چوتھا با ب

تیاری کی آخری منزلیں

اب جس وقت قوم کی یہ حالت ہو رہی تھی۔ اس وقت وہ جس کے آنے کی راہ لوگ اپنے اپنے خیال کے کے مطابق دیکھ رہے تھے۔ اس دنیا میں آیا۔ لیکن انہوں نے نہ جانا کہ وہ آگیا ہے اور وہ کب یہ خیال کر سکتے تھے کہ جس کی انتظاری کے متعلق ہم غور و فکر میں مصر وف اور دعا و مناجات میں مشغول ہو رہے ہیں۔ وہ ناصرت جیسے حقیر شہر میں ایک بڑھئی کے گھر میں پرورش پا رہا ہے۔ اور درحقیقت یہی ہور ہا تھا۔ یعنی وہ یوسف کے گھر میں اپنے کام کے لئے تیاری کر رہا تھا۔ وہاں وہ پرا نے زمانے کی نبوتو ں اور موجود حالات کو دیکھ کر اپنے کام کی عظیم وسعت کے سمجھنے میں مصروف تھا۔ وہاں اس کی آنکھیں ملک کا معائنہ کر وہی تھیں۔ اور اس کا دل گناہ اور خرابی کی کثرت کو دیکھ کر اس کے پہلو میںتڑپ رہا تھا۔ وہ اپنے اندر ان عظیم طاقتوں کو جنبش کرتے ہوئے محسوس کر رہا تھا۔ جواس کےے بھاری مقصد کی انجام وہی کے لئے ضروری تھیں۔ آخر کار یہ جذبہ شوق دریا کی طرح اُمڈ آیا اور وہ مجبور ہوا کہ اپنے دل کا حال ظاہر کرے اور جس کام کے لئے آیا ہے اسے انجام دے۔

یسوع کو اپنے اصل کام کی بجا آوری کے لئے صرف تین سال ملے اور اگر ہم اس بات پر غور کریں کہ انسانی زندگی کے معمولی تین سال کس قدر جلد گذر جاتے ہیں۔ اور ان کے خاتمہ پر کیسا تھوڑا کام ان سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔ تو ہم محسوس کریں گے۔ کہ وہ سیرت عجیب وقسم اور عظیم قامت کی ہو گی اور وہ زندگی لاثانی طور پر اپنے ارادوں کی یکتائی اور پختگی سے معمور ہو گی۔ جس نے ایسے قلیل سے عرصہ میں دنیا پر ایسا گہرا اثر ڈالا ہے۔ جسے کسی تدبیر کا ہاتھ دور نہیں کر سکتا اور بنی آدم کے لئے صداقت اور معرفت کی دولت کی ایسی میراث پیچھے چھوڑی جسے کوئی رہزن لُوٹ ہیں سکتا۔

عموماً مانا جاتا ہے کہ جب مسیح دنیا کے سامنے آیا اس وقت اس کے تصورات نشوونما پا کر ترتیب کے سانچے میں مرتب ہو چکے تھے اور اس کی سیرت کا ہر پہلو پختہ بن گیا تھا۔ اور اس کے ارادے ایسے راسخ اور پکے ہو گئے تھے۔ کہ وہ بے ہچکچاہٹ اپنے کام کو انجام تک پہنچانے کے لئے لگا تار کوشش کر سکتا تھا۔ تیس سال کے عرصہ میں کبھی ایک دم کے لئے اس راستے سے دائیں بائیں نہ پھرا ، جس پر اس نے اپنے کام کے شروع میں قدم رکھا تھا۔ اور اس کا یہی سبب ہو گا کہ کام شروع کرنے سے پہلے تیس برس کے عرصہ میں اس کے تصورات اور اس کی سیرت اور اس کی تدبیریں اپنی نشوونما کی تما م منزلیں طے کرتی ہو ں گی۔

اس کی زندگی کاجو حصہ ناصرت میں گزرا، اس میں بظاہر کسی طرح کوئی غیر معمولی خصوصیت نظر نہیں آتی۔ پھر اگر پردہ اٹھا کر دیکھا جائے تو تہ میںقسم قسم کے تصورات اور گونا گوں خیالات کی کثرت بڑے بڑے ارادوں اور تجویزوں کی شوکت اپنا رنگ دکھائے گی یا یوں کہیں کہ اس پاک اور سنجیدہ زندگی کی سطح کے نیچے بالیدگی کے تما م عمل جاری تھے جو انجام کار اس خوبصورت پھول اور خوش نما پھل میں نمودار ہوئے جن کو اب تمام زمانہ حیرت کی نظر سے دیکھتا ہے۔ اس تیاری میں بہت ساوقت لگا۔ تیس برس تک خاموش رہنا اور اپنے اصل کام کو ہاتھ نہ لگا نا واقعی ایک طویل زمانہ تھا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے بعد بھی اور کوئی بات اس کی زندگی میں اس خاموشی سے زیادہ شاندار نہیں جو وہ کام اور کلام دونوں میں ظاہر کرتا ہے۔ یہ خاصیت بھی اس میں ناصرت ہی میں پیدا ہوئی جہاں وہ خاموشی کے ساتھ اس وقت تک انتظاری کر تا رہا جب تک کہ تیاری پوری نہ ہوئی۔ وقت سے پہلے کوئی چیز اس کو تنہائی سے باہر نہیں لا سکتی تھی۔ چنانچہ نہ یہ زبردست خواہش کہ اپنے گھر سے نکل کر اپنے زمانہ کی خرابیوں اور غلطیوں کا مقابلہ کر ے اور نہ یہ آرزو کہ اپنے ہم جنسوں کو فائدہ پہنچائے وقت سے پہلے اس کو باہر لائی۔

مگر جب وقت آیا تو اس نے بڑھئی کے اوزاروں سے ہاتھ اٹھایا اور اس لباس کو جو اپنی دکان میں پہنا کر تا تھا۔ اتار ڈالا اور اپنے گھر اور ناصر ت کی دلکش وادی کو خیر باد کہہ کر نئے طریق زندگی پر قدم رکھا مگر ابھی سب کچھ تیار نہ تھا۔ کیونکہ اگرچہ اس کی انسانیت خاموشی کی حالت میں اعلیٰ درجہ کی ترقی کر گئی تھی۔ تو بھی اپنے کام کو ہاتھ لگانے سے پہلے اسے ایک خاص قسم کی مد د کی ابھی ضرورت تھی۔

اور اسی طرح یہ بھی ضرور تھا۔ کہ اس کے تصور اور ارادے ایک عجیب قسم کی آزمائش کی آگ کے وسیلے سے نہایت مضبوط و پختہ کئے جائیں۔ پس اس کی تیاری کے آخری دو باتیں یعنی بپتسمہ اور آزمائش ابھی وقوع میں آنے والی تھیں۔

اس کا بپتسمہ۔ واضح ہو کہ مسیح ناصرت کی خاموشی سے نکل کر یک بیک لوگوں کے سامنے نہیں آیا۔ بلکہ اس کے آنے کے اطلاع پہلے دی گئی یایوں کہیں کہ ایک طرح سے اس کاکام اس کے ہاتھ لگانے سے پہلے شروع ہو چکا تھا۔ مسیح موعود کی آواز سننے سے پہلے قوم کو ایک مرتبہ پھر نبوت کی آوا ز جو مدت سے خاموش ہو رہی تھی۔ نصیب ہوئی چنانچہ تمام ملک میں یہ خبر پھیل گئی تھی۔ کہ یہودیہ کے صحرا میں ایک مبشر نمودور ہوا ہے۔ وہ نہ ان لکیر کے فقیروں کی مانند ہے جو مرے کھپے لوگوں کے خیالات کو عبادت خانوں میں سنا یا کرتے ہیں۔ اور نہ ان یروشلیم کے رہنے والے استادوں کی طرح ہے۔ جو مہذبانہہ آداب میں تاک اور فصیح بیانی میں مشاق ہیں بلکہ ایک ایسا شخص ہے جو خوشامد کی آلودگی سے آزاد اور بدن میں قوی ہیکل ہے اور دل کی طرف مخاطب ہو کر بولتا ہے اور پھر ایسے اختیار کے ساتھ کہ گویا اپنے الہام کے متعلق کسی طرح کاشک وشبہ مطلق نہیں رکھتا۔ یوحنا بپتسمہ دینے والا اپنی ماں کے پیٹ ہی سے نذیر تھا۔ اس نے کئی سال صحرا میں کاٹے تھے۔ جہاں وہ بحیرہ مردار کے ساحلوں پر اپنے دل کے خیالات میں مگن ہو کر سیر کیا کرتا تھا۔ وہ پرانے نبیوں کی طرح بالوں کی پوشاک اور چمڑے کا کمربند پہنا کرتا تھا۔ اور نفس کشی کی شدت اس درجہ تک پہنچی ہوئی تھی۔ کہ وہ اچھے اچھے کھانوں کا محتاج نہ تھا۔ بلکہ ان ٹڈیوں اور جنگلی شہد پر گذار ا کیا کرتا تھا۔ جو اس بیابان میں مل سکتے تھے۔

یوحنا کی نسبت جو کچھ کلام الٰہی میں لکھا ہے اس معلوم ہوتا ہے کہ وہ گوشہ نشین اور نہایت ریاضت کرنے والا اور نفس کش آدمی تھا۔ اس نے آباد جگہوں کو چھوڑ کر بیابان میں رہنا اختیار کیا پر اس تنہائی سے اس کی یہ غرض نہ تھی کہ مشہور دیو جانس کلبی کی طرح بنی آدم سے بے پروا اور متنفرہو کر کنج تنہائی میں جاچھپے یا اپنی نفسانیت سے تنگ آکر یا اس سے پناہ پانے کے لئے بھا گ جائے بلکہ اس کی صحرا نشینی کا یہ مقصد تھا کہ اپنے اوپر قابو پائے اور وہ صفتیں پیدا کرے جو خدا کے سچے نبی اور مسیح کے پیشرو کے لئے ضروری ہیں۔

یوحنا کی طبیعت میں جوش بہت تھا۔ پس اس نے بڑی محنت اور جنگ و جدل سے اپنے مزاج پر قابو پایا۔ اگر اس میں سلامتی یا شانتی نظر آتی ہے تو وہ بڑی دعا اور سچی توبہ سے حاصل کی گئی تھی۔ پر اس کی دعا اور توبہ کی جگہ وہی بیابان تھا۔ اس فتح کی پیشانی پر جو اس کو نصیب ہوئی لڑائی کے ایسے آثار موجود تھے جو ظاہر کرتے تھے کہ جنگل میں بڑی جدوجہد کے ساتھ غلبہ حاصل کیا ہے اور جو امن اس کی زندگی سے ظاہر ہوتا تھا۔ اس میں سے بھی اب تک اس بے آرامی اور بے چینی کے طوفان کی بو آتی تھی جو صحرا میں اس پر آئی۔ اسی طرح اس کی تعلیم سے بھی اس بیابان کا رنگ ظاہر ہو جاتا ہے۔ جہاں اس نے اپنے کام کی تیاری کی چنانچہ وہ اپنی تقریر میں بار ہا پتھر اور سانپ اور سوکھے ہوئے یا بے پھل درختوں کی نظیریں پیش کر تاہے۔

خداوند مسیح نے اسے اس کی طبیعت اور کام کے لحاظ سے جلتے ہوئے چراغ یا مشعل سے تشبیہ دی اور فے الحقیقت وہ ازسر تا پا ایک وعظ تھا۔ پس اس کا اپنے آپ کو آواز کہنا نہایت درست اور موزوں لقب تھا۔ اس کی ایک ایک حرکت سے یہی آواز کہنا نہایت درست اور موزوں لقب تھا۔ اس کی ایک ایک حرکت سے یہی آواز آتی تھی۔ کہ ”خداوند کی راہ تیا ر کرو“۔ یہی شخص پیشروی کے کام کے لائق تھا کیونکہ اس میں الیاس کی روح بکثرت پائی جاتی تھی۔

مگر باوجود اس گوشہ نشینی کے وہ زندگی کے ہر پہلو سے بخوبی واقف اور اپنے زمانے کی تمام خرابیوں سے آگاہ تھا۔ مذہبی فرقوں کی ریا کاری کو خوب جانتا تھا۔ اور عام و خاص کی بدیاں بھی اس سے پوشیدہ نہ تھیں۔ علاوہ بریں وہ دل کو جانچینے اور ضمیر کو ہلانے کی عجیب قدرت رکھتا تھا۔ قدرت رکھتا تھا۔ اور بے خوف و خطر ہر قسم کے لوگوں کے دلفریب گناہوں کو فاش کرنا جانتا تھا۔ لیکن جس بات کے سبب سے لوگ اس کی طرف زیادہ راغب ہوئے اور جس نے ملک کے ایک سرے سے دوسرے تک ہر یہودی کے دل میں ایک جنبش پیدا کردی۔ وہ اس کا پیغام تھا اور وہ یہ تھا۔ کہ مسیح کا وقت نزدیک آگیا ہے اور وہ بہت جلد خدا کی بادشاہی قائم کرنے والا ہے۔ یہ سن کر تمام یروشلیم اور سارا علاقہ اس کی طرف اُمڈ آیا کیونکہ یہ سبت کا سال تھا۔ اور لوگ زراعت کے کام سے فارغ تھے۔ پس طرح طرح کے لوگ آکر اس کی باتیں سنتے تھے۔ فریسی ہمہ تن گوش تھے کہ مسیح کی بابت کچھ سنیں بلکہ صدوقی بھی اس کی باتیں سن کر کروٹ بدلنے لگے۔ ادھر اُدھر کے تمام صوبوں سے ہزاروں لوگ اس کی منادی سننے کے لئے آئے اور بہت سے لوگ جا بجا اسرائیل کی نجات کے منتظر اور دست بدعا تھا۔ اس کے پاس جمع ہوئے تاکہ اس سے اس جو ش انگیز وعدہ کی خبر سنیں ،مگر علاوہ اس پیغام کے یوحنا کے پاس ایک اور پیغام تھا جس نے مختلف دلوں میں مختلف قسم کے خیالات پیدا کئے یعنی اس نے اپنے سننے والوں کو یہ بھی بتایا کہ تم قوم کی مجموعی صورت میں مسیح موعود کی ملاقات کے لئے بالکل تیا رنہیں اور تمہارا ابرہام کی نسل سے ہونا اس کی بادشاہی میں دخل پانے کے لئے کافی حق نہیں سمجھا جا سکتا کیونکہ اس کی بادشاہی راست بازی اور پاکیزگی کی بادشاہی ہے۔ پس مسیح کا پہلا کام یہ ہو گاکہ وہ ان کو جو ان صفات سے بے بہرہ ہیں اس طرح رد کرے گا۔ جس طرح زمنیدار بھوسے کو خارج کرتا ہے۔ یا جس طرح باغ کا مالک درخت کو جو میوہ نہیں لاتا جڑ سے کاٹ ڈالتا ہے۔ اس نے قوم کے ہر فرقے اور ہر شخص کو ہدایت کی کہ جب تک وقت ہے اسے غنیمت جانو اور توبہ کرو کیونکہ نئی بادشاہی کی برکتوں سے مخطوظ ہونے کی یہی ایک لازمی شرط ہے۔ پس اس اندرونی تبدیلی کو ایک خارجی رسم کے وسیلے سے ظاہر کرنے کے لئے اس نے ان سب کو جنہوں نے اس کے پیغام کو ایمان سے قبول کیا۔ دریائے یردن میں بپتسمہ دیا۔ کئی لوگوں کو خوف اور امید نے ہلا دیا۔ اور انہوں نے اس سے بپتسمہ پایا مگر بہت ایسے بھی تھے جو اپنے گناہوں کے فاش کئے جانے سے سخت ناراض ہوئے اور اسی ناراضگی اور بے ایمانی کی حالت میں اپنے گھر کی طرف روانہ ہوئے۔ ان میں زیادہ ترفریسی شامل تھے۔ جن کے ساتھ وہ زیادہ سختی سے پیش آیا اور جو خاص کر اس سبب سے ناخوش ہوئے کہ اس نے اس بات کی چنداں قدر نہ کی کہ وہ ابراہام کی اولاد ہیں کیونکہ ان کے خیال کے مطابق ان کا سارا دار و مدار اسی بات پر تھا۔

ایک روز یوحنا بپتسمہ دینے والے کے سننے والوں کے درمیان ایک شخص نمودار ہوا جس کی طرف یہ بپتسمہ دینے والا بڑی توجہ سے دیکھنے لگا۔ اس کی آواز جو بڑے بڑے استادوں کو تنبیہ کرتے وقت کبھی نہیں لڑکھڑائی تھی۔ اس نو وارد شخص کی صورت دیکھ کر کانپنے لگ گئی۔ اور جب گفتگو کرنے کے بعد اس نے بپتسمہ پانے کی درخواست کی تو یوحنا نے پہلو تی کرنا چاہا کیونکہ وہ جان گیا کہ یہ شخص اس توبہ کے بپتسمہ کا محتا ج نہیںجو میں اوروں کو بے تامل دے رہا ہوں۔ اور نہ ہی یہ میرا حق ہے کہ میں اسے بپتسمہ دُوں۔ اس نووار د شخص کے چہرے پر کچھ ایسی شاہانہ عظمت اور پاکیزگی اور شانتی نمایاں تھی کہ یوحنا جیسا مضبوط شخص بھی تھر تھر ا اُٹھا۔ اور اپنی نالائقی اور گنہگار ی کو دیکھ کر نہایت پشیمان ہوا۔ یہ شخص یسوع تھا جو ناصرت سے اپنی دکان چھوڑ کر سیدھا ادھر چلا آیا تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پہلے یسوع اور یوحنا کی ملاقات کبھی نہیں ہوئی تھی۔ اگرچہ ان کے خاندانوں میںباہمی رشتے داری کا تعلق پایا جاتا تھا۔ اور ان کی زندگیوں کے باہمی رابطے کی پشین گوئی ہو چکی تھی۔ اس ناواقفی[١] کی وجہ غالباً یہ تھی کہ ایک کا گھر گلیل میں اور دوسر ے کا یہودیہ میں تھا۔ اور ان دونوں ملکوں کے درمیان بڑا فاصلہ حائل تھا اور اس کے سوا ایک بڑا سبب یہ بھی ہو گا۔ کہ یوحنا عجیب قسم کی عادتوں کا آدمی تھا اور اس کی زندگی کا اکثرحصہ جنگلوں میں صرف ہوا تھا۔ لیکن جب یسوع کے حکم کی تعمیل کرنے کے لئے یوحنا بپتسمہ دینے لگاتو اس وقت اس نے معلوم کیا کہ اس اجنبی کے عجیب رعب داب کا کیا مطلب ہے کیونکہ خدا کی ہدایت کے بموجب اس وقت اس کو وہ نشان بخشا گیا جس کے وسیلے سے اسے مسیح کو جس کا پیشرو وہ تھا پہچاننا تھا۔چنانچہ روح القدس یسوع پر جبکہ وہ یردن سے دعا مانگتا ہوا باہر آیا نازل ہوئی اور اسی کے ساتھ ہی آسمان سے آواز آئی کہ یہ میرا پیارا بیٹا ہے۔

یوحنا پر یسوع کے دیدار سے جو تاثیر پیدا ہوئی وہ لفظوں کی نسبت کہیں زیادہ خوش اسلوبی سے یسوع کی مبارک صورت کا نقشہ کھینچتی اور اس کی سیرت کی ان خاصیتوں کا پتہ دیتی ہے۔ جو ناصرت میں رفتہ رفتہ ترقی پا کر آخر کار کامل ہو گئی تھیں۔

یہ بپتسمہ یسوع کے لئے ایک بڑا مطلب رکھتاتھا۔ عام لوگوں کے متعلق یہ ضابطہ دو مطالب رکھتا تھا۔ یعنی اس سے ایک تو پرانے گناہوں کو ترک کرنا اور دوسرے مسیح کے زمانے میں داخل ہونا مراد تھا۔ پر یسوع کے لئے گناہوں کو ترک کرنے کی ضرورت نہ تھی کیونکہ وہ بے گناہ تھا۔ پس اگر اس معنی کے مطابق اس نے بپتسمہ پایا تو صرف اس طرح کہ اس نے اپنی قوم کی جگہ کھڑے ہو کر اس بات کا قرار کیا کہ میں اپنی قوم کے لئے محسوس کرتا ہوں کہ وہ پاکیزگی کی محتاج ہے مگر اس کے بپتسمہ پانے کا اصل مطلب یہ تھا۔ کہ وہ خود اسی دروازے سے اس نئے زمانے میں داخل ہو جس کا بانی مبانی وہ آپ ہی تھا۔ گویا اس ضابطے کے وسیلے سے اس نے ظاہر کیا کہ وقت آپہنچا ہے کہ میں ناصرت کے کاروبار کو ترک کرکے اپنے خاص کام میں کام مصروف ہو جاوں۔

اکثر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ مسیح نے کیوں بپتسمہ پایا؟ اسے اس کی کیا ضرورت تھی؟ اس سوال کا جواب ہم اوپر رقم کر چکے ہیں۔ مگر یہاں ایڈر شام صاحب ایک مختصر مگر نہایت معقول بیان لگا تو اس وقت اس نے معلوم کیا کہ اس اجنبی کے عجیب رعب داب کا کیا مطلب ہے کیونکہ خداکی ہدایت کے بموجب اس وقت اس کو وہ نشان بخشا گیا جس کے وسیلے سے اسے مسیح کو جس کا پیشر و وہ تھا پہچاننا تھا چنانچہ روح القدس یسوع جبکہ وہ یردن سے دعا مانگتا ہوا باہر آیا نازل ہوئی اور اسی کے ساتھ ہی آسمان سے آواز آئی کی یہ میرا پیارا بیٹاہے۔لکھتے ہیں کہ مسیح نے اس بپتسمہ کے بارے میں ایک دفعہ پوچھا تھا کہ یوحنا کا بپتسمہ کہاں سے ہے آسمان سے یا آدمیوں سے ؟ اس سوال کے جواب میں سوال زیر نظر کا جواب چھپا ہوا ہے وہ یوحنا کے بپتسمہ کو خدا کی طرف سے سمجھتا تھا اور جو کچھ خدا کا مقرر کیا ہو ا تھا۔ اسے خوشی سے پورا کرنے کا تیار تھا۔

مگر روح القدس کا اس پر نازل ہونا اس کے بپتسمہ پانے سے بھی زیادہ پُر مطلب تھا۔ روح پاک کا نزول ایک بے معنی اظہار نہ تھا۔ اور نہ ہی وہ ایک ایسا نشان تھا جو فقط یوحنا کی خاطر دیا گیا تھا۔ بلکہ وہ اس خاص برکت کا ایک نشان تھا جو اس وقت یسوع کو بخشی گئی تھی تاکہ وہ اپنے کام کے لئے زیادہ طاقت حاصل کرے ، اور اس کی طبعی طاقتوں کی نشوونما کو تاج بن کر سجائے۔ لوگ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ یسوع کی انسانیت اوّل سے آخر تک روح القدس کی محتاج تھی۔ ہم اکثر یہ خیال کرتے ہیں۔ کہ اس علاقہ کے سبب سے جو اس کی انسانیت اور الوہیت میںپایا جاتا ہے۔ اسے روح القدس کی مددکی ضرورت نہ تھی۔ مگر حقیقت میں اس کی مددکی بڑی ضرورت تھی۔ کیونکہ الٰہی ذات کا آلہ بننے کے لئے اس کی انسانی ذات کو اس بات کی اشد ضرورت تھی۔ کہ اعلیٰ سے اعلیٰ برکت سے ممتاز ہو اور پھر ان برکتوں کے استعمال میں کسی طرح کی غلطی اس سے سرزدنہ ہو۔ ہم اکثر اس کے کلام کی حکمت اور خوبی کو اور اس کی عالم الغیبی کو جس سے وہ لوگوں کے خیالات کو جان لیتا تھا۔ اور اس کے معجزات کو اس کی الٰہی ذات سے منسوب کیا کرتے ہیں۔ لیکن انجیلوں میں یہ کام عموماً روح القدس سے منسوب کئے جاتے ہیں۔ اب اس کا یہ مطلب نہیںکہ ان باتوں کاتعلق اس کی الٰہی ذات سے کچھ بھی نہ تھا۔ مطلب یہ ہے کہ روح القدس نے اس کی انسانی ذات کو اس لائق بنایا کہ وہ ان باتوں کے متعلق اس کی الٰہی ذات کا آلہ بنے۔ یہ برکت اسے بپتسمہ کے وقت خاص طور پر بخشی گئی اور اس الہام کی روح سے مشابہت رکھتی تھی۔ جو یسعیا ہ اور یرمیاہ جیسے نبیوں کو ان موقعوں پر مرحمت ہوئی جبکہ وہ اپنی اپنی خدمات کی انجام دہی کے کے لئے بلائے گئے اور جن کا ذکر ان کی کتابوں میںپایا جاتا ہے۔ اور اسی طرح کی برکت اب بھی انہیں عطا کی جاتی ہے۔ جو خادم الدین کے عہدے پر سرفراز ہو کر اپنے آقا کی خدمت بجالاتے ہیں۔ لیکن فرق اتنا ہو تا ہے۔ کہ اوروں کو یہ روح محدود انداز ہ میں دی جاتی ہے اور یسوع کو غیر محدود طور پر بخشی گئی تھی۔ اور اس میں خصوصاً معجزہ دکھانے کی طاقت بھی شامل تھی۔

مسیح کی آزمائش :بپتسمہ کے بعد روح کے نزول سے مسےح پر وہی حالت ہوئی جو بسا اوقات ان لوگوں کی زندگی میں نمودار ہوا کرتی ہے۔ جو اپنی خدمات کی انجام دہی کے لئے روح کا انعام پاتے ہیں۔ گو ان کی زندگیوں میں وہ حالت محدود طور پر ظاہر ہوتی ہے۔ اور وہ حالت یہ تھی کہ اس کی تمام ہستی ازسرتا پا جوش کی آگ سے مشتعل ہو گئی۔ اس کی خواہشات واردات نے تازگی حاصل کی اور اس کے خیالات اس دھیان میں محو ہوئے کہ کون سے وسیلے اپنی خدمت کی بجا آوری کے لئے استعمال کرے۔ گو ایک طرح وہ کئی سال سے تیار ہو رہا تھا۔ اور مدت سے اس کا دل اپنے کام پر لگا ہوا تھا۔ اور اس کے سرانجام کی تجویزیں بھی سوچ چکا تھا۔ تو بھی یہ عین فطرت کے مطابق تھا کہ جس وقت الٰہی نشان ظاہر ہو اور یہ خبر دے کہ کام اب شروع ہونا چاہےے اور جس وقت وہ محسوس کرے کہ جن طاقتوں کے وسیلے میراکام انجام پائے گا۔ وہ میرے قبضے میں ہیں۔ تو اسی وقت کچھ عرصہ کےلئے کنج تنہائی اختیار کرے تاکہ ایک مرتبہ پھر اپنے سارے کام پر نظر ڈالے۔ اس اس نے سست بننے کے لئے روح کے ہتھیاروں کو نہیں پہنا تھا۔ بلکہ جنگ کے لئے ، پس وہ یردن کا کنارہ چھوڑ کر روح القدس کی رہنمائی سے ایک بیابان میں داخل ہوا اور چالیس روز تک ریگستانی وادیوں اور پہاڑوں میں گشت کرتا رہا۔ وہاں اس کے دل میںایسے خیالات اور ایسی تحریکیں پیدا ہوئیں۔ کہ وہ ان میں محو ہو کر اپنا کھان پینا بھی بھول گیا۔

ایک روائیت سے جو بہت پرانی نہیں ظاہر ہوتا ہے۔کہ یہ آزمائش ایک پہاڑ پر واقع ہوئی جو کہ یریحو سے بہت دور نہ تھا۔ اور جو اس سبب سے کہ مسیح وہاں چالیس دن تک روزے کی حالت میں رہا۔قوارنٹے نیا کہلاتا ہے۔ کہتے ہیں یہ پہاڑ سبزے کے ہرے ہرے لباس سے بالکل محروم اور ایک خشک جنگل میںعریاں کھڑا بحیرہ مردار کے پانی کو جس میں کوئی جاندار مخلوق زندہ نہیں رہتا دیکھ رہا ہے۔ یہ جگہ اس پہاڑ سے کیسی مختلف تھی جہاں مسیح نے مبارکباد یاں ا پنی زبان مبارک سے فرمائیں۔ وہ پہاڑ اچھے اچھے درختوں کے سبب سے بہت خوش نما تھا۔ اور اس کے پاس جھیل گنسرت کا پانی بلور کی طرح چمک رہا تھا۔جس پہاڑ جس پر مسیح آزمایا گیا بے درخت ہونے اور بے رونقی کے سبب سے بد روحوں کے لئے ایک موزوں مسکن معلوم ہوتا ہے۔ پریا درہے کہ یہ ایک روایت ہی ہے۔

واضح ہو کہ یہ آزمائش ایک حقیقی واقعہ ہے۔ اگرچہ یہ بتانا بہت مشکل ہے۔ کہ آیا یہ آزمائش خارج میں واقع ہوئی یا صرف اس کا خیال ہی مسیح کے دل میں پید ا ہو ا اور وہ اس پر غالب آیا۔ ہم صرف اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ جنہوں نے ان آزمائشوں کو رقم کیاہے۔ انہوں نے ان کا حال یا تو خود مسیح سے سنا ہو گا۔ یا ان سے جنہیں مسیح نے بتایا۔ ہمارے خداوند نے اس عجیب تجربہ کا حال ایسی صورت میں بیا ن کیا ہو گا۔ جس سے اس کا اصل مطلب بہت اچھی طرح سے واضح ہو گیا ہو گا۔ اور جس سے سننے والوں کو نہایت مفید سبق ملا ہو گا۔ پس جس بات کا سمجھنا ہمارے لئے ضروری ہے وہ یہ ہے کہ مسیح کی آزمائش بڑی پُر زور اور شخصی اور حقیقی قسم کی تھی۔

چالیس دن کی افاقہ کشی نے خداوند مسیح کے بد ن پر بڑا اثر کیا ہو گا۔ کیونکہ وہ اس قسم کی فاقہ کشی کا خوگر نہ تھا۔ وہ اس دنیا میں اس لئے نہیں آیا تھا۔ کہ تنہائی کے گوشے میں گھسا رہے یا وہ اس لئے آیا تھا۔ کہ اس دنیا میں بنی آدم سے ملے اور جس طرح آدمی آدمی سے ملتا جلتا ہے۔ ویسا ہی ہر ایک سے راہ و ربط رکھے۔ اس نے کبھی روزہ کے متعلق بھی کوئی خاص حکم نہیں دیا۔ البتہ دو جگہ سے ظاہر ہوتاہے۔ کہ اگر کوئی روزہ رکھنا چاہے تو بے شک رکھے کوئی ممانعت نہیں (متی ١٨-١٦:١٦ ١٩:٩-)۔ اس کے الفاظ سے بخوبی ظاہر ہے کہ وہ کھانا پیتا آیا اور وہ کسی چیز کوحرام نہیں کہتا تھا، بلکہ ہر چیز میں اعتدال کو روا رکھتا تھا۔ وہ اپنے دوستوں کی بے ضرر ضیافتوں میں جاتا اور بنی آدم کے جلسوں میں شامل ہوتا تھا۔ اسی لئے اس کے دشمن اسے ” اور شرابی “ کہتے تھے۔ پس چالیس دن کے روزے کے باوجود دعا اور گیان دھیان میں مگن رہنے کے بھوک بڑی شدت سے اس پر غالب آئی ہو گی۔ اب اسی موقعہ پر آزمائش کرنیوالا بھی آن موجود ہوا۔ کیا وہ کسی بدشکل روح کی بدہیئت صورت میں دکھائی دیا نورانی فرشتے کے چہرے کے ساتھ نمودار ہوا؟ کیا وہ انسان کا بھیس بدل کر اس کے سامنے آیا یا صرف دلی خیالات کے وسیلے سے اس کے پاس آیا؟ یہ ایسے سوالات ہیں جس کا جواب دینا جیسا کہ ہم اوپر کہہ آئے ہیں انسان کی طاقت سے باہر ہے۔ ہم صرف اتنا جانتے ہیں۔ کہ یہ واقعات خواہ کسی صورت میں پیش آئے ہوں حقیقی واقعات تھے۔ کیونکہ جس بیان میںیہ واقعات قلمبند ہیں اس پر الہام کی مہر لگی ہوئی ہے اور ہم اس کی حقیقت پر شک نہیں لا سکتے۔ تینوں آزمائشوں میں شیطان کی بے نظیر مکاری اور آزمائشوں کی عالمگیری اور خیال کا انوکھا پن اور انسانی طبیعت کے علم کی باریک بینی ایسی ہے۔ جو انسان کی ایجاد کے دائرے سے بالکل باہر ہے۔

لیکن پھر یہ سوال پیش آتا ہے کہ شیطان نے اس کو اس متبرک عرصہ میں جبکہ وہ روزہ رکھے ہوئے اور الٰہی گیان دھیان میں مشغول تھا۔ کیوں اور کس طرح آزمایا؟

اس بات کے سمجھنے کئے لئے یہ ضروری امر ہے۔ کہ جو کچھ یہودی قوم کی نسبت تحریر ہو چکا ہے ہم اس پر پھر غور کریں اور خصوصاً اس بات پر کہ مسیح کی آمد اور اس کی بادشاہی کی نسبت جو امیدیں ان کے دلوں میں تھیں وہ کس قسم کی تھیں؟ وہ ایسے مسیح کی انتظاری کرتے تھے۔ جسے ان کے خیال کے مطابق لوگوں کو اپنی کرامات سے حیرت کا پتلا بنانا اور ایک عالمگیر سلطنت کی بنیاد ڈالنا تھا۔ اور جس کے کام کا مرکز یروشلیم کو بننا تھا۔ وہ سوچتے تھے کہ راست بازی اور پاکیزگی اس سے بعد کے زما نہ میں ہوں گی۔ پس انہوں نے مسیح کی بادشاہی کے الٰہی تصور کو بالکل الٹ دیا۔ وہ تصور تو روحانی اور اخلاقی خوبیوں کو پولٹیکل معاملات پر ترجیح دیتا تھا۔ مگر ان حضرات نے اس ترتیب کا کو خاک میں ملا دیا۔ اب جس بات میں مسیح کی آزمائش کی گئی وہ یہی تھی کہ اس کام کو پورا کرنے میں جو باپ نے اس کے سپرد کیا تھا۔ شیطان نے اس کو بہکانا چاہا اور کہا کہ تو پہلے اپنی قوم کی امیدوں کو تو کسی قدر پورا کر، ہاں مسیح نے ضرور محسوس کیا ہو گا۔ کہ اگر میں ایسا نہ کروں تو میری قوم کے لو گ مایوس ہو جائیں گے۔ اور مجھ سے ناراض اور بے ایمانی کے پنجہ میں گرفتار ہو کر میری پیروی چھوڑدیں گے۔ پس اس کی مختلف آزمائشیں اسی ایک خیال کی مختلف صورتیں تھیں۔ مثلا ً سیری اور آسودگی کے لئے پتھروں کو روٹی بنانے کی ترغیب اس غرض سے دی گئی کہ وہ اپنی معجزانہ قدرت کو جو اسے عطاہوئی تھی۔ ایسی اغراض کے پورا کرنے میں صرف کرے جو اس اعلیٰ غرض سے کہیں کمتر تھیں۔ جس کے پورا کرنے کے لئے وہ قدرت اس کو دی گئی تھی۔ اور یہ آزمائش ان آزمائشوں میں جو بعد میں اس پر حادث ہوئیں پہلی تھی۔ کیونکہ اس کے بعد بھیڑ کا یہ درخواست کرنا کہ ہم کو ایک نشان دکھایا یہ کہنا کہ اگر تو صلیب پرسے اتر آئے۔ تو ہم تجھ پر ایمان لائےں گے اسی قسم کی آزمائشیں تھیں۔

یہ پہلی آزمائش جو اس سے علاقہ رکھتی تھی یا یوں کہیں کہ اس کا تعلق اس حیوانی روح سے تھا جو انسان اور حیوان دونوں میں موجود ہے مگر یہ آزمائش ایک کھلی صورت میں پیش نہیں آئی بلکہ شیطان اسے مکاری کے برقع میںپیش کرتا ہے۔ شیطان دراصل مگر در پردہ یہ کہہ رہا تھا۔ کہ اسرائیل کو بھی ایک مرتبہ بیابان میں فروتن بننا اور بھوک کے چنگل میں گرفتار ہونا پڑا لیکن خدا نے ان کو اس من سے جسے فرشتوں کی خوراک اور آسمانی روٹی کہنا چاہےے آسودہ کیا۔ اب کیا خدا کا بیٹا اس جنگل میں پانے لئے دستر خوان تیار نہ کرے۔ پس اگر تو چاہے تو بآسانی ایسا کر سکتا ہے۔ پھر دیر کرنے سے کیا فائدہ ؟ اگر ہاجرہ کے لئے جبکہ وہ غم کے مارے بے حال ہورہی تھی، فرشتے نے جائز سمجھا کہ اسے ایک کو آں دکھائے اور اور اگر بھوک سے مرتے ہوئے الیاس کے واسطے یہ مناسب سمجھا گیا کہ فرشتہ اسے چھو کر اس کا کھانا اسے دکھائے تو کیایہ مناسب نہیں کہ خدا کا بیٹا جو فرشتوں کی خدمت گذاری کا محتاج نہیں بھوکا نہ مرے؟

جو جواب اس کو ملا اسے حکمت کی کان کہنا چاہےے۔ ہمارے خداوند نے اسی سبق کی طرف جو اسرائیل کو بیابان میں بھوک کے وسیلے سے سکھایا گیا تھا۔ اشارہ کرکے وہ الفاظ بیان فرمائے جو پرانے عہد نامےں نہایت پرُمعنی ہیں۔ کہ ”انسان صرف روٹی ہی سے جیتا نہ رہے گا بلکہ ہر بات سے جو خدا کے منہ سے نکلتی ہے“۔ کیسی عمدہ نصیحتیں ہمارے لئے ان کلمات میں چھپی ہوئی ہیں۔ کیا ہم ان سے یہ نہیں سیکھتے کہ ہمارے لئے مناسب نہیںکہ ہم نفس حیوانی کی ضرورتوں کی پیروی کریں اور نہ یہ زیباہے۔ کہ ہم اپنی زندگی اور عشرت کے لئے اپنے نفس کی طاقتوں کو بُرے طور پر استعمال کریں۔ ہم اپنے نہیں ہیں بلکہ خداوند کے ہیں۔ پس جن چیزوں کو ہم اپنا سمجھتے ہیں ہم ان کے ساتھ جو چاہیں سونہیںکرسکتے۔ جس طرح انسان میں جسمانی مادے سے بڑھ کر ایک روح موجود ہے اسی طرح مادی خواہشات سے بڑھ کر زندگی کے افضل اصول بھی اس میں موجود ہیں وہ جو یہ خیال کرتا ہے۔ کہ میں صرف روٹی سے جیوں گا۔ اور روٹی ہی کے حاصل کرنے میںجائز اور ناجائز کو ششوں کا کام میں لاتا ہے۔ وہ جب اس روٹی کے حاصل کرنے میں ناکام رہے گا۔ تو اپنے آپ کو سخت تکلیف میں پائیگا۔ اور آخر کار خدا سے باغی ہو جائے گا۔ اور چونکہ وہ الٰہی اور روحانی خوراک کا جویاں نہیں ہوا ، لہذا وہ ضرور بھوکا مرے گا۔ پرو ہ جو یہ جانتا ہے کہ آدمی صرف روٹی سے نہیں جیتا وہ شکم پوری کی خاطر ان برکتوں کو جن کے سبب سے زندگی پیاری معلوم ہوتی ہے۔ ہرگز نہ کھوئے گا۔ وہ اپنے فرض کا ادا کریگا،اور اپنے اپنے جسم کی محافظت خدا کے سپرد کرے گا۔ جس نے جسم کو پیدا کیا وہ آسمانی روٹی اور اس پانی کی تلاش میں رہے گا۔ جسے پی کر پھر کوئی پیاسا نہیں ہوتا۔

ہیکل کے کنگر ے پر سے اپنے تئیں گرانے کی آزمائش بھی گویا اچنبھے دیکھنے کے شوق کو پورا کرنے کی ایک ترغیب تھی کیونکہ لوگوں کے درمیان مسیح کی نسبت یہ خیال مروج تھا۔ کہ وہ لیکایک ہیکل پر سے کود کر لوگوں کے درمیان نمودار ہوگا۔ شیطان کی شرارت دیکھئے ! پہلے تو اس نے اس کے بھروسے پر حملہ کیا لیکن جب دیکھا کہ اس کا بھروسہ مضبوط ہے اور وہ نفسانی خواہشوں کے پھندے میں گرفتار نہیں ہوسکتا تو یہ دوسری پیش کرتا ہے۔ جس میں نفسانی خواہش کی ترغیب مطلق نہیں پائی جاتی۔ اس میں روحانی فخر یا شیخی کو اکساتا ہے گویا یہ کہتا ہے ، ہ تو خدا پر کامل بھروسہ رکھتا ہے۔ اگر سچ مچ تیرا بھروسا کامل ہے۔ تو ہیکل کے کنگر ے پر سے گر کر اس کا ثبوت دے۔ اگر تیرا بھروسابے نقص ہے تو اس وعدہ کو جو تیرے حق میں کیا گیاہے۔ برحق سمجھے گا ، اور اس کے مطابق عمل کرکے دکھائے گا۔ پھر دیکھئے چونکہ مسیح نے پہلی آزمائش کا جواب کلام الٰہی سے دیا تھا۔ اسی لئے اس دوسری آزمائش میں وہ بھی کلام کے ذریعہ سے اس پر حملہ کرتا ہے۔ تیسری آزمائش میں وہ بھی کلام کے ذریعہ سے اس پر حملہ کرتاہے۔ تیسری آزمائش جو سب سے بڑی تھی۔ یہ تھی کہ شیطان کو سجدہ کرکے تمام دنیا کی بادشاہتوں پر قابض ہو۔ اس آزمائش کا یہ مطلب تھا کہ وہ اس عالمگیر تصور کا جو مسیح کی بادشاہی کے متعلق یہودیوں کے درمیان مروج تھا پابند ہو اور وہ یہ تھا۔ کہ وہ کہتے تھے ، کہ اس کی بادشاہی سراسر دنیاوی طاقت کا اظہار ہو گی۔ یہ آزمائش وہی آزمائش ہے جو خدا کے ہر خادم کے سامنے اس وقت آتی ہے جبکہ وہ یہ دیکھ کر اپنے دل میں کڑھتا ہے۔ کہ نیکی دنیا میں بہت کم ترقی کر رہی ہے۔ اس آزمائش میں خدا کے نیک اور سرگرم بندے بھی کبھی کبھی گرفتار ہو جاتے ہیں۔ یا یوں کہیں کہ وہ مذہبی رسوم کے خارجی چھلکے کو پہلے پیدا کرنا چاہتے ہیں اور پھر اس میں حقیقت کا مغز بھرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ یہی وہ آزمائش تھی جس میں حضرت محمد صاحب گرفتار ہوئے اور انہوں نے پہلے تلوار سے لوگوں کو مطیع کیا تاکہ بعد میں انہیں دیندار بنائیں۔ یہی وہ آزمائش ہے جس میں فرقہ جیرا واسٹ گرفتار ہے جو پہلے غیر قوموں کو بپتسمہ دیتے اور پھر ان کو انجیل سناتے ہیں۔

ہم کو ایک قسم کی دہشت دامن گیر ہوتی ہے۔ جب ہم اس بات پر غور کرتے ہیں۔ کہ کیا اس قسم کے ادنیٰ اور نالائق خیالات مسیح کی پاک اور مقدس روح پر سے بھی گذر سکتے تھے؟ کیا شیطان اس کو یہ ترغیب دے سکتا تھا۔ کہ تو خدا پر بھروسا رکھنا چھوڑدے اور مجھے سجدہ کر؟ اس میں شک نہیں کہ یہ آزمائشیں اسی طرح کمزور اور بیکار ہو کر لوٹ گئیں جس طرح سمندر کی موجیں سنگین چٹان سے ٹکر کھا کر واپس چلی جاتی ہےں۔ اور ہم یہ بھی نہ بھولیں کہ اس قسم کی آزمائشیں اس وقت سے پہلے بھی بار ہا نا صرت کی وادی میں اور پھر کئی دفعہ اس کی زندگی کے نازک وقتوں میں اس کے سامنے آئیں مگر ہمیں یاد رکھنا چاہےے کہ آزمایا جانا گناہ نہیں بلکہ آزمائش میں گرفتار ہو کر گر جانا گناہ ہے۔ اور یہ خیال بالکل صحیح ہے کہ جس قدر کوئی شخص زیادہ کاملیت کے ساتھ پاک ہوتا ہے اسی قدر آزمائش کے درد کو زیادہ محسوس کرتا ہے۔ اب اگرچہ شیطان نے اس پر فقط تھوڑے عرصے کے لئے حملہ کرنا چھوڑا تو بھی ہم اس جنگ کو فیصلہ کن سمجھیں کیونکہ اس نے اس موقع پر شکست فاش کھائی اور اس کی طاقت مغلوب ہو گئی۔ انگلستان کے مشہور شاعر ملٹن نے اس کی موقع پر اپنی کتاب ”پیرے ڈائز ر ی گنیڈ “ کو ختم کرکے مسیح کی کامل فتح کو خوب ظاہر کیا ہے۔ اب مسیح اپنے کام کی تجویز پر سوچتا ہو ا بیابان سے واپس آیا۔ اس نے پہلے ہی سے اپنی تجویز سوچ رکھی تھی۔ مگر اس وقت آزمائش کی آنچ کھا کر وہ اور بھی مضبوط ہوگئی۔ اس کی زندگی میں اور کوئی بات اتنی ابھری ہوئی نظر نہیں آتی جتنی یہ کہ اس نے بڑی مستقل مزاجی سے اپنی تجویز کو پورا کیا۔ جن لوگوں نے بڑے بڑے کام کئے ہیں۔ ان کی نسبت دیکھا جاتا ہے۔ کہ ان میں کئی ایسے گذرے ہیںجو اپنے کام کے متعلق کوئی خاص تجویز مد نظر رکھتے تھے۔ بلک انہوں نے رفتہ رفتہ خاص خاص حالات کے پیدا ہونے پر اس راستہ کو دیکھا جس پر انہیں قدم مارنا تھا۔ اور ان کے ارادوں میں نئے نئے واقعات اور دیگر اشخاص کے صلاح و مشورے نے نئی تبدیلیاں پیدا کیں۔ لیکن مسیح نے اپنا کام اپنی تجویز کو مکمل کرکے شروع کیا اور آخر تک ایک مرتبہ بھی سرمو اس تجویز سے ادھر اُدھر نہ ہوا۔ جس طرح وہ اپنے دشمنوں کے مقابلہ میں اس پر قائم رہا اس طرح اپنی ماں اورشاگردوںکی دست اندازی کے وقت بھی اس پر جما رہا اور وہ تجویز یہ تھی۔ کہ وہ خدا کی بادشاہی کو لوگوں کے دلوں میں قائم کرکے اور اس کے انجام دینے میں پولیٹکل اور میٹر یل طاقت کو استعمال نہ کرے بلکہ محبت کی قدرت اور صداقت کی طاقت کو کام میں لائے۔

 

[١]  یوحنا بپتسمہ دینے والے اور مسیح کی ناواقفی جو مسیح کے بپتسمہ کے وقت ظاہر ہوئی، ہمیشہ سے معرض بحث میں رہی ہے۔ واقعی یہ ناواقفی حیرت انگیز ہے کیونکہ دونوں کی مائیں آپس میں رشتہ دار تھیں۔ اور دونوں کو اپنے فرزندوں کے معجزانہ طور پر پیدا ہونے اور ان کے جدا گانہ کام ، اور اس کام کے باہمی تعلق کی خبر تھی۔ پس یہ کیونکر ہوا کہ اتنی مدت تک یوحنا مسیح سے ناواقف رہا؟ اس سوال کا جواب متن میں دیا گیا ہے کہ یوحنا کا گھر ناصرت سے بہت دور تھا۔ اور اس کی طبیعت بھی عزلت پسند واقع ہوئی تھی۔ مگر انڈ ریوز صاحب نے اپنی ”لائف آف کرائسٹ “ کتاب میں اس مضمون پر بحث کرتے ہوئے ایک اور وجہ بیان کی ہے جو نہایت عمدہ معلوم ہوتی ہے۔ اور وہ یہ کہ جس نے ان ماوں کو ان کے بچوں کی عجیب پیدائش اورکام کی خبردی، اسی نے ان کے لبوں کو مہر خاموشی سے بند کر دیا تاکہ وہ کسی سے حتیٰ کہ اپنے بچوں سے بھی ان عجیب و غریب باتوں کا چرچانہ کریں ، تاکہ وہ خود بخود الٰہی انتظام اور ہدایت کے مطابق پرورش پا کر اور اس کی روح پاک سے معمور ہو کر اپنے اپنے کام اور باہمی تعلقات سے واقفیت پیدا کریں ، پس ان ماوں کا کام صرف یہ تھا۔ کہ وہ اپنے بچوں کی پرورش دینداری کے اصول کے مطابق کر یں اور باقی باتوں کے پورا ہونے کی نسبت خاموش رہیں اور انہیں خدا کے ہاتھ سونپیں۔