بعض خیالات ِ محمدی  پرسر سری  ریمارکس

Criticism on Teaching of Muhammad


Published in Nur-i-Afshan September 07, 1894
By Bahadur Masih


 (بابت طلاق)

 قرآنی تعلیم کے مطابق  عورتوں کو طلاق دینا  ہر محمدی  کی طبیعت پر موقوف  ہے۔ چنانچہ لکھا ہے ’’نہیں گناہ  اوپر تمہارے  یہ کہ طلاق دو تم عورتوں  کو جبتک  نہ ہاتھ  لگایا  اُن کو یا  نہیں مقرر  کیا واسطے اُن  کے مقرر کرنا ۔‘‘ سورہ  البقر رکوع ۳۱۔ طلق  دو ۲ بار ہ ۔ ’’ یہ طلاق  دو بات ہے پس بند کر رکھنا ساتھ اچھی  طرح کے یا نکالدینا ساتھ اچھی طرح کے ‘‘ طلاق نمبر ۳ بارہ ۔’’ ہس اگر طلاق ؎۱ دی اُس کو پس نہیں


؎۱ ۔ الفاظ ترجمہ طلاق سہ۲ بارہ سے مطلب صاف سمجھ میں نہیں آتا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ  اگر کوئی مرد محمدی اپنی جورو پر  لفظ طلاق کا تین با ر بولے تو نکاح  بالکل ٹوٹ جاتا ہے۔ اور پھر وہ آپس میں___________________________________________

حلال ہوتی واسطے اُسکے  پیچھے اُس  کے یہاں تلک کہ نکاح  کرے اور خصم سے سوائے  اُس کے۔ پس اگر طلاق دے (وہ) اسکو پس نہیں اوپر اُن دونوں کے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ سورہ اللیضاً رکوع  ۲۹۔

ہندو بھی مندرجہ زیل عورات کو ترک کر دینا  یا اُن کے اوپر اور بواہ کر لینا اپنی مرضی  پر موقوف رکھتے ہیں۔  (۱ ) جو عورت ۔ اپنے شوہر سے فساد  کرنے والی  شراب پینے والی۔ یا دولت برباد کرنے والی ہے۔

(۲ ) جو عورت ۔ سادہوؤنکی خدمت نکرنے  والی دشمنی  رکھنے والی ۔ یا بیماریوں سے بہری ہوئی ہو۔

(۳) جو عورت بانجھ  ہو۔ یا اُس کی اولاد  نہ جیتی  ہو یا صرف لڑکیاں ہی جنتی ہو۔  وغیرہ وغیرہ  شاستر منو۔ ادبیاء ۹۔ اشلوک ۷۹ سے ۸۱ تک۔  

مگر تعلیم انجیل عورتوں کو طلاق دینے کی بابت  سوائے حرامکاری کے اور ہر حالت  میں منع کرتی ہے چنانچہ  متی ۵: ۳۱ ، ۳۲ میں لکھا ہے ’’ یہ بھی لکھا گیا کہ جو کوئی  اپنی جورو کو چھوڑدے  اُسے طلاق دے  تاکہ  لکھدے۔ پر میں (مسیح ) تمہیں کہتا ہوں  کہ جو کوئی اپنی جورو کو زنا کے سوا کسی اور سبب سے چھوڑ دیوے اُس سے زنا کرواتا  ہے۔ اور جو کوئی اُس چھوڑی ہوئی سے بیاہ کرے  زنا کرتا ہے۔ پھر باب ۱۹۔ ۷ سے ۹ تک لکھا ہے۔ ’’ اُنہوں نے اُس  سے ( مسیح سے) کہا پھر موسیٰ نے کیوں حکم  دیا کہ طلاق  نامہ اُسے دیکے اُسے چھوڑ دے۔ اُس نے (مسیح نے ) اُن سے کہا  موسیٰ نے تمہاری  سخت دلی کے سبب تم کو اپنی جورؤں  کو چھوڑ دینے کی اجازت دی پر شروع سے ایسا نہ تھا۔ اور میں تمسے کہتا ہوں کہ جو کوئی  اپنی جورو کو سوا زنا  کے اور سبب سے


بقیہ  ؎۱ جو رو خصم  نہیں ٹھہر سکتے۔ جب تک کہ عورت کسی غیر  سے نکاح  کر کے اور ہمبستر ہوکے اور اُس سے طلاق  لے کر  نہ آوے۔ اور شوہر سابق سے پھر نکاح نکرے۔(تعلیم محمدی بیان طلاق مغلظ صفحہ ۱۷۸) چھوڑدے اور دوسری سے بیاہ کرے زنا کرتا ہے اور جو کوئی  اُس چھوڑی  ہوئی عورت کو بیاہے  زنا کرتا ہے۔‘‘

( قسم کھانے کی بابت)

قرآن میں اکثر قسموِں کا زکر ہے جن کے نمونہ سے محمدی اکثر بات بات میں قسم کھانے کے عادی ہیں۔ مثلاً قسم اﷲ کی سورہ النسا رکوع ۹۔ قسم جان کی۔ سورہ الحجر  رکوع  ۵، ۶۔ قسم قرآن کی سورہ یس رکوع ۱۔ مگر لوگوں  میں صلح کرنے کے لئے محمدیوں کو قسم کھانا منع ہے۔’’ اور مت کرو اﷲ کو نشانہ واسطے قسموں اپنی کے یہ کہ بھلائی کرو اور پرہیزگاری  کرو اور صُلح کرو درمیان لوگوں کے اور اﷲ سننے و جاننے  والا ہے‘‘ سورہ البقر رکوع ۲۸۔

ہندو بھی قسم کھانا  یا کہلانا  بات کی سچائی  ثابت ہونے کے لئے ضروری سمجھتے ہیں۔ ساشتر منو ادہیاء  ۸ ۔ اشلوک  ۱۱۳۔

ہندو بھی بعض امورات میں جھوٹی قسم کھانا رواخیال کرتے ہیں۔ ادہیاء ایضاً ۔ اشلوک ۱۱۲۔

مگر تعلیم انجیل قسم کھانے کی قطعی ممانعت کرتی ہے۔ چنانچہ خداوند یسوع مسیح نے انجیل  متی ۵ : ۳۴ سے ۳۷تک یوں فرمایا’’پر میں تمہیں کہتا ہوں ہر گز قسم نہ کھانا  نہ تو آسمان کی کیونکہ وہ خدا کا تخت ہے اور نہ زمین کی کیونکہ وہ اُس  کے پانٔونکی  چوکی ہے اور نہ یروشلم کی کیونکہ وہ بزرگ بادشاہ  کا شہر ہے۔ اور نہ اپنے سر کی قسم کھا کیونکہ تو ایک بال کو سفید  یا کالا نہیں کر سکتا پس تمہاری  گفتگو میں ہاں کی ہاں اور نہیں کی نہیں ہو کیونکہ جو اس سے زیادہ ہے سو برائی  سے ہوتا ہے۔

(عورتوں کی  قدر کی بابت)

تعلیم محمدی میں ۔ ۱۔ عورتیں مردوں کی کہُییاں کہلاتی ہیں۔ سورہ البقر رکوع ۲۸۔ ۲  عورتیں  کے حقوق مردوں کی نسبت نصف  ٹھہرائے گئے۔ ۳۔ ایک عورت کی گواہی برابر  ہے نصف  آدمی کے یعنے ایک مرد کی گواہی کے برابر  دو عورتوں کی گواہی خیال کی جاتی ہے۔ ۴۔ عورتونکو  گھروں میں بند رکھنے کی سخت  تاکید کی گئی وغیرہ وغیرہ ۔ سورہ النسا رکوع ۲۔ و سورہ البقر رکوع ۳۹۔

ہندو بھی عورتوں کو کم قدر اور زلیل  خیال کرتے ہیں۔ ایسا کہ اُن کے لئے کوئی دہرم  کرم بھی سوائے  شوہر کی سیوا کرنے کے علیحدہ نہیں ٹھہرایا  گیا۔ (شاستر منو ادہیاء  ۵۔ اشلوک  ۱۵۵) پھر عورتوں کی عادت و خصیلت بھی نہایت بدتر  بیان ہوئی ایسا کہ  ماں  بہن  و بیٹی  کے ساتھ بھی تنہائی  میں اکیلا نہ بیٹھے ۔ کیونکہ پنڈتوں  کو بھی عورتیں بری راہ میں کھینچ  لی جاتی  ہیں( ادہیاء ۲ ۔ اشلوک ۲۱۳۔ سے ۲۱۶ تک)  ہندو بھی عورتوں  کی گواہی  محض کمقدر  خیال کرتے ہیں۔ ( ادہیاء ۸۔ اشلوک ۷۷)۔

مگر تعلیم انجیل مرد و عورت ہر دو کے کل حقوق  مساوی ظاہر  کرتی ہے۔ یعنے۔ ۱۔ باہمی میل و محبت  ایک دوسرے  کی ہمدردی و مددگار ی۔ عزت و فرمانبرداری پر یکساں  تعلیم دیتی ہے۔ دیکھو  نامہ افسیوں  ۵: ۳۲ سے ۳۳ تک۔ اور مانہ اول پطرس  ۳: ۱ سے  ۷ تک ۔ ۲۔ فرایض دینی بھی ہر دو کے مساوی اور ایک دوسرے کو فائیدہ  پہنچانے  والے ظاہر  کرتی ہے۔ چنانچہ نامہ اول قرنتیوں ۷: ۱۶ میں م مذکور  ہے ’’ اے عورت کیا جانے تو اپنے خصم کو بچاوے اور اے مرد کیا جانے تو اپنی جورو  کو بچاوے‘‘ یعنے  ہر ایک کا نمونہ  ایک دوسرے کو فائدہ  پہنچانے  والا اور موثر ہے۔ مسیحی دین کے موافق  مرد عورت ہر دو کی گواہی بھی یکساں خیال کی جاتی ہے۔ مطلق فرق نہیں ہے۔

 (نیکی و بدی)

قرآن میں مذکور ہے’’ اگر پہنچتی ہے اُن کو بھلائی کہتے ہیں یہ نزدیک خدا سے ہے اور اگر پہنچتی ہے اُن کو برائی کہتے ہیں  یہ نزدیک تیر ے سے ہے۔ کہ ہر ایک نزدیک  اﷲ کے سے ہے ’’ سورہ النسا رکوع۱۱۔

اکثر ہندو بھی ایسا ہی مانتے ہیں کہ ست و است  پاپ و پن سب کچھ ایشور  کی طرف ہوتا ہے۔ ( مگر اِس خیال  پر بُرائی کا خوف کہاں پھر بعض  کہتے ہیں کہ ایشور ست وا ست  پاپ و پن  سب سے نیارا ہے۔ ( تو ایسے ایشور  کا ہونا یا نہ ہونا  برابر  ٹھہر ا پس اگر اسکو مانیں تو کچھ فائدہ نہیں اور اگر نہ مانیں تو کوئی نقصان بھی نہیں)۔

مگر کلام خدا بیبٔل کی کسی تعلیم سے ایسا کہیں ظاہر نہیں ہوتا کہ برائی و بھلائی  بہت و است سب کا وہی کرنے یا کرانے  والا ہے۔ بلکہ اس کے کلام سے ظاہر ہے کہ وہ عادل (۱) ۔صادق(۲) اور قدوس(۳)  ہے۔ اور کہ اُس کے کل کام راستی(۴)  کے ہیں۔ اور اس لئے وہ برائی سے نفرت(۵) کرتا۔ اور ہر ایک کو اس کے کاموں  اور خیالوں(۶) کے موافق ٹھیک ٹھیک بدلا دیگا ۔ کیونکہ اُس سے کوئی خیال چھپا نہیں ہے۔ (۱) یرمیاہ ۔۱۹ (۲) زبور ۱۱۹: ۱۳۷ (۳) احبار  ۲۰: ۲۶ ۔ (۴) ایوب  ۳۴: ۱۰۔ ۱ (۵)امثال  ۱۵: ۲۶۔ (۶) روم  ۲:۶ ۔ (۷) عبر۱ ۴: ۱۳۔

بیشک کلام خدا بیبٔل میں بعض آیات ایسی بھی ملتی ہین جو تھوڑی دیر کے لئے ناواقف  انسان کے خیال کو کچھ حیرانی میں ڈالنے والی معلوم ہوتی ہیں۔ مگر اُن پر سوچنے  اور غور  کرنے بعد نجوبی معلوم ہوجائے  گا۔ کہ وہ آیات  اس کی عالم  الغیبی کا پورا  ثبوت  ہیں۔ کہ کسی شخص یا قوم کو اسکی از خدا برائی کے سبب اُس نے اپنا پددانہ و محبتانہ  صبر و برداشت جو اُس کے ارادہ  ازلی و مرضی کے مطابق ہے (زبور ۵۶:۱۵، یوحنا ۶: ۴) ظاہر کر کے  ہلاکت و بربادی کے لئے چھوڑ دیا۔

 (حلال و حرام)

 قرآن میں بعض چیزیں حرام ٹھہرائی گئیں۔ جن کا کہنا ۔ پینا یا چھونا محمدیوں کے ایمان کے خلاف ہے۔ سورہ المائدہ رکوع ۱۔

ہند و بھی بعض  چیزیں کھانا یا چھونا نا جائز خیال کرتے ہیں۔ دیکھو شاستر منو ادہیاء  ۵۔ اشلوک ۵ سے ۲۸ محمدی ۔ سخت بھوک کی حالت میں کسی حرام چیز  کا کھانا روا  جانتے سورہ و  رکوع  ایضاً۔

ہندو بھی سخت بھوک کی حالت میں کسی (۱) ناجائز  چیز کا کھانا بُرا نہیں خیال کرتے۔ بلکہ کئی دن فاقہ کے بعد کھانے کے لئے (۲) چوری  کر لینا بھی روا رکھتے ہیں۔ (۱) ادہیاء ۱۰۔  اشلوک  ۱۰۶۔ (۲) ادہیاء ۱۱۔ اشلوک ۱۶۔ س مگر تعلیم انجیل میں سوائے لہو اور گلا گھونٹی ہوئی چیز  ( اعمال ۱۵: ۲۹) ناجائز  استعمال  (افسیوں  ۵: ۱۸) یا جو  کھانا دوسرے کی ٹھوکر کھانے کا باعث  ہو۔ (رومیوں ۱۴: ۲۱) اور کو ئی چیز  ناروا  نہیں ہے۔ کیونکہ یہ امر طبعی ہے جس کو  جو میّسر  ہو یا جس کی طبیعت  جو چاہے کہا  کر اپنی  صحت کو قایم رکھے  تاکہ مقررہ خدمت  بجا لاسکے۔ کیونکہ ’’کھانا پیٹ کے لئے اور پیٹ کھانوں کے لئے  پر خدا اُسکو اور اُن کو نیست کریگا۔‘‘ (قرنتیوں ۶: ۱۳ ) کیونکہ خدا کی بادشاہت کھانا پینا نہیں بلکہ راستی و سلامتی اور روح  القدس سے خوشوقتی  ہے‘‘ (رومیوں ۱۴: ۱۷) ’’لیکن کھانا  ہمیں خدا سے  نہیں ہلاتا کیونکہ اگر کھاویں تو ہماری کچھ بڑھتی نہیں اور جو نہ کھاویں تو گھٹتی نہیں‘‘ ( ۱۔ قرنتیوں ۸:۸)

بیشک احکامات توریت میں بعض  حلال و حرام جانوروں کا زکر مذکورہے۔  جن کی عدم واقفیت سے بعض لوگوں نے حلال و حرام کا خیال کر لیا۔ مگر اُن مقاموں پر جہاں  حلال و حرام کا زکر  مذکور ہے۔ اگر غور کیا جائے  تو بخوبی  معلوم  ہو جائیگا۔ کہ اُن  کھانوں پر کوئی گناہ کی بخشش و معافی کا کہیں زکر مذکور نہیں ہے۔ اور نہ کہیں یہودیوں کو یہ حکم صادر ہوا کہ اُن کا طریقہ غیراقوام  کو سکھایا  جاوے ۔ سبب صرف یہ تھا۔ کہ خدائے تعالیٰ نے بنی اسرائیل  کو اپنی خاص قوم  قرار دیا۔ اور اُن کو دیگر اقوام سے علیحدہ کر کے اپنے تشبیہی احکام یعنے قربانی وغیرہ کو تشخص کئے جائے جانوروں کے زریعہ  ادا کرنے کا حکم دیا۔ جب تک وہ کامل قربانی  جس کے نمونہ پر  گزرانی  جاتی تھیں کامل طور  ظہور  میں نہ آوے۔  یعنے خداوند یسوع مسیح کی  کامل قربانی  جو تمام عالم کے گناہوں کا کفارہ  ہے۔ مگر وہ قربانیاں جانوروں  کی صرف یہودیوں کے لئے اُسی وقت  تک موثر ہوئیں ۔ نہ کہ ہمیشہ کے لئے کارآمد۔ وہ لفظ  جس کےمعنے اُن مقامات  پر ابؔدی کا استعمال  ہوا۔ عبرانی  میں اس کے کئی ایک معنوں میں سے ایک یہ ہے یعنے کسی قوم کے زمانہ  قیام تک۔ جو صرف قوم یہود کے زمانہ قیام سے مراد ہے۔

مذکورہ بالا خیالات  یا احکامات  شرعی  پر ناظرین  خود خیال  کریں کہ کون کون عقلاً  و نقلاً  جائز یا  نا جائز معلوم ہوتے۔  اور کون  کس کس کے مطابق یا مخالف  ثابت ہوتے ہیں۔

  (فرض حج)

 قرآن میں لکھا ہے ’’تحقیق  صفا اور مروہ  نشانیوں اﷲ کی سے ہیں۔ پس جو کوئی حج کرے گھر کا  یا عمرہ  کرے پس نہیں گناہ  اوپر  اُس کے یہ کہ طواف کرے بیچ اُن  دنوں کے اورجو کوئی خوشی  سے بھلائی  کرے پس تحقیق اﷲ قدردان  ہو جاننے  والا‘‘ سورہ البقر رکوع ۹۔

ہندوؤں میں بھی کئی ایک تیرتھہ مشہور ہیں۔ مثلاً  بدری ناتھہ ۔ کدارناتھہ ۔ دوارکا۔ بنارس ۔ و پراگ  وغیرہ  جہاں بعض ہندو جانا۔ مورتوں کے درشن کرنا۔  اور بعض رسمی باتوں کا ادا کرنا ضروری اور موجب ثواب خیال  کرتے ہیں۔

اس فرض حج محمدی کے عباُنی دستورات  عجیب  سے مرکب ہیں۔ اور بہت کچھ ہندوؤں  کے خیالات کے موافق  معلوم ہوتے ہیں۔ جن کا درج کرنا  بہ سبب طوالت  چھوڑا گیا۔ چنانچہ  اُن کی پوری  کیفیت  کتاب  عقایدٔ اسلامیہ  ترجمہ مولوی  محمد  شفقت  اﷲ حمیدی صفحہ ۲۴۸ سے ۲۵۵ تک اور کتاب تحقیق الایمان  مصنفۂ پادری  مولوی عماوالدین  صاحب اعتراض  چہارم صفحہ ۱۱۲ میں درج ہے۔

مگر تعلیم انجیل کسی خاص  جگہ کو عبادت الہیٰ کے واسطے مخصوص نہیں ٹھہراتی ۔ بلکہ ہر جگہ جہاں انسان اُس کی مرضی کے موافق  عمل کرے قربت الہیٰ حاصل کر سکتا ہے۔ چنانچہ انجیل یوحنا ۴: ۱۹۔ ۲۴ تک مذکور ہے ’’عورت نے اس سے (مسیح سے) کہا اے خداوند مجھے معلوم ہوتا ہے۔ کہ آپ نبی ہیں  ہمارے  باپ داداوں  نے اس پہاڑ پر پرستش کی اور تم (یہودی) کہتےہو۔ کہ وہ جگہ جہاں پرستش  کرنی چاہئے یروشلم میں ہے۔ یسوع نے اُس سے کہا ۔ کہ اے عورت میری بات کو یقین رکھ۔ کہ وہ گھڑی  آتی ہے۔ کہ جس میں تم نہ تو اِس پہاڑ پر۔ اور نہ یروشلم  میں باپ کی پرستش  کروگے تم اُسکی جسے نہیں جانتےہو  پرستش کرتے ہو۔  ہم اُس کی جسے جانتے ہیں پرستش کرتے ہیں۔ کیونکہ نجات یہودیوں  میں سے ہے۔ پر وہ گھڑی  ۔ بلکہ ابھی ہے۔ کہ جس مین سّچے پرستار روح و راستی سے باپ کی پرستش کریں گے۔ کیونکہ باپ بھہ اپنے پرستاروں  کو چاہتا  ہے۔  کہ ایسے ہوویں ۔ خُدا روح ہے اور اُس کے پرستاروں  کو فرض ہے۔ کہ روح اور راستی  سے پرستش کریں‘‘۔

پس اب اس روحانی طریقہ ٔ  عبادت ِالہیٰ کو چھوڑ کر جو اُس کی عین مرضی اور صفات کے موافق ہے۔ جس کی تشبیہ و علامتیں احکامات  توریت میں قوم یہود پر ظاہر  کی گئیں ۔ جو صرف جسمانی خیالات پر مبنی  تھیں  کون فرض خیال کر سکتا ہے؟  مگر صرف وہی جو جسمانی طبیعت رکھتا ہو۔ اور روحانی تعلیم انجیل سے  اپنی آنکھیں بند کر لے۔ جیسا لکھا ہے ۔ ’’ مگر نفسانی آدمی خدا کی روح کی باتیں نہیں قبول کرتا۔ کہ وے اُس کے آگے  بیوقوفیاں  ہیں۔ اور نہ اُنہیں  جان سکتا ہے۔ کیونکہ وے روحانی طور پر بوجھی  جاتی ہیں‘‘ ۱۔ قرنتیوں ۲: ۱۵۔

(جھوٹ بولنا)

 کتاب ہدایت  المسلمین کے صفحہ ۳۱ میں یوں درج ہے۔ ’’کہ یہ لوگ (محمدی) خدا کی راہ میں جھوٹھ بولنا ثواب  جانتے ہیں۔ چنانچہ سورہ صافات رکوع ۳ کی آیت   فنَظَرَ نَظَرۃ فی  النُّجّوم کے نیچے عبدالقادر کے ساتویں فائدہ میں لکھا  ہے کہ اﷲ کی راہ میں جھوٹ بولنا عذاب  نہیں۔ بلکہ ثواب ہے‘‘۔  ہندو بھی ’’ دیدہ دانستہ  رحم کی نظر سے جھوٹھ بولنے میں سورگ سے نہیں گرتا۔ اور اِس کی بانی منو وغیرہ دیوتا کی بانی کے برابر سمجھتے ہیں۔ جہاں سچ بولنے سے برہمن ۔ کشتری ۔ ویش۔ شودر قتل ہوتا ہے۔ وہاں جھوٹھ بولنا سچ سے بھی  اچھا ہے‘‘ شاستر منوادھیا ء ۸۔ اشلوک ۱۰۳، ۱۰۴۔

مگر تعلیم بئیبل دیدہدانستہ کسی حالت میں جھوٹھ بولنے کی مطلق پروانکی نہیں دیتی ہے۔  بلکہ ہر حالت میں جھوٹھ بولنے پر مندرجہ زیل فتوی ظاہر کرتی ہے یعنے ’’وہ جو دغا باز ہے میرے گھر میں ہرگز نہ رہ سکے گا۔ اور جھوٹھ  بولنے والا میری نظر میں نہ ٹھہریگا۔ ‘‘ زبور ۱۔ ۱۰: ۷ ’’جھوٹےلبوں سے خداوند کو نفرت ہے۔ پر وے جو راستی سے کام رکھتے ہیں اس کی خوشی ہیں۔ ‘‘ امثال ۱۲: ۲۲ ’’ سارے جھوٹھوں کا حصہ  اُسی جھیل میں ہوگا جو آگ اور گندک سے جلتی ہو۔ مکاشفات۲۱: ۸’’ ایخداوند  تیرے خیمہ میں کون رہیگا۔ اور تیرے کوہ مقدس پر کون سکونت کریگا۔ وہ جو  سیدھی چال چلتا۔ اور صداقت کے کام کرتا ہے۔ اور دل سے سچ بولتا ہے۔‘‘ زبور ۱۵: ۱، ۲۔

 (نماز کی بابت)

 قرآن میں مذکور ہے ’’ محافظت  کرو اوپر نمازوں  کے۔ اور نماز بیچ والی پر۔ یعنے عصر۔ اور کھڑے ہو واسطے اﷲ کے چپکے ‘‘ سورہہ البقر رکوع ۳۱۔ ’’ پس جب تمام کر چکو  نماز کو۔ پس یاد کرو اﷲ کو کھڑے یا بیٹے ۔ اور اوپر کروٹوں اپنی کے۔ پس جب آرام  پاؤ  پس تم سیدھی کرو نماز کو۔ تحقیق نماز ہے اوپر مسلمانوں کے لگے ہوئے وقت مقرر کئے ہوئے۔ سورہ النسا رکوع ۱۵۔

ہندو بھی بعض وقت  سندھیا (چپ) کرنا بہتر سمجھتے ہیں۔ چنانچہ شاستر منو میں مذکور  ہے۔ ’’پراتھ کال (فجر) گائتری کا چپ کرتا رہے جب تک سورج کا درشن نہو۔ اور اِسہی طرح سائین  کال ( شام) مین جب تک تارے نہ دِکھلائی   دیں ۔ پراتھ کال کی سندھیا کرنے سے رات کا پاپ چھوٹ جاتا ہے۔ اور سائیں  کال  کی سندھیا  کرنے سے دن کا پاپ  چھوٹ جاتا ہے۔ جو آدمی دونوں وقت کی سندھیا نہیں کرتا وہ شودر کی طرح دوج کرم  سے باہر ہوجاتا ہے۔ ’’ ادہیاء ۲۔ اشلوک ۱۰۱ سے ۱۰۳ تک۔

کلام خدا بائبل سے ظاہر ہے۔ کہ نماز کرنے کا دستور قدیم  سے چلا آتا ہے۔ یہودی بھی نماز کرنا ضروری سمجھتے تھے۔ چنانچہ زبور ۹۵: ۶ میں مذکور ہے ’’ آؤ ہم سجدہ کریں۔ اور جھکیں اور اپنے پیدا کرنے والے خداوند کے حضور  گھٹنے ٹیکیں‘‘ اِنجیل مقدس میں بھی مذکور ہے۔ ’’ اور جب تو دُعا مانگے ریاکاروں کی مانند مت ہو۔ کیونکہ وے عبادت خانوں  میں اور راستوں کے کونوں پر کھڑے ہو کے دُعا مانگنے کو دوست رکھتے ہیں تاکہ لوگ انہیں دیکھیں۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ وے  اپنا بدلا پاچکے ۔ لیکن جب تو دُعا مانگے اپنی کوٹھری  میں جا۔ اور اپنا دروازہ  بند کر کے اپنے باپ سے جو پوشیدگی میں ہے دُعا مانگ۔ اور تیرا باپ جو پوشیدگی میں دیکھتا ہے ظاہر میں تجھے بدلادیگا۔ اور جب دُعا مانگتے ہو تو غیر قوموں  کی بیفائدہ بک بک مت کرو۔ کیونکہ وے سمجھتے ہیں کہ زیادہ کوئی  سے ان کی سُنی جائیگی‘‘ متی ۶: ۵۔ ۷ تک پھر رسول فرماتا ہے ’’ دُعا مانگنے میں مشغول اور اُس میں شکر گزاری کے ساتھ ہشیار رہو‘‘ قلسیوں ۴: ۲ پساس لئے مسیحی لوگ بھی دُعاؤں  ( نمازوں) میں اکثر مشغول رہتے ہیں کیونکہ ضروری بات ہے۔

بیشک محمدی نماز کایہ قاعدہ کہ جماعت کے بہت سے لوگ  فراہم ہو کر دُعا یا نماز کرتے ہیں۔ ایک عمدہ اؤاہل  کتاب کے موافق قاعدہ ہے۔ مگر اُن کی نماز کا منشاء وہی ہے جو ہندؤں  کا ہے  یعنے نمازوں کے زریعہ  آدمی نیک بنے اور گناہ (پاپ) سے چھوٹ  جاوے۔ یا ثواب حاصل کرے پرمسیحی نمازوں  کا یہ منشاء نہیں ہے۔  بلکہ یہ کہ آدمی  پہلے نیک  ہو۔ یا بنے  تاکہ خدا کی شکر گزاری ادا کر سکے۔ اور اُس کے  ساتھ دُعا میں ہم کلام ہو کر خوشی حاصل  کتے۔ پس محمدی ہندؤں کی نمازیں انسان کے پاک  ہونے اور ثواب  پانیکا ایک زریعہ  خیال کی جاتی ہیں۔ مگر مسیحی نمازیں نجات  یافتہ لوگوں  کی شکر گزاری  سمجھی جاتی ہیں۔ جو ضروری ہے۔  

(بہشت  کی بابت)

 قرآن میں مذکور ہے ’’ اور خوشخبری  دے اُن لوگوں کو کہ ایمان لائے۔ اور کام کئے اچھے۔ یہ کہ واسطے اُن کے بہشت ہیں چلتی مین نیچے اُن کے سے نہریں  ‘‘ سورہ البقر رکوع ۳ ’’ مگر بندے سے اﷲ کے کالس کئے گئے یہ لوگ واسطے اُن کے رِزق  ہے معلوم میوے اوروہ عزت دے جاویں  گئے بیچ باغوں نعمت کے اوپر تختوں کے آمنے سامنے پھرایا جاوے گا اوپر اُن کے پیالہ شراب  لطیف کا۔ سفید مزہ دینے والی پینے والوں کو۔ نہ بیچ اس کے خرابی ہے ۔اور نہ وہ اس سے بیہودہ کہینگے۔ اور نزدیک انکے بیٹھی  ہونگی  نیچے رکھنے والیاں خوبصورت  آنکوں والیاں گویا کہ وہ انڈے ہیں چھپائے ہوئے ‘‘ سورہ الصافات رکوع ۲۔  

پس بہشت کی بابت ایسا ہی کم و بیش  زکر قریباً ۲۸ یا ۲۹ جگہ قرآن میں مذکور ہے۔ مگر کسی آیات بہشتی  میں کہیں یہ مذکور نہیں ہے۔ کہ بہشت میں خدا اُن کے ساتھ ہوگا۔ اور مومنین اس کے چہرہ  پرنظر کریں گے۔ اور اس کی ستائیش و تعریف  میں ابد الاآباد  مشغول رہکر لاثانی خوشی حاصل کریں ہے۔

ہندؤوں کے خیال موافق پر لوک کا آئندصرف یہ  ہے۔ کہ آدمی اپنی بھول و بھرم سے چھوٹ کر جسکا نتیجہ کرم کے سمان آواگون میں حاصل  کرتا رہتا ہے۔ گیان حاصل  کر کے ’’سب جانداروں مین آتما کے وسیلہ سے  آتما کو دیکھتا ہے۔ اور سمد رشی ہو کر بڑی برہم پددتی کو پاتا ہے ‘‘  )شاستر منوادہیاء ۱۲۔ اشلوک ۱۲۵) یعنے پرمیشور میں لین ( وصل) ہوجاتا ہے اور بس۔

مگر اِنجیل مقدس میں اس پاک بہشت ۔ اور اُس کی لاثانی خوشی کی بابت لکھا ہے کہ خدا نے اپنے محّبوں  کے لئے  وہ چیزیں تیار کیں۔ ’’ جو نہ آنکھوں  نے دیکھی۔ نہ کانون نے سنُی۔ اور نہ آدمی کے دل میں آئی ۔ بلکہ خدا نے اپنی روھ کے وسیلے ہم پر ظاہر کیا ‘‘ ۱۔ قرنتیوں  ۲: ۹  جس کی خواہش میں اس کے سچّے  مومنین مرنے تک مستعد رہتے ہیں ( مکاشفات ۴: ۱) یوں ظاہر کیا۔ ’’ یسوع نے جواب میں اُن سے کہا تم  نوشتوں اور خدا کی قدرت کو نہ  جانکر غلطی  ہو کیونکہ قیامت میں لوگ  نہ بیاہ کرتے نہ بیاہے جاتے ہیں۔ بلکہ آسمان پر خدا  کے فرشتوں  کی مانند ہیں۔ ‘‘ متی ۲۲: ۲۹، ۳۰۔

(۱ ) بہشت میں خدا اپنے مقدسوں کے ساتھ سکونت کریگا۔ مکاشفات ۲۱: ۳۔

(۲ ) بہشتیوں کی خوشی ۔ مکاشفات  ۷: ۱۶، ۱۷۔ اور ۲۱: ۴، ۲۵۔

(۳ ) بہشتیوں کا کاروبار ۔ اس کے چہرہ پر نگاہ رکھنا  مکاشفات ۲۲: ۴۔ اور ابد الآ باد  اس کی ستائیش و تعریف  کرنا۔  مکاشفات ۴: ۱۰،۱۱۔  اور ۱۹: ۶۔

ہر سہ مذاہب کی تعلیم بہشتی مزکور ہ بالا کی بابت ناظرین  خود انصاف کریں۔ کہ کون سی تعلیم عقلاً و نقلاً  انسانی درجہ  اور خُدا کی شان کے موافق ظاہر ہوتی ہے۔ کیا وہ جس میں صرف  نفسانی خیالات موجود ہیں۔ جو بغیر  جسم اُس قدوس کے حضور میں محض بے مطلب ۔ اور اس کی قدوسیت کے خلاف ہیں۔ یا وہ جس مین اپنے خالق قادر مطلق کے امزروصل  ہوجانا۔ جو انسان کے لئے محال بلکہ ان ہونا ہے ’’ چہ نسبت خاک رابعالم پاک‘‘ مکر ہاں وہ جس میں ہمیشہ اس کے حضور حاضررہ کر ابدالآباد  اس کی تعریف  کرنا اصلی و سچی خوشی ظاہر ہوتی ہے۔

( روزہ)

 قرآن میں مذکور ہے ’’ اے ایمان والو حکم ہوا  تم پر روزے  کا جیسے  حکم ہوا تھا  تم سے اگلوں پر۔ شاید تم  پر ہیزگار  ہو جاؤ۔ مہینہ رمضان کا جسمیں نازل ہوا قرآن ۔ ہدایت واسطے  لوگوں کے۔ اور کھلی  نشانیاں راہ کی۔ اور فیصلہ پھر جوکو ئی پاوے تم میں یہ مہینہ تو روزہ رکھو۔  اور جو کوئی بیمار ہو یا سفر میں تو گنتی  چاہئے اور دنوں سے۔  حلال ہوا تم کو روزہ  کی رات میں بے پردہ ہونا اپنی  عورتوں سے۔ وے پوشاک ہیں تمہاری اور تم پوشاک اُن کی۔ اﷲ نے معلوم کیا ۔ کہ تم اپنی چوری  کرتے تھے۔ سو معاف کیا تم کو۔ اور درگزر کی تم سے۔ پھر اب ملو اُن سے۔ اور چاہو جولکھ دیا  تم کو۔ اور کھاؤ اور پیو  جب تک  صاف نظر آوے تم کو  وہاری مفید جدی وہاری سیاہ سے فجر کی۔ پھر پورا کرو روزہ رات تک‘‘ سورہ البقر رکوع  ۲۳۔

ہندو بھی بھی کئی باتوں کے لئے برت (روزہ) رکھنا ضروری سمجھتے ہیں۔ مثلاً کسی دیوی ۔ درگا کی رجامندی کےلئے۔ اور چاند و سورج  کے نام  پر  وغیرہ وغیرہ ۔ بلکہ بعض برت بعض  پاپوں کے پراشچت ٹھہرائےگئے۔ شاستر منو ادہیاء ۱۱۔ اشلوک ۱۰۱، ۱۰۲، ۱۲۵ وغیرہ۔

کلام خدا بئیبل  سے بھی معلوم ہوتا ہے۔ کہ اگلے بزرگوں نے بھی روزے رکھے۔ اور اب بھی مسیحی روزہ رکھنا مفید جانتے ہیں۔ چنانچہ خداوند یسوع مسیح نے انجیل  متی ۶: ۱۶۔ ۱۸ تک یوں فرمایا ہے ’’ پھر جب تم روزہ  رکھو ریاکاروں  کے مانند اپنا چہرہ  اُداس نہ بناؤ ۔ کیونکہ وے اپنا مُنہ  بگارتے ہیں ۔ کہ لوگوں  کے نزدیک روزہ دار  ظاہر ہوں۔  میں تمسے سچ کہتا  ہوں ۔ کہ وے اپنا بدلاپا چکے۔ اور جب تو روزہ رکھے اپنے سرپر چکنا لگا۔ اور منہ دہو تاکہ تو آدمی پر نہیں ۔ بلکہ تیرے باپ پر جو پوشیدہ ہے روزہ دار ظاہر  ہو۔ اور تیرا باپ جو پوشیدگی میں دیکھتا ہے آشکار ا تجھے بدلا دے‘‘۔

(۱ ) کلام خدا بیئبل کے موافق روزوں  کا ظاہر طور یہ ہے یعنے دعا وزاری میں مشغول ہونا۔ ا سموائیل۷: ۶ یویل ۲: ۱۲

(ب) باطنی صورت نیکی اور انسانی ہمدردی کے کام بجا لانا ۔یسعیاہ ۵۸: ۶، ۷۔

(ج) روزہ کا وقت و ضرورت اور الہیٰ برکات کے لئے دل کی تیاری۔ یویل ۱: ۱۴، ۲: ۲۳۔

پس مسیحی روزے اپنی روح کو خدا کے سامنے عاجز و فروتن بنانے کے لئے ہیں۔  ( زبور ۶۹: ۱۰، ۲۵: ۱۳) اور آں  لئے وہ سب خیالات جو دوسرے  لوگوں کے روزوں کونہیں توڑتے مسیحی روزوں  کو توڑ ڈالتے ہیں۔ کیونکہ مسیحی روزوں  کے کل ایام دن اور رات یکساں خیال کیا جاتا ہے۔ محمدیوں اور ہندوؤں کے روزے یا برت ایک حکم  کی تعمیل پاپوں کے پر اشچت یا ثواب  کے باعث  خیال کئے جاتے ہیں۔ مگر مسیحی روزے ایک روحانی  بیماری کی دوا میں جو وقت  ضرورت پروہی جاتی ہیں۔

کلام خدا بائبل میں عوام کے روزوں کی محض ایک ظاہر اور بے سود شکل بھی مذکور ہے جو بعض دیگر روزوں  سے بالکل مشابہ  ہو۔ یسعیاہ ۵۸: ۳۔ ۵ ۔

۱۴۔ (خیرات یا صدقہ) قرآن میں حکم ہے’’ اگر ؔکھلی  دو خیرات  تو کیا اچھی بات ہے۔ اگر چھپاؤ اور فقیروں کو پہنچاؤ تو تم کو بہتری ہے‘‘ سورہ البقر۔ رکوع ۲۷۔ مگر محمدی لوگ خیرات یا سدقہ خاصکر  ناتے والوں ۔ یتیموں۔ محتاجوں۔ مسافروں اور فقیروں  کو جو صرف اپنی قوم کے ہوں دنیا بہتر خیال کرتے ہیں۔

ہندو بھی دان پُن  کرنا ایک ضروری بات خیال کرتے ہیں۔ مگر وہ بھی دان۔ پن کا حقدار صرف برہمنوں کو جانتے ہیں نہ شدروں کو۔ دیکھو شاستر منو۔ ادہیاء ۱۔ اشلوک۸۸ سے ۹۱ تک ۔

کلام خدا بائبل سے بھی معلوم ہوتا ہے۔ کہ خیرات یا صدقہ دنیا ایک ضروری امر ہے۔ تاکہ اہل توفیق  بلا امتیاز قومیت  کے محتاجوں  کی مدد کریں۔ اور اس سبب دنیا کے مسیحی ممالک میں حسب الحکم  اپنے نجات دہندہ کے اِس قدر خیرات کا چندہ جمع کیا جاتا ہے  ( متی ۶: ۱۔۴) کہ جس کے زریعہ اکثر محتاجوں اور مصیبت زدونکی  مدد ہوتی ۔ اور دُنیا کے تمام غیرممالک میں مشنری لوگ جا کر غیر لوگوں کو اُنکی بھلائی و بہتری  کے واسطے خدا کے پاک کلام سے صلح و سلامتی کی بشارت  دیتے۔ مدرسے جاری کرتے۔ شفا خانے کھولتے۔ اور بہت کچھ ایسے کام کرتے ہیں جن سے عوام کو فائدہ  حاصل  ہو۔ تاکہ وہ شیطان کے پھندے سے چھوٹ کر اور خدا کے سّچے طالب بن کر آخر روز اسی سّچی  و لاثانی  کوشی کو حاسل کر سکیں۔ مگر ایسا  کرنے پر بھی وہ کوئی ثواب  یا پرلوک کے حاصل  کرنیکا مطلق خیال نہیں کرتے۔ کیونکہ نجات (پرلوک کا آنند) صرف خداوند یسوع مسیح پر صحیح و زندہ ایمان رکھنے سے حاسل ہوتی ہے۔ نہ کسی اعمال حسنہ سے۔

یہاں تک ۱۴ خیالات یا احکامات شرعیؔ محمدیان کامقابلہ جو مذکور ہوا۔ اُس سے ناظرین خود معلوم کر سکتے ہیں کہ وہ بہت کچھ اہل ہنود کے خیالوں کے موافق۔ اور اہل کتاب مسیحیوں کی تعلیم کے خلاف ہیں۔ اب آیندہ بعض  وہ خیالات مذکور ہوں گے جو صرف روایتی یا رواجی مشہور ہیں۔ اور دیکھا جائیگا کہ وہ بھی کہاں تک کس خیال کے موافق یا مخالف ہیں۔

بعض خیالات روایتی و رواجی کا مقابلہ

 (نکاح موقبت)

  ’’ یہ نکاح جس کو متعہ بھی کہتے ہیں بعض محمدیوں میں ایک خاص وقت مقررہ تک کی شرط پر کچھ دام دیکر کیاجاتا ہے۔ مگر بعد پوری ہونے میعاد کے مرد و عورت  دونوں  آزاد ہوجاتے ہیں۔ اب اہل  سنّی اس کو نہیں مانتے۔ مگر شیعہ ابتک اس کو جایز سمجھتے ہیں۔‘‘

ہندوؤں میں بھی ’’خواہش کرنے والی  ہمقوم  کنُیا کو کچھ (اجرت) دیکر اس سے صحبت کرنے والا سزا کے لایق نہیں ٹھہرتا‘‘ شاستر منو ادہیاء ۸۔ اشلوک ۳۶۶۔

 ہر کوئی جان سکتا ہےجبکہ مذہب کی تعلیم میں کوئی بھی ایسی بات رواٹھہرائی گئی ہو جس پر انسان کی طبیعت کا میلان ہے تو اُس کا کسی دوسری حالت یاشکل میں بھی تبدیل  کر لینا  یا حد سے زیادہ بڑھ جانا  کوئی غیر ممکن امر نہیں ہو سکتا ہے۔ پس جبکہ ہر دو  مذہب یعنے محمدی و ہندوؤں میں ایک سے زیادہ ازدواج  روا  ٹھہرایا  گیا جو طبیعت انسانی اور خواہش کے موافق ہے۔ تو ہر دو مذکورہ بالا مشکلوں کو بھی روا سمجھ لیناکیا کوئی ناممکن امر تھا؟ مگر اب ہر کوئی اپنی تمیز سے سوچے اور غور کرے کہ اِن  شکلوں اور رنڈی بازی میں کیا فرق ہے؟ جس کے لئے کلام  خدا انجیل مقدس نامہ اوّل  قرنتیوں ۶: ۹۔ ۱۰ میں صاف صاف  فتویٰ ظاہر کیا گیا ہے ’’ فریب نہ کہاؤ کیونکہ حرامکار اور بت پرست اور زنا کرنے  والے اور عیاش اور لونڈے باز اور لالچی اور شرابی اور گالی بکنے والے اور لوٹیرے خدا کی بادشاہت کے وارث  نہ ہوں گے‘‘۔

(تعلیم  جھوٹ کا نتیجہ) 

جھو ٹ بھی طبیعت انسانی اور خواہش کے موافق ہے۔پس جبکہ اس کو بھی کسیقدر یا کسی حالت میں دیدۂ دانستہ مذہبی تعلیم میں روا سمجھا گیا ہوتو اس کا بھی حد سے زیادہ رواج  پانا کوئی مشکل امر نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ  اس ملک ہند میں ہر دو  مذاہب کے ایسے ایسے خیالوں کی آمیزش سے جن کا زکر  نمبر ۱۰میں ہو چکا جو نتیجہ روزینہ برتاؤ سے ظاہر ہوتا کوئی پوشیدہ امر نہیں ہے۔ جسکے لئے  بقول ایک محمدی شاعر مصرعہ ’’ دروغ مصلحت آمیزبہ ازر استی فتنہ انگیز‘‘ گویا عوام الناس میں ایک مثل ٹھہر گئی ہے۔ بلاوہ راستی جو مرضی آلہیٰ کے موافق ہے کہ جس کے لئے یہ بھی اُسی شاعر نے کہا ہے۔ مصرعہ ’’راستی موجب رضائے خداست‘‘ تو کیا ممکن ہے کہ مصنف  مزاجوں کے خیالوں میں اس سے کوئی فتنہ ظاہر  ہو؟ ہر گز نہیں۔ پس ایسے ایسے خیالوں سے بعض  کے دلوں میں جھوٹ نے یہانتک  سرایت کی کہ اُنہوں نے یہی سمجھ لیا  کہ بغیر کچھ بھی جھوٹ ملائے دنیا کی کوئی بات یا کام پورا ہو ہی نہیں سکتا۔ اور اس سبب ایسوں کے خیالوں میں ہر ایک کیطرف  جھوٹ ہی جھوٹ  کا خیال جم گیا۔ جس کا برتاؤ خاصکر  مسیحیوں کی وعظ ۔ گفتگو اور بحث کے وقت اکثر ظاہر ہوتا ہے کہ ہر دو مذاہب  کے بعض جہلا اُنکی ہر ایک بات کو۔  جسکو انہوں نے  بفرمان کلام  الہیٰ نہایت غور و فکر  سے آزما کر (تسلونیقیوں ۵: ۲۱) ثابت کر لیا اور اکثر کر ابھی دیا ہے۔ بلا تحقیق و غور کئے  فوراً  ’’جھوٹ‘‘  کہدینا گویا داخل ثواب سمجھتے ہیں۔ کہ ’’کیا تم نہیں جانتے کہ ناراست خدا کی  بادشاہت  کے وارث نہ ہوویں گے‘‘۔ قرنتیوں ۶: ۹۔

( ارواح کو ثواب )

محمدی اپنے ہر متوفی کے تیسرے و چالیسویں روز کچھ کہانے پر فاتحہ  دلوا کر اس کی روح کو ثواب پہنچانے کا خیال کرتے ہیں۔ بلکہ سال کے اندر کئی تیوہار بھی بعض  بزرگوں کی ارواح کو بعض کہانوں پر فاتحہ دلوا کر ثواب  پہنچانے کے کے خیال سے مقرر بھی کئے ہیں۔ مثلاًمحرم کی دسویں(۱۰) تاریخ حسن حسین اور اُن کے ہمراہیوں کی ارواح کو ثواب  پہنچانے کے لئے کچھ کھچڑی پکا  کر اور اس پر فاتح دلوا کر محتاجوں  کو تقسیم  کرتے  پھر  ربیع الاول کی ۱۲ تاریخ جو اکثر وں کے خیال کے موافق حضرت محمد کی وفات کا روز  ہی کچھ کھانے پر فاتحہ دلوا کر حضرت  کی روح کو ثواب پہنچانے کا خیال کرتے ہیں۔ پھر چودھویں  شعبان کو شب  برات کا تیوہار  مانتے ہیں اور اس روز  اپنے کل متوفی بزرگوں  اور رشتہ داروں کی ارواح کو ثواب پہنچانے کے خیال سے کچھ کھانوں پر فاتحہ دلوا کر محتاجوں کو تقسیم کرتے ہیں اور خود کھاتے ہیں۔

ہندو بھی اپنے ہر متوفی کے لئے تیرہ روش تک اپنے مذہب کے خیال کے موافق بہت کچھ کریا کرم کرتے اور آخر تیرہویں  روزاپنی حیثیت کے موافق کپڑا۔ کھانا۔ چارپائی اور سامان جو بہم پہنچنے  اجارچ پرہمن کو دیتے ہیں تاکہ اُن چیزوں کے زریعہ  اُنکے متوفی کی آتما کے سفر میں اُس کو آرام ملے۔ ہندوؤں  میں بھی سال کے اندر کو ارکے مہینے میں ۱۶ دن خاص سرادہوں کے نام سے مقرر کئے گئے ہیں تاکہ اُن دنوں میں اپنے کل متوفی بزرگوں و رشتہ داروں کی آتماؤں (پتروں) کو بعض  ؎۱ کھانےبرہمنوں کو کہلانے کے زریعہ فائدہ حاصل ہو ’’ کیونکہ جبتک نہایت


؎۱ سرادہوں کے مقرری کھانوں کی پوری تفصیل  جن سے پترایک  ماہ سے ۱۲ برس بلکہ بے انتہا برس تک آسودہ رہ سکتے ہیں دہرم شاستر منو کی تیسرے دہیا ء کے اشلوک ۲۶۷ سے ۲۷۲ تک مرقوم ہے۔ مگر چونکہ اُن میں طرح طرح  کے گوشت مذکور ہیں۔ اسباعث برہمنوںنے اِن سب کوتچھ سمجھ کر صرف  اشلوک ۲۶۷اور ۲۷۱ کے بعض کھانے یعنے۔ دؔہان۔ اُرؔد۔ جؔل۔ سولؔ۔ پھؔل وغیرہ اور  گؔنوکا دورہ یا اسکی کہیرؔ کو جس سے پتھر صرف ایک سال تک آسودہ رہ سکتے ہیں گرم کھانا مون (چپ چاپ) ہو کے برہمن کھاتے ہین تب تک وہ کھانا پرونکو پہنچتا ہے‘‘ شاستر منو ادہیاء ۳۔ اشلوک ۲۳۴ ۲ ۲۳۸۔

مگر کلام خدا بیبل  مقدس کے سکی مقام سے ایسی کوئی تعلیم ظاہر نہیں ہوتی کہ کسی انسان کی روح کو اس کے مرنے بعد کوئی انسان کس طرح سے کچھ فائدہ یا ثواب  پہنچانے کا خیال بھی کر سکے۔ بلکہ صرف یہی ظاہر ہوتا ہے کہ جو کچھ انسان نے اپنے جیتے جی اس دنیا مین کرلیا سو بس ہے اُسی کی سزا یا جزا عاقبت میں اس کو لے ھی۔ علاوہ بریں عقل بھی گوارا نہیں کر سکتی  ہے کہ روح جو مثل  ہوا کے ہی اس کو کوئی جسمانی کھانے۔ کپڑے یا اور کسی چیز سے کچھ بھی فائدہ حاصل  ہو سکے جو نہ اُن چیزوں کی ضرورت رکھتی اور نہ اُن  کو اپنے استعمال میں لاسکتی ہے۔

پس یہ سب خیالی باتیں ہیں جو کلام خدا کی عدم واقفیت  سے ایجاد ہوئیں۔ اور صرف انسانی خیالات پر مبنی  ہیں۔

(لفظ پر ستی)  

روایت ہے فرمایا حضرت  نے ’’اے لوگو توبہ کرو خدا کی طرف۔ کیونکہ میں بھی توبہ کرتا ہوں ایکدن  میں  سو (۱۰۰) دفعہ۔ سو (۱۰۰) دفعہ  توبہ کرنے کا یہ مطلب ہے کہ لفظ توبہ سو (۱۰۰) دفعہ ہر روز پڑہا کرتا ہوں۔ پس اسی دستور پر اکثر محمدی تسبیح ہاتھ میں لے کر۔ یا انگلیوں پر شمار کر کے سو (۱۰۰) دفعہ یا کم و زیادہ  استغفراﷲ ربی واتوب الیہ پڑہا کرتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ یوں مغفرت حاصل ہوگی۔

ہندو بھی خیال کرتے ہیں کہ ’’ اُونگ  بھوَدوُ۔ بھَودوُ  سوُاہ اور گائتری کے تینوں چرنوں کو دونوں سیندھیامیں وبدپڑھنے والا برہمن  چپ کرے تو سمپورن پُن پرَاپَث ہوں۔ انہیں  تینوں الفاظ کو باہر جا کر ہزار  بار ایک مہینے تک پڑھے تو پڑے پاپ سے چھوٹ جائے جس طرح  سانپ کنیچلی سے چھوٹتا ہے۔ جو برہمن ۔ کشتری۔ ویش۔ اِن تینوں کو اپنے  پڑھنا نہیں پڑھتا  ہے اس  کے بجاے  وہ لوگ نندا کرتے ہیں۔یہ ہی تینوں یعنے اَوننگ بھَوہُ۔ بھُواوُ  گا ئتری  وید  کا کہا ہے۔ اور پرم آتما کے ملنے کا دروازہ  ہے۔ جو شخص کاہلی چھوڑ کر تین  برس تک ہر روز انہیں  تینوں کو پڑھے وہ بشکل  ہوا ہو کہ  رہم پروی کو  حاصل کرے’’ شاستر منو ادہیاء ۲۔ اشلوک ۷۸ سے ۸۲ تک۔

مگر کلام خدا انجیل مقدس میں کوئی لفظ یا جملہ  ایسا نہین ٹھہرایا گیا۔ کہ جس کے  سو (۱۰۰) یا ہزار (۱۰۰۰)  بار صرف بولنے یا کہنے سے انسان  کو کوئی فائدہ حاصل ہو سکے۔ بلکہ یہ کہ انسان نئے جنم کے وسیلے دل کی تبدیلی حاصل  کرے (یوحنا  ۳:۳) اور خدا سے مدد پا کر ( زبور ۱۱۵۔ ۱۱) تمام عمر اس کی مرضی کے موافق اپنی زندگی بسر  کرے۔ تو وہ زندگی  کا تاج ( ابدی خوشی) حاصل کریگا۔ مکاشفات ۲: ۱۰۔

(قبر پرستی)

’’ حضرت نے شروع میں قبروں کی زیارت سے منع کیاتھا۔ مگر بعد کو حکم کیا۔ کہ قبرونکی زیارت کیا کریں اور قبروں  پر جا کر مرُدوں  سے کہیں: ۔ اسلام علیکم یا اھل القبورُ ( اے قبروں میں رہنے والو تمپر سلام) اور اُنکے واسطے دعا  کریں۔ اور قرآن کی عبارتیں پڑھکر انہیں ثواب بخشیں ۔ بلکہ یہ بھی فرمایا۔ کہ کعبہ کے حج کے بعد اگر کوئی میری قبر پر آئے گا۔ تو ایسا  ہوگا۔ جیسے زندگی میں وہ مجھ سے ملا۔اور ایک حج کے عوض  دو حجوں   کا ثواب  اُس کو ملیگا۔ ۔ لیکن جس نے حج کیا  اور میری قبر پر نہ آیا وہ ظالم ہے۔‘‘

اسی خیال پر بعض محمدی صاحبان  اکثر مشہور قبروں پر جانا  اور اُنپر میلے و روشنی  اوراُنکی زیارت کرنا۔ اور چڑہاوے چڑہانا ضروری  کہتے ہیں۔ اور خیال کرتے ہیں ۔ کہ اُن پیروں اور ولیوں کی رضامندی کے زریعہ اُن کو کچھ  فائدہ حاصل ہوگا۔ اور نادانوں کو سمجھانیکے لئے ان کی فضیلت میں بڑی بڑی  روائیتیں گھڑ رکھی ہیں۔ جن کو عوام  بڑے شوق سے سنتے اور راست خیال کرتے ہیں۔ حالانکہ اُن کی کچھ بھی اصل نہیں۔ بلکہ صرف خیالی باتیں ہیں ( کتاب  لفیش لاولیا کو پڑھو اور دیکھو) جن کے سبب انسان کا توکل خدا سے علیحدہ ہو کر صرف ایک خاک کی ڈھیری پر لگ جاتا  ہےجو اُسکی مرضی کے بالکل خلاف ہے۔

ہندو بھی بعض فقیروں اور سادہوؤنکی  سمادہیں بناتے۔ اور اُن کی تعظیم  کرنا ضروری  سمجھتے ہیں۔ بلکہ بعض مشہور آدمیوں اور اکثر دیوی درگا اور بہو انیوں کے نام پر مٹہ و مند رہنا کہ بعض میں اُن کی مورتیں بھی بنا بنا کر رکھتے ہیں۔ اور مٹہ اور مندرونپر جا کر بعض  دفعہ  روشنی اور میلے بھی کرتے۔ اُن پر چڑہاوے  چڑہاتے ہیں۔ اور اُن سے منتیں مانگتے ہیں۔ اور نہ صرف ان سے ۔ بلکہ محمدیوں کی دیکھا دیکھی اِن کے نامزد پیروں  اور دلیوں کی قبروں پر بھی جا کر اور اُن کے خیالوں اور  باتوں میں شریک ہو کر اُن کے موافق وہ بھی مانتے اور عمل میں لاتے ہیں۔

مگر کلامِ  خدا بائبل مقدس کے کسی  مقام مین قبر پرستی کی کوئی تعلیم کا اشارہ بھی ظاہر نہیں ہوتا، اور نہ کسی  خدا کے نبی نے کہیں یہ فرمایا  کہ ۔ میری قبر پر آنے  اور زیارت کرنے سے تمکویہ۔ یاوہ فائدہ حاصل ہوگا۔ ورنہ ظالم ٹھہیروگے۔ بلکہ فعل مذکور کو صریح بت پرستی میں ظاہر کیا گیا ہے۔ جو عین گمراہی اور خدا کی نظر میں  نہایت نجس  کام ہے۔ ایسے کام سے بچنے کے لئے خداوند تعالیٰ  نے حضرت موسیٰ کی قبر کو ایسا غائب کر دیا ۔ جسکا آج تک کہیں پتہ بھی نہ لگا۔ (استثنا ۳۴: ۵۔ ۶) اور یہ اس لئے ہوا کہ مبادا نبی اسرائیل  اُس کی قبر کی پرستش کرنے لگ جائیں ( نامہ یہواہ  ۱:۹) اور اگرچہ بعض نبیون اور اکثر بزرگوں کی قبریں بعض جگہ آجتک بھی نامزد ہیں۔ مگر کوئی مسیحی ان کی قبروں پر اُن کو ثواب  پہنچانے۔ یا اُن کے زریعہ کوئی ثواب  یا فائدہ  حاصل  کرنے کے لئے خیال سے ہر گز  نہیں جاتا ہے۔

 ( خیالی گناہ)

’’محمدی علماء نے گناہ کی دو قسمیں ٹھہرائی ہیں۔ یعنے فعلیؔ و خیالیؔ۔خیالی گناہ جس کو وہ  وسوسہ یا باطل  منصوبہ  بھی کہتے ہیں اُس کی چار قسمیں مقرر کی ہیں۔ یعنےحوابسؔ۔ خواؔطر۔ اختیاراتؔ اور عوازمؔ۔ اول تین اقسام کے وسوسے محمدیوں  کے خیال میں اُن کو معاف ہیں۔ مگر قسم  آخر عوازمیں مسلمانوں کا  تھوڑا سا مواخذہ  اﷲکریگا۔ پوری سزا پھر بھی اُن کو نہ دیگا۔ اس لئے کہ وہ مسلمان ہیں اسلام کی رعایت ہوگی۔

ہندو بھی  منسا پاپ (ّخیالی گناہ) کو قابل مواخذہ پاپ خیال نہیں کرتے ہیں۔ جبتک کہ اُس کو پورا عمل ظہور میں نہ آوے۔

مگر کلام خدا بائبل مقدس  سے ظاہرہوتا ہے۔ کہ گناہ کو جڑ خواہش ہے( جسکو غیر لوگ ایک ہلکی بات خیال کر کے اس سے بے پروا رہتے ہیں) وہی پیشتر انسان کے دل و خیال  میں پیدا  ہوتی ہے۔ اور بعدہ وہ گناہ  کا ایک  درخت  بن جاتی ہے (ایوب ۱۵: ۳۵ و یعقوب  ۱: ۱۵) پس گناہ  قابل  سزا  بدرگاہ  الہیٓ وہی ہے جس کی خواہش انسان کے دل میں پیدا ہوتی ہے۔ جس کو  انسان ظاہر اً عمل  میں لاسکے ۔ یا نہ لاسکے۔

قول خداوند یسوع مسیح تم سن چکے ہو اگلوں سے کہا گیا۔ توخون  مت کر۔ اور جو کوئی خون  کرے  عدالت میں سزا  کے لایق ہوگا۔ پر میں (مسیح)  تمہیں کہتا ہوں ۔ کہ جو کوئی اپنے بھائی پر بے سبب غصہ ہو عدالت (روز حساب) میں سزا  کے لایق  ہوگا ( متی ۵: ۲۱، ۲۲) تم سن چکے ہو کہ  اگلوں سے کہا گیا تو زنا مت کر۔ پر میں (مسیح) تمہیں کہتا ہوں۔ جو کوئی شہوت سے کسی عورت پر نگاہ  کرے وہ اپنے دل میں اُس کے ساتھ زنا  کر چکا‘‘ ۲۷، ۲۸ آیتیں۔

پس گناہ کی اصلی جڑ اس کی کواہش ہے جو پہلے انسان کے دل و خیال میں داخل ہوتی ۔ اور  بعد میں انسان کو نہایت نفرتی و مکروہ بنا کر  خدا سے دور کرتی دیتی ہے۔  

 (منتر۔ جنتر ۔ تعویذ گنڈے وغیرہ)

   ’’حضرت نے یہ بھی تعلیم دی ہے۔ کہ بیماریوں میں دوا بھی کی جائے۔ اور بعض بیماریوں میں منتر پڑ ہے جائیں۔ پر شرک  کے  مغفر نہوں چاہئے  کہ قرآن کی آیتیں کو منتر بناویں۔ اور خدا نے ناموں کو بھی منتر بناویں۔ اور غیر زبانوں کے منتر بھی پڑھے جاویں۔ بشرطیکہ اس کے ناموں میں شرک نہو ۔ بلکہ حضرت  نظر بد کے بھی قائیل تھے‘‘۔

پس اسی خیال پر اکثر محمدی صاحبان مولویوں ملانوں سے تعویذ اور گنڈے لے کر اور دم کر اکر  اپنے بچوں وغیرہ  کے گلوں اور ہاتھوں پر باندھنا بہتر خیال کرتے ہیں۔ اور اُنکے زریعہ بعض بیماریوں۔ خطروں اور  نظر بد و غیرہ سے محفوظ رہنے کے لئے اکثر منتر ۔ جنتر۔ اور جہاڑ۔ پھونک وغیرہ کا زیادہ رکھتے ہیں بلکہ اکثر مولویوں و ملانوں سے بھی تعویذ اور گنڈے استعمال کرتے۔

مگر کلام ِ خدا  بائبل مقدّس ایسے سب وہمی و خیالی باتوں کو ناروا۔ بلکہ جادوگری ٹھہراتا ہے۔ جو اُس کی مرضی کے  محض خلاف ہے۔ ۲۔ سلاطین ۱۷: ۱۷۔ ۲۔تواریخ ۳۳: ۱) پس اس عدولی مرضی آلہیٰ کے سبب کو ئی  مسیحی جو خدا کےکلام  سےواقف ہے ہر گز ایسا نہ کریگا۔ کیونکہ فعل مذکور اس کی نظر میں محض گھنونا اور بیجا ہے۔ جس سے مطلق کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا مگر ہاں بیماریوں کا علاج کرنا ۔ اور مریض کے لئے خدا کے حضور  میں التجا کرنا ایک امر ضروری اور عقل کے موافق بھی ہے۔ اگر مریض کی شفا اُس کی مرضی مبارک کے موافق ہے۔ تو ضرور اُس کو شفا حاصل  ہوگی۔ جس کو نہ صرف مسیحی ۔ بلکہ دنیا کے کل اپل عقل بھی تعلیم کرتے ہیں۔

 ( مکروہ اوقات)

 ’’حضرت نے تین وقت بھی مکروہ ٹھہرائے ہیں جن میں نماز یا خدا کو سجدہ کرنا ناجائز بلکہ حرام ہے۔ یعنے اول وقت طلوع  اور دوم غروب آفتاب جن کی وجہ حضرت نے یہ بتلائی ہیں قرنین الشیطان جس کے لفظی معنے یہ ہیں کہ درمیان دو سینگوں شیطان کے یعنے طلوع و غروب کے وقت  سورج درمیان  دو سینگوں شیطان کے ہوتا ہے۔ جس کو وہ اپنے سینگوں پر  اُٹھا لیتا  ہے۔ اور وقت سوم دوپہر کو جو نماز منع ہوئی اس کا سبب حضرت نے یہ  بتلایا ہے  ان جنھم تسجر الایومہ الجمعہۃ کہ دوپر کے وقت دوزخ میں ایندھن  یا بالن جھونکا جاتا ہے۔ مگر جمعہ کے دن نہیں جھونکا جاتا‘‘۔

ہندوؤں میں بھی بعض  وقت و بعض جگے وید شاستر کا پڑھنا منع کیا گیا ہے مثلاً۔  یٔتھا شکت اتسرگ کر کے پکش رات تک  یا  اُتسرگ کے دن رات تک اور یکووسٹ سرادہ کانیونا کے کر اُس کے تین دن بعد تک اور راجا کے سُو تک میں اور چاند و سورج کے گر مین کے وقت وید کو پڑھنا نہ چاہئے۔ شُکل پکش میں وید کو اور کرشن پکشن میں شاستر کو پڑھے۔ شدُر کے پاس۔ ناپاک جگے یا ناپاک جسم ہو تو اِن  حالتوں میں پڑھناجتن سے تیاگ کرے۔ شاستر  منو ادھیا ء ۴۔ اسلوک۹۷، ۹۸، ۹۹، ۱۱۰، ۱۲۷۔

مگر خداوند  یسوع مسیح نے انجیل مقدّس میں نہ کوئی وقت نماز  (دُعا) کرنے کے لئے مکروہ ٹھہرایا اور نہ کسی وقت یا کسی جگہ یاکسی کے پاس کلام خدا  کے پڑھنے اور اُس پر گور کرنے سے منع کیا ہے۔ کیونکہ نماز  (دعا) میں خدا سے مدد حاصل کرنا اور کلام خدا سے تسلّی پانا خاص کر برُے اور امتحان کیوقتوں میں ہی کمال ضروری ہے بلکہ خدا کے بندوں کے لئے ایسے وقتوں میں یہی روحانی و اصلی ہتھیار ٹھہرائے گئے ہیں جن کے زریعہ وہشیطان کا مقابلہ کر کے اُس پر غالب آسکتے ہیں ( افسیوں ۶: ۱۰ سے ۱۸ تک) مگر یہ سمجھ میں  نہیں آتا کہ سورج کے ساتھ ایسی حرکت شیطان کے کرنے کے یا دوزخ میں ایندھن جھونکے جانے کے وقت نماز آلہیٰ میں کیا  خلل واقع ہو سکے۔ بلکہ خاص ایسے ہی وقتوں میں نماز بہت ضروری ہے تاکہ خدا دوزخ  کے سخت عذاب سے بچاوے۔ پھر یہ بھی خیال  سے بالکل باہر بات کہ کسی کتاب کی تاثیر  کس وقت۔ کسی جگہ یا حالت میں یا کسی آدمی کے پاس پڑھنے سے جاتی رہے بلکہ جو کتاب آلہیٰ ہے وہ خاص  ایسے ہی وقتوں و حالتوں میں انسان  کی رہنما ہے ( زبور  ۱۹۹: ۱۰۵) اور خاصکر برُے نادان و جاہل  لوگوں کے سامنے پڑھنے اور اُس  کا مطلب اُن کو سمجھانے سے بہت کچھ فائدہ حاصل  ہوا ور ہو سکتا ہے۔ کیونکہ خدا کے سامنے کل بنی آدم یکساں ہیں اور اس لئے اُس کا کلام  مقدس بھی کل انسانوں کے لئے ایک موثر اور فائدہ بخش  عطیہ ہے۔ زبور ۱۹: ۷، ۸۔

یہاں تک محمدی صاحبان کے بعض خیالات و  مینیہ درواجیہ کامقابلہ جو مزکور ہوا اُس کی بابت ہر دانا و ہوشیار  آدمی جان سکتا۔ کہ اِن مزکورہ خیالات  میں کوئی خاص میرا گھڑا ہوا خیال نہیں ہے۔ بلکہ وہ سب کچھ ان کی مذہبی کتاب قرآن۔ یا دوسری تصاویف کا انتکاب ہے۔ علی ہذا القیاس ہندوؤں کے خیالات بھی۔ جو اُس کے مقابلہ میں درج ہوئے۔ وہ یہی بہت کچھ ان کے مذہبی قانون دہرم  شاستر منو سے نقل ہوئے۔ جس کو ہر ایک ہندو مانتا اوت جانتا ہے۔ اور جن کا مقابلہ کرنے سے ہر کوئی ان کی حقیقت  کو معلوم کر سکتا ہے۔ اگرچہ  شاستر مذکور  کی سب باتیں تو آج کل نہیں مانی جا سکتیں۔ مگر تو بھی بہت کچھ دینی و دنیاوی رسومات میں مانی  اور ادا کیجاتی ہیں۔ اور اگر چہ ایکدو باتیں صرف روائیتی بھی درج ہوئیں۔مگر وہ بھی کوئی نئی نہیں ہیں کیونکہ ہر کوئی ان کو تسلیم کرتا ہے۔  

مسیحی تعلیم کا جو انتخاب درج ہوا وہ بھی میری من گھڑت باتیں نہیں ہیں بلکہ تعلیم بیبٔل  کے موافق ہے۔ جس کو نہ سرف میں۔ بلکہ کل دنیا کے مسیحی تسلیم کرتے ہیں۔ پس اس مقابلہ سے جو کچھ ظاہر ثابت  ہوتا۔ وہ یہ ہے۔ کہ محمدی صاحبان  کے مذکورہ کل خیالات صرف اہل ہنود کے خیالوں کے موافق اور اہل کتاب مسیحیّوں کی تعلیم کے محض خلاف  اور بےسود ہیں۔

اب فرمائے کس طرح کوئی حقیقی طالب حق اپنی روح کو ان خیالوں کے سپرد کر کے اپنا دلی اطمینان اور پوری خوشی حاصل کر سکتا ہے؟ لیکن اگر ان کی کوئی دوسری حقیقت ہے۔ تو جیسا مین نے ہیشتر عرض کیا پھر بھی مکرّروہی التماس کیا جاتا ہے کہ براہ نوازش ان کی حقیقت سے پوری آگاہی جو مناسب ہے عنایت فرمائیں۔ زیادہ آداب۔

راقم۔۔۔ بہادر مسیح ۔ مناد