تحریف قرآن

Errors in the Quran

Published in Nur-i-Afshan July 6th, 1876
By. Rev. Elwood Morris Wherry
(1843–1927)

Raja Bazaar, Rawalpindi, Pakistan

جس وقت محمدی انجیل کی تعلیم سُنتے ہیں  تو کہتے ہیں بلکہ اِسبات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ اِس انجیل میں تبدیلی ہو گئی ہے اور ہمارا قرآن صحیح اور درست ہے مگر جب ہم پوچھتے ہیں کہ کس وقت انجیل کی تبدیل ہوئی اور کن لوگوں نے اُسکو تبدیل کیا اور اُنکا مطلب کیا تھا اور کون سی باتیں  ہیں جو پہلے اور طرح تھیں اب اسطرح بدل گئیں اور اصل انجیل کہاں ہے اور پھر کیا سبب ہے کہ کئی ملکوں اور کئی فرقونکے عیسائی اِس انجیل متبدّلہ خراب کی ہوئی کو مانتے ہیں بلکہ اُسکو اپنی نجات کی خوشخبری سمجھتے ہیں تو اِن سوالوں کا ایک بھی جواب معقول  نہیں دے سکتے اور نہ کسی دلیل سے اِس دعوا کو ثابت کر سکتے ہیں ۔ پس جو کوئی تھوڑی سی عقل بھی رکھتا ہے وہ جانتا ہے ہے کہ دعویٰ  بغیر دلیل کے باطل ہوتا ہے عیسائی لوگ بھی یہہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ قرآن تبدیل ہوگیا ہے مگر اُنکا دعویٰ بے دلیل نہیں وہ اِس دعویٰ پر کئی  دلیلیں رکھتے ہیں چنانچہ پادری فنڈر صاحب نے اِس دعویٰ کو میزان الحق میں چند دلیل سے ثابت کیا ہے ہم اِن دلیلونکو  زیل ہیں لکھتے ہیں  جو حق جوئی منصف مزاج ہیں وہ  خود مطالعہ فرما کر انصاف  کریں۔

پوشیدہ نہ رہے کہ مسیحی لوگ  بطریق اولیٰ کہہ سکتے ہیں کہ قرآن نے تحریف پائی ہے اور یہہ قرآن جواب محمدیوں میں مروج ہے اصل  قرآن نہیں ہے کیونکہ پہلے تو اُسے ابوبکرنے اکھٹا اور مرتب کیا پھر  عثمان نے دوبارہ ملاحظہ کر کے اصلاح  دی ہے حالانکہ شیعہ لوگ ان اشخاص کو کافر اور بیدین جانتے  اور کہتے ہیں کہ عثمان نے کئی سورتوں کو جو علی کی شان میں تھیں قرآن سے نکال ڈالا اور فانی کتاب  دابستان میں یوںمسطورہے کہ کہتے ہیں کہ عثمان  نے قرآن  کو جلا کر بعض سورتیں جو علی اور اُسکی اولاد کی شان میں تھیں نکال ڈالیں اور کتاب عین الحیات کے  ۲۰۸  ورق کے ۲ صفحہ  میں ایک حدیث مرقوم ہے کہ امام جعفر نے فرمایا ہے کہ سورۃ اخراب میں قریش کے اکثر مرد و عورت کی برُائیاں تھیں اور وہ سورت سورۃ بقر سے بڑی تھی لیکن کم کئی گئی اور مشکلات المصابیح میں جو اہل سنت کی معتبر و مشہور کتاب ہے کتاب فضایل القران کی پہلی فصل میں لکھا ہے کہ ۔

راوی:عبداللہ بن یوسف , مالک ابن شہاب , عروہ بن زبیر , عبدالرحمن بن عبدالقاری

  حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا مَالِکٌ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدٍ الْقَارِيِّ أَنَّهُ قَالَ سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ سَمِعْتُ هِشَامَ بْنَ حَکِيمِ بْنِ حِزَامٍ يَقْرَأُ سُورَةَ الْفُرْقَانِ عَلَی غَيْرِ مَا أَقْرَؤُهَا وَکَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْرَأَنِيهَا وَکِدْتُ أَنْ أَعْجَلَ عَلَيْهِ ثُمَّ أَمْهَلْتُهُ حَتَّی انْصَرَفَ ثُمَّ لَبَّبْتُهُ بِرِدَائِهِ فَجِئْتُ بِهِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ إِنِّي سَمِعْتُ هَذَا يَقْرَأُ عَلَی غَيْرِ مَا أَقْرَأْتَنِيهَا فَقَالَ لِي أَرْسِلْهُ ثُمَّ قَالَ لَهُ اقْرَأْ فَقَرَأَ قَالَ هَکَذَا أُنْزِلَتْ ثُمَّ قَالَ لِي اقْرَأْ فَقَرَأْتُ فَقَالَ هَکَذَا أُنْزِلَتْ إِنَّ الْقُرْآنَ أُنْزِلَ عَلَی سَبْعَةِ أَحْرُفٍ فَاقْرَؤا مَا تَيَسَّرَ مِنْهُ

عبداللہ بن یوسف، مالک ابن شہاب، عروہ بن زبیر، عبدالرحمن بن عبدالقاری سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے عمر بن خطاب کو کہتے ہوئے سنا کہ میں نے ہشام بن حکیم بن حزام کو سورت فرقان اس کے خلاف پڑھتے ہوئے سنا، جس طرح میں پڑھتا تھا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ کو پڑھایا تھا اور قریب تھا، کہ میں ان پر جلدی کر جاؤں، مگر میں نے صبر کیا یہاں تک کہ وہ نماز سے فارغ ہوئے پھر میں ان کے گلے میں چادر ڈال کر ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لے کر آیا اور عرض کیا، کہ میں نے ان کو اس طریقہ کے خلاف پڑھتے ہوئے سنا جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو پڑھایا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ اس کو چھوڑ دو، پھر ان سے فرمایا کہا پڑھ (انہوں نے پڑھا) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسی طرح آیت نازل ہوئی ہے پھر مجھ سے فرمایا کہ پڑھو، میں نے پڑھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسی طرح نازل ہوا ہے، قرآن سات طرح پر نازل ہوا ہے جسطرح تم کو آسانی ہو پڑھو۔یہ حدیث متفق علیہ ہے  اور عبارت مسلم کی ہے۔

صحیح بخاری ۔ جلد اول ۔ جھگڑوں کا بیان ۔ ۔ حدیث ۲۳۱۵

پھر تیسری فصل میں مرقوم  ہے۔

راوی:محمد بن عبیداللہ , ابوثابت , ابراہیم بن سعد , ابن شہاب , عبید بن سباق , زید بن ثابت

  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ أَبُو ثَابِتٍ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُبَيْدِ بْنِ السَّبَّاقِ عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ بَعَثَ إِلَيَّ أَبُو بَکْرٍ لِمَقْتَلِ أَهْلِ الْيَمَامَةِ وَعِنْدَهُ عُمَرُ فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ إِنَّ عُمَرَ أَتَانِي فَقَالَ إِنَّ الْقَتْلَ قَدْ اسْتَحَرَّ يَوْمَ الْيَمَامَةِ بِقُرَّائِ الْقُرْآنِ وَإِنِّي أَخْشَی أَنْ يَسْتَحِرَّ الْقَتْلُ بِقُرَّائِ الْقُرْآنِ فِي الْمَوَاطِنِ کُلِّهَا فَيَذْهَبَ قُرْآنٌ کَثِيرٌ وَإِنِّي أَرَی أَنْ تَأْمُرَ بِجَمْعِ الْقُرْآنِ قُلْتُ کَيْفَ أَفْعَلُ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ عُمَرُ هُوَ وَاللَّهِ خَيْرٌ فَلَمْ يَزَلْ عُمَرُ يُرَاجِعُنِي فِي ذَلِکَ حَتَّی شَرَحَ اللَّهُ صَدْرِي لِلَّذِي شَرَحَ لَهُ صَدْرَ عُمَرَ وَرَأَيْتُ فِي ذَلِکَ الَّذِي رَأَی عُمَرُ قَالَ زَيْدٌ قَالَ أَبُو بَکْرٍ وَإِنَّکَ رَجُلٌ شَابٌّ عَاقِلٌ لَا نَتَّهِمُکَ قَدْ کُنْتَ تَکْتُبُ الْوَحْيَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَتَبَّعْ الْقُرْآنَ فَاجْمَعْهُ قَالَ زَيْدٌ فَوَاللَّهِ لَوْ کَلَّفَنِي نَقْلَ جَبَلٍ مِنْ الْجِبَالِ مَا کَانَ بِأَثْقَلَ عَلَيَّ مِمَّا کَلَّفَنِي مِنْ جَمْعِ الْقُرْآنِ قُلْتُ کَيْفَ تَفْعَلَانِ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَبُو بَکْرٍ هُوَ وَاللَّهِ خَيْرٌ فَلَمْ يَزَلْ يَحُثُّ مُرَاجَعَتِي حَتَّی شَرَحَ اللَّهُ صَدْرِي لِلَّذِي شَرَحَ اللَّهُ لَهُ صَدْرَ أَبِي بَکْرٍ وَعُمَرَ وَرَأَيْتُ فِي ذَلِکَ الَّذِي رَأَيَا فَتَتَبَّعْتُ الْقُرْآنَ أَجْمَعُهُ مِنْ الْعُسُبِ وَالرِّقَاعِ وَاللِّخَافِ وَصُدُورِ الرِّجَالِ فَوَجَدْتُ فِي آخِرِ سُورَةِ التَّوْبَةِ لَقَدْ جَائَکُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِکُمْ إِلَی آخِرِهَا مَعَ خُزَيْمَةَ أَوْ أَبِي خُزَيْمَةَ فَأَلْحَقْتُهَا فِي سُورَتِهَا وَکَانَتْ الصُّحُفُ عِنْدَ أَبِي بَکْرٍ حَيَاتَهُ حَتَّی تَوَفَّاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ ثُمَّ عِنْدَ عُمَرَ حَيَاتَهُ حَتَّی تَوَفَّاهُ اللَّهُ ثُمَّ عِنْدَ حَفْصَةَ بِنْتِ عُمَرَ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ اللِّخَافُ يَعْنِي الْخَزَفَ

محمد بن عبیداللہ ، ابوثابت، ابراہیم بن سعد، ابن شہاب، عبید بن سباق، زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مقتل یمامہ میں میرے پاس ایک آدمی بھیج کر بلوایا، اس وقت حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی موجود تھے، حضرت ابوبکر نے کہا کہ میرے پاس عمر آئے اور کہتے ہیں کہ یوم یمامہ میں بہت سے قراء شہید ہوگئے ہیں اور مجھے ڈر ہے کہ تمام جگہوں میں کثیر تعداد میں قرا کے قتل سے قرآن کا کثیر حصہ ضائع نہ ہوجائے۔ اس لئے میں مناسب سمجھتا ہوں کہ آپ قرآن جمع کرنے کا حکم دیں، میں نے کہا کہ میں کیوں ایسا کام کروں جس کو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کیا، عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہنے لگے کہ خدا کی قسم یہی بہتر ہے اور عمر مجھ سے باربار کہنے لگے یہاں تک کہ اللہ نے میرا سینہ اس کے لئے کھول دیا جس کے لئے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سینہ کھول دیا تھا، اور میں نے بھی اس کے متعلق وہی خیال کیا جو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خیال کیا، زید کا بیان ہے کہ حضرت ابوبکر نے کہا کہ تو عقلمند جوان ہم تم پر کسی قسم کا شبہ نہیں کرتے اور تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے وحی لکھا کرتے تھے، اس لئے قرآن کو تلاش کرو اور اس کو جمع کرو، زید کا بیان ہے کہ خدا کی قسم اگر مجھے کسی پہاڑ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ اٹھانے کی تکلیف دی جاتی تو یہ اس جمع قرآن کی تکلیف سے زیادہ وزنی نہ ہوتی، جو مجھے دی گئی تھی، میں نے کہا کہ تم دونوں کیونکر ایسا کام کروگے، جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کیا، حضرت ابوبکر نے کہا کہ خدا کی قسم یہی بہتر ہے پھر برابر مجھے اس پر آمادہ کرتے رہے، یہاں تک کہ اللہ نے میرا سینہ اس چیز کے لئے کھول دیا جس کے لئے حضرت ابوبکر و عمر کا سینہ کھول دیا تھا، اور میں نے بھی اس میں یہی مناسب خیال کیا چنانچہ میں قرآن تلاش کرنے لگا، اور اس کو کھجور کے پتوں، کھالوں، اور ٹھیکریوں اور لوگوں کے سینوں میں جمع کرنے لگا، میں نے سورۃ توبہ کی آخری آیت لَقَدْ جَا ءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ ۹۔ التوبہ : ۱۲۸) ابی خریمّہ  انصاری کے سوا کسی کے پاس لکھی  ہوئی نہ پائی ، میں نے اس کو اس کے آخر میں شامل کردیا، اور یہ صحیفے حضرت ابوبکر کے پاس ان کی زندگی بھر رہے یہاں تک کہ اللہ نے ان کو اٹھا لیا، تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ان کی زندگی بھر رہے، یہاں تک کہ جب اللہ نے ان کو اٹھا لیا تو حضرت حفصہ بنت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس رہے، محمد بن عبیداللہ نے کہا کہ لخاف سے مراد ٹھیکریاں ہیں۔

صحیح بخاری ۔ جلد سوم ۔ احکام کا بیان ۔ حدیث ۲۱۰۱

قرآن جمع کرنے کا بیان۔

راوی: موسیٰ , ابراہیم , ابن شہاب , انس بن مالک

  حَدَّثَنَا مُوسَی حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ أَنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ حَدَّثَهُ أَنَّ حُذَيْفَةَ بْنَ الْيَمَانِ قَدِمَ عَلَی عُثْمَانَ وَکَانَ يُغَازِي أَهْلَ الشَّأْمِ فِي فَتْحِ إِرْمِينِيَةَ وَأَذْرَبِيجَانَ مَعَ أَهْلِ الْعِرَاقِ فَأَفْزَعَ حُذَيْفَةَ اخْتِلَافُهُمْ فِي الْقِرَائَةِ فَقَالَ حُذَيْفَةُ لِعُثْمَانَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَدْرِکْ هَذِهِ الْأُمَّةَ قَبْلَ أَنْ يَخْتَلِفُوا فِي الْکِتَابِ اخْتِلَافَ الْيَهُودِ وَالنَّصَارَی فَأَرْسَلَ عُثْمَانُ إِلَی حَفْصَةَ أَنْ أَرْسِلِي إِلَيْنَا بِالصُّحُفِ نَنْسَخُهَا فِي الْمَصَاحِفِ ثُمَّ نَرُدُّهَا إِلَيْکِ فَأَرْسَلَتْ بِهَا حَفْصَةُ إِلَی عُثْمَانَ فَأَمَرَ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ وَسَعِيدَ بْنَ الْعَاصِ وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ فَنَسَخُوهَا فِي الْمَصَاحِفِ وَقَالَ عُثْمَانُ لِلرَّهْطِ الْقُرَشِيِّينَ الثَّلَاثَةِ إِذَا اخْتَلَفْتُمْ أَنْتُمْ وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ فِي شَيْئٍ مِنْ الْقُرْآنِ فَاکْتُبُوهُ بِلِسَانِ قُرَيْشٍ فَإِنَّمَا نَزَلَ بِلِسَانِهِمْ فَفَعَلُوا حَتَّی إِذَا نَسَخُوا الصُّحُفَ فِي الْمَصَاحِفِ رَدَّ عُثْمَانُ الصُّحُفَ إِلَی حَفْصَةَ وَأَرْسَلَ إِلَی کُلِّ أُفُقٍ بِمُصْحَفٍ مِمَّا نَسَخُوا وَأَمَرَ بِمَا سِوَاهُ مِنْ الْقُرْآنِ فِي کُلِّ صَحِيفَةٍ أَوْ مُصْحَفٍ أَنْ يُحْرَقَ قَالَ ابْنُ شِهَابٍ وَأَخْبَرَنِي خَارِجَةُ بْنُ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ سَمِعَ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ قَالَ فَقَدْتُ آيَةً مِنْ الْأَحْزَابِ حِينَ نَسَخْنَا الْمُصْحَفَ قَدْ کُنْتُ أَسْمَعُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ بِهَا فَالْتَمَسْنَاهَا فَوَجَدْنَاهَا مَعَ خُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ الْأَنْصَارِيِّ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ فَأَلْحَقْنَاهَا فِي سُورَتِهَا فِي الْمُصْحَفِ

موسی ، ابراہیم، ابن شہاب، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت حزیفہ بن الیمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس پہنچے اس وقت وہ اہل شام و عراق کو ملا کر فتح آرمینۃ و آذربائیجان میں جنگ کر رہے تھے قرأت میں اہل عراق و شام کے اختلاف نے حضرت خزیفہ کو بے چین کردیا چنانچہ حضرت حزیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ اے امیرالمومنین! اس امت کی خبر لیجئے قبل اس کے کہ وہ یہود و نصاریٰ کی طرح کتاب میں اختلاف کرنے لگیں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت حفصہ کو کہلا بھیجا کہ تم وہ صحیفے میرے پاس بھیج دو ہم اس کے چند صحیفوں میں نقل کرا کر پھر تمہیں واپس کردیں گے حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے یہ صحیفے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھیج دیئے حضرت عثمان نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سعید بن عاص، عبدالرحمٰن بن حارث بن ہشام کو حکم دیا تو ان لوگوں نے اس کو مصاحف میں نقل کیا اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان تینوں قریشیوں سے کہا کہ جب تم میں اور زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں کہیں (قرآت) قرآن میں اختلاف ہو تو اس کو قریش کی زبان میں لکھو اس لئے کہ قرآن انہیں کی زبان میں نازل ہوا ہے چنانچہ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا یہاں تک کہ جب ان صحیفوں کو مصاحف میں نقل کرلیا گیا تو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وہ صحیفے حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس بھجوا دیئے اور نقل شدہ مصاحف میں سے ایک ایک تمام علاقوں میں بھیج دیئے اور حکم دے دیا کہ اس کے سوائے جو قرآن صحیفہ یا مصاحف میں ہے جلا دیا جائے ابن شہاب کا بیان ہے کہ مجھ سے خارجہ بن زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول نقل کیا کہ میں نے مصاحف کو نقل کرتے وقت سورت احزاب کی ایک آیت نہ پائی حالانکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ آیت پڑھتے ہوئے سنا تھا ہم نے اسے تلاش کیا تو وہ آیت مجھے حضرت خزیمہ بن ثابت انصاری کے پاس ملی (وہ آیت یہ ہے) ( مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَيْهِ الخ) ۳۳۔ الاحزاب : ۲۳) یعنی ایمانداروں سے آدمی ہیں جنہوں نے اللہ سے کیا ہوا وعدہ سچ کر دکھایا تو ہم نے اس آیت کو اس سورت میں شامل کردیا۔

صحیح بخاری ۔ جلد دوم ۔ فضائل قرآن ۔ حدیث ۲۲۲۳

اب مشکوۃ کی اِن حدیثوں سے کئی ایک باتیں ثابت ہوتی ہیں پہؔلے یہہ کہ خود محمدّ کے وقت میں ایک شخص نے ایک آیت کو ایسا اور دوؔسرے لیے اُسی آیت کو ویسا پڑھا تھا دوسرے یہہ کہ قرآن محمدّ کے وقت میں ایک جد بین جمع نہیں ہوا تھا بلکہ ابوبکر نے آیات کو جمع کرنیکا حکم دیا اگرچہ محمد سے اِس کام کیواسطے اُسکو حکم نہیں ملا تھا بلکہ صرف مصلحت کی راہ سے کیا تاکہ مبادا  آیات گم ہوجاویں ۔ تیسرؔے یہہ کہ عثمان نے خلافت کے تخت پر بیٹھکر جب دیکھا کہ لوگ پھر بھی قرآن کے پڑھنے میں فرق کرتے ہیں اور ڈراکہ قرآن میں آگے اور زیادہ خرابیاں نہ ہوں تو زید وغیرہ کو حکم دیا کہ قرآن کو دوبارہ صحیح اور سب آیات قریش کی زبان میں لکھیں ۔ چھوؔتھے  اُس نے سب اگلے نسخے جمع کر کے جلا دیئے  اور نئے نسخہ سے اور لکھوا کر سب جگہ بھیجدیئے اور اِسی طرح اُسکو مشہور کیا  اب ہم پوچھتے ہیں کہ عثمان نے کس واسطے اگلے سب نسخوں کو جلا ویا  اگر وہ نیا نسخہ جو اُس نے مشہور کیا اور اب مستعمل ہے اگلے  نسخوں سے مضمون اور الفاظ میں بعینہ برابر اور موافق تھا اور اُس نے  صرف آیات اور سورتوں ہی کی ترتیب اور ترکیب اور طور پر کی تھی تو کیا سبب تھا کہ اُن کو جلا دیا بلکہ لازم تھا کہ اگر سب کو نہیں  تو بعض کو تو  ضروری  رکھ چھوڑتا  تاکہ  اگر کوئی کہے کہ تمنے قرآن کو تغیّر  کر دیا اور اور بدل ڈالا تو اُن اگلے نسخوں کو اُسکے سامنے رکھے اور کہے کہ لو  لیے  اگلے نسخے ہیں  دیکھو اور مقابلہ کرو تاکہ تمہیں معلوم ہو کہ یہہ قرآن  مضمون  اور الفاظ میں اگلے نسخوں سے موافق اور مطابق ہے لیکن اِس بات سے کہ عثمان نے ایسا  نہیں کیا  بلکہ سب اگلے نسخوں کو  جلا دیا تو کچھ اور گمان نہیں ہوتا مگر یہی کہ اگلے نسخوں میں سے ہر ایک اور ہر طرح  کا تھا یا یہہ کہ جیسا شیعہ  کہتے ہیں کہ اُس نے قرآن کو قصداً کم کیا اور بعض آیات میں تغیر  و تبدیل کی ہے ور اُس نسخہ کو جو  حفصہ پاس  تھا  اور عثمان نے اُسکو پھیر دیا  اُسکی  خبر کی کسی کو پھر نہ ملی اور نہ کسی نے اُسکو پھر دیکھا شاید عثمان نے بعد میں اُسکے جلادینے کا بھی حکم  دیا ہوگا اگر کسی محمدی پاس ہو تو اُسے ظاہر  کرے  تا کہ اب  کے قرآن کو اُس سے مقابلہ کریں اور معلوم ہووے کہ یہہ اُس  سے مطابق ہے کہ نہیں اب اُس صورت میں کہ شیعہ ایسا کہتے ہیں اور  نتیوں کی مشہور اور معتبر کتاب میں بھی ایسی باتیں لکھی ہیں  تو ہر صاحب فہم و شعورکے دل میں قرآن کے صحیح اور اصل ہونیکی  بابت  کلی ہوگی اگر محمدی ایسی باتیں  توریت و انجیل کی بابت مسیحیوں  کی مشہور  اور معتبر کتابوں سے نکال لاسکتے ہیں  تو البتہ اُنکا یہہ دعویٰ کہ کتب مقدسہ تحریف ہوئی ہیں  بیجا نہ ہوتا۔