شریعت الہی کا بیان

The Divine Law

Published in Nur-i-Afshan September 1873
By Rev. Elwood Morris Wherry
(1843–1927)

پچھلے پرچوں میں ہم زات و صفات خدا کا اور ابتری انسان کا بموجب کلام الہی  کے بیان کرچُکے اب ارادہ ہے کہ خدا کی شریعت کا تذکرہ کریں کیونکہ بغیر آنے سچےّ خیال شریعت کے آدمی انجیل کیطرف متوجہ نہیں ہو سکتا  بلکہ شریعت ہی  کی پہچان انجیل کی رہنمائی اور اسیواسطے  انکا واقف بہت ضروری ہے ۔ خدا کی شریعت میں ایک تو  ارائےشرایط سے راستباز ہو کے حصول زندگی جا ودانی اور دوسری طرف بغاوت اور نافرمانی سے موت ابدی کی پشیمانی ہے اور یہہ پہلی بات ہے جو خدا نے انسان کے سمجھنے کو عطا فرمائی  تاکہ ایسا نہ ہو کہ انجیل جو  گنہگار آدمی کو شریعت کے بچانے کا سبب ہے بالکل  سمجھ میں نہ آوے اور جو مطابقت شریعت اور انجیل میں ہے پاک کتابوں کے ہر ہر صفحہ میں مذکورہے لیکن انسان بباعث اپنی سخت دلی  کے یہہ سمجھتے رہے کہ وہ شریعت صرف یہودیوں کے لیے تھی بلکہ بعضے مسیحی لوگ  بھی ایسا سمجھتے ہیں۔ اِس کج فہمی کوزایل کرنے کے لیے ہم کہتے ہیں  کہ وہ اخلاقی  شریعت  روحانی ہے جس کی اطاعت کے فواید ہر فرقے اور ہر عہد کے لوگ  یکساں اُٹھا سکتے ہوں اور اُسکی نافرمانیکے نقصان بھی ہر ایک جگہ میں مشہور ہوں ۔ اور شرایع جو دنیا کے مختلف مذاہب میں مروج ہیں اور اُنکے بانی انسان ہیں  اسی بات میں قاصر ہیں کہ وے ہر ایک شخص کی حاجت  برارنہیں ہیں اور نہ اندرونی خطا اور دلی نیت تک پہنچتے  ہیں  وے صرف اُن ظاہری کاموں  کو منع  Ten Commandments on Stone Tablet بتلاتے ہیں جن میں عام لوگوں کا نقصان ہو یا  جماعت میں تفرقہ پیدا کرتے ہوں لیکن خدا کی شریعت میں برعکس اُسکےاُنکے گناہوں کی سزا بھی جو صرف  دل ہی میں ہوتے ہیں اور ابھی ظہور میں نہیں آئے ہوتے معتین ہے۔ اگر کوئی کہے کہ شریعت  عقلی کا بھی ویسا ہی بندوبست ہے جیسا کہ روحانی شریعت کا اُسکے جواب میں ہم کہہ سکتے ہیں نہیں  کیونکہ عقلی شریعت کے بانی بہت باتیں موافق اُن دستورات اور تعلیمات کے مقرر کرتے ہیں جنسے وے واقف ہوتے ہیں۔ جب کہ وہ دستور و تعلیم  اصل میں بگڑ ے ہوئے انسان کےہی ہیں  تو ہرگز  کامل مقصود نہیں ہو سکتے بلکہ اکثر اوقات نقصان پذیر ہوتے ہیں خدا  کی شریعت  میں ایسی مشکلات ہرگز نہیں پائی جاتیں اور جو قانون قوموں  میں واسطے امن اور خوبی سلطنت کے مقرر ہوئے ہیں اکثر سخت اور خاص لوگوں کے لیے تکلیف رساں  ہوتے ہیں کیونکہ  وہ اور طرح کی بناہی نہیں سکتے۔ اِسواسّطے  جس میں قلت نقصان کی دیکھتے ہیں اُسی کو عمدہ سمجھکے مان لیتے ہیں۔ پر خدا کی شریعت ہر زماں و ہر مکان میں  عوام اور خواص کے لیے مفید ہے جس طرح لوگ اُسکو مانتے ہیں اُسی طرح خوشی حاصل ہوتی ہے۔  کوئی آدمی یہہ نہیں کہہ سکتا کہ اُس کے ماننے سے ہمارا کچھ ہرج ہوا نہ دولتمند نہ غریب جہانتک لوگ اپنا فایٔدہ ڈھونڈھتے ہیں اُسکا نقصان ہر گز نہیں پاوینگے ۔ اگلے زمانہ کے حکیموں نے انسان کے چال سنوار نے کے لیے چند قواعد مقرر کئے تھے چنانچہ اِس زمانے میں بھی اکثر مذاہب کی کتابوں کے پڑھنے سے معلوم ہوتے ہیں  لیکن کلّیہ اُن سبکا ایک طور پر ہے یعنے اُنہوں نے شہوتوں کےمارنے کے واسطے جسمانی  زہدّ مقرر کئے ہیں اور شجاعت کی تقویت کے واسطے گوناگوں  اُتقام اور تکبّر کو  پشتی دی ہے  پر خدا کے کلام میں ایسی باتیں نہیں پائی جاتی ہیں بلکہ ہر ایک قسم کے گناہ کی جڑ پر اُسکا  تبر ہے اگر کسی بدی کا انجام  نیکی بھی ہو تو اُسکو نیکی نہیں کہا ہے۔ ایک قسِم کا قانون جو خدا کے کلام  میں مندرج ہے یہودیوں کی رسوم کا قانون ہے۔ ایسی شریعتوں کو جب روحانی شریعت کے ساتھ مقابلہ کریں تو کئی درجے کم پائی جاوینگی اور سبب اسکا معقول ہے کیونکہ وہ رسمی شریعت خاص اُسی قوم اور اُسی زمانہ اور اُسی ملک کےلیے ہوتی ہے۔ پر روحانی شریعت رسم  اور ملک اور زمانے سے متعلق نہیں  ہوتی بلکہ اُسکی نسبت خدا کے ساتھ ہوتی ہے  جو سبکا خالق ہے  اور اُسکا قیام بھی مثل قیام  خداوند علی الدوام سوائے اُسکے وہ رسمی شریعت یسوع مسیح کے آنے پر دلالت کرتی تھی جیسے کسی شے کا سایہ ہوتا ہے  ویسے ہی وہ شریعت  یسوع مسیح کے آنے کا سایہ تھی جب کہ اُس سورج نے  طلوع کیا تو  سایہ معدوم ہو گیا۔

جب دس حکموں  کا خلاصہ جو پّتھر  کی دو تختیوں پر کھودے  ہوئے موسیٰ کہ معرفت بنی اسرائیل کو خدا نے عنایت  کئےتھے معلوم ہووے تب روحانی شریعت کا حال اچھی طرح  معلوم ہو سکتا ہے اُنکے حدود اور روحانی مطالب بہت ہی بیشمار ہیں کچھ اُنہیں  دس  باتونپر انحصار نہیں  بلکہ تمام توریت اور ساری انجیل میں انہیں کی تشریح ہے۔ چنانچہ پہلے حکم میں خدا یہہ چاہتا ہے کہ انسان کے دل میں  بدون شریک کے ایسی حکمرانی  کرئے جس سے جسمانی خوشی عزت دولت آرام  اُسکی نظر میں خوار  معلوم ہوویں دؔوسرے حکم میں خدا ہم پر اِس فرض کو واجب کرتا ہے کہ اُس کے اوصاف  سوائے اُس طرح  کی جو اُسنے  اپنی زبان مبارک سے اپنے  کلام میں فرمائے  دوسری طرح  تصور نہ کریں نہ اُسمیں ایک لفظ بڑھا ویں  اور نہ گھٹا ویں اور اُسکی عبادت بھی جس طرح اُسنے  مقرر کی ہے اُسی کریں اپنی طبیعت سے کوئی تعریف یا ایسی دعائیں جنمیں بت پرستی کی پائی جاوے نکریں۔  تیؔسرے حکم میں چاہتا ہے کہ ہم  اُسکے جلال کو اپنے دل میں جگہ دیکر کلام اور چال اور خیال میں ایسے رہیں  جسمیں غفلت اور بے عّزتی  اُسکے نام لینے میں نہ پائی جاوے۔  چھوؔتھے حکم میں فرمان ہے کہ ایک دن دنیاوی خیالات اور دنیا کے کا موں کو چھوڑ کے روحانی مقدمات کی طرف متوجہ ہوویں۔  پانچؔویں  بغور شناخت فرایض اپنے والدین کی ایسی تعظیم کریں جو اُنکی اُس محنت کو جو ہماری پرورش میں پائی ہو اور اُس فایدہ کو جو اُنکی تکلیف سے ہم نے اُٹھایا ہو لایق ہووے اور خدا کےحکم سے ہم اپنے آپکو اُنکا قرضدار سمجھیں۔ اِسی حکم میں یہہ بھی آگیا کہ بادشاہ اور حاکم اور خادم ِ دین اور آقا کی بلکہ ہر ایک بوڑھے اور بزرگ  کی جو ہمکو جائے ادب ہے تعظیم میں ہر گز غفلت  نہ کریں۔ چھٹےؔ حکم میں صرف ہمارے ہاتھوں کو قتل سے خون آلودہ کرنے کی ممانعت نہیں بلکہ ہر ایک قسم کی غفلت اور شک اور حسد اور کینہ کی دل سے بیخ کنی کرنیکا فرمان ہے کیونکہ اُنہیں گناہوں کی نوبت خون تک پہنچتی ہے۔ ساتوؔں حکم میں چاہتا ہے کہ ناپاک شہوتونے جو دل کو آلودہ کرتی ہیں باز رہیں اور ہر ایک صورت  کے حسن شہوت کی نظر کو جسے صرف خدا  ہی دیکھ سکتا ہے محفوظ رکھیں۔آٹھوؔاں  حکم لالچ اور طبع دنیاوی کو جس سے ہمارے دل اپنے پڑوسیوں  کے حق پر دست اندازی کرنی چاہتے ہیں  منع فرماتا ہے اور ہر ایک قسم کی حق تلّفی اور ٹھگیٔ اور بے انصافی سے جو اِسی حکم میں ممنوع ہو چکیں باز رہیں۔ نویں کا یہہ مضمون ہے کہ راستی کا خیال  ہمارے دلوں  میں اسقدر جڑ پکڑ ے کہ اپنے کلام میں کسیکےنقصان کی نیت سے ہر گز جھوٹ کو  استعمال نہ کریں  اور آخری حکم لالچ سے باز رکھتا ہوتا کہ صبر کو ہر ایک مقدمہ میں استعمال کریں۔

اِس مختصر بیان احکام سے جو بیبل میں مندرج ہیں سارے  فرایٔض جنکا ماننا  اور جن سے بھاگنا انسان کو واجب ہے معلوم ہوتے ہیں ۔ یہہ حکم دو تختیوں پر  اسواسطے لکھے گئے کہ ایک پروے فرایض جو منسوب بخدا تھے  ثبت ہوئے۔ اور دوسرے پر وے جو اپنے ہمسایوں کی نسبت مرعی ہوں۔ مسیح نے اِن دو تختوں کا خلاصہ دو حکموں میں حصر کیا ہے۔ اوّل  تختے کا اِس میں کہ تو اپنے خداوند کو اپنے سارے دل اور ساری روح  اور ساری قوت سے پیار کریعنےجب انسان نے سارے دل  یعنے عقل و  خیال وغیرہ سے  اور ساری روح  یعنے روحانی اخلاق  مثل محبت و خوف وغیرہ سے ایک شے کو پیار کیا  تو کوئی جگہ اُس کے دل میں ایسی نہ رہی جس میں غیر کی سمانی ہو۔ اور ساری قوت سے یہہ مراد کہ جسقدرجسمانی  اشیا ہم میں  ہیں اُسی کی خدمت میں مصروف  رہیں غرض جسقدر آلات انسانی ہیں  خواہ جسمانی خواہ روحانی  سب خدمت  ربانّی میں مصروف ہوں ۔ دوسرے تختے کا خلاصہ  جو پڑوسیوں کے حق میں تھااسطرح پر کیا کہ اپنے پڑوسیوں کو  ایسا پیار جیسا اپنے آپ کو  یعنے جیسا تو چاہتا  ہے کہ لوگ تجھ سے سلوک کریں  تو بھی اُنسے ویسا کر۔  جن  معاملات  سے تیرا دل نفرت کرتا ہے اور نہیں چاہتا ہے کہ تیرے ساتھ کوئی کرئے تو بھی ہرگز  اُنکے ساتھ کر کے اُنکو نہ ستا ۔ اور جن معاملات کو تو چاہتا ہے کہ لوگ تیرے ساتھ لوگ کریں اُنھیں کو اُنکے ساتھ کر کے  اُنکو خوش کر۔  اِن باتوں سے معلوم ہوتا  ہے کہ یہہ سب شریعت لایق  اُس خدا کے ہےجس کی شان تمام عالم میں  مشہور ہے۔ جہا کہیں کسی نے اِن احکام کو پایا  اور  مانا بہت  عمدہ  نتیجہ ظاہر ہوا  جس حالت میں  آدم بےگناہ اور اپنے خالق  کےساتھ متکلم اُس حالت میں  پتّھر کے تختوں  پر احکام کھود کے دینے کی کچھ حاجت نہیں تھی۔ لیکن جب انسان گنہگار ہو گیا اور اُسکی طبیعت نے گناہ کی طرف رغبت کی اور کو ئی شعشہ اُس راستبازی کا جو آدم کو ابتدامیں حاصل تھی باقی نہ رہا تب ضرورت ہوئی۔ آدم اگر چاہے بھی کہ سو چکے اپنے فرایض  کو زہنی علموں سے معلوم کرے تو ہر گز نہیں کر سکتا کیونکہ اُسکی عقل اور ادراک میں ایسا فتور واقع ہوا ہے کہ بھلے برے کی پہچان جو خدا کی شریعت کے پرتو سے  اب ہمکو معلوم  ہے پچھلے قوموں کے کاروبار سے معلوم ہوتا ہے کہ اُنکو ہرگز نہیں تھی۔ واسطے جبر اِس نقصان کے خدا تعالیٰ نے کوہ سینا میں وے تختے موسیٰ کو دیئے اب حاجت نہیں کہ آدمی اپنے فرایض کو معلوم کرنے واسطے عقل کو دخل دیوے کیو نکہ خدا کے احکام  صاف اور ظاہر ہیں۔  اگرچہ وہ تھوڑے ہیں پر سب قوموں پر اُنکا  انتشار ہے ۔ دوسرا فایدہ اِس شریعت کا  یہہ ہے کہ اُن آدمیوں کو جنکو  ترغیب دے کے گناہ سے باز لا سکتی ڈراتی ہے۔ کلام مقدس فرماتا ہے کہ غضب الہیٰ کی گھٹا  اُن سب پر جو اِس شریعت کے نافرمان  ہیں جھوم رہی ہے بلکہ نا فرمان شخص کی پشتہاپشت  سے خدا نفرت رکھتا ہے اور جب اُسکو استعمال میں لاویں تو ہزار در ہزار پشت تک رحم بھی  دکھلا سکتا ہے۔ سوائے اِسکے اِنسان کو  گنہگا قایل کرنیکے واسطے یہی شریعت  کافی ہے۔ آدمی بغیر شریعت  کے غافل اور عاقبت  کے خوف سے بالکل بے پرواہ  رہتا ہے۔ جب شریعت کی آواز اُسکے کانوں میں پہنچتی ہے تو اُسکو اُسکے گناہوں کا قایل کرتی ہے بلکہ شریعت کی روحانی سمجھ  آنے پر  آدمی اپنے آپ کو گنہگار جان کے شریعت کی واجبی  سزا کا مستحق سمجھتا ہے گناہ  میں مردہ جان کے زندگی  کی راہ  ڈھونڈھتا ہے۔ اسی مقدمہ  میں پولوس  حواری کا کلام  جو اُسکے خطوط میں مندرج  ہے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہےکہ اِنسان بدون شریعت  کے اپنے آپ کو جیتا جانتا ہے  پر جب شریعت کی پہچان اور خلاصہ اُسکو  معلوم  ہوتا ہے ہے تو اپنےآپ کو مردہ اور خدا  کے غضب میں مبتلا  دوذخ  کے لایق سمجھتا  ہے۔

پس اِن باتوں  سے وہی کلام  جو ہم نے آگے کہا  ہے کہ شریعت  حقیقت  میں انجیل کی رہنماہی  ثابت ہوتی ہے۔ کیونکہ جس وقت ہم اپنے آپ کو خدا کے فضل سے محروم  پاتے ہیں اور یہہ بھی معلوم کر لیتے ہیں  کہ اپنی جانشانی  سے وہ  راستبازی جو شریعت  کے ماننے سے حاصل ہوتی ہے ہمکو ہر گز میسر نہیں تاکہ خدا کے حضور میں راستباز  شمار ہو کر مقبول ہوویں  تو خواہ مخواہ دل میں یہہ التجا پیدا ہوتی ہے کہ خدا کی رحمت جو مسیح  کے وسیلے سے  ظہور میں آئی  ہے  بوسیلہ ایمان کے حاصل کر یں تاکہ غضب سے بچ جاویں۔ غرض شریعت  کی پہچان  ہمکو گناہ کی غفلت  سے جگاتی ہے اور شّکی امن کی  خواب سے بیدار کرتی ہےاور اُسکا خوف ہمارے کانوں کو اُس دعوت  کی سماعت  کے لیے جو مسیح کی  معرفت ملاپ کے لیے  مقرر ہے کھولتا ہے  اور ہمارے دلوں کو  نو اُمیدی سے بچا کر  امید بلند  عطا کر کے اُس بچانیوالی  کی طرف جو شریعت کی لعنت سے بچا سکتا ہے متوجہ کرتا ہے ۔ یہہ بھی کام شریعت کا ہے کہ ہماری ناپاکی اپنی پاکی  کے زریعہ ہمکو معلوم کراتی ہے ۔ اسی سبب سے ہمارے  دلونمیں وہ لڑائیاں  جنکا زکر پولوس  نے رومیوں کے خط  کے ساتویں باب  کے آٹھوریں  آیت سے آخر باب  تک تزکرہ  کیا  ہے اثر کرتی ہیں جسمیں اُسے شوق الہیٰ اور ارتکابِ  گناہ کا مجادلہ باہم بیان کیا ہے۔ اور وہ یہہ ہے کیونکہ مَیں جانتا ہُوں کہ مُجھ میں یعنی میرے جِسم میں کوئی نیکی بسی ہُوئی نہیں البتّہ اِرادہ تو مُجھ میں مَوجُود ہے مگر نیک کام مُجھ سے بن نہیں پڑتے۔ چُنانچہ جِس نیکی کا اِرادہ کرتا ہُوں وہ تو نہیں کرتا مگر جِس بدی کا اِرادہ نہیں کرتا اُسے کر لیتا ہُوں۔ پس اگر مَیں وہ کرتا ہُوں جِس کا اِرادہ نہیں کرتا تو اُس کا کرنے والا مَیں نہ رہا بلکہ گُناہ ہے جو مُجھ میں بسا ہُؤا ہے۔ غرض میں اَیسی شرِیعت پاتا ہُوں کہ جب نیکی کا اِرادہ کرتا ہُوں تو بدی میرے پاس آ مَوجُود ہوتی ہے۔  کیونکہ باطِنی اِنسانِیّت کی رُو سے تو مَیں خُدا کی شرِیعت کو بُہت پسند کرتا ہُوں۔ مگر مُجھے اپنے اعضا میں ایک اَور طرح کی شرِیعت نظر آتی ہے جو میری عقل کی شرِیعت سے لڑ کر مُجھے اُس گُناہ کی شرِیعت کی قَید میں لے آتی ہے جو میرے اعضا میں مَوجُود ہے۔ ہائے مَیں کَیسا کمبخت آدمی ہُوں! اِس مَوت کے بدن سے مُجھے کَون چُھڑائے گا۔ اپنے خُداوند یِسُو ع مسِیح کے وسِیلہ سے خُدا کا شُکر کرتا ہُوں ۔ غرض مَیں خُود اپنی عقل سے تو خُدا کی شرِیعت کا مگر جِسم سے گُناہ کی شرِیعت کا محکُوم ہُوں۔  فقط  غرض کے انسان کے دل میں دو طبیعت ہوتی ہیں ایک شوق الہیٰ کی  دوسری پرورش نفس کی شریعت کی پہچان میں نفس کی  پرورش  سے تو ہنستا ہے۔ لیکن تس پر بھی  فرایض شوق الہیٰ کو  ادا نہیں کر سکتا  کیونکہ طبیعت  ابتر ہوتی ہے  باہم اِن دونوں طبیعتوں کے ایماندارونکے کے دل میں جنگ رہتا ہے اور اِس جنگ کی آغاز شریعت کی شناخت ہے جس قدر آدمی اپنے آپ کو  کمزور پاتا ہے اُسقدر خدا  کا فضل  اور خداوند مسیح کی راستبازی  کا محتاج سمجھتا ہے۔ پس اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت  کچھقہر کے لیے  خدا نے نہیں ظاہر کی  بلکہ رحم کا شروع ہوتا کہ  شریعت کے زریعہ سے جگا کے فضل کا امیدوار  کرے۔کوہ سینا کی بجلی اور رعد کی آواز سےیہہ مطلب  نہ تھا کہ صرف  ہم کو ڈراوے اور نومید کرے بلکہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ اُس میں یہہ ارادہ تھا کہ ہم کو  کوہ  زاین یعنے صیہوں کی رہبری کرے جہاں سارے جہان کی خوشی ہے اور جو شہر الہیٰ کہلاتا اور جہاں رحمت ِ خدا جلوہ گر ہے اور فضل کی خوبیوں سے معمور ہے اُس سے خوش ہونا  ہم پر واجب ہے بے مسایل انسانی نہیں ہیں بلکہ وے سچی باتیں ہیں جو خدا کے پاک کلام سے ظاہر ہوتی ہیں موافق آیت ۱  تا  ۴ باب ۸ خط رومیوں  کے ۔  پس اب جو مسِیح یِسُو ع میں ہیں اُن پر سزا کا حُکم نہیں۔ کیونکہ زِندگی کے رُوح کی شرِیعت نے مسِیح یِسُو ع میں مُجھے گُناہ اور مَوت کی شرِیعت سے آزاد کر دِیا۔ اِس لِئے کہ جو کام شرِیعت جِسم کے سبب سے کمزور ہو کر نہ کر سکی وہ خُدا نے کِیا یعنی اُس نے اپنے بیٹے کو گُناہ آلُودہ جِسم کی صُورت میں اور گُناہ کی قُربانی کے لِئے بھیج کر جِسم میں گُناہ کی سزا کا حُکم دِیا۔ تاکہ شرِیعت کا تقاضا ہم میں پُورا ہو جو جِسم کے مُطابِق نہیں بلکہ رُوح کے مُطابِق چلتے ہیں۔فقط  اِن آیات میں جسم سے یہہ جسم مراد نہیں جو ہلاک ہوتا ہے  بلکہ گناہ کی طبیعت سے مراد ہے۔ اب میں نے تمھار ے سامنھے یہہ دونوں چیزیں بیان کر دیں  یعنے مطلب شریعت کا صرف انجیل کی طرف رغبت ہے اگر آدمی غرور سے پر نہو تو  ادائے احکاِم  شریعت سے اپنے آپ کو  لاچار جان کے مسیح کی فرمانبرداری اپنی راستبازی کی جگہ قبول  کر کے نجات  کا امیدوار  ہو کے تسلی پا کے بڑائی خدا کی بخوبی  کر سکتا ہے اسمیں پاکیزگی شریعت کی بھی بڑھتی ہے اور خداوند یسوع مسیح کی راستی  خدا کی محبت سے پر معلوم ہوتی ہے  بلکہ سارے مسائیل پر بھی  مسئلہ جو نیا عہد  کہلاتا ہے  فایق  ہے۔ 

بعضے کہتے ہیں  کہ اکثر شریعت کا ماننا  بسبب کم زوری انسان محال سمجھا  جاوے اور خداوند مسیح کی راستبازی نجات کے لیے کافی مصّور ہو  تو  اِس میں گناہوں  اور خرابیوں کے دروازے کھل جاتے ہیں  اور ایسا  سمجھا جاتا ہے کہ یہہ خدا کا فضل ضرور انسان  کو گناہ کی ترغیب دیتا ہے بلکہ خراب  آدمیوں نے اِسی طرح  سمجھا  ہے اور عمل میں لاتے ہیں۔ اُس کے جواب میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ خدا  کی نظر  میں راستبازی ٹہرنا  اپنی راستبازی  سے محال ہے لیکن یسوع مسیح کے وسیلے سے ۔ راستباز ٹہر کے محبت کےرو سے ساری شریعت کی فرمانبرداری  فرض ہے ۔ اور کونسا مسئلہ پاک بیبل میں مندرج ہے جسکو انسان کے خراب دل نے نہیں  بگاڑا ۔ کیا تم انسان کے بگاڑنے  کے سبب ایسے ایک سچےّ مسئلہ سے انکار کروگے  جس سے ہزاروں نے تسلی پا کر ایمانداری  اور  فرمانبرداری  میں زندگی بسر کر کے ایک نمونہ  چھوڑا  ہے اگر اِس  مسئلہ کا  انکار  کرو تو  اُسکی جگہ اور کسکو تصور کر سکتے ہو انسان کی ناتوانی تو ظاہر ہے اور شریعت کے رو سے راستبازی ہونا  غیر ممکن ۔ اگر ایمان اور فضل سے نجات نہ ہو تو پھر نجات کاکوئی ٹھکانا نہیں ۔ چاہے کہ ایماندار لوگ خدا  کی مدد  پا کر اپنی چال سے شریعت کو ایسی توقیر  دیویں کہ منکروں کا مُنہ بند ہو جاوے ۔ فضل اور ایمان  پر نجات مقرر ہونے سے شریعت باطل نہیں ٹھہرتی بلکہ فضل کی حمد اور رحم کا  شکر زیادہ ہوتا ہے۔ اِس باب میں بھی پولوس رسول کا کلام  بجا ہے آیت ۱  تا  ۱۴ باب۶  خط رومیوں کے ۔  (نیٹ سے لیں)  پہلے ہم شریعت کی علت غائی بیان کر چکے جس سے معلوم ہوا کہ آدمی اُن احکام کو جن کی مشابعت واجبی ہے بے تامل دل سے قبول  کرے ورنہ ہمیشہ کی سزا کے لایق ٹھہر یگا واسطے اپنے بچاؤ کے یسوع مسیح کی راستبازی پر بھروسا کرے جہاں کہیں لوگ شریعت کی پاکیزگی کا خیال کم کرتے ہیں اور اُسکی علت غائی  سے ناواقف ہیں وہاں انواع انواع کی غلطئیں اور اقسام اقسام کی بدعتیں واقع  ہوتی  ہیں جنکا بیان کرنا اِسوقت  لازم ہے۔ شریعت کی ناواقفی سے تم اپنی اصل حالت سے بالکل  ناواقف رہو گے کیونکہ تم اپنے دل میں ضرور خیال کروگے  کہ تم خدا کی نظر میں نیک ہو اور اُسکی مہربانی کے لایق۔ اگر کبھی کسی امر میں اپنےآپ کو قاصر بھی پاؤ گے تو پچھلی نیکوکاریوں پر نگاہ کر کے اپنے تئیں واجب الرحم تصور کروگے اور یہہ نہیں سمجھوگے کہ بغیر  کامل فرمانبرداری کے ہر گز کوئی شخص راستباز نہیں گنا جا سکتا اور گناہ آلودہ  اطاعت قہر کے لایق ہوتی ہے  خصوصاً اگر تم  اوایل  عمر سے دینداری کا لباس  رکھتے  آئے ہو گے تو ضرور ہی اپنے دل میں خیال کروگے کہ تم  ویسی توبہ کرنے کی حاجت نہیں رکھتے جیسے اور لوگ جو برملا گناہ میں مبتلا ہیں بلکہ اپنے آپ کو اور گنہگار دنسے یہاں تک اچھا خیال  کروگےکہ اگر کوئی گنہگار بہشت کت لایق نکلا تو تم ضرور ہی داخل  جنتّ ہوگے۔ اِس حالت میں اگر کوئی تمکو توبہ کرنے یا نجات کے لیے یسوع مسیح پر  بھروسا رکھنے کی ترغیب دیوے تو تم اُسکی نمایش  کو ہر گز قبول نہیں کروگے  کیونکہ تم نے اپنے دل میں اپنے آپ کو راستباز تصور کر رکھا  ہوگا اور اُسی نیکی کے لباس کو جس کے وسیلے سے تم نے دنیا میں عزت پائی اور لوگوں نے تم کو دیندار سمجھا اپنی نجات کے واسطے کافی سمجھو گے حلم اور ندامت  کو جو گناہ کی یاد سے  اِنسان کے دل میں پیدا  ہوتی ہے  ہر گز اپنے دل میں جگہ نہ دو گے جیسے فر یسی اور کاتب اپنی نظروں میں  اپنے آپ کو راستباز سمجھتے تھے  تم بھی ویسا  ہی سمجھو گے اور رحم کی تمنّا کر کے دعا میں  ہر گز نہ رؤوگے اور خدا کے غضب سے کسی قسم کا خوف تمھارے دل میں کبھی پیدا نہوگا اور توبہ اور فضل کی حاجت  نہ رکھو گے۔ جب تک تم شریعت کی پاکیزگی اور روحانی مطالب سے بخیر  رہوگے تب تک یہہ سب غارت  کرنے والی  حالتیں تمھارے دل میں موجود  رہینگی خطا کے مبارک اقرار کی آواز کو  جواں ِ دنوں یحیی اصطباغی کی طرح گنہگار وں کو مسیح کی طرف رہنمائی  کرتی ہے اپنے کانوں میں جگہ نہ دو گے اور نجات کی دعوت تمھارے مزاق  میں ویسی شیریں معلوم نہ  ہوگی  جیسے کہ کھوے ہوئے بندوں کے دلوں  کو لزت بخشی ہے۔

شریعت کی ناواقفی ستابعت کی بنیاد  میں نا معقول خیالات پیدا کرتی  ہے۔ وہ خدا جس نے انسان کو پیدا کیا  اپنی مشابعت  کا حق رکھتا ہے  بندہ کو بندگی واجب ہے اور بندہ کے یہی معنی ہیں کہ مانند  بندونکے متابعت کرے  یہہ حق  خدا  نے اپنے کلام  میں صاف ظاہر کر دیا ہے اور تابعیں کے لیے ہمیشہ کی زندگی کا وعدہ کیا ہے اور نافرمانوں کو زلت کا مستحق ۔ لیکن جہاں پر شریعت کی پاکیزگی کے خیالات معدوم ہیں وہاں پر ستابعت بھی معلوم بلکہ جو متابعت آدمی بغیر حکم  کے ادا کی چاہتے ہیں وہ  خدا  کے حضور میں گستاخی سے خالی نہیں اور متابعت خدا کی پاک شریعت کے  برخلاف  ہے وہ خدا کی نظر میں مکروہ ہے۔ جیسے بعضے لوگ  سخاوت کی برکت کا لحاظ کر کے بہت سا مال غریبوں کو اِس نظر سے دیتے  ہیں  کہ اُنکے گناہوں کا کفارہ ہووے اور بعضے لوگ اپنے وعدے اور لین دین کی کہرائی پر فخر کر کے یہہ کہتے ہیں کہ  سچاّ خدا  سچائی ہی چاہتا ہے۔ اور اِسی قسم کی راستی میں نجات تصور کرتے ہیں۔ اور ایک قسم کے گنہگار اپنی بے انصافی اور بے دیانتی اور کینہ پروری کے کفارہ کے لیے نماز اور روزے اور دعا میں مشغول ہو کے گناہوں کو چھپانا چاہتے ہیں پر ایسی ایسی نفرت انگیز نیکو کاریوں پر خدا بہلایا نہیں جا سکتا جس کام میں نیت گناہ کی ہو وہ نیک نہیں گنا جا سکتا ایسا نیک کام صرف  ہمارت تکبر پنہانی پر پردہ ڈالتا ہے  یہہ سب خیال  خدا کی شریعت ناواقفی سے پیدا ہوتے ہیں شریعت کی علت غائی یہی ہے جو ہمنے بیان کی کہ آدمی اپنی ناتوانی کا قایل ہووے اورفضل کا امیدوار رہے۔ لیکن جب آدمی بخیال بجا آوری احکام کے گناہ کرے تو وہ خیالی نیکی انسان کو حقیقی نیکی بتانے کے لیے مفید نہیں اِسی نادانی سے  ایک یہہ خرابی بھی نکلی ہے کہ بہت آدمی مسیح کی راستبازی کو صرف جبر نقصان اپنی نیکوکاری کا سمجھتے ہیں اور جب تک کہ وہ اپنے آپ کو ایسے ایسے گناہوں میں مبتلا دیکھیں جس سے گرفتاری اُنکی یاہتک  عزت  یا گھبراہٹ دل کی پیدا ہو تب تک مسیح کی حاجت نہیں جانتے مسیح کی راستبازی کو صرف لگن شمع نیکوکاری اپنی کا جانتے ہیں۔ اور کوئی غلطی اور بدعت اِس سے بدتر دنیا میں پیدا نہیں ہوئی کہ باوجودیکہ اپنے آپ کو گنہگار اور معافی کے لایق ضرور  سمجھتے ہیں پس پھر بھی اپنی نیکی کی تو قیر پر گز  فراموش نہیں کرتے اور خدا کی التفات نسبت اپنے واجب سمجھتے ہیں۔  غرض کہ اپنی اور مسیح کی نیکی کو شامیل کر کے ایک کامل نیکی پیدا کرنی چاہتے ہیں سو یہہ خیال محض باطل ہے۔جب کہ تمھاری دریافت نے خود تم کو مّتہبم کیا  اور خدا کی شریعت نے تم پر لعنت بھیجی پھر اپنی نیکی کی بصناعت خدا کے ساتھ ملاپ کرنے کے لیے کافی سمجھتی عین حماقت ہو۔ جب گناہ تمھارے  اسقدر ہیں  جس سے تم واقف بھی نہیں تو کس طرح  عضو کے خیال سے تسّلی پاتے ہو یقیناً معافی مانگنی اُس شخص کے لیے واجب ہے جو اپنے آپ کو کھویا ہوا اور لاچار سمجھکر رحمت کے قدم  پر گر کے مفت مغفرت  مانگتا ہو ۔ لیکن مسیح کا شریک ہو کر اپنی متابعت  کا جھنڈا بلند کر کے اور راستباز یکا  سر آسمان تک پہنچا کے  مکر سے معافی مانگنی حماقت اور گناہ عظیم ہے  اِس میں خدا کی کمال بے عزتی پائی جاتی ہے اور مسیح کی نسبت بے ادبی ۔  اِسمیں خدا کی کمال بے عزتی  پائی جاتی  ہے اور مسیح کی نسبت  بے ادبی۔  اُسکی بے گناہ زندگی اور بےبہا موت اور زریعت کا منصب تم اور کسی کام  میں نہیں لاتے صرف اتنا سمجھتے ہو کہ اپنے گناہ اور خرابیوں کے گھاٹے  میں اُسکو ملا کے پورا کریں اور سر کش گنہگاروں کی نجات اور اُنکا خدا  کے حضور میں دخل اور ہمیشہ کی زندگی کا آرام صرف اپنے ہی ہاتھ کے  کامونسے چاہتے ہو پس  اس  سےزیادہ  اور کیا بے عزتی ہو سکتی ہے۔ کیا تم نجات اور بخشش کی عزّت میں مسیح کے ساتھ شمول چاہتے ہو اور خدا کی رحمت  اپنی نیکوکاری کے عوض مول لینی چاہتے ہو اِس میں پاک کلام کا انکار بھی پایا جاتا ہے جس میں صاف بیان کیا گیا ہے کہ نجات کے مقدمہ میں اول سے لیکر  آخر تک جلال خدا ہی کو ہے جس کا فضل  یسوع مسیح کے وسیلے سے گنہگاروں کو بخشتا ہے ۔ اگر یہہ مسایل  ایک  یا دو  چار جگہ میں مرقوم ہوتے تو میں اُنکا زکر اِس جگہ میں کرتا لیکن ساری بیبل میں اُنہیں مسایل کا بیان ہے کہ انسان میں کچھ نیکی نہیں اور نجات بالکل فضل سے ہے ۔ ایسا ہی سمجھنا اور ایسا ہی جینا مسیحی لوگوں کے لیے متابعت ہے اور یہی اُنکی زندگی اور اُسی کا نام شریعت کی سمجھ ہو جس کے آنے سے آدمی اپنے آپکو گناہ کے سبب مردہ جانتے ہیں اور یسوع مسیح کے وسیلے سے نئی زندگی کے امیدوار  ہوتے ہیں۔ اپنے آپ کو کچھ جاننااور اپنے نیک کاموں کو راستباز ی سمجھنا دینداروں کے لیے گناہ  عظیم ہے اور اُسکی جڑ تکبّرہے۔ سو انسان کے دل میں اور اخلاقی خاصتیوں سے تکبّر ہی زور آور ہے اور ایسا روپوش رہتا ہے کہ  اکثر  آدمی ڈھوندھ کے بھی نہیں پا سکتے اور پہچان اُسکی اُس سے ہو سکتی ہے کہ اپنی  بڑائی کا  لالچ کسی نہ کسی صورت سے ظاہر ہو ہی جاتا ہے۔ صرف حسن صورت اور کثرت مال  اور تحصیل علم اور شرافت نسب پر ہی نہیں بلکہ روحانی حاصلات پربھی  تکبر ہو سکتا ہے۔ اسیواسطے کیا یہودیوں اور کیا غیر قوموں میں اکثر ایسی جماعتیں ہوتی رہیں کہ اپنی دینداری اور تقویٰ کے تعصب میں اوروں کو حقیر جانکر  یوں کہتی رہیں کہ تم  ہمارے لایق نہیں ہو  ہمکو مت چھو ؤ ہم پاک ہیں مسیح  نے فریسیوں اور صدوقیوں کے ساتھ اِسی مقدمہ میں کیا کیا مباحثے کئے کیونکہ وہ بھی اپنے آپ کو  اوروں سے نیک سمجھتے تھے حتی  کہ اوروں کو لایق مغفرت کے بھی نہیں جانتے تھے ۔  اِس روحانی تکبّرکا  تنقیہ نہ ہونا شریعت  کی نادانی سے ہے اور تنقیہ تب ہی ہوتا ہے جب روح القدس آکے اُسپر اثر کرتی ہے  جو اپنے آپ کو دینداری میں بزرگ اور بڑا جانتے ہیں  اگر اُنکو کوئی کہے کہ یہہ سب اِسقداد اُنکی خدا کی بخشش  ہو تو فریسیوں کی طر ح  مان لیوینگے پس پر بھی اس تصور سے باز نہ آوینگے کہ ہم ہی اِس بخشش کے لایق ہیں اگر بتلایا جاوے کہ اُنکی دینداری کا لباس بہت عیبونکی چرک  سے  بھی آلودہ ہے اور اِسواسطے وے اپنے آپ کو بڑا سمجھنے کے لایق نہیں تو سارے نقصان اِنسانی ناتوانی کے زمہ ڈالینگے اور غرور سے یہہ خیال  کرینگے کہ شکر ہم پر بھی اوروں سے اچھے ہیں۔ پس ایسے شخص جو اپنی دینداری پر فخر کرتے ہیں  اور بڑے بڑے خیال اپنی نیکوکاری کے دلمیں رکھتے ہیں  شریعت  کے قہر  میں پڑے ہیں اور خدا  کا غضب  اُنپر جھوم رہا ہے اور اُنکی جڑ پر غارت کی کلہاڑی رکھی گئی  ہے اگر اِن خیالات کو اپنے دل سے دور نہ کریں تو ہلاک ہووینکے۔ سواے رحمت اور راستبازی مسیح کے  خدا کی نظر میں راستباز ٹھرنے کی کوئی اور وجہ نہیں اور اپنی تعریف کی کوئی جگہ نہیں اگرچہ ایک گنہگار کسی  دوسرے گنہگار پر کسی  ظاہری پاکیزگی میں سبقت رکھتا ہو پر خدا کی نظر میں کو ئی بشر  اپنی اطاعت سے مقبول ہونے کے لایٍق نہیں۔ نجات کی راہ  اوربرکت کا طریقہ صرف فضل ہے فخر  اور خود پرستی کی قوت  صرف شریعت  کی پہچان پر ہی موقوف  ہے ہماری نظر میں آج تک ایسا کوئی  آدمی نہیں آیا جو گناہ سے بالکل بری  ہو اگر شریعت کے پیمانہ سے ناپے جاویں تو نیکی  میں پورا ایک بھی نہیں  نکلیگا بلکہ نیکوکاری تو ایک طرف سب کے سب بنی  آدم گناہ  کے نیچے دبے  ہوئے ہیں اِن باتونسے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اگر تم نجات کے خواہاں ہو تو شریعت کی تلاوت کرو تاکہ گناہ کے قایل ہو جاؤ اور مسیح کی پیروی  کرو تاکہ نجات حاصل  کر سکو  یہی ساری بیبل کا خلاصہ ہے۔