیکھتے اور اپنا کندھا ہلا کر کہتے  ہائے بیچاری کا باپ۔ یہہ چھوٹی سی لڑکی اب تک اپنے باپ کو ڈھونڈتی  ہے۔ یکایک اُنہوں نے اُسے  پریشان اور بیدم بھاگتے اور چلاتے سنا کہ میرا باپ وہاں ہے ایک کان کن نے پوچھا  کہاں۔ ایک لمحہ میں سبھوں کو خبر ہو گئی کان  میں ہلڑ مچ گیا لڑکی نے  تاکیداً  کہا کہ میں  نے ایک سوراخ میں نیلے کتان کا ٹکرا  دیکھا جو میں نکال نہ سکی  کیونکہ وہ بہت بھاری کوئلے کی دیور کے نیچے  دبا ہے۔ اُنہوں نے پھر پوچھا کہ کہاں وہ اُنکے  دکھا  نیکو  واپس  لوٹی اور سب لوگ اسکے پیچھے  چلے کبھی ہچکچاتی  کبھی ٹھہر جاتی اور کبھی آگے چلتی پر وہ جگہ اُسے نہ ملی  کیونکہ کوئلے کیسب دیواریں خار اور کمرے یک سان  معلوم دیتے تھے تو بھی اُسے یقین تھا کہ اُسنے وہ نیلا کتان دیکھا ۔ جہاں وہ نیلا کتان  تھا وہیں  بیشک وہ آدمی زندہ تھا اور وہ آدمی  اسی کا باپ تھا پر اُسنے نہ پایا۔ اس بیفائدہ تلاش  سے تھک کر اور سمجھکر کہ بیچاری لڑکی اپنے غم میں پریشان ہے ہر ایک اُسے چھوڑ کر اپنے اپنے کام کو گیا۔ جب نیک  دل پھاڑنے والی آواز نے اُنہیں  پھر بلایا تو بسبب جلدی  کے اُنہوں نے کھنتی اور گدار بھی ساتھ نہ لی وہ  چھوٹی لڑکی بیدم ہو کر چلائی  ( جس حال کہ اسکی آنکھ اور منُہہ کھلے اور اُسکے ہاتھ دیوار کے ایک سوراخ میں پڑے ہوئے تھے) کہ مجھے مل گیا مجھے  مل گیا انہوں نے اُسے  ہٹا کر دیکھا تو تحقیق  نیلا کتان  تھا تب خیال  کیا کہ ضرور یہاں ایک آدمی ہے۔ اُنہوں نے کھودنا شروع  کر دیا اور زور زور  سے کداریاں مار کر آنکھ کے ایک جھپکے میں دیوار  گرادی اور اُس پُلاڑ میں ایک آدمی پڑا  دیکھا یہہ مچلی پیرن تھا وہ اُسمیں تین دن اور چار رات رہا سب خوشی سے چلانے لگے پر وہ لڑکی سب سے زیادہ عجیب آواز سے چلائی تھی وہ ایک ہی چھال  میں اُسپر جا پڑی اور نصف وحشی کیطرح زور سے لپٹ کر رونے اور باپ باپ پکارنے لگی۔ بیچارہ مچلی شکستہ حال تھا خوراک و ہوا کی تنگی کے سبب دُبلا ہو گیا تھا وہ زرا سی دیر ہوش میں آکر پھر بیہوش ہو گیا پر زندہ تھا وہ لڑکی سچ کہتی تھی کہ میرا باپ مجھے  بتائے بغیر نہیں مرنیکا۔ مچلیکو اس لڑکی کی یاد سے کہ میری  خبر لینوالی اوپر  زندہ ہے دُگنی  طاقت حاصل ہوتی تھی اور اُسنے موت کو جیت لیا۔ آٹھ دن کے بعد وہ بستر سے پھر اُٹھا پر بہت  دُبلا تھا لیکن تندرست اور کام کر نیکو طیار۔ اُس دن کی شام کو جب مچلی اپنا کام پھر شروع  کرنے کو تھا سب کان کنوں نے ملکر میڈ مازل پپا  کی بڑی دعوت کی اسکی تعظیم  کے واسطے مجلس  میں صدر جگہ رکھی گئی جب وہ اپنے باپ کے ساتھ کمرے میں داخل  ہوئی تو بلند آواز سے آفرین پکار کر اور تالی بجا کر اُسکی تعظیم  کی۔ لوگ اُسے پیار کرتے اور خوش ہوتے  تھے اور اُس چھوٹی ملکہ کو  جو جو کار کہتے تھے۔ تم جانتے ہو کہ اُس  چھوٹی ملکہ نے کسیطرح مسکراتے اور تالی بجاتے ہوئے ان سب بوتونکا جواب دیا صرف اُس نے کہا ۔ باپ۔ مگر جس لہجہ سے اُسنے  کہا اُس کابیان کرنا  دشوار  ہے مگر وے سب رحم دل لوگ  جنہوں نے کبھی ایک آنسو بھی نہ بہایا تھا تمہیں بتاو ینگے کہ اُس رات کسیقدر روئے۔